ہم نفس — شہرین اشرف

مجھے آج تک ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جب تک انسان کو اس کا پیار نہیں ملتا تو وہ یہ کیوں کہتا ہے کہ جان ہے تو جہاں ہے ورنہ سب بیکار ہے۔ لیکن جب پیار مل جاتا ہے تو پھر کہتے ہیں کہ ”یہ جان تو وبال جان ہے۔”
حسام صوفے پر بیٹھا اپنے ماما پاپا کو لڑتے دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کیوں کہ ان کی لو میرج تھی لیکن ان میں انڈر سٹینڈنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ بے بسی اور لاچاری سے ان کو دیکھ رہا تھا کیوں کہ اس کے کہنے کا ان پر رتی برابر بھی اثر نہیں ہوتا تھا۔




”تمہارے بھائی صرف باتیں بنانا جانتے ہیں یا پھر کسی کا مذاق اڑانا اور اپنے احسانات جتانا آتا ہے انہیں۔” حسین صاحب نے تمسخر سے نائلہ سے کہا تو وہ اپنے بھائیوں کی برائی سن کر بھڑک اٹھیں۔
حسین صاحب نائلہ کو یہ باور کروانے پر تلے رہتے کہ ان کا خاندان اچھا ہے جب کہ نائلہ اپنے خاندان کو حسین صاحب کے خاندان پر ترجیح دیتی تھیں لیکن ہمیشہ کی طرح نتیجہ حسبِ معمول وہی ڈھاک کے تین پات۔
”دیکھیں میں آپ کو بتا رہی ہوں کہ میری فیملی کے بارے میں الٹا سیدھا مت بولا کریں۔ میں ان کے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتی۔” وہ اب بری طرح پھنکاریں لیکن حسین پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔
”اچھا اگر میں باز نہیں آیا تو پھر کیا کرو گی تم؟ مجھے چھوڑ کر میکے تو تم جاتیں نہیں، یہیں میرے سر پر سوار رہتی ہو۔”حسین نے ماتھا پیٹتے ہوئے کہا اور حسام سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
”یہ خوش فہمی دل سے نکال دیں کہ میں آپ کی یہ حسرت کبھی پوری کروں گی۔ میں اپنے بیٹے کی وجہ سے یہاں رہ رہی ہوں ورنہ تو میں کب کی جا چکی ہوتی۔” نائلہ نے زوردار طنزیہ قہقہہ لگا یا۔
حسام کا ماتھا اپنے نام پر ٹھٹھکا تھا۔ اگر سچ میں ان دونوں کو اس کا خیال ہوتا تو وہ اس کی خاطر گھر کا ماحول بدلتے، خود بھی خوش رہتے اور اسے بھی خوش رہنے دیتے۔
انہیں تو بس یہ تھا کہ انہوں نے اسے روپیہ پیسہ اور آسائش دے دی ہیں تو انہوں نے اپنے ماں باپ ہونے کا فرض نبھا دیا لیکن انہوں نے پیار، محبت اور دماغی سکون سے اسے ہمیشہ محروم رکھا جو الدین کا بنیادی فرض ہوتا ہے اور اتنی بڑی کمی کے باوجود وہ کتنے آرام سے سارا الزام اس پر عائد کر دیتے تھے کہ وہ اس کی وجہ سے ایک دوسرے کو برداشت کر رہے ہیں۔
”پلیز! فار گارڈ سیک چپ کر جائیں، اگر آپ لوگ ایک دوسرے کے وجود کو میری وجہ سے برداشت کررہیں ہیں تو پلیز مجھ پر ایسا احسان مت کریں۔ اگر آپ چاہیں تو ابھی اپنے راستے الگ کر سکتے ہیں مجھے آپ دونوں سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔”وہ غصے سے چیختا ہوا تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے باہر نکل گیا۔
”شاید ایک ڈربے میں رہنے والے مرغی مرغا بھی اتنا نہیں لڑتے جتنا یہ دونوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کھانا کھائے بغیر نہیں رہ سکتے اور ان کی منطق ہی الگ ہے یہ کہتے ہیں کہ ہم لڑے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ان کو وکیل یا پھر اسمبلی میں ہونا چاہیے تھا۔”ان کے گھر کی ملازمہ نے ایک بار تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا۔ اسے غصہ نہیں آیا تھا کیوں کہ وہ سچ کہہ رہی تھی۔
”بس بہت ہو گیا، اب تو کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔” اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے سوچا۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے واقعی کسی فیصلے پر پہنچنا چاہ رہا ہو۔
انسان بھی کتنا عجیب ہے، اپنی انا اور خودی کی جنگ میں یہ تک نہیں دیکھتا کہ اس کے مقابل کون سا رشتہ ہے ؟ اس کا کیا مقام اور احترام ہے؟ نائلہ اور حسین ایک دوسرے کو اپنے سامنے جھکانا چاہتے تھے۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کی وہ اپنی اس حرکت کی وجہ سے اپنے بیٹے کی نظروں سے گر رہے ہیں۔
کیا کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان شادی کے بعد ایک دوسرے کے شجرئہ نسب کو زیرِبحث لانے کی بجائے اپنا گھر بنانے پر دھیان دے ،جس کی درودیوار کی مٹی سے پیار اور محبت کی مہک آئے، جس کے ستون اعتماد اور ایک دوسرے کا احترام ہوں جہاں انسان کی ذات پات نہیں بلکہ انسان کی حیثیت ہو جو خود اپنی ذات اور پہچان بنے جہاں ایک دوسرے کی برائیوں پر تنقید کی بجائے اسے پیار سے سمجھایا جائے۔
شام کو جب وہ گھر آیا تو بہت پُرسکون تھا وہ اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کر چکا ہے۔ ڈنر پر اس نے نائلہ اور حسین کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرنا تھا۔
”مام ڈیڈ! میں نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ میں abroadجا کر اپنی سٹڈیز مکملکروں گا۔” نائلہ اور حسین کو اس کی بات سن کر حیرت کا ایسا جھٹکا لگا جیسے وہ یہ ملک نہیں بلکہ دنیا چھوڑنے کی بات کر رہا ہو۔ حالاں کہ ان کے خاندان کے زیادہ تر لڑکے لڑکیاں بیرون ملک ہی پڑھنے جاتے تھے اس لیے ان کو حسام کے فیصلے پر اتنا حیران نہیں ہونا چاہیے تھا۔




”لیکن کیوں؟ یہاں کیا پرابلم ہے تمہیں؟” حسین صاحب نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”حیرت ہے سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ سوال۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ انداز ایسا تھا کہ جیسے جتا رہا ہو کہ اصل پرابلم تو آپ دونوں ہیں۔
”لیکن بیٹا…” نائلہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن حسام نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:
”ایکسکیوز می مام! میں آپ لوگوں کو بتا رہا ہوں پوچھ نہیں رہا۔” اس نے انتہائی سرد مہری سے کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ وہ دونوں حیرت سے اس کا منہ تکتے رہ گئے۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس نے اپنی تمام تیاریاں مکمل کرلیں۔ نائلہ اور حسین پہلے تو اس بات کے لیے راضی نہ ہوئے، بالآخر بیٹے کا مستقبل دیکھتے ہوئے چار و ناچار مان گئے۔
اس نے کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا۔ وہ اپنے والدین سے جتنا مرضی بے زار ہو لیکن یہاں آکر ان کی کمی محسوس کر رہا تھا۔ اسے یہاں رہنے اور ایڈجسٹ ہونے میں بہت مشکل پیش آرہی تھی۔ وہ لڑکا جو اپنے گھر میں اشاروں پر کام کرواتا تھا یہاں آکر اسے سارے کام خود کرنے پڑ رہے تھے۔ اسے تو انڈہ بھی ابالنا نہیں آتا تھا یہاں آکر اپنے کپڑے اسے خود ہی دھونے پڑتے تھے اور خود ہی استری بھی کرتا تھا۔ یہ سب کام اس کے مزاج کے برعکس تھے لیکن اب اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ہر ایک چیز کی ایک خوبی اور خامی ہوتی ہے۔ پاکستان میں اگر وہ ذہنی اذیت سے دوچار رہتا تھا تو یہاں جسمانی مشقت کرنی پڑتی تھی۔وہ پھر بھی خوش تھا کہ ہر وقت کے ذہنی کھنچاؤ کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہے۔
یونیورسٹی آئے تین ماہ گزر چکے تھے لیکن وہ یہاں آکر خود کو آزاد اور ہلکا پھلکا محسوس کرتا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ زیادہ دوست نہیں بناتا تھا اس لیے صرف سب سے سرسری سی علیک سلیک تھی اوروہ بھی ان لوگوں سے جو اس کے گروپ ممبرز تھے۔ اس کے گروپ میں عائلہ، کیتھرین، عیشلے، ڈینیئل اور جوزف تھے۔ عائلہ پاکستان سے تھی اس لیے وہ خود ہی اس سے بات کر لیتی ۔آج کلاس لینے کے بعد وہ کیفے میں کافی پینے کے ساتھ ساتھ اپنی ریسرچ ڈسکس کر رہے تھے۔
”تمہیں معلوم ہے حسام کہ ایک ریسرچ کے مطابق ہما رے ملک میں پچیس فیصد لڑکیاں نفسیاتی مریضہ ہیں لیکن خوش کن بات یہ ہے کہ ان کا علاج ہو رہا ہے۔” عائلہ نے فائل دیکھتے ہوئے کہا۔
”اوہ مائی گاڈ! اس کا مطلب یہ ہے کہ پچھتر فیصد کا ہاسپٹل نہ ملنے کی وجہ سے علاج نہیں ہو پا رہا؟ یہ تو سچ میں بہت خطرناک بات ہے۔” حسام مصنوعی افسردگی سے ہنسی چھپاتے ہوئے بولا۔
”ہوں!” عائلہ نے کچھ سوچتے ہوئے مختصر جواب دیا، لیکن بات سمجھ آنے پر غصے سے بولی:
”کیا کہا تم نے؟”
”کچھ نہیں! میں نے بس مذاق کیا تھا۔” حسام نے زور دار قہقہ بلند کیا۔
آج ان کی پریزنٹیشن کلاس میں سب سے اچھی تھی اور اسی خوشی میں وہ سب Symoposium Cafe میں بیٹھے ہوئے تھے۔
”عائلہ تمہارے ملک میں لو میرج کو ترجیح دی جاتی ہے یا پھر ارینج میرج کو؟” کیتھرین بہت باتونی اور کھلے دل کی لڑکی تھی جہاں وہ ہوتی وہاں سے خاموشی بھاگ جاتی تھی۔
”زیادہ تر والدین ارینج میرج کو ترجیح دیتے ہیں مگر لو میرج بھی ہو جاتی ہے۔” عائلہ نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ہمارے ملک میں تو زیادہ تر والدین اس طرح کے کاموں سے احتیاط برتتے ہیں اگر غلطی سے بھی وہ ارینج میرج کروانے کا سوچ لیں تو پتا ہے اس کے پیچھے بھی ان کا بزنس ہوتا ہے۔” ڈینیئل نے قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا۔
”کیا مطلب؟” حسام نے حیرانی سے پوچھا۔
”ایک منٹ ! مجھے اسی بات پر ایک زبردست لطیفہ یاد آیا۔” جوزف نے ہوا میں ہاتھ لہراتے ہوئے کہا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
”ایک شخص اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ بیٹا میں چاہتا ہوں کہ تم میری پسند کی لڑکی سے شادی کرو۔ تو بیٹا انکار کر دیتا ہے تو باپ کہتا ہے کہ تمہیں پتا ہے کہ وہ لڑکی بل کی بیٹی ہے، یہ سن کر لڑکا مان جاتا ہے۔ پھر باپ بل گیٹس کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی بیٹی کی شادی میرے بیٹے سے کر دیں، بل گیٹس انکار کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرا بیٹا ورلڈ بنک کا CEOہے تو بل گیٹس ہاں کردیتا ہے۔پھر وہ شخص ورلڈ بینک کے پریذیڈنٹ کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے بیٹے کو ورلڈ بینک کا CEO بنا لو۔ جب وہ انکار کرتا ہے تو وہ شخص کہتا ہے کہ میرا بیٹا بل گیٹس کا داماد ہے تو پھر پریذیڈنٹ جھٹ سے مان جاتا ہے۔” لطیفہ سنا کر جوزف نے زوردار قہقہہ لگایا تو باقی سب بھی ہنس پڑے۔




Loading

Read Previous

حوّا کی بیٹی — سارہ عمر

Read Next

جب زمین تنگ ہوجائے — حنا نرجس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!