آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

”میرا ہونے والا داماد اسسٹنٹ کمشنر ہے اور تمہارا بیٹا تو اس قابل بھی نہیں ہے کہ کہیں چپڑاسی بھرتی ہو سکے۔”
”بھائی جان! میں نے سعدیہ کا رشتہ نہیں مانگا تھا۔ آپ نے خود اس کا رشتہ دیا تھا جو باتیں آپ آج کہہ رہے ہیں وہ آپ کو پہلے سوچنی چاہیے تھیں۔” رابعہ نے بھرائی ہوئی آواز میں ان سے کہا۔
”ہر باپ اپنی اولاد کا اچھا ہی چاہتا ہے۔ اس وقت مجھے لگتا تھا کہ تمھارے بیٹے سے بیاہ کر میری بیٹی کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا لیکن تم تو اتنی احمق نکلیں کہ اپنا مستقبل محفوظ نہیں رکھ سکیں۔ میری بیٹی کا کیا رکھتیں۔ جو کچھ تمھارے پاس تھا تم نے شوہر پر خرچ کر دیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا مرض لاعلاج ہو چکا ہے۔ تمھیں اتنی عقل نہیں تھی کہ بیٹے کے لیے ہی کچھ بچا لیتیں جو آج اس کے کام آتا لیکن تم نے تو سب کچھ ناصر پر خرچ کر دیا اور تمھیں اس کا کیا فائدہ ہوا؟”
ان کا بھائی انھیں عقل سکھا رہا تھا کہ وہ روپیہ بچا لیتیں اور شوہر کو مرنے دیتیں، وہ روپیہ جسے جمع کرنے میں ان کا کوئی رول نہیں تھا رابعہ کا دل چاہا وہ ان سے پوچھیں کیا یہی سبق وہ اپنی بیوی کو دینا پسند کریں گے۔ مگر انھوں نے صرف اتنا کہا تھا۔
”ٹھیک ہے بھائی جان! مجھ سے غلطی ہو گئی کہ میں سعدیہ کا ذکر لے بیٹھی۔ آپ سے بہتر اس کا برا بھلا کون سوچ سکتا ہے۔”
وہ یہ کہہ کر کمرے سے نکل آئی تھیں۔ کسی دوسرے بھائی، بھابھی نے ان کی حمایت میں ایک لفظ نہیں کہا تھا۔ سگے رشتوں سے جو تھوڑی بہت انسیت تھی وہ بھی اس دن انھیں ختم ہوتی محسوس ہوئی تھی۔ اسی لیے آج جب تین دن بعد معیز ان سے ملنے آیا تھا تو انھوں نے اسے گھر تلاش کرنے کے لیے کہا تھا۔
”لیکن امی! آخر بات کیا ہے۔ پہلے تو بالکل انکار کر رہی تھیں اور اب؟” معیز کو ماں کی رضامندی پر حیرانی ہو رہی تھی۔
بیٹے کے نرم لہجے پر خود پر ضبط کرتے ہوئے بھی ان کا جی بھر آیا۔
”سعدیہ کی منگنی ہو گئی ہے۔” انھوں نے بھیگی آنکھوں سے اسے بتایا۔
تو اس میں رونے والی کیا بات ہے؟” ماں کے آنسو اس کی سمجھ سے باہر تھے اور رابعہ کو اس کا رویہ ایک لمحہ کو بھی ایسا نہیں لگا تھا جیسے اسے کوئی ملال ہو۔
”کیا سعدیہ کی منگنی ہونے پر میرے لیے رونے والی کوئی بات نہیں ہے؟” رابعہ نے شاکی لہجے میں اس سے پوچھا۔
”ہاں امی! آپ کے لیے رونے والی اس میں کیا بات ہے۔ آخر اس کی شادی تو اس کے ماں باپ نے کرنی ہی تھی پھر خاندان میں ابھی اور بھی لڑکیاں ہیں۔ کیا آپ سب کی منگنی پر اسی طرح روئیں گی؟”
”سعدیہ کوئی دوسری لڑکی نہیں ہے۔ وہ بچپن سے تم سے منسوب تھی پھر اب۔” ایک بار پھر ان کے آنسو چھلک پڑے تھے۔
وہ بے اختیار ایک طویل سانس لے کر رہ گیا۔ اب اس کی سمجھ میں آیا کہ ماں کی افسردگی کا سبب کیا تھا۔ اس کے ذہن میں کہیں دور دور تک بھی سعدیہ اور اپنی نسبت کا خیال نہیں تھا، کیونکہ اس نے سعدیہ کو کبھی اس نظر سے دیکھا ہی نہیں تھا۔ بلاشبہ وہ اس خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی اور اسے اس خوبصورتی کا احساس بھی تھا وہ اگر ان حالات کا شکار نہ ہوتا تو شاید وہ بھی بری طرح سعدیہ کے عشق میں گرفتار ہوتا لیکن ہوش سنبھالتے ہی اس نے اپنے ساتھ سعدیہ کا جو ہتک آمیز سلوک دیکھا تھا اس نے معیز کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونے دیا تھا۔ اب اسے ماں کے رونے پر ہنسی آ رہی تھی۔ شاید وہ یہ سوچ رہی تھیں کہ اسے اس نسبت کے ٹوٹنے کا سن کر بہت دکھ ہوگا۔ اس نے بڑے پیار سے ماں کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔





”امی اگر اس کی منگنی ہو گئی ہے تو یہ بہت اچھا ہوا ہے۔ آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ ماموں مجھ سے اس کی شادی کر دیں گے۔ میں نے کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچا اور ویسے بھی میں اس کے قابل نہیں ہوں۔ اس کے ماں باپ سب والدین کی طرح اپنی بیٹی کو خوش دیکھنا چاہتے تھے اور یقینا یہ خوشی دولت سے وابستہ ہوتی ہے اور میرے پاس دولت ہی نہیں ہے اور نہ ہی ابھی آنے کی امید ہے۔ پھر وہ کس آس میں سعدیہ کی زندگی برباد کریں۔ انھوں نے جو کچھ کیا، بالکل ٹھیک کیا ہے۔ آپ خوامخواہ اتنی چھوٹی سی بات کو دل پر نہ لگائیں۔”
اس نے بڑی نرمی سے انھیں سمجھایا تھا۔
”کیا ٹھیک کیا انھوں نے؟ دھوکا دیا ہے، وعدہ خلافی کی ہے میں دیکھتی اگر ناصر زندہ ہوتے تو وہ یہ سب کیسے کرتے۔ اسی لیے میں تم سے کہتی تھی کہ تعلیم نہ چھوڑو۔ پڑھو کچھ بن جاؤ تاکہ دولت میں نہ سہی تعلیم میں تو تم اس کے برابر کے ہوتے، پھر کوئی تمھیں اس طرح رد نہ کرتا۔”
انھیں اب اس پر غصہ آ رہا تھا مگر وہ سر جھکائے بڑے اطمینان سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
”تم نے سعدیہ کے بارے میں کچھ سوچا ہو یا نہ سوچا ہو۔ میں نے تو ہمیشہ ہی اسے اپنی بہو سمجھا ہے۔ کیا کیا خواب دیکھے تھے میں نے تم دونوں کے لیے۔” وہ ایک بار پھر بات ادھوروی چھوڑ کر رونے لگیں۔
”امی! اب بس کریں۔ جانے دیں اس بات کو۔ مجھے کوئی دکھ نہیں۔ کوئی افسوس نہیں ہے تو آپ کو کیوں ہے اور صاف بات تو یہ ہے کہ ابا اگر زندہ ہوتے اور میرے پاس بے تحاشا دولت ہوتی تو میں تب بھی کبھی اس سے شادی نہ کرتا۔ چاہے آپ نے نسبت کے بجائے نکاح ہی کیوں نہ کیا ہوتا۔ وہ بہت ناز نخروں میں پلی ہے اسے اپنے حسن اور دولت پر بہت غرور ہے اور امی! میں بہت سادہ بندہ ہوں۔ زندگی کو بہت آرام اور سکون سے گزارنا چاہتا ہوں۔ بیوی خوبصورت چاہے ہو یا نہ ہو لیکن اس کی فطرت ضرور اچھی ہو۔ وہ کم از کم میری عزت ضرور کرے میری ہر مہربانی ہر عنایت کو اپنا حق نہ سمجھے اور آپ کی عزت کرے لیکن امی؟ آپ کی بھتیجی میں ایسی کوئی خصوصیات نہیں ہیں۔ اب آپ یہ بے کار کا رونا دھونا ختم کر دیں۔ میں چند دن کے لیے کراچی جا رہا ہوں آپ میری عدم موجودگی میں اپنا سامان پیک کر لیجئے گا۔ میں جس دن واپس آیا اسی دن آپ کو لے جاؤں گا۔”
رابعہ تعجب سے اسے دیکھ رہی تھی۔ معیز میں کیا کیا تبدیلیاں آ گئی تھیں۔ انھیں یاد تھا۔
بچپن میں وہ سعدیہ سے بے تحاشا محبت کرتا تھا اگر کسی کے لیے وہ تھوڑا بہت ایثار کرتا تھا تو وہ سعدیہ ہی تھی۔ مسقط واپس جا کر بھی وہ ضد کر کے فون پر اس سے بات ضرور کیا کرتا تھا اور جب بھی اپنے لیے کچھ لیتا تو ضد کر کے وہی چیز سعدیہ کے لیے بھی ضرور لیتا اور رابعہ ہر دو چار ماہ سعدیہ کے لیے درجنوں کے حساب سے کھلونے اور کپڑے بھجواتی تھیں۔ یہ تو صرف یہاں آنے کے بعد ہوا تھا کہ اس نے آہستہ آہستہ سعدیہ کے ساتھ کھیلنا بند کر دیا تھا اور اب تو یہ عالم تھا کہ اگر کبھی دونوں کا سامنا ہو جاتا تو دونوں ایک دوسرے کو مخاطب بھی نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ دیکھ کر بھی کبھی دلبرداشتہ نہیں ہوئی تھیں پتا نہیں انھیں کیوں یہ لگتا تھا کہ سعدیہ کی شادی معیز سے ہی ہوگی اور کوئی اس میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا اور ایک بار پھر ان کی یہ توقع غلط ثابت ہوئی تھی۔
معیز کو سعدیہ سے محبت ہو یا نہ ہو، انھیں سعدیہ سے بے حد محبت تھی گو سعدیہ نے کبھی بھی اس التفات کا اس گرم جوشی سے جواب نہیں دیا تھا۔ اگر وہ کبھی اس کے گھر چلی جاتیں تو وہ صرف سلام دعا کر کے پھر دوبارہ ان کے سامنے نہ آتی پھر بھی رابعہ کو اس سے بہت انس تھا۔
ان کے بھائی نے جو معیز کے بارے میں کہا تھا وہ ان کے لیے بہت تکلیف دہ تھا اور ان کے لیے بہت مشکل تھا کہ وہ اس سب کو بھلا دیتیں۔ معیز کی واحد خامی یہ تھی کہ اس کے پاس روپیہ پیسہ نہیں تھا اور اس ایک خامی نے اس کی ساری خوبیوں کو چھپا دیا تھا۔ انھیں سب سے زیادہ اس بات پر تکلیف پہنچی تھی کہ بھائی نے معیز کی شکل و صورت کا مذاق اڑایا تھا جب انھوں نے معیز سے سعدیہ کی نسبت طے کی تھی تب بھی وہ اسی شکل و صورت کا مالک تھا لیکن تب فرق صرف دولت کا تھا انھیں ملال تھا کہ بھائی کو اگر انکار کرنا تھا تو کوئی دوسرا بہانا بنا دیتا اس طرح ذلیل تو نہ کرتا مگر سعدیہ کے باپ کا غصہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔
…***…
چوتھے دن معیز کراچی سے لوٹا تھا اور اسی دن وہ ماں کو لینے آ گیا تھا۔ جانے سے پہلے وہ باری باری ماں کے ساتھ تینوں ماموؤں کے پورشنز میں ملنے گیا تھا۔ چھوٹے ماموں نے اسے دیکھتے ہی اس پر برسنا شروع کر دیا۔
”کتے کو بھی چار دن روٹی ڈال دو تو وہ بھی مالک کے پیر چاٹتا ہے بھونکتا نہیں وفادار ہو جاتا ہے۔ تم تو کتے سے بھی بدتر نکلے ہو۔”
یہ جملہ تھا جو انھوں نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر جیسے سن ہو کر رہ گیا کیونکہ وہ اس بات کے سیاق و سباق سے لاعلم تھا۔
”ماموں! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟”
”خبردار آج کے بعد تم نے مجھے کسی رشتے سے پکارا۔ تمھیں اور تمہاری ماں کو ترس کھا کر رکھا تھا اور تم آستین کے سانپ نکلے۔ اتنی جرات کیسے ہوئی تمہاری کہ میری بیٹی سے شادی کے خواب دیکھو۔ تم ہو کیا؟ اوقات کیا ہے تمہاری؟”
معیز کے ذہن میں سب کچھ واضح ہو گیا تھا۔ اس کے چھوٹے ماموں بری طرح گرج رہے تھے۔ ان کی بلند آواز سن کر ان کے بیوی بچے بھی لاؤنج میں آ گئے۔ معیز کا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹے اور اس میں سما جائے۔
”ماموں! میں نے امی کو رشتے کے لیے آپ۔” اس نے وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی۔
مگر چھوٹے ماموں اس وقت غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔ انھوں نے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی۔ ”یہ فریب کسی اور کو دینا۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تمہاری ماں تمہاری مرضی کے بغیر رشتہ کی بات کرے۔ تم نے سوچا ہوگا کہ امیر ہونے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے، اسی طرح ساری عمر تم میری چوکھٹ پر پڑے رہتے۔ ذرا اپنے آپ کو دیکھو۔ ہو کیا تم؟ بھکاری جو سب کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ لنڈے کے کپڑے پہن کر تم سمجھے ہو کہ نواب بن گئے ہو جسے میں بڑے شوق سے اپنی بیٹی دے دوں گا اگر اتنے ہی اونچے آدمی ہو تو اپنی ماں کو لے کر جاؤ۔ اسے اپنے پلّے سے کھلاؤ۔”
معیز کو جیسے سکتہ سا ہو گیا تھا۔ یہی حال رابعہ کا تھا۔ ذلت کا وہ احساس جو بچپن سے اسے گھیرے ہوئے تھا اب اپنی انتہا پر پہنچ گیا تھا۔ اس نے خاموشی سے ان کی باتیں اور طعنے سنے تھے اور پھر کچھ کہے بغیر وہاں سے نکل آیا تھا۔ رابعہ کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں مگر معیز کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ واپس بڑے ماموں کی طرف آ کر اس نے ماں کی چیزیں گاڑی میں رکھنا شروع کر دی تھیں۔ پھر وہ انھیں لے کر باہر آ گیا تھا۔
معیز! یہ کس کی گاڑی ہے؟” رابعہ نے قدرے حیرانی سے اس سے پوچھا تھا۔
”امی! میری نہیں ہے، کسی دوست کی ہے۔ اس لیے لایا ہوں تاکہ آپ کو آسانی رہے۔” رابعہ کو اس کے جواب سے تسلی نہیں ہوئی تھی۔
”ایسا کون سا دوست ہے تمہارا جس نے اپنی گاڑی تمھیں دے دی ہے؟”
ہے امی ایک۔ آپ کو ملواؤں گا اس سے۔”
گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔
”تم نے ڈرائیونگ کب سیکھی ہے؟” رابعہ ایک بار پھر حیران ہوئی تھیں۔
”میں نے تو پتا نہیں کیا کیا سیکھ لیا ہے؟ آپ کو کیا پتا!” اس کا لہجہ بے حد عجیب تھا۔
پھر پورا راستہ وہ خاموش رہا تھا۔ رابعہ کے ذہن میں بھائی کی باتیں گونج رہی تھیں۔ معیز کی یہ تذلیل انھیں اس وقت بے پناہ تکلیف پہنچا رہی تھی۔ وہ بار بار اس کے چہرے پر کچھ تلاش کرنے کے لیے نظر دوڑاتی رہیں۔ مگر وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ جس گھر میں وہ انھیں لے کر آیا تھا، اسے دیکھ کر رابعہ کو ہول اٹھنے لگے تھے۔ پورچ میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد اس نے نیچے اتر کر رابعہ کی سیٹ کا دروازہ کھولا تھا۔ رابعہ نے نیچے اترے بغیر اس سے پوچھا۔
”یہ کس کا گھر ہے؟”
وہ بڑی پھیکی سی ہنسی ہنسا تھا۔ ”گھبرائیں مت امی! میرا نہیں ہے۔ آپ پہلے نیچے تو اتریں، پھر آپ کو سب کچھ بتا دوں گا۔”
اس نے ملازم کو کار کی چابی دیتے ہوئے رابعہ سے کہا تھا جو اس عرصہ میں گاڑی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ ملازم نے ڈکی سے سامان اتارنا شروع کر دیا۔
”آئیں امی!” وہ یہ کہہ کر اندر کی طرف بڑھ گیا تھا۔ رابعہ نے کچھ پریشانی کے عالم میں اس کی پیروی کی تھی۔
یہ چاروں اطراف سے وسیع لان میں گھرا ہوا ایک چھوٹا لیکن خوبصورت بنگلہ تھا۔ وہ انھیں لے کر سیدھا اوپر کی منزل پر گیا تھا اور سیڑھیاں چڑھ کر کوریڈور میں داخل ہوتے ہی اس نے پہلے کمرے کا دروازہ کھول دیا تھا۔ ایک چھوٹا مگر ویل فرنشڈ روم رابعہ کی نظروں کے سامنے تھا۔
”معیز! یہ کس کا گھر ہے۔ دیکھو، مجھے سچ بتانا جھوٹ مت بولنا۔”
رابعہ نے کمرے کے اندر داخل ہونے کے بجائے اس سے پوچھا تھا۔
”امی! یہ میرے دوست کا گھر ہے۔ میں یہاں عارضی طور پر رہتا ہوں۔” اس نے کچھ لاپروائی سے کہا تھا۔
”ایسا کون سا دوست بن گیا ہے تمہارا جس نے تمھیں رہنے کے لیے یہ گھر دے دیا ہے۔ گاڑی دے دی ہے۔ آخر مجھے بھی تو پتا چلے۔” رابعہ کو اس کی بات پر اعتبار نہیں آیا تھا۔
”امی! کیا آپ سمجھ رہی ہیں کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں؟” اس نے عجیب سے لہجے میں ماں سے پوچھا۔
”نہیں۔ مجھے تمہاری باتوں پر بالکل یقین نہیں آ رہا۔”
رابعہ نے بالکل کھرے انداز میں کہہ دیا۔ معیز نے ایک گہری سانس لی۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوئی تھی۔
”امی! وہ ابھی کچھ دیر بعد یہاں آئے گا پھر آپ کو میری باتوں پر یقین آ جائے گا۔ میں ولید کی فیکٹری میں کام کرتا ہوں اور بہت عرصے سے کر رہا ہوں اس کے پاس میں نے کام سیکھا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا جب میں اسکول میں تھا تو اکثر ولید کا ذکر کرتا تھا۔ یہ وہی ہے۔”
اس بار اس نے تفصیلاً رابعہ کو بتایا تھا۔ رابعہ ابھی بھی مطمئن نہیں ہوئی تھیں البتہ انھیں یاد آگیا کہ اس کا ولید نامی ایک دوست ضرور اسکول میں تھا۔
تقریباً دو گھنٹے بعد ولید آیا تھا۔ وہ آتے ہی ان سے اس طرح ملا تھا جیسے پہلی بار نہیں بلکہ اکثر ان سے ملتا رہا ہو۔ شام کا کھانا بھی اس نے وہیں کھایا تھا اور جب وہ واپس گیا تو رابعہ کافی حد تک مطمئن ہو چکی تھیں۔ وہ نہ صرف چہرے سے بلکہ باتوں سے بھی شریف اور سلجھا ہوا لگتا تھا۔ جاتے ہوئے اس نے معیز سے کہا تھا کہ وہ رابعہ کو لے کر اس کے گھر آئے تاکہ وہ اس کی امی سے مل سکیں۔ معیز نے ہامی بھر لی تھی۔
چند دنوں بعد جب رابعہ ولید کی امی سے ملیں تو ان کے باقی ماندہ خدشات بھی ہوا ہو گئے۔ وہ بھی اسی گرم جوشی سے ملی تھیں جیسے ولید ملا تھا۔ معیز کے رویے سے لگ رہا تھا جیسے وہاں اس کا بہت آنا جانا ہو کیونکہ وہ بڑی بے تکلفی سے وہاں چل پھر رہا تھا۔ رابعہ اب بالکل مطمئن ہو چکی تھیں۔
…***…




Loading

Read Previous

کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

Read Next

میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Well done

  • Well done your all stories are awesome

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!