آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

وہ ماں کے چہرے پر نظریں گاڑے کھڑا تھا۔ ”ڈاکٹر بننے کے لیے لاکھوں روپے چاہیے کہاں سے لائیں گی آپ اتنا روپیہ آپ مجھے روپیہ دکھا دیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو ڈاکٹر بن کر دکھا دوں گا۔” اس بار اس نے بڑے خشک لہجے میں ماں سے کہا تھا۔
”میں لے آؤں گی روپیہ، چاہے مجھے اپنے بھائیوں کی منتیں ہی کیوں نہ کرنی پڑیں۔”
”امی! یہ دو چار ہزار کی بات نہیں ہے۔ لاکھوں کا معاملہ ہے۔ آپ کیوں اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ آپ کے بھائی آپ کو فوراً روپیہ دے دیں گے۔ وہ مجھ پر روپیہ کیوں خرچ کریں گے، اس سے انھیں کیا فائدہ ہوگا۔ میں ان کی اپنی اولاد نہیں ہوں۔ آپ بھی یہ بات سمجھ لیں اور خدا کے لیے ان خوابوں سے باہر آ جائیں اور فرض کریں۔ میں ڈاکٹر بن بھی جاؤں تب بھی کیا ہوگا۔ پہلے ہاؤس جاب کے لیے سفارشیں ڈھونڈوں گا پھر جاب کے لیے اور اگر بغیر کسی سفارش کے جاب مل بھی جائے تو اس سے کیا ہوگا۔ وہ چار پانچ ہزار روپے میں کیا کروں گا۔ نہیں امی! جو مجھے چاہیے وہ چار پانچ ہزار روپے سے بہت زیادہ ہے۔ میرے ڈاکٹر بننے سے کچھ نہیں ہوگا۔”
رابعہ پتھر کا بت بنی ہوئی اسے دیکھے جا رہی تھیں۔ انھیں لگا تھا سات سال پہلے کا معیز واپس آ گیا تھا۔ ضد کرنے والا، کسی کی نہ سننے والا۔ اس کے لہجے میں اتنی ہی قطعیت تھی۔ وہ اپنے لہجے سے کسی طور پر بھی پندرہ سالہ لڑکا نہیں لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر انھیں جو سنجیدگی نظر آئی تھی۔ وہ تو انھوں نے کبھی کسی ادھیڑ عمر آدمی کے چہرے پر بھی نہیں دیکھی تھی۔ رابعہ کو بے تحاشا رونا آیا۔
”تمھیں تعلیم دلوانے کے لیے ہی تو میں یہ سارا عذاب سہہ رہی ہوں اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ تم بھی میرے ساتھ دوسروں والا سلوک کرو گے تو میں بھی اسی وقت خودکشی کر لیتی جب تمہارا باپ مرا تھا۔”
وہ کہتے کہتے رونے لگی تھیں۔ وہ ماں کی آنکھوں میں اترتی نمی دیکھ کر بے چین ہو گیا۔ بے اختیار وہ ماں کے پاس آیا اور ان کے ہاتھ چہرے سے ہٹانے لگا۔
”امی! میری طرف دیکھیں۔ پلیز میری طرف دیکھیں۔” اس کی آواز میں التجا تھی۔
”کیا دیکھوں۔ میں تمہاری طرف کیا دیکھوں۔ تمھیں دیکھ کر مجھے کیا مل جائے گا؟” وہ اسی طرح چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپے روتی رہیں۔
”میرے ساتھ ایسا مت کریں امی! کم از کم آپ تو ایسا نہ کریں، آپ کو کیا لگتا ہے؟ کیا مجھے تعلیم چھوڑ کر بہت خوشی ہوگی؟ میرا دل جانتا ہے یہ فیصلہ میں نے کس طرح کیا ہے لیکن میں کیا کروں۔ میں آپ کی طرح آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ گھر یہ لوگ اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتے۔ میں یہاں سے نکلنا چاہتا ہوں۔ میں اب ان کا کوئی احسان نہیں لینا چاہتا امی! مجھے اپنے وجود سے گھن آتی ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں کوئی کتا ہوں جسے یہ لوگ دو وقت کی روٹی دیتے ہیں۔ آپ کیوں آئی تھیں یہاں؟ آخر کیوں آئی تھیں ان لوگوں کے پاس؟ میرا باپ ہی مرا تھا دنیا تو ختم نہیں ہوئی تھی۔ آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ آپ کہیں محنت مزدوری کر لیتیں۔ کہیں برتن دھو لیتیں۔ کسی گھر میں کام کر لیتیں مگر مجھے یہاں کبھی نہ لاتیں۔”





وہ پہلی بار معیز کو اس طرح بلکتا ہوا دیکھ رہی تھیں۔ اس کے آنسو دیکھ کر وہ اپنا رونا بھول گئی تھیں۔ معیز کیا سوچتا تھا کیا چاہتا تھا۔ یہ انھیں اس دن پتا چل رہا تھا۔ وہ پتا نہیں کس کس بات کی شکایت کر رہا تھا، رابعہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتی جا رہی تھیں۔ انھوں نے معیز کو آسائشیں دینے کے لیے اپنے بھائیوں کے در پر آنا پسند کیا تھا اور آج وہی بیٹا اس آرام و آسائش سے نفرت کر رہا تھا۔
”امی! یہ دیکھیں! میرے ہاتھوں کو دیکھیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ ایک مزدور کے ہاتھ ہیں۔ میں پچھلے تین سال سے کام کر رہا ہوں اور اب محنت کے علاوہ مجھے کچھ اور سوٹ نہیں کرے گا۔”
وہ اپنے ہاتھ ان کے سامنے پھیلائے کہہ رہا تھا۔ رابعہ حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھیں۔
”معیز! تم کام کرتے ہو؟” رابعہ نے بے یقینی سے اس سے پوچھا۔
”ہاں!” معیز کے لہجے میں ایک عجیب سا تفاخر تھا میں نے کام اس وقت شروع کیا تھا جب میں آٹھویں کلاس میں تھا۔ میرے دوست کے باپ کی لیدر جیکٹس کی فیکٹری ہے، وہاں میں نے لیدر جیکٹس کی کٹنگ اور سلائی سیکھی ہے۔ میں آپ سے کہتا تھا کہ میں اپنے دوست کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ میں پڑھتا نہیں تھا میں یہ کام سیکھنے جاتا تھا اور اب تو میں پارٹ ٹائم کام کر کے ہزار ڈیڑھ ہزار کما لیتا ہوں اور امی! مجھے یہی سب کچھ کرنا ہے جو میں کر رہا ہوں۔ میرے لیے اب آپ کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے نہیں پڑیں گے۔”
اس نے بھیگے ہوئے چہرے کے ساتھ ان کے ہاتھ پکڑ لیے تھے۔
”میں کوئی غلط کام نہیں کر رہا جو آپ اس طرح رو رہی ہیں۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ میں اپنی ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل ہو گیا ہوں۔ مجھے ابھی آپ کے لیے بہت کچھ کرنا ہے اگر آپ اس طرح میرے راستے میں دیواریں کھڑی کریں گی تو میں کیا کروں گا؟”
معیز جیسے منت کر رہا تھا۔ رابعہ کچھ کہنے کے قابل نہیں رہی تھی۔
”ٹھیک ہے۔ تم جیسا چاہتے ہو ویسا ہی کرو۔”
یہ واحد جملہ تھا جو رابعہ کے منہ سے نکلا تھا اور پھر وہ کمرے سے نکل گئیں۔ رابعہ کے دل میں جیسے جوار بھاٹا اٹھ رہا تھا۔ آج ان کے سارے خوابوں کے چکنا چور ہونے کا دن تھا۔
…***…
عجیب سی بے حسی تھی جو رابعہ پر طاری ہو گئی تھی۔ اب انھیں گھر کے کاموں میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔ پہلے وہ اس لیے گھر کے کاموں میں جتی رہتی تھیں کیونکہ انھیں معیز کے اخراجات کے لیے روپوں کی ضرورت ہوتی تھی اور یہ روپے وہ ان سے لیتی تھیں لیکن اب یک دم انھیں روپے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ معیز اپنا سارا خرچ خود اٹھاتا تھا اور انھیں بھی ہر ماہ اتنے روپے دے دیتا تھا کہ انھیں کسی دوسرے سے روپے مانگنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
انھوں نے صرف ایک بار اپنے بھائیوں سے روپے لینے سے انکار کیا تھا اور ان کے بھائیوں نے دوبارہ جھوٹے منہ انھیں روپے لینے کے لیے نہیں کہا تھا۔ شاید وہ بھی اس ذمہ داری سے جلد از جلد جان چھڑانا چاہتے تھے اور اب آہستہ آہستہ انھیں معیز صحیح لگنے لگا تھا۔ وہ مرد تھا، عمر اور تجربہ میں ان سے کم ہی سہی مگر بہرحال جذبات کی آنکھ سے دیکھنے والی عورت نہیں تھا۔ اب انھیں احساس ہونے لگا تھا کہ جو بھائی ہر ماہ انھیں ہزار روپے دیتے دیتے تنگ آ گئے تھے، وہ انھیں اس کی میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات کے لیے لاکھوں روپے کہاں سے دیتے۔
انھیں معیز کا کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ کب گھر ہوتا ہے اور کب نہیں۔ اکثر وہ رات کے گیارہ بارہ بجے آتا اور جب ماموں اس کو جھڑکتے تو وہ اوور ٹائم کا کہہ دیتا۔ اب وہ کھانا بھی وہاں سے نہیں کھاتا تھا، اگر کبھی چھٹی کا دن ہوتا تب بھی وہ اپنا کھانا باہر سے ہی لے کر آتا اور ماں کو بھی ساتھ بٹھا لیتا۔ پھر آہستہ آہستہ رابعہ کو یہ سب اچھا لگنے لگا تھا بیٹے کی کمائی تھوڑی سہی مگر پوری طرح ان کی تھی، انھیں اس روپے کو خرچ کرتے ہوئے سوچنا نہیں پڑتا تھا۔ انھیں اس سے یہ بھی نہیں کہنا پڑتا تھا کہ انھیں کسی چیز کی ضرورت ہے۔ وہ خود ہی ان کے لیے اکثر کچھ نہ کچھ لاتا رہتا۔ کبھی کپڑے۔ کبھی جوتے کبھی استعمال کی کوئی دوسری شے اور کبھی کھانے کے لیے کچھ۔ وہ پہلے اسے روک دیتی تھیں، اب ایسا نہیں کر پاتی تھیں۔ وہ باہر کیا کرتا تھا۔ وہ مکمل طور پر نہیں جانتی تھیں مگر یہ دعا ضرور کرتی رہتی تھیں کہ وہ کسی بری صحبت کا شکار نہ ہو۔
…***…
چار سال اسی طرح گزر گئے تھے۔ معیز نے پرائیویٹ طور پر گریجویشن بھی کر لیا تھا۔ پھر ایک دن وہ ان کے پاس آیا۔
”امی! میری فیکٹری کے مالک مجھے ایک کورس کے لیے کوریا بھیجنا چاہتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں آپ یہ بات کسی سے نہ کہیں بس سب سے یہ کہہ دیں کہ میں کسی کورس کے لیے کراچی گیا ہوں۔”
رابعہ نے کسی تردد کے بغیر اس کی بات مان لی تھی۔ پھر وہ کوریا چلا گیا۔ وہ انھیں خط نہیں لکھتا تھا، اکثر فون پر بات کرتا تھا۔ جب پورا سال وہ گھر نہیں آیا حتیٰ کہ عیدوں پر بھی تو ان کے بھائیوں نے کافی شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا کہ شاید وہ کسی غلط صحبت میں پڑ گیا ہے اور پتا نہیں وہ واقعی کراچی کورس کرنے گیا ہے یا نہیں۔ انھوں نے رابعہ سے اس کا کراچی کا ایڈریس اور فیکٹری کا پتا پوچھنے کی کوشش کی تھی جہاں وہ کام کرتا تھا مگر رابعہ کو دونوں جگہوں کا پتا نہیں تھا۔ ان کے بھائیوں نے چند دن تک معیز کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا مگر کچھ دن گزرنے کے بعد وہ ایک بار پھر اسے بھول گئے تھے۔ مگر رابعہ کی بھابھیاں انھیں یہ جتانا کبھی نہ بھولتیں کہ وہ بیٹا ہو کر ان سے بالکل لاپروا ہے اور انھوں نے اتنے سالوں سے انھیں اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔
سال گزرنے کے بعد جس خاموشی سے وہ باہر گیا تھا۔ اسی خاموشی سے وہ واپس آ گیا تھا ایک بار پھر وہ پہلے ہی کی طرح اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔ لیکن اب وہ پہلے کی نسبت زیادہ مطمئن اور خوش نظر آتا تھا۔
…***…
”امی! مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے؟”
اس دن وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔
جہاں میں کام کرتا ہوں وہ جگہ یہاں سے بہت دور ہے۔ آنے جانے میں مجھے بہت پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کیوں نہ وہیںقریب کوئی گھر لے لوں اور آپ کو بھی وہیں لے جاؤں۔ اس طرح مجھے اتنی دور نہیں آنا پڑے گا اور پھر مجھے گھر کی سہولت بھی ہو جائے گی۔” اس نے ماں سے کہا تھا۔
”نہیں معیز! میں ابھی وہاں کیسے جا سکتی ہوں۔ تمھیں معلوم ہی ہے تمہاری نانی کی طبیعت اکثر خراب رہتی ہے۔ ان کا خیال میں ہی رکھتی ہوں اگر میں چلی گئی تو ان کی دیکھ بھال کون کرے گا اور ویسے بھی تم تو کام پر چلے جایا کرو گے پھر میں پیچھے سارا دن کیا کروں گی؟”
”امی! ہم نانی کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔”
”تمھارے ماموں یہ کبھی گوارا نہیں کریں گے کہ امی میرے ساتھ رہیں۔”
وہ ان کی بات پر خفگی سے انھیں دیکھنے لگا۔
”امی! دیکھیں مجھ سے روز روز یہاں نہیں آیا جاتا۔ کرائے پر بہت سے روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ پھر میں رات کو دیر سے آتا ہوں تو ماموں بھی اعتراض کرتے ہیں۔ کل انھوں نے مجھ سے کہہ دیا ہے کہ اگر مجھے اتنی دیر ہو جایا کرے تو گھر میں آنے کے بجائے وہیں فیکٹری میں ہی رک جایا کروں۔ کیونکہ میرے دیر سے گھر آنے پر دوسرے لڑکوں پر برا اثر پڑ رہا ہے۔” وہ کافی بے چین تھا۔
”معیز! تم ایسا کرو کہ تم کوئی گھر لے لو ہفتے میں دو تین بار تم مجھ سے ملنے آ جایا کرو۔ اس طرح تمھیں سہولت رہے گی۔”
معیز نے کچھ حیرانی سے رابعہ کو دیکھا تھا۔
”یعنی امی! آپ میرے ساتھ نہیں جائیں گی۔” پتا نہیں کیوں معیز کو اس بات سے تکلیف پہنچی تھی۔
”دیکھو معیز! میں تمہاری نانی کو نہیں چھوڑ سکتی۔ اتنے عرصے سے انھوں نے ہمارا خیال رکھا ہوا تھا اب ضرورت کے وقت میں انھیں کیسے چھوڑ دوں؟ پھر مجھے ساری زندگی تمھارے ساتھ ہی تو رہنا ہے۔”
انھوں نے اس بار بڑے نرم لہجے میں اسے سمجھایا تھا وہ ہونٹ بھینچے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
”ٹھیک ہے امی! لیکن اب آپ ذہنی طور پر یہ گھر چھوڑنے کی تیاری کر لیں۔ اب میں اتنا کما لیتا ہوں کہ ہم دونوں الگ رہ سکیں۔”
اس نے بڑے مستحکم لہجے میں کہا تھا۔ رابعہ ایک ٹک اسے دیکھتی رہیں۔ آج پہلی بار انھوں نے اس کا چہرہ اتنے غور سے دیکھا تھا وہ بہت خوبصورت نہیں تھا لیکن دراز قد اور سڈول جسم نے اسے بے حد پرُکشش بنا دیا تھا۔ انھیں وہ بالکل ناصر کی طرح لگا، وہ بھی اس کی طرح دراز قد تھے اور نقوش کے اعتبار سے بھی وہ ناصر سے مشابہہ تھا۔ وہی گندمی رنگ جس کی بنا پر وہ بچپن میں اپنے کزن کے تمسخر کا نشانہ بنتا رہا تھا، اب اس پر سج رہا تھا۔ وہ بائیس سال کا تھا لیکن اپنے قد و قامت سے اپنی عمر سے بڑا لگ رہا تھا۔ انھوں نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری۔ جوان اور سعادت مند بیٹا کیسی نعمت کیسا سہارا ہوتا ہے۔ یہ انھیں آج پتا چلا تھا۔ انھیں اچانک یوں لگنے لگا تھا جیسے وہ اب کسی کی محتاج نہیں رہیں۔ اب وہ جب چاہتیں، اس گھر کو چھوڑ سکتی تھیں۔
معیز دوسرے دن اپنا سامان لے گیا تھا اس نے انھیں بتایا تھا کہ ابھی وہ فیکٹری میں ہی رہے گا۔ کیونکہ اس طرح اسے زیادہ آسانی ہوگی۔ جاتے ہوئے وہ رابعہ کے ساتھ اپنے ماموں کے پاس گیا تھا۔ جنھوں نے اس بات کا قطعاً نوٹس نہیں لیا کہ وہ کہاں اور کیوں جا رہا ہے۔ ہاں انھوں نے یہ ضرور کہا تھا کہ اب اسے اپنا گھر بنا لینا چاہیے جہاں اپنی ماں کو رکھ سکے۔ رابعہ کو بیٹے کے سامنے بھائی کی اس بات پر بے پناہ خجالت ہوئی تھی مگر معیز نے ماموں کی بات پر جی کہہ کر بڑی فرمانبرداری سے سر ہلا دیا تھا۔
دن آہستہ آہستہ گزر رہے تھے۔ معیز اب جب بھی ان سے ملنے آتا تو بہت تھوڑی دیر کے لیے رکتا تھا لیکن وہ تقریباً روز انھیں فون ضرور کرتا تھا۔ رابعہ کو اس کی کمی تو محسوس ہوتی تھی مگر وہ یہ سوچ کر خود کو تسلی دے لیتی تھیں کہ بہرحال وہ خوش تو ہے نا۔
…***…
پھر انھیں دنوں ان کے چھوٹے بھائی کی بیٹی سعدیہ کی بات طے کر دی گئی تھی۔ انھیں اس بات کا تب پتا چلا جب ان کی بھابھی نے اپنی ساس کو اس بارے میں اطلاع دی تھی۔ رابعہ بھی اس وقت ماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ جیسے بھونچکا رہ گئی تھیں۔ بھائیوں کی تمام بے التفاتی کے باوجود انھیں پتا نہیں یہ یقین کیوں تھا کہ وہ سعدیہ کی شادی معیز سے ہی کریں گے کیونکہ معیز کے ساتھ بچپن سے اس کی نسبت طے تھی۔ مگر ایک بار پھر ان کی امیدیں غلط ثابت ہوئی تھیں۔
”لیکن بھابھی! سعدیہ کی نسبت تو بچپن سے معیز سے طے ہے۔ آپ اس کا رشتہ کہیں اور کیسے کر سکتی ہیں؟ معیز سے اس کی نسبت آپ لوگوں کے اصرار پر ہی طے ہوئی تھی۔”
رابعہ خاموش نہیں رہ سکی تھیں۔ بھابھی نے تیکھی نظروں سے انھیں گھورا اور کہا۔
”کون سی نسبت اور کہاں کی نسبت؟ وہ نسبت طے کرنے والے بھی تمھارے بھائی تھے اور یہ نسبت طے کرنے والے بھی تمھارے بھائی ہیں۔ تمھیں جو بھی کہنا ہے، وہ ان سے کہو مگر ایک بات ذہن میں رکھنا، سعدیہ کبھی بھی تمہاری بہو نہیں بن سکتی۔ میں اپنی بیٹی کو کنویں میں نہیں دھکیل سکتی۔ تمہارا بیٹا ہے کیا؟”
وہ یہ کہتے ہوئے تیزی سے اٹھ کر کمرے سے نکل گئی تھیں۔
رابعہ نے شاکی نظروں سے ماں کو دیکھا۔
”حوصلہ رکھو رابعہ! میں تمھارے بھائی سے بات کروں گی۔”
ان کی امی نے جس طرح انھیں تسلی دی تھی اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ خود بھی اس رشتے کے بارے میں کچھ زیادہ پرُامید نہیں تھیں۔ لیکن انھیں خود بیٹے سے بات کرنے کی کوشش نہیں کرنی پڑی۔ شام ہوتے ہی وہ دندناتے ہوئے اپنی بیوی کے ساتھ ان کے کمرے میں آ گئے تھے۔ نہ صرف وہ بلکہ رابعہ کے دوسرے دونوں بھائی بھی آ گئے تھے۔ انھوں نے رابعہ کے سلام کا جواب دیے بغیر کڑے تیوروں کے ساتھ کہا تھا۔
”کون سے رشتے اور نسبت کی بات کی تھی تم نے یاسمین سے؟” انھوں نے اپنی بیوی کا نام لیا۔
”بھائی جان! آپ نے بچپن میں خود ہی۔”
ان کے بھائی نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”میں نے جو کہا تھا غلط کہا تھا، بکواس کی تھی۔ تم اپنے بیٹے کو کس برتے پر رشتے کے لیے پیش کر رہی ہو، وہ ہے کیا چیز؟ کیا وہ کسی بھی بات میں میری بیٹی کے برابر ہے۔ اس کی تعلیم دیکھو اور میری ایم اے پاس بیٹی کو دیکھو، وہ چار پانچ ہزار کمانے والا کاریگر ہے اور میری فیکٹری میں ایسے چالیس کاریگر کام کرتے ہیں۔ وہ جتنی رقم ہر مہینے کماتا ہے۔ میں اتنی رقم ہر ماہ اپنی بیٹی کو خرچ کے لیے دیتا ہوں۔ باقی باتوں کو تو چھوڑو۔ تم شکل دیکھو اپنے بیٹے کی۔ کیا وہ اس قابل ہے کہ میری بیٹی کے ساتھ کھڑا بھی ہو سکے اور تم مجھے نسبتیں یاد دلا رہی ہو۔ ہمارے ٹکڑوں پر پل کر جوان ہونے والے کو کیا ہم ساری عمر اپنے سر پر مسلط رکھیں۔”
باتیں نہیں خنجر تھے جو وہ باری باری رابعہ کے دل میں گاڑتے چلے جا رہے تھے۔




Loading

Read Previous

کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

Read Next

میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Well done

  • Well done your all stories are awesome

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!