” نگو ! تو واقعی میری دوسری شادی کروانا چاہتی ہے۔” کمرے میں آکر مراد چوہدری نے اسے بانہوں میں بھر لیا۔ دل میں ابھی سے شادیانے بجنا شروع ہو گئے تھے۔ نگو نے اس کے بازو نرمی سے ہٹائے۔
” تو کیا تو ایسا نہیں چاہتا؟” نگو اس سے قدرے ہٹ کر بیٹھ گئی۔ بے ساختہ مراد چوہدری کی بتیسی باہر آئی اورسر اثبات میں ہلا مگر نگو کا سر جھکا ہوا تھا سو وہ دیکھ نہ سکی۔ مراد چوہدری نے خود پر قابو پایا ۔
” پر نگو میں تجھے دکھی نہیں دیکھ سکتا۔” یہ بات سو فیصد درست تھی کہ مراد چوہدری نگو کو خوش دیکھنا چاہتا تھا اور اس نے دل ہی دل میں طے کر لیا تھا کہ دوسری شادی کی صورت میں وہ نگو کو اپنے سے الگ کرے گا اور نہ ہی اس کی کوئی حق تلفی ہونے دے گا۔ نیت اس کی بھی نیک تھی ، بس ان کا دل ذرا زیادہ ہی خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔
اماں نے بہت واویلا کیا، شور مچایا مگر ابا نے نگو کی بات کو حرف ِ آخر قرار دے دیا۔
” تجھے بیٹے کی شادی کرنی ہے تو کوئی بیوہ یا مطلقہ دیکھ ورنہ مراد کی شادی کا خیال دل سے نکال دے اور بچوں کا بھی۔” ابا اور اماں بحث کر رہے تھے اور برآمدے میں لیٹا مراد چوہدری دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر نگو یہ مطلقہ یا بیوہ والی شرط نہ رکھتی تو وہ اپنی پرانی کلاس فیلو سے شادی کر کے اپنی اُس محبت کو حاصل کر لینا جس کو ابا کے خوف سے اس نے دل کے تہ خانے میں چھپا لیا تھا۔ وہ کیا ہے نا کہ دوسری شادی کا ذکر آتے ہی اس کے ذہن میں پہلی محبت اپنا رنگین آنچل لہرانے لگی تھی۔
جس نے بھی نگو کے اس فیصلے کے بارے میں سنا ، انگلیاں دانتوں میں داب کر رہ گیا کہ لو بھلا ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ بیوی خود شوہر کی دوسری شادی کروا ئے۔
” ارے نگو تو پاگل ہو گئی ہے،مت ماری گئی ہے ، اس کی ، جو ایسا کر رہی ہے۔ آنے والی ہر چیز پر قبضہ کر کے اسے نکال باہر کرے تو عقل ٹھکانے آئے گی۔ ابھی تو بڑی مہان بننے چلی ہے نا۔ جب سچ میں دوسری آئے تو معلوم ہو گا کس بھائو بکتی ہے۔”ہر کوئی مختلف انداز میں رائے زنی کرتا ۔ کچھ لوگوں نے نگو کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھائی ۔ کچھ نے سوتنوں کے عبرت ناک قصّے سنا سنا کر اسے ڈرانے کی کوشش کی مگر نگو جو ٹھان چکی تھی ، اُس سے ذرا برابر پیچھے نہ ہٹی۔ وہ اپنی کمی کے باعث اپنے شوہر کو اس کے ایک جائز حق اور خواہش سے محروم نہیں رکھنا چاہتی تھی۔بات پھر وہی نیتوں کی تھی اور اچھی نیت سے کیا گیا عمل بہت سی انہونیوں کو روک دیتا ہے۔
مراد چوہدری کے لیے لڑکی کی تلاش شروع ہوئی۔ اسے قسمت کی یاوری کہیے یا کچھ اور، ابا جی کے ایک دوست نے اپنے ایک شہری دوست کی بیٹی کا رشتہ بتایا جس کی ایک سال پہلے شادی ہوئی تھی اور وہ چھے مہینے بعد بیوہ ہو کر دوبارہ ماں باپ کے گھر آگئی تھی۔ ماموں، مامی، نگو اور مراد چوہدری وہاں پہنچے۔ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔چائے کے دوران ہلکی پھلکی گپ شپ ہو رہی تھی۔ سب چائے پی چکے تو ابا جی نے لڑکی کے ماں باپ کو مخاطب کیا۔
” بھرا جی اور بھین جی ، اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو ہمیں بیٹی سے ملوا دیں۔” ابا جی نے بڑی عاجزی سے کہا۔ لڑکی کی ماں اُٹھ کر باہر گئی اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی۔ لڑکی اُن کے پیچھے تقریباً چھپی ہوئی تھی۔ماں خود بیٹھی اور اپنی بیٹی کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ معصوم سی بھولی بھالی لڑکی قدرے سہمی ہوئی سی تھی کہ اس سے پہلے جو لوگ آتے تھے وہ شادی کے چھے ماہ بعد بیوہ ہو جانے کی بنا پر اسے منحوس اور نہ جانے کیا کیا کہہ کر رشتے سے انکار کردیتے تھے۔ ایک ایسا حادثہ جس میں اس لڑکی کا ذرہ برابر قصور نہیںتھا، اس لڑکی کی زندگی کو روگ بنا گیا تھا۔ ابھی بھی وہ شاید رو کر آئی تھی۔ وہ نگاہیں جھکا کر بیٹھی تھی۔ ابا اور نگو کو وہ روئی آنکھوں والی معصوم سی لڑکی بہت پسند آئی۔ جو خود دکھی ہو وہ دوسروں کا دکھ دل سے محسوس کرتا ہے، یہی سوچ کر ابُا اور نگو نے دل ہی دل میں لڑکی کو فائنل کر دیا، اماں خامو ش بیٹھی رہیں اور مراد چوہدری منہ کھولے لڑکی کو دیکھے جارہا تھا۔ ابا جی کے ٹہوکے نے اس کا منہ بند کروایا۔ منہ بند ہو ا تو دماغ کی کھڑکی کھلی۔
” ارے ، یہ تو وہی ہے۔۔۔ اس کی کالج فیلو۔۔۔۔ثمین۔۔۔۔” مراد چوہدری کے اندر ڈھول تاشے بجنے لگے اور دل چاہا قسمت کی اس نوازش پر اُٹھ کر بھنگڑا
ڈالنا شروع کر دے۔مگر دل کو قابو کر کے بیٹھا رہا اور سر ہلا کر ابا جی کو اپنی رضا مندی دے دی۔منہ سے کچھ نہ بولا۔ اسے بولنے کی کیا ضرورت تھی، اُس کے گھر والے خود ہی اُس موتی کو اس کے تاج کا نگینہ بنانے جارہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سب کچھ طے ہو گیا ۔حمیرا کی بات ابا نے اپنے دوست کے بیٹے سے طے کروا دی تھی، جو شہر میں کپڑے کا کاروبار کرتا تھا۔ حمیرا کا گھرانا خوشی خوشی شادی میں شریک تھا۔اماں نے بھی اسی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا تھا اور دل سے بیٹے کی شادی کی تیاریوں میں شامل ہو گئیں۔بس ایک نگو کے لیے اپنا دل صاف نہ کر سکیں۔ اب انہیں انتظار تھا اُس وقت کا، جب دونوں سوتنیں آپس میں لڑتیں مرتیں۔اس بات کا انتظار تو اُن تمام لوگوں کو بھی تھا جنھوں نے نگو کو اس عمل سے باز رکھنے کی سر توڑ کوششیں کی تھیں۔
بارات کا دن آن پہنچا ، نگو اپنے دل پر پائوں رکھے کھڑی رہی البتہ اس کی آنکھیں پوری کوشش کے باوجود بغاوت کر رہی تھیں۔ مراد چوہدری اس کی کیفیت کو دیکھ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں نگو کی اس قربانی کا مقروض ہو گیا تھا جس نے اپنی کمی کو مان کر اس کی زندگی کو روشنیوں سے بھرنے کی کوشش کی تھی۔ ورنہ کوئی اور عورت ہوتی تو اس کمی پر اپنے ساتھ ساتھ اس کا جینا بھی حرام کر دیتی۔ابھی بھی نگو کچھ لینے کے بہانے کمرے میں گئی ۔ مراد چوہدری پیچھے ہی گیا ۔ نگو شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے آنسوئوں کو حلق میں اُتار کر اپنا پھیلتا کاجل صاف کر رہی تھی۔
” میں سمجھ سکتا ہوں اس وقت تجھے کیا محسوس ہو رہا ہے۔ پر تو پریشان نہ ہو جھلیے۔ تو نے میری زندگی میں اُجالے بکھیرنے کے لیے اپنا دل قربان کر دیا ہے تو میرا تجھ سے وعدہ ہے کہ میں بھی تجھے کبھی اندھیروں کے حوالے نہیں کروں گا بلکہ تو میری زندگی کی ہر روشنی کی برابر حصّے دار ہو گی۔” مراد چوہدری نے اُسے محبت سے اپنے ساتھ لگا لیا اس کی آنکھوں سے چند آنسو پھسل کر مرادکی قمیص کی آستین میں جذب ہو گئے۔نگو کا دل چاہا اس کے سینے سے لگ پھوٹ پھوٹ کر روئے مگر وہ ضبط کر گئی۔
” اچھا ، اب تم کیا چاہتے ہو کہ میں سچ میں رونا شروع کر دوں؟ چلو جائو تم باہر، میں آرہی ہوں۔” نگو نے بڑی تیزی سے خود کو سنبھالا اور دھیرے سے اپنے آنسو صاف کیے۔
” ہاں، آنکھیں اچھی طرح صاف کر کے آنا ورنہ لوگ کہیں کہ مراد چوہدری اپنی بیوی کی مرضی کے خلاف شادی کر رہا ہے۔” مراد نے اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر شرارت سے کہا تو وہ مسکرا دی اور اسے دھکیل کر کمرے سے باہر نکال دیا۔تھوڑی دیر اور وہ کمرے میں رہتا تو وہ بکھر جاتی اور اس وقت وہ بکھرنا نہیں چاہتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ثمین بیاہ کر ان کے آنگن میں آن بسی۔ اماں اس پر واری صدقے ہوتیں ۔ نگو سامنے ہوتی توکچھ زیادہ ہی اوور ایکٹنگ شروع کر دیتیں۔ ثمین کو ساری صورتِ حال معلوم ہو چکی تھی۔ شادی کی پہلی رات مراد چوہدری نے اُسے سب کچھ بتا دیا تھا نگو کے بارے میں ، اس کی قربانی کے بارے میں اور اماں کی نگو سے پرخاش کے بارے میں۔۔۔ ثمین پڑھی لکھی سمجھ دار لڑکی تھی۔ وہ ایک دکھ کاٹ کر آئی تھی ۔ اب وہ کسی کو دکھ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ اس حقیقت کو مان کر آئی تھی کہ وہ ” مکمل ”شوہر کی مالک نہیں ہو گی بلکہ نگو بڑا دل کر کے اپنا شوہر اس کے ساتھ بانٹے گی۔ یہی وجہ تھی کہ شادی کے چند روزبعد ہی اُس نے مراد چوہدری کو اس کے فرائض یاد کروا کر اپنی ذمہ داری اچھے طریقے سے نبھانے پر اصرار کیا تھا۔
”آ ج آپ نگو کے پاس جائیں گے۔ میں نہیں چاہتی کہ اُن کی کوئی حق تلفی ہو۔” مراد کمرے میں آیا تو ثمین کی بات سُن کر مُسکرا دیاجو بے چینی سے ہاتھ مسل رہی تھی ۔ ایسے جیسے اُسے معلوم نہ ہو کہ اس کی بات پر مراد چوہدری کا ردِ عمل کیا ہو گا۔
” واہ ! میرے جیسا خوش قسمت بھی کوئی ہو گا جس کی دونوں بیویاں اتنی جگرے والیاں ہیں کہ اپنے شوہر کو اتنے آرام سے بانٹ لیا ۔” مراد چوہدری کو ثمین کی بات سُن کر اطمینان ہوا تھا کہ وہ بھی خلوص والی ہے۔ ورنہ وہ ہر روز پہلے نگو کے پاس کچھ وقت گزار کر ہی ثمین کے کمرے میں آتا تھا کہ جو بھی تھا نگو نے اس پر احسان کیا تھا۔
” واہ بھئی ، میرے تو مزے ہو گئے۔” مراد چوہدری نے شرارت سے کہا تو ثمین نے مصنوعی غصّے سے گھورا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اماں نے شروع میں بہت کوشش کی کہ ثمین کو نگو کے خلاف کر کے ان کو لڑا ئے مگر جلد ہی ان کو معلوم ہو گیا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ۔اماں سمیت لوگ کان لگا لگا کر سنتے کہ کہیں سے نگو اور ثمین کے لڑنے کی کوئی آواز آئے یا کہیں سے دونوں کے ”خراب تعلقات” کی خبر آئے۔ مگر لوگوں کی یہ حسرت حسرت ہی رہی۔ دونوں یوں مل جل کر رہنے لگیں کہ سگی بہنیں بھی کیا رہتی ہوں گی۔ لوگ ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر دیکھتے اور حیران ہوتے۔ پہلی شاپنگ پر جاتی تو دوسری بھی ساتھ ۔دوسری کو کچھ لینا ہے تو پہلی بھی ساتھ جانے کو تیار۔
وقت گزرا ۔ اللہ نے ثمین پر اپنا کرم کیا۔ نگو سجدئہ شکر بجا لائی۔لوگوں کو معلوم ہوا تو شر پسند عناصر پھر سرگرم ہوئے۔ کبھی ثمین کے پاس جا تے اور کبھی نگو کے پاس اور دونوںکے دلوں میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتے۔
” اب دیکھنا ، اس کے اولاد ہو جائے گی تو تجھے دودھ میں سے مکّھی کی طرح نکال پھینکے گی۔مراد چوہدری سمیت اس کے گھر اور ساری جائیداد کی مالکن بن جائے گی۔” نگو کو ڈرایا جاتا مگر وہ نگو ہی کیا جو ڈر جائے۔اُسے ثمین کی انصاف پسند فطرت کا اندازہ ہو گیا تھا۔
” دھیان سے رہنا ، نگو پر زیادہ اعتبار نہ کرنا، کہیں ایسا ویسا کچھ کھلا کر تمہارا نقصان نہ کر دے۔بھئی ایک عورت جو خود ماں نہ بن سکتی ہو وہ کسی دوسری عورت خاص طور پر اپنی سوتن کا ماں بننا کیسے برداشت کر سکتی ہے؟” ثمین کو ڈراوے دیے جاتے تو وہ دھیمے سے مُسکرا دیتی۔وہ جان گئی تھی کہ نگو ان عورتوں میں سے تھی جو کبھی کسی کا نقصان نہیں کر سکتیں۔
نہ نگو پر کوئی اثر ہوا ،نہ ثمین پر۔ نگو نے ثمین کو ہتھیلی کا چھالا بنا لیا۔وہ اس کے کھانے پینے کا پورا دھیان رکھتی ، اُٹھنے بیٹھنے ، پہننے اور اوڑھنے ہر چیز غرض اس کا ہر کام نگو نے اپنے ذمے لے لیا۔ دوسری طرف ثمین بھی نگو کی ہر محبت اور خدمت کے جواب میں اسے عزت سے نوازتی اور احسان مندی کا اظہار کرتی۔ لوگ ایک دفعہ پھر حیرت زدہ رہ گئے کہ ایسا کبھی دیکھا تھا نہ سنا تھا ۔ اب کے تو اماں کو بھی نگو پر پیار آگیا جو ان کے بیٹے کی اولاد کے لیے سب کچھ بھلائے ثمین کی خدمتوں میں جتی تھی۔پھر اماں بھی نگو کے ساتھ مل کر ثمین کا خیال رکھنے لگیں۔مراد چوہدری دونوں کے ساتھ خوش باش ۔ یار دو ست اس کی خوش قسمتی پر رشک کرتے اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتا جو بندوں کو ان کی اوقات سے بڑھ کر نوازتا ہے۔
ثمین کی طبیعت رات سے خراب تھی۔ صبح ہوتے ہی نگو نے اسے قریبی شہر کے اسپتال لے جانے کا شور مچا دیا ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان کی کسی بے پروائی کی وجہ سے کوئی گڑبڑ ہو۔نگو اور مراد چوہدری ثمین کو گاڑی میں لے کر نکل گئے۔ باقی گھر والے بعد میں پیچھے روانہ ہوئے۔خیر سے وہ وقت بھی آیا جب ثمین نے اسپتال میں ایک صحت مند سے گول مٹول بچّے کو جنم دیا۔اسپتال کا پورا کمرا لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ابا جی، اماں،مراد چوہدری، نگو ، ثمین کے امّی ابّو سب ہی وہاں موجود تھے۔ بیٹے کی پیدائش کو سن کر سب نے مراد چوہدری اور نگو کو مبارک باد دی، جسے مراد چوہدری نے مسکراتے ہوئے اور نگو نے بھری ہوئی آنکھوں سے وصول کیا۔
تھوڑی دیر بعد ثمین کو کمرے میں شفٹ کر دیا گیا اور بچہ اُس کی گود میں دیا گیا تو اُس نے بچے کو چوما۔ سویا ہوا بچہ ماں کا لمس پاکر تھوڑا سا کسمسایا۔ سب ثمین کے گرد تھے ۔ نگو غیر ارادی طور پر تھوڑا سا پیچھے کھسک گئی۔ثمین کی بھری گود دیکھ کر نگو کے اندر عجیب سے خالی پن کا احساس بڑی تیزی سے ہوا۔ مگر اس احساس میں کہیں ثمین سے حسد کا جذبہ نہیں تھا۔حسد کرنا ہوتا تو وہ یوں خود اسے بیاہ کر لاتی۔ اُس نے تو خاندان کی خوشیوں کے لیے قربانی دی تھی اور قربانی دینے والا کم ظرف نہیں ہوتا ۔
” بھئی اس بچے کی بڑی امی کہاں ہیں ؟ میں تو اسے نہیں سنبھال پائوں گی ۔ اِدھر آئیں کاکے کی بڑی امّی اور سنبھالیں اپنی اولاد کو۔” ثمین نے نگو کو پکارا تو وہ آنسو ضبط کرتی قریب چلی آئی۔ ثمین نے بچہ اس کی گود میں ڈال دیا جسے نگو نے چوم کر سینے سے لگایا اور رو دی کہ اللہ نے اس کی چاہ کو پورا کیا تھا۔ اس نے خلوصِ نیت نے اپنا شوہر بانٹا تھا تو اس اعلیٰ ظرف عورت نے خلوص ِ نیت سے اپنی اولاد نگو کے ساتھ بانٹ لی تھی۔ دونوں عورتوں نے ایمان داری سے آدھا آدھا بانٹ کر اپنی دنیا مکمل کر لی تھی۔ثمین نے بچہ نگو کی گود میں ڈالا تو سب کے دلوں میں اس کی عزت بڑھ گئی اور نگو نے محبت سے بچے کو گود میں لے لیا تو اس کا مان بھی بڑ ھ گیا۔نگو نے زندگی کو ہمیشہ اللہ کا فضل مانا تھا مگر اللہ کے اس کرم پر تو وہ جُھک جُھک گئی۔
نگو نے اپنی اس ”کمی” کو اللہ کی رضا سمجھ لیا تھا اور جب کوئی شخص اللہ کی طرف سے دی گئی کسی ”کمی ”کو اس کی رضا سمجھ لیتا ہے تو اللہ اس کمی کو لے کر اس کے اندر ”محرومی ” کااحساس پیدا نہیں ہونے دیتا اور اس کی اس” کمی” کو اپنے فضل اور رحم سے پورا کر دیتا ہے، جیسے اس وقت نگو کی ”کمی” اس ذات نے ثمین کے ہاتھوں پوری کروائی تھی۔اس کے برعکس جو شخص اپنی زندگی کی ”کمیوں” پر واویلا کرتا ہے انہیں قبول نہیں کرتا تو وہ اس کی ” محرومیاں” بن جاتی ہیں اور محرومیاں شکایت کرنا سکھا تی ہیں اور شکایت انسان کو شکر گزار بندوں کی فہرست سے خارج کروا دیتی ہے ۔ محرومیوں کا شکار انسان چین سے جی سکتا ہے نہ مر سکتا ہے۔ نگو کو دیکھ کر یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ کبھی اپنی کسی” کمی” کو” محرومی ”نہیں بننے دینا چاہیے کہ کمی تو پوری ہو سکتی ہے مگر محرومی کا احساس مٹائے نہیں مٹتا۔
یہ ایثار اور خلوص دیکھ کر ایک بار پھر دیکھنے والوں نے ناکوں پر انگلیاں رکھ رکھ کر حیرت کا اظہار کیا۔ بچے کا نام مقدم چوہدری رکھا گیا۔ دونوں مائیں بچوں کو پالنے لگیں بلکہ ثمین نے سارے اختیارات نگو کی جھولی میں ڈال دیے۔ مراد چوہدری دونوں بیویوں کو دائیں بائیں بٹھائے اور مقدم کو گود میں اُٹھائے لوگوں خاص طور پر ”مردوں” کے لیے وجہ رشک بنا رہتا ۔
مقدم تین سال کا ہوا تو اللہ نے ثمین کو بیٹی عطا کی۔اب کی بار بھی ثمین نے اسے نگو کی گود میں ڈال دیا جسے نگو نے خزانہ سمجھ کر سمیٹ لیا۔لوگوں کو یہ بات پھر کھٹکی۔
” ارے! تجھے نوکرانی بنایا ہوا ہے اُس نے اور تو تکلیف اُٹھا کر اس کے بچّے پال رہی ہے ۔وہ خود بڑے آرام سے ہے۔” نگو نے اب بھی کسی کی بات پر کان نہ دھرے۔
”تیری اولاد پر قبضہ کرکے تجھے گھر سے نکال باہر کرے گی۔ تو کیا پاگل ہو گئی ہے جو اپنے بچّے سوتن کے حوالے کر دیے ہیں۔” ثمین بھی کسی ڈراوے کو خاطر میں نہ لائی۔
وقت نے لوگوں کو دکھا دیا کہ جو دوسروں کی راہ روشن کرنے کے لیے چراغ جلاتے ہیں ، اُن کے اپنے راستے بھی روشن ہو جاتے ہیں۔مقدم اور مقدس دونوں بچے نگو کو بڑی امی، ثمین کو امی اور مراد چوہدری کو ابو جی کہنے لگے۔ بچوں کے دادا دادی اپنے پرسکون گھر کو دیکھ کر مسکرا تے اور اللہ کا شکر ادا کرتے جس نے ان کے گھر پر اپنا خاص کرم کر رکھا تھا۔
بچے بڑے ہوئے تو ان کو اسکول داخل کروانے کے لیے ان لوگوں کو شہر میں شفٹ ہونا پڑا۔ مراد چوہدری کے ابا اماں البتہ گائوں میں ہی رہے۔ دو چار پرانے نوکر اُن کے ساتھ تھے۔ وہ کبھی کبھار شہر کا چکر لگا لیتے تھے مگر اب اس بڑھاپے میں یہ ”ہجرت” انہیں گوارا نہ تھی ۔ وہ اپنی مٹی میں دفن ہونا چاہتے تھے۔ یہ لوگ بھی تقریبا ًہر ویک اینڈ پر گائوں آتے تھے۔
وقت پر لگا کر اُڑتا رہا اور مقدم اور مقدس اپنے تعلیمی مدارج طے کرتے رہے۔ مقدم چوہدری تعلیم مکمل کر کے شہر میں اپنا بزنس شروع کر چکا تھا۔ اس کا یہ بزنس ان کی زمینوں سے ہی جڑا تھا۔ مراد چوہدری نے تو ساری عمر زمینوں پر کام کر کے اجناس حاصل کی تھیںمگر مقدم نے ان اجناس کوایکسپورٹ کر نا شروع کر دیا تھا۔ ان کی زمینیں بہت زرخیز تھیں یوں لگتا سونا اگلتی تھیں۔ اس سونے کوجب سبھائو سے ا یکسپورٹ کر نا شروع کیا گیا تو یہ سونے کے بھائو ہی بکنے لگیں۔ مقدم چوہدری دنوں میں زرعی اجناس کی ایکسپورٹ میں مقام بنا گیا تھا۔ مقدس میڈیکل کے چوتھے سال میں تھی۔ یہاں تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مسئلے کا آغاز تب ہوا جب مقدم چوہدری کی شادی کا غلغلہ اُٹھا۔ دادا دادی کو پوتے کے سہرے کے پھول جلد کھلانے کا شوق تھامگر ان کی دونوں بہوئوں کی ضد نے اس” جلدی” کو ”دیر”میں بدل دیا۔
نہیں سمجھ آئی ؟؟؟ ہوا یہ کہ مراد چوہدری کی وہ بیویاں جنھوں نے ساری زندگی ہر معاملے میں ایک دوسرے کی سپورٹ کی تھیں ، یہاں آکر آپس میں ٹکرا گئی تھیں۔ وجہ نگو چاہتی تھی کہ مقدم کی بیوی گائوں کی الہڑ مٹیار ہو اور ثمین چاہتی تھی مقدم کی بیوی شہر کی پڑھی لکھی ماڈرن لڑکی ہو۔ساری زندگی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلنے والیاں اس مسئلے پر آکر ایک دوسرے سے پیٹھ موڑ کر کھڑی ہو گئیں اور جان مصیبت میں آگئی مراد چوہدری اور اس کے فرزند ِ ارجمند مقدم چودھری کی۔ گائوں میں لڑکی دیکھنے جانا ہوتا تو نگو، مراد چوہدری اور مقدم چودھری چلے جاتے ، ثمین صاف انکار کر دیتی۔ شہر میں لڑکی دیکھنے جانا ہوتا تو ثمین ، مراد چوہدری اور مقدم چودھری چلے جاتے اور نگو صاف انکار کر دیتی۔دونوں کی یہ ضد روز بروز بڑھنے لگی تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت بند کر چکی تھیں۔ دونوں عجیب خواتین تھیں ۔ ہمیشہ دوسروں کو حیران ہی کیا۔ جب لوگوں نے ان کے جھگڑے دیکھنا چاہے تو یک جان دو قالب بن کر لوگوں کو حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں لگوائیں اور اب جب لوگ ان کے جھگڑے دیکھنے کی حسرتوں پر فاتحہ پڑھے چکے تھے تو دونوں نے دو بدو ہو کر ایک دفعہ پھر لوگوں کو انگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور کر دیا۔
” گائوں کی لڑکیاں گھر وں کو جوڑ کر رکھتی ہیں جیسے میں نے رکھا اپنے اس گھر کو جوڑ کر۔”کبھی نگو اپنی ضد کے لیے دلیل دیتی تو ثمین تڑپ تڑپ جاتی، آگ پر لوٹ جاتی۔
” کیا مطلب ہے آپ کا؟ آپ کے خیال میں، میں گھر توڑنے والی ہوں۔” ثمین کا تعلق شہر سے تھا۔وہ یہ سنتے ہی واک آئوٹ کر جاتی اور نگو ”ہونہہ” کہہ کر رہ جاتی۔
” شہر کی لڑکیوں کو اُٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے ، پہننے اُوڑھنے کا سلیقہ ہوتا ہے۔ انہیں وقت کے ساتھ چلنا آتا ہے۔” کبھی ثمین اپنے دفاع میںکوئی بات کرتی تو نگو بم کی طرح پھٹ جاتی۔
”تو تمھارا کیا مطلب ہے میں بد سلیقہ اور پھوہڑ ہوں جسے کسی بات کی تمیز نہیں ہے۔” نگو کی اُونچی آواز سُن کر ثمین چپ سی ہو جاتی اور نگو کمرے میں جا کر دھاڑ سے دروازہ بند کر دیتی۔
مقدم کے دادا دادی کو ان کی اس ضد کے بارے میں پتا چلا تو دونوں بھاگم بھاگ شہر آئے۔ مراد چوہدری نے ان کے آگے اپنے دکھڑے خوب خوب روئے۔
” ابا جی! نگو اور ثمین کے اس جھگڑے اور ضد نے میرا دل قاش قاش کر دیا ہے۔” مراد چودھری ابھی ابھی آم کھا کر فارغ ہوئے تھے ۔آموں کا ذائقہ ابھی منہ میں تھا سو ”پاش پاش” کی جگہ ان کے منہ سے ”قاش قاش” نکلا اور ابا جی کا پہلے سے ہائی پارہ اور اُوپر جا پہنچا۔
” اوئے مراد ! تیرا دل ہے کہ آم جو قاش قاش ہو گیا ہے۔ کبھی تو سنجیدہ ہو جایا کر تو۔” ابا جی نے جھنجھلا کر مراد چوہدری کی کلاس لے ڈالی۔
شام کو نگو اورثمین دونوں کی ساس سسر کے سامنے پیشی ہوئی۔ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے ”معیار ” سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔
”بھئی بندہ پوچھے جب ہر چیز بانٹ لی، شوہر بھی، اولاد بھی تو اب اولاد کی شادی کو لے کر دونوں کس بات کی ضد باندھ کر بیٹھ گئی ہو۔” مقدم چوہدری کے دادا نے ہار کر اپنا سر پیٹ لیا۔
”تو وہ ہماری زندگی تھی جو ہم نے اچھے برُے طریقے سے گزار لی اب میں اپنے پتر کو تو کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی بیٹی کے پلے سے تو نہیں باندھ سکتی نا۔جدی پشتی چوہدرانی لے کر آئوں گی اپنے مقدم چوہدری کے لیے۔” نگو نے سینہ ٹھونک کر کہا۔
”کوئی نہیں میرے بیٹے کی شادی تعلیم یافتہ شہری لڑکی سے ہو گی۔یہ بات آپ سب اپنے پلو سے باندھ لیں۔” ثمین بھی علی الاعلان بولی۔اتنی لڑائیوں کے باوجود دونوں خواتین میں سے کسی نے بھی مقدم پر صرف اپنی ملکیت نہیں جتائی تھی۔ ابھی بھی اندر ہی اندر کہیں دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ موجود تھا۔مقدم چودھری منہ کھولے اپنی دونوں مائوں کے ارادے ملاحظہ کرتا رہ گیا۔
” مطلب یا تو مجھے دو شادیاں کرنا پڑیں گی یا پھر کنوارا مرنا پڑے گا۔” مقدم چودھری نے جھر جھری سی لی۔
”نہ تو مجھے دو شادیاں کرنی ہیں اور نہ ہی مجھے کنوارا مرنا ہے۔” مقدم چودھری نے دل میں سوچا اور وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔
دیکھا جاتاتو یہ بڑی ہی عجیب بات تھی کہ دو عورتیں جو ہمیشہ ایک دوسرے کا سہارا بنی رہیں۔ بڑے سے بڑے معاملے میں باہمی افہام و تفہیم اور حقیقت کو مدِّ نظر رکھ کر فیصلے کیے وہ ایک چھوٹے سے معاملے میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہو گئی تھیں۔ یقین کرنے والی بات تو نہیں تھی مگر حقیقت تھی۔ وہ کیا کہتے ہیں نا کہ عورتوں کا مزاج بھی بڑا عجیب ہے ۔۔۔ ماننے پر آئیں تو آدھی دلیل پر ایمان لے آئیں اور نہ ماننے پر آئیں تو سو دلیلیں بے معنی ہو جائیں۔ دونوں نے فرانسسیوں کی اس کہاوت کو سچ ثابت کر دیا تھا کہ ہوا، وقت اور عورت کاکبھی کوئی اعتبار نہیں۔۔۔ مقدم چودھری کے دادا دادی اپنی ہر کوشش بے کار دیکھ کر واپس گائوں لوٹ گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭