یاد کا بوڑھا شجر
قرۃ العین خرم ہاشمی
”ابا میاں کہاں ہیں؟“صبا نے آہستگی سے پوچھا تھاکیوں کہ بڑی بھابھی غضب ناک تیوروں سے اسے گھور رہی تھی۔
”آگیا تمہیں بڑے میاں کا خیال؟ پتا بھی ہے کہ بڑے میاں پچھلے کئی دنوں سے شدید بیمار ہیں۔ڈاکٹر نے انہیں مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے مگر وہ ہیں کہ کچھ سنتے ہی نہیں!۔تھوڑی طبیعت بہتر ہوتی ہے چھڑی کے سہارے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے،پرانے سٹور روم میں پہنچ جاتے ہیں۔اللہ بخشے تمہاری مرحومہ اماں جان نے ضرور وہاں کوئی خزانہ یا راز چھپایا ہو گا۔ جس کی خبر صرف ان کو ہی ہے تب ہی وہ گھنٹوں وہاں کچھ نہ کچھ تلاش کرتے رہتے ہیں اور سمجھ دار اتنے ہیں کہ کچھ پوچھو تو خاموشی کی چادر اوڑھے ٹکر ٹکر چہرہ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔“
صبا نے گہری سانس لے کر اس کے چہرے سے نظر ہٹائی تھی۔لوگوں کو اکثر احساس نہیں ہوتا ہے کہ غصہ اور نفرت اچھے بھلے چہرے کے نقوش بگاڑ کر انہیں خوف ناک بنا دیتے ہیں۔
”میں ابا میاں کو دیکھتی ہوں!“صبا وہاں سے خاموشی سے اُٹھ کر اس بڑے سے گھر کے کونے میں بنے پرانے سٹور روم میں چلی آئی جہاں اماں کے زمانے کا پرانا سامان اور فرنیچر پڑا اپنی مدت پوری کر رہا تھا۔پیلے بلب کی روشنی میں صبا نے،سفید کپڑوں میں ملبوس،اپنے کمزور اور نحیف ہاتھوں سے اِدھر اُدھر پڑی چیزیں ہٹاتے کچھ ڈھونڈتے،ابا میاں کو اداسی سے دیکھا تھا۔صبا نہ جانے پچھلے کتنے برسوں سے اپنے باپ کو کسی ان دیکھی چیز کی تلاش میں برف کی سل کی طرح قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھ رہی تھی۔تلاش کا سفر ظاہری مسافت رکھتا ہو یا باطن کی تہ در تہ پرتیں کھولتا ہو۔اس میں وجود اورجسم ایسے ہی گھلتے ہیں جیسے تیز دھوپ میں پگھلتی برف!تلاش اپنا خراج فنا کی صورت میں لیتی ہے۔اب یہ فنا کس پیمانے پر اور کتنی تیزی سے ہوتی ہے یہ اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے!اپنی اپنی چاہ پر منحصر ہوتا ہے۔جس کی جتنی چاہت ہو گی اس کا حاصل بھی اتنا ہی ہوگا۔
”ابامیاں!کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟“صبا نے نرمی سے باپ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ابامیاں نے چونک کر خالی خالی نگاہوں سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔اس وقت اُن کے چہرے پر اتنی بے بسی تھی کہ صبا کا دل تڑپ کر رہ گیا۔
”ابامیاں!کیوں اپنے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اذیت دے رہے ہیں؟سب کہتے ہیں کہ آخری عمر میں پروفیسر صاحب کسی ذہنی مرض کا شکار ہو گئے ہیں مگر ابامیاں!دنیا چاہے کچھ بھی کہے مگر ایک بیٹی کا دل جانتا ہے کہ اس کا باپ پاگل نہیں ہے! جو شخص آج بھی ماضی اورحال کی سب سمجھ بوجھ رکھتا ہو۔آج بھی اپنے طالب علموں میں علم کے خزانے بانٹتا ہو،ایسا شخص بھلا ذہنی طور پر ناکارہ کیسے ہوسکتا ہے؟میں نہیں جانتی کہ آپ کی تلاش کیا ہے، آخر آپ کی زبان تک یہ سچ کیوں نہیں آتا؟ مگر ابامیاں میں آپ کو اتنا بے بس اور لاچار بھی نہیں دیکھ سکتی!زندگی میں وہ مقام بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب ہم اپنے پیاروں کو بے بسی کی دلدل میں لمحہ بہ لمحہ اترتے دیکھتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کر پاتے ہیں۔“صبا نے روتے ہوئے باپ کے جھریوں بھرے کمزور ہاتھوں کو تھاما تھا۔ابامیاں نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا اور اس کا سر تھپکتے ہوئے کمزور لہجے میں بولے:
”میں نے تمہاری اماں کو لیدر کا ایک چھوٹا بیگ دیا تھا جس میں۔۔۔!“اسی وقت آہٹ ہوئی تو دونوں نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا،جہاں متجسس نظروں سے دیکھتی،بڑی بھابھی کھڑی تھی۔ان دونوں کے دیکھنے پر گڑبڑا کر غصے سے بولیں:
”اچھا تو بڑے میاں نے گاؤں والی زمین کے کاغذ کسی لیدر کے بیگ میں چھپائے ہیں۔ مجھے پہلے ہی شک تھا کہ زمین کے کاغذ گم ہونے والی بات سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔دیکھو! ذرا خدمت ہم لوگ کریں اور سارا اثاثہ بیٹی لے جائے۔واہ جی کیسا انصاف کیا بڑے میاں نے۔“
بڑی بھابھی تیز تیز بولتی وہاں سے چلی گئی مگر صبا جانتی تھی کہ یہ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوگی۔ایسا ہی ہوا شام تک عدالت لگ چکی تھی اور فردِ جرم اس پر عائد کرتے ہوئے اسے سب کچھ سچ سچ بتانے کو کہا گیا تو وہ افسردگی سے مسکرا کر اپنے بڑے بھائی سے بولی:
”بھائی!ابامیاں نے بہت پہلے ہی اپنے سب اثاثے،اپنا سب کچھ ہم تینوں بہن بھائیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔احمد بھائی اپنا حصہ لے کر دبئی جا چکے ہیں، رہ گئے آپ اور میں تو ہمارے پاس بھی اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔جہاں تک گاؤں والی زمین کی ملکیت کی بات ہے تو ابامیاں بہت سال پہلے ہی اس زمین کو گاؤں کے بچوں کے سکول کے لئے وقف کر چکے ہیں۔پھر ایسی بات کرنے یا سوچنے کا کیا فائدہ؟“
”ہاں میں جانتا ہوں مگر وہ تمہاری بھابھی کہہ رہی تھی کہ۔۔“بڑے بھائی نے شرمندہ لہجے میں کچھ کہنا چاہا تھا۔
”بھائی ہر رشتہ اپنی اپنی جگہ پر سچ اور جھوٹ کے تناسب سے مل کر ہی بنتا ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ کس رشتے میں کتنا سچ ہے اور کس رشتے میں کتنا جھوٹ، اس کا فیصلہ ہر خردمند انسان خود کرتا ہے۔“
اس رات صبا کو ابامیاں کی بگڑتی حالت کے پیشِ نظر وہاں رکنا پڑا۔ابامیاں تین دن زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے اور پھر ایک صبح خاموشی سے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔موت کی آہٹ سے پھیلا سناٹا، اپنے پنجے بہت اندر تک گاڑ دیتا ہے کہ ایک بار ہی سہی مگر موت کی اذیت سارے جسم میں جمود ضرور طاری کر دیتی ہے۔مگر اس دل چیرتے سناٹے کو زندگی کی ایک چہکار ہی درہم برہم کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے، شاید زندگی کی رونقیں اسی لئے ہیں کہ اپنے پیاروں کی موت کے غم کو کسی حد تک بھلایا جاسکے، موت کی سرد چاپ سے، زندگی کی آہٹ کشید کی جا سکے۔ابامیاں سے محبت کرنے والے، انہیں یاد کرنے والے بہت سے لوگ اور بھی تھے جن کی تربیت اور کامیابی میں ابامیاں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔وہ لوگ بھی اپنے پیارے اور شفیق استاد کی موت کا افسوس کرنے جوق در جوق آ رہے تھے۔
”پروفیسر صاحب جیسے نیک لوگ بہت کم ہوتے ہیں، میں ایسے بہت سے غریب اورمستحق طالب علموں کو جانتی ہوں،جن کے تعلیمی اخراجات پروفیسر صاحب نے بہ خوشی پورے کیے تھے۔“وہ خاتون کافی دیر سے وہاں بیٹھی رو رہی تھی۔ابامیاں کو آج اس دنیا سے گئے دس دن گزر چکے تھے۔
”ویسے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔۔!سنا ہے کہ پروفیسر صاحب آخری دنوں میں عجیب بہکی بہکی سی باتیں کرتے تھے؟کیا یہ سچ ہے کہ وہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہوگئے تھے؟“اس عورت کے پوچھنے پر بڑے بھائی افسوس بھرے انداز میں بولے: