آخری کیس — اعتزاز سلیم وصلی

دوسرے دن صبح ہی صائمہ کی کال موصول ہوئی۔
”اس نے بیس ہزار دینے کا کہا تھا۔ میں نے ایک ہفتے کا وقت لے لیا ہے۔ کچھ کریں پلیز۔ میری زندگی اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔”
”زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے صائمہ ،میں کوشش کررہا ہوں اگر کچھ ہو سکا تو ان شااللہ ضرور کروں گا۔” میں نے اسے تسلی دی۔ اس دن میں نے اکبر سے دونوں نمبرز کی لوکیشن لی اور چھٹی کے بعد اس علاقے میں پہنچ گیا۔یہاں بھی ناکامی ہوئی۔بلیک میلر واقعی چالاک تھا۔ دونوں نمبر دو مختلف موبائل شاپ کے تھے اور دونوں دکانداروں نے ایک ہی بیان دیا۔
”ایک اجنبی شخص آیا تھا اور اس کا اپنا اکاؤنٹ نہیں تھا ۔اس نے میرا اکاؤنٹ استعمال کرکے کہیں سے پیسے منگوائے اور لے کر چلا گیا۔” میں سر پیٹ کررہ گیا۔ دکانداروں کا لالچ تھا جس کی وجہ سے استعمال ہو گئے۔ویسے ایک ہزار روپے نکال دینے پر پچاس روپے فیس تھی یہاں انہوں ڈبل یعنی سو روپے لی تھی۔ چند سو روپے کی خاطر ایک غیرقانونی کام کیا تھا انہوں نے۔ اس دن مجھے یہ اندازہ ہوا کہ دکاندار چاہے جیسا ہو اس کی ذہنیت کاروباری ہی ہوتی ہے اور کاروباری ذہنیت والے صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔دو دن ہر طرح کی کوشش کرنے کے بعد مجھے بلیک میلر کا سراغ نہ مل سکا۔
تیسرے دن آ فس میں ایک لڑکی کی آمد ہوئی۔یہ اپرکلاس کی لڑکی تھی اور ناجیہ نام تھا۔ اس کا کیس صائمہ کے کیس جیسا ہی تھا مگر وہ لڑکی والے اکاؤنٹ کی بجائے لڑکے کے ہاتھوں بلیک میل ہوئی تھی اور اس نے خود اپنی ویڈیوز بھیجی تھیں۔میں اس وقت چونک گیا جب میں ناجیہ کو بلیک میل کرنے والے شخص کا ای میل ٹریس کیا تو یہ بھی عارضی ای میل نکلا۔ناجیہ سے وہ چالیس ہزار لے چکا تھا اور اس سے پہلے بھی ناجیہ اسے گفٹ وغیرہ خریدنے کے لیے رقم بھیجتی رہی تھی۔ میرا دل کیا اپنا سرپیٹ لوں یا پھر ناجیہ کو فی سبیل اللہ پیٹ دوں۔
”ایک بات بتائیں ناجیہ میڈم۔” قابو پانے کی کوشش کے باوجود میرا لہجہ طنزیہ ہو گیا۔
”یہ حقیقی زندگی میں لڑکے مر گئے ہیں جو آپ ایک فیس بکی بلیک میلر سے عشق لڑا نے لگ گئیں؟”
”اس نے خواب ہی ایسے دکھائے تھے۔ سہانے سپنے اور سبز باغ۔ میں بن گئی بے وقوف۔” اس نے شرمندگی سے جواب دیا۔ ویسے سائبر کرائم برانچ میں آکر مجھے اندازہ ہواتھا۔ فیس بک استعمال کرنے والی لڑکیوں کی پچاس فیصد تعداد ایسی لڑکیوں کی تھی جو توجہ کی بھوکی تھیں۔ جن کا باپ گھر میں ان کی خبر نہیں لیتا تھا۔ وہ”بابا کی لاڈلی”نام کی آئی ڈیز بناتی تھیں اور جن کی شکل وصورت اچھی نہ ہوتی وہ ”کیوٹ پرنسز”بن کر اس فیک بک پر تماشا لگاتی تھیں۔مجھے سو فیصد یقین ہو گیا کہ ناجیہ اور صائمہ کو بلیک میل کرنے والا ایک ہی شخص ہے کیوں کہ اس بار بھی پیسے لینے کا طریقہ وہی تھا۔اس دن بھی سائبر کرائم والوں نے بھرپور کوشش کی مگر اس کے موبائل کا ماڈل تک نہ معلوم ہو سکا۔ انہی کاموں میں دس دن گزر گئے۔اس دوران صائمہ کی مجھے تین بار کال آئی۔اس کے پاس پیسے نہیں تھے اور وہ سخت پریشان تھی۔اس قصے کو دو ہفتے گزر گئے۔ بلیک میلر کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اس دن میں اخبار پڑھ رہا تھا اور میری نظروں کے سامنے خبر گزری۔ میرا دل دھڑک اٹھا۔یہ ایک لڑکی کی خودکشی کی خبر تھی۔ خبر کی تفصیل میں جس علاقے کا نام لکھا تھا وہ میرے لیے جانا پہچانا تھا۔ ہاں صائمہ کا گھر اسی علاقے میں تھا۔میں نے اس کا نمبر ملایا مگر آف ملا۔آفس سے سردرد کا بہانہ بنا کرمیں اس علاقے میں چلا آیا۔یہ مڈل کلاس لوگوں کا محلہ تھا جہاں چھوٹی سے چھوٹی خبر بھی تیزی سے پھیلتی تھی۔ ایک دکان دار کے پاس رک کر میں نے کولڈ ڈرنک لی اور ادھراُدھر کی باتیں کرنے لگا۔




”یہاں کس گھر کی لڑکی نے خودکشی کی تھی؟خبر پڑھی میں نے۔”میرے پوچھنے پر دکاندار رازدارانہ انداز میں آگے جھکا اور سرگوشی میں بولا۔”امام مسجد صاحب ہیں ناں۔ ان کی لڑکی نے۔”اس کی بات سن کر مجھے جھٹکالگا۔ صائمہ کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔اس کا بولا گیا جملہ کانوں میں گونجنے لگا۔
”اب میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے۔” کتنی امید لے کر آئی تھی وہ میرے پاس اور میں کچھ نہ کرسکا۔ ایک بلیک میلر کے ہاتھوں وہ نہ صرف بلیک میل ہوئی بلکہ قتل بھی ہوگئی۔ ہاں یہ قتل ہی تھا۔ خودکشی نہیں تھی۔
”ویسے کیوں کی اس نے خودکشی؟”میں نے پوچھا۔دکاندار بھی باتونی تھا۔اس نے ایک بار پھر اِدھراُدھر دیکھا اور آہستہ سے بولا۔
”نکاح ہوا تھا اس کا خالہ کے بیٹے کے ساتھ۔طلاق دے دی اس نے۔ سنا ہے کسی کے ساتھ چکر تھا اور اسے پتا چل گیا۔” میرا دل کیا اس کی زبان کھینچ لوں۔صائمہ کا کردار صاف تھا، مگر ایک واقعہ نے اسے سب کی نظروں میں گناہ گار بنادیا تھا۔میں دکاندار سے اسد کے گھر کا پتا پوچھ کر وہاں چلا گیا۔ دستک دینے پر وہی باہر آیا۔
”اسد آپ ہیں؟”میں نے پوچھا۔اس نے الجھی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھا۔
”جی میں ہی ہوں۔”
کیا ہم کہیں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟”وہ کچھ دیر الجھن میں رہا اور پھر گہری سانس لے کر اندر چلا گیا۔چند منٹ بعد بیٹھک کا دروازہ کھل گیا۔میںوہاں بچھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ میرے سامنے کھڑا ہوگیا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا۔
”میں شاہ زیب ہوں۔ آپ مجھے نہیں جانتے پر میں آپ کو جانتا ہوں۔ صائمہ نے بتایا تھا۔” صائمہ کا نام سن کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اس نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
”اس بدکردار کا نام مت لو۔ اپنے آنے کا مقصد بتاؤ۔”
”صائمہ بدکردار نہیں تھی۔”
”تم کیسے کہہ سکتے ہو؟”
”میں اس سے ملا تھا۔ سائبر کرائم سیل میں وہ رپورٹ درج کروانے آئی تھی۔وہ بلیک میل ہورہی تھی۔”
”کیسی بلیک میلنگ؟ننگی تصویریں بھیج کر وہ بے شرم کیسے بلیک میل ہو سکتی ہے۔ اس کے یار نے خود مجھے تصویریں بھیجی تھیں۔”اس کی بات سن کر میں نے گہری سانس لی اور ساری تفصیل اسے بتادی۔اسے میر ی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔میں نے اس کے سامنے ثبوت رکھے۔ وہ الجھ گیا۔میری باتوں پر یقین کرنے میں اُسے خاصی دیر لگی۔ ایک گھنٹے بعد جب اس کی آنکھوں میں نمی اتری تو بولا۔
”دو دن پہلے مجھے کچھ تصویریں کسی نے واٹس ایپ کی تھیں، ساتھ میں صائمہ کے بارے میں گندی باتیں لکھی ہوئی تھیں۔ غصے نے مجھے اندھا کردیا تھا۔ میں نے سارے خاندان کے سامنے تصویریں رکھ کر اسے طلاق دے دی۔ وہ کہتی رہی ،میرا اعتبار کرو۔ میں نے نہیں کیا۔ امام صاحب نے بھی اسے مارا تھا۔وہ عزت پر لگنے والا زخم برداشت نہیں کرسکی اور زہرکھا لیا اس نے۔”وہ منہ چھپا کر رونے لگا۔ میں نے کہا۔
”اگر اس پر اعتبار کیا ہوتا تو شاید صائمہ جان سے نہ جاتی۔ تم مرد نہیں ہو۔ مرد اپنی عورت کو تحفظ دیتا ہے تم نے چند تصویریں دیکھ کر اس کی جان لے لی۔ لعنت ہے تم پر۔” مجھے خود پر قابو نہ رہا۔وہ خاموش بیٹھ کر بس آنسو بہاتا رہا۔اس سے صائمہ کی لحد کا پوچھ کر میں قبرستان چلا آیا۔تازہ قبر پر کسی نے پھول نہیں رکھے تھے۔ شاید ایک بدکردار کی قبر پر آنا انہوں نے گوارا نہیں کیا تھا۔ بدکردار، بے شرم، بے حیا یہ الفاظ کافی ہوتے ہیں ایک سفید پوش گھر کی لڑکی کی موت کے لیے۔ قاتل الفاظ… میں خاموش بیٹھا دل ہی دل میں صائمہ سے معافی مانگنے لگا۔انچارج صاحب سچ کہتے تھے میں سائبر کرائم برانچ کے لائق نہ تھا۔میرا دل نرم تھا۔آنکھوں میں نمی لیے جب میں وہاں سے اٹھا، تو بے اختیار میرے منہ سے شعر نکلا۔
قبریں ہی جانتی ہیں کہ اس شہر جبر میں
مرکر ہوئے ہیں دفن کہ زندہ گڑھے ہیں لوگ
٭…٭…٭
اس بلیک میلر کی تلاش میں پورا سیل مصروف تھا مگر اس کی چالاکی کو کوئی نہ سمجھ سکا۔ناجیہ کے بعد ایک اور لڑکی بھی سائبر کرائم میں رپورٹ درج کروا گئی۔یہ کیس بھی بالکل صائمہ جیسا تھا۔مجھے اس لڑکی میں صائمہ کی جھلک دکھائی دی۔عابدہ نام کی یہ لڑکی بھی اعتبار میں دھوکا کھا گئی تھی۔اس دن میں نے انچارج سعید صاحب کے سامنے سارے کیسز کی تفصیل رکھی اور اپنا پلان بتایا۔
”اس کا طریقہ باقی بلیک میلر سے تھوڑا مختلف ہے۔وہ رقم لینے کے لیے کسی بھی دکاندار کو لالچ دے کر پیسے نکلوا لیتا ہے۔ اب تک اس نے چھے مختلف علاقوں میں چھے مختلف دکاندار استعمال کیے ہیں۔ ہم اسے پکڑ سکتے ہیں کیوں کہ یہاں وہ غلطی کر تا ہے۔”میری بات سن کر وہ چونک گئے۔
”کیسے؟”
”وہ لڑکی کو نمبر دیتا ہے جب اس سے پیسے منگواتاہے۔اس بار جب وہ ناجیہ کو نمبر دے گا، تو ہم فوراً اس نمبر کی لوکیشن ٹریس کرکے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔” میں نے پلان بتایا۔
”شہر میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں دکانیں ہیں۔ موبائل اکاؤنٹس والی۔ پیسے نکلوانے میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ لگیں گے۔ہم پانچ منٹ میں شہر کے ہر حصے میں نہیں پہنچ سکتے۔”انہوں نے اعتراض کیا۔
”پہنچ سکتے ہیں۔ناجیہ نمبر لینے کے بعد دیر کرے گی۔ ویسے بھی وہ نمبر دے کر صرف پانچ منٹ دیتا ہے لڑکی کو پیسے بھیجنے کے لیے۔ پانچ اور پانچ دس منٹ اور اگر ناجیہ دیر کرے تو یہ وقت پندرہ منٹ سے بیس منٹ ہو سکتا ہے۔ ہمیں چند لوگوں کی ضرورت ہے جو مختلف علاقوں کی دکانوں پر نظر رکھیں۔” ہم نے پلاننگ ڈسکس کی اور ایک فائنل پلان پر پہنچ کر میٹنگ ختم کردی۔ صرف ایک ہفتے بعد ناجیہ کی کال موصول ہوئی۔
”اس نے پیسے مانگے ہیں۔ آج شام کو دینے ہیں۔” میں نے ساری بات سمجھائی۔اس نے ساتھ دینے کی حامی بھرلی۔ اس شام پورا سیل پرجوش ہو کر اس بلیک میلر کو ٹریس کررہا تھا۔ ویسے بھی یہ کیس سب کے لیے چیلنج بن گیا تھا۔ جیسے ہی ناجیہ نے نمبر دیا۔ ہم نے ایک منٹ میں اس کی لوکیشن ٹریس کی۔ یہ دکان ہم سے تقریباً دس کلومیٹر دور تھی۔ہم بھاگتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے اور دکان کی طرف بڑھ گئے۔ بارہ منٹ میں ہم وہاں تھے۔ناجیہ کا دو منٹ پہلے میسج آیا اور اس نے کہا ۔
”پیسے ابھی بھیج دیے ہیں۔” میں نے ”اوکے کہا” اور گاڑی سے اتر کر دکان کی طرف بھاگا۔وہاں صرف دکاندار بیٹھا تھا۔میں اور میرے ساتھی افضل نے اس کوجالیا۔
”دو منٹ پہلے تمہارے اکاؤنٹ میں بیس ہزار کی رقم آئی ہے۔۔کس نے منگوائی ہے وہ کہاں ہے؟”
”ابھی ایک شخص آیا تھا۔اس نے مجھے میری فیس دے کر میرا اکاؤنٹ نمبر کسی کودیا ہے اور مجھے کہا کہ پانچ منٹ میں وہ پیسے آکر لے گا۔” اس نے تفصیل سے بلیک میلر کا حلیہ بتایا ۔مجھے پہلے ہی شک تھا کہ وہ ہر مرتبہ مختلف حلیہ بناتاہے۔دکان دار کی بات سن کر مجھے یقین ہو گیا۔ہم نے وہ پورا علاقہ چھان مارا، مگر اس کا کچھ پتا نہ چلا۔ ایک بار پھر وہ ہمیں دھوکا دے گیا تھا۔اس رات میں جب تھک کر بستر پر گرا تو تمام کیسز کی فلم دماغ میں دوڑ رہی تھی۔ کچھ ایسا تھا جو ہم مس کررہے تھے۔ کیس کی ایک کڑی غائب تھی ۔کچھ نہ کچھ تھا۔کہیں نہ کہیں مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔نیند آنکھوں سے دور تھی ۔میں نے اٹھ کر چائے بنائی اور لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔میرے سامنے تینوں لڑکیوں کی بتائی ہوئی تفصیل تھی۔یہاں فیک آئی ڈیز میں استعمال ہونے والے عارضی ای میل ایڈریس تھے۔میں نے تمام تفصیل دوبارہ پڑھی۔ای میل ایڈریس لکھ کر انہیں الٹا سیدھا کیا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔پہلا ای میل اس طرح تھا۔
She1@temp-email.com
دوسرے ای میل میں ایک اور ویب سائٹ کا نام دیا گیاتھا۔
Hr2@aspier.com
اور تیسری ویب سائٹ بھی مختلف تھی۔
yar3@asorent.com
یہ تینوں ویب سائٹس عارضی اور اپنی مرضی کے نام کا ای میل اکاؤنٹ دینے والی ویب سائٹس تھیں۔میں نے ان پر اکاؤنٹس کی تفصیل چیک کی مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔رات دو بجے جب نیند نے گھیرا تب جا کر میری آنکھ لگی۔اس کیس کو حل کرنا اب میرا جنون تھا اور اس جنون کی وجہ صائمہ کی موت تھی۔
٭…٭…٭
دوسرے دن جب میں اٹھا، تو میرے ذہن میں جھماکا ہوا۔ہاں… جو کڑی غائب تھی اچانک ہی میرے دماغ میں آئی تھی۔میں نے دوبارہ لیپ ٹاپ آن کیا اور فیس بک پر سرچ کرنے لگا۔ صرف تین منٹ بعد میرے سامنے آئی ڈی موجود تھی۔اسے دیکھ کرمجھے لگا وقت رک گیا ہے۔دل کی دھڑکن کی رفتار اچانک بڑھ گئی۔میں حیرانگی سے آنکھیں پھاڑ کر اس آئی ڈی کو دیکھ رہا تھا۔مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا۔میں نے لیپ ٹاپ بند کیا اور آفس کال کرکے چھٹی لی۔جیب میں پسٹل رکھا اور بائیک پر ایک ایڈریس یاد کرتا ہوا آگیا۔ جہاں بائیک روکی وہ گھر خالی پڑا تھا۔ میں نے دیوار پھلانگی اور اندر گھس گیا۔ کمرے صاف تھے۔ اس کا مطلب تھا وہ یہیں کہیں ہے۔ اس کے بیڈروم میں کمپیوٹر آف پڑا تھا۔ مجھے یاد تھا وہ کون سا پاس ورڈ استعمال کرتا ہے۔ میرا اندازہ درست ثابت ہوا اور کمپیوٹر آن ہو گیا۔ ”پرسنل”نام کے ایک فولڈر میں ساری تصویریں تھیں۔صائمہ،ناجیہ ،عابدہ اور کئی لڑکیوں کی تصویریں۔جیب میں موجود پسٹل پر میری گرفت مضبوط ہو گئی۔مجھے تین گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔تین گھنٹے بعد جب کمرے کا دروازہ کھلا تو وہ میری نظروں کے سامنے تھا۔
”ارے شاہ زیب تم یہاں کیسے؟”وہ خوش گوار لہجے میں بولتا ہوا میری طرف بڑھا۔ اس نے مجھے گلے لگایا، مگر میں تب شاہ زیب نہیں اس کی موت کا فرشتہ تھا۔ میں نے جیب سے پسٹل نکال کر اس کے سینے سے لگا دیا۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے بنا کچھ کہے ایل سی ڈی کی طرف اشارہ کیا جہاں بلیک میلنگ کا سارا مواد موجود تھا۔وہ جانتا تھا میں ایف آئی اے میں ہوں۔اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔ میرے منہ سے سوالوں کا طوفان نکلا۔ یہ کافی وقت سے مجھے پریشان کررہے تھے۔
”کیوں شہریار کیوں؟کیوں لڑکیوں کی زندگیاں برباد کررہے ہو۔تم جرمنی میں تھے وہاں سے کیا ہوا؟تم بھی کمپیوٹر ماسٹر تھے پیسے کمانے کا کوئی اور طریقہ کیوں نہ اپنایا؟”وہ نیچے بیٹھ گیا ۔کچھ دیر خاموش رہا۔
”اگر میں نہ بتاؤں تو؟”
”تو میں تمہیں گولی مار دوں گا۔”میں نے پسٹل اس کے سر سے لگایا۔میرے لہجے میں سفاکیت شاید اسے محسوس ہوئی تھی۔
”جرمنی میں چند لوگوں کے ساتھ مل کر کچھ ہیکنگ کی تھی۔ وہاں پیسے کمائے مگر پکڑے گئے۔ ثبوت نہ ملے مگر ہمیں جرمنی سے نکال دیا گیا۔ میرے ساتھ ایک انڈین تھا۔ہم واپس آگئے تو یہاں جاب نہ ملی۔ ویسے بھی حرام کی کمائی کا چسکا لگ چکا تھا۔ میں نے یہ کام شروع کیا اور چند ماہ میں ہی کئی لڑکیاں میرے جال میں پھنس گئیں پر تم مجھ تک کیسے پہنچے میں نے تو کوئی راستہ نہیں چھوڑاتھا۔”وہ حیرت سے پوچھنے لگا۔
”تم نے تین مختلف اکاؤنٹس میں اپنا نام استعما ل کیا تھا۔ جیسے پہلے میں1 Sheدوسرے میں Hr2تیسرے میں Yar3ان تینوں کو جوڑ کر تمہارا نام بن گیا”Shehryar”اور ای میل اس طرح بن گیا۔ Shehryar123میں نے باری باری سب مشہور ای میل اکاؤنٹس چیک کیے۔ Hotmail, Gmail سب اور تمہارا فیس بک اکاؤنٹ Shehryar123@gmail.comپر تھا۔ مجھے کامیابی ملی اور تم ہار گئے”۔مجرم جتنا مرضی چالاک کیوں نہ ہو۔کوئی غلطی ضرورکرتا ہے۔ اگر وہ یہ معمولی سراغ نہ چھوڑتا تو شاید ہم اسے کبھی نہ پکڑ سکتے مگر قسمت کی خرابی۔ معمولی غلطی نے اسے پھنسا دیا تھا۔میری بات سن کر وہ مسکرادیا۔
”یہ کوئی ثبوت نہیں شاہ زیب کاکے۔میں نے جرم کیا ہے میں مانتا ہوں پر تم ساری زندگی ثابت نہیں کر سکوگے۔چلو گرفتار کرواور لے چلو۔”
”کیسے سوچ لیا کہ میں تمہیں گرفتار کروںگا۔ تم بلیک میلر نہیں قاتل ہو۔ صائمہ کے قاتل۔ قانون تمہیں بلیک میلنگ کی سزا دے گا جو صرف پانچ سال قید اور پچاس لاکھ جرمانہ ہے اور میں تمہیں قتل کی سزا دوں گا۔”یہ کہتے ہی میں نے گولی چلا دی۔ آج کوئی چچی نہیں تھی جو شاہ زیب کو مار نے پر مجھے سزا دیتی۔ وہ مر گیا میرے سامنے۔ صائمہ کی طرح چلا گیا وہ بھی۔بس ایک بدنامی کے ڈر سے مری تھی اور ایک اس کو بدنام کرنے کے جرم میں۔ میں تھکے قدموں سے گھر واپس لوٹ گیا۔ مجھے اس کی موت پر افسوس نہیں تھا۔ یہ اس سے کئی سالوں کی نفرت تھی جو صائمہ کی موت کے بعداچانک اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ شاہ زیب کی موت معمہ ثابت ہوئی۔کوئی حل نہ کرسکا۔میں نے سائبر کرائم سیل چھوڑ دیا تھا۔وہاں ابھی کئی صائمہ جیسی آنی تھیں اور میں ہر شہریارکو نہیں مار سکتا تھا۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اسرار — عمارہ جہاں

Read Next

دیوانی — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!