کسک — حسنین انجم

”ہاں بھئی سنا ہے آج کل شاعری بھی کر رہی ہو۔ کوئی اچھا سا شعر تو سناوؑ”۔ وہ گنگ سے کھڑی تھی۔ مشاعروں میں پڑھنے والی ریڈیو پہ پروگرام کرنے والی آج فون پہ اچھا شعر سنانے سے گریزاں تھی۔ یہ بھی کون سا انداز تھا جذبوں کا۔
”حجاب پلیز…” دانش کے دوبارہ کہنے پر اُس کے ذہن میں اپنی تازہ ترین غزل کے اشعار آگئے۔
چُلّو بھر آب بھی مجھ کو نہیں بھرنے دیتا
کنارِ دریا مجھے پیاسا نہیں مرنے دیتا
ظلمتِ شب میں دِیا، جگنو، ستارہ رکھے
میری اُمید کا سورج نہیں ڈھلنے دیتا
دانش اُس کے لہجے کے سحر میں کھو سا گیا تھا۔ ”زبردست حجاب تم تو کمال کی کہتی ہو۔” وہ بہت متاثر ہوا۔ ”
دو چار باتیں کر کے اُس نے فون رکھ دیا۔
”یا اللہ مجھے ہمت دے اور اِس جذبے کی جڑوں کو اپنے اندر سے اکھیڑ دینے کا حوصلہ دے میں جن بے نام دیاروں کا سفر کر رہی ہوں اِن کی اذیت سے مجھے بچا لے”۔ وہ سوچتی سوچتی اپنے کمرے میں آگئی۔ زارا کی شادی کے بعد اُسے تنہائی کا احساس ہونے لگا تھا۔ سب زارا کی شادی کے بعد اُسے کھوجنے اور کریدنے پر اُتر آئے تھے۔ اماں اور پاپا کی تفتیش سے اُسے اپنا آپ مجرم لگنے لگا تھا۔ اپنی باتوں سے گھبرا کر وہ ہاسٹل شفٹ ہو گئی تھی۔ ہر ویک اینڈ پر اماں جانی ایک ہی بات لے کر بیٹھ جاتیں۔ ”پورے شہر کو میری تنہائی کا خیال ہے۔ سب ہی میری شادی کے غم میں دُبلے ہو رہے ہیں”۔ وہ اِسی صورتِ حال سے گھبرا رہی تھی۔ ”لگتا ہے میرا اپنا ہی دماغ خراب ہے”۔
اپنے بارے میں یونہی سوچ سوچ کر ذہن تھک گیا تھا اور پھر دو دِن بخار میں مبتلا رہ کر گزار دیے۔ اگلے دِن وہ اماں کے روکنے کے باوجود ہاسٹل چلی آئی تھی۔ بے ترتیب بالوں، متورم آنکھوں اور پپٹری زدہ ہونٹوں کے ساتھ وہ برسوں کی بیمار لگ رہی تھی۔ سالوں کا سفر گھنٹوں میں کیا تھا اُس نے، ذہنی تھکاوٹ نے اُسے نچوڑ کر رکھ دیا۔ روحہ اُسے بہ غور دیکھ رہی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”میرے خدا! حجاب کس قدر کرب میں ہو تم۔ یہ تو خود ساختہ سزا ہے بلکہ حماقت ہے دفع کرو اُسے”۔ روحہ تو چیخ اٹھی ۔
”کیسے دفع کروں”۔ اتنے برس پہلے زمین دل میں جو ننھا سا بیج بویا تھا وہ تن آور درخت بن کر اُس کی ہستی پر سایۂ فگن ہو چکا تھا۔ ”میں تمہیں معصوم کہوں، نادان کہوں یا پریم دیوانی۔ ایک جذباتی اور لفظی وعدے پر عمر کے کتنے سال گزار دیے اُس کمینے کے لیے جو بیوی بچوں کے ساتھ لائف انجوائے کر رہا ہے اور تمہیں غیر محسوس طور پر اس عذاب میں ڈال رکھا ہے۔” روحہ غصے میں بولتی چلی گئی۔
”بس روحہ! یہ نادانی ہی تو ہے۔ میرے درِ دل پر کئی ہاتھوں نے دستک دی لیکن دل کے کواڑ ہلے نہیں۔ اتنے سالوں سے قطرہ قطرہ جمی اُنسیت کو کوئی ختم نہیں کر سکا، نہ وقت، نہ حادثہ، نہ جدائی اور نہ ہی یہ بے بنیاد سا تعلق۔”
”تمہارا رابطہ ہے کوئی اَب”۔
”میں نے کبھی کال نہیں کیا البتہ وہ برتھ ڈے یا عید پر ضرور وِش کرتے ہیں”۔
”وش…ہونہہ” روحہ نے نفرت سے ہونٹ سکوڑے۔
”تم جسے چکنی مٹی سمجھ رہی ہو حجاب وہ سرسراتی سی ریت ہے، ریگِ رواں ہے، جو بند مٹھیوں سے سرک جاتی ہے۔ اس کھلی آنکھ کے خواب سے نکل آوؑ۔ یہ چولستانی یا صحرائی محبتیں وعدوں اور اورقسموں کی خود فریبیاں اس دور میں نہیں چل سکتیں” روحہ کی باتوں اور پیار کے پھاہوں سے وہ سنبھلتی چلی گئی اور پھر اپنے وعدے کے مطابق ویک اینڈ پر گھر چلی گئی۔ دو تین دِن کے بعد آئی تو چپ چپ سی تھی۔
”سناوؑ کیا بنا؟” روحہ نے بڑے پیار سے اُس کے بال سمیٹے۔ ”ہاں ہو گئی بات۔ طاہر صاحب مجھ سے ملنا چاہ رہے تھے۔ زارا کے سسرال والوں کی رشتہ داری ہے۔ باقی سب نے تو مجھے پہلے دیکھا ہوا تھا، اب موصوف نے دیکھنا تھا۔”
”کیسے لگے؟ کیا کرتے ہیں؟” روحہ پوچھتی ہی چلی گئی۔
”سعودیہ میں سول انجینئر ہیں۔ اب عید کے بعد باقاعدہ منگنی ہو گی یا شاید ڈائرکٹ نکاح۔”
”ونڈر فل یہ ہوئی نا بات” روحہ ہنس پڑی۔
”میری جان عذاب میں ہے اور تم…” وہ خفا سی ہونے لگی۔
”تم بے وقوف ہو۔ اپنے سابقہ عاشق کو اپنی منگنی کی خبر دے دینا۔ تمہاری جان چھوٹ جائے گی”۔ ”مت کہو ایسے… دانش کے لیے اس طرح کے الفاظ مجھے اچھے نہیں لگتے”۔
”محترمہ آج کے جدید ترین دور میں لیلیٰ مجنوں کی داستان ہرگز نہ دہرائیں اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ چلو آوؑ چل کر کھاناکھائیں۔ آج مچھلی بنی ہے میس میں۔ دیر سے گئے تو صرف کانٹوں بھری دم حصے میں آئے گی”۔ روحہ اُسے باتوں میں اُلجھا کر ڈائننگ ہال کی طرف لے آئی جہاں سب لڑکیاں کھانے کے لیے آرہی تھیں۔ وہ کھوئی کھوئی سی کھانا کھاتی رہی۔ اگلے دونوں ویک اینڈ اماں کے ساتھ شاپنگ میں گزر گئے تھے۔ عید سے دو دن پہلے وہ روحہ کو لے کر گھر آگئی۔ روحہ اس عید پر اپنے گھر نہیں جا رہی تھی کہ اُس کے ماں باپ اور بہن حج کے لئے گئے ہوئے تھے اور بھائی نے چچا کی طرف عید منانے کا اعلان کر دیا تھا۔ وہ حجاب کی منگنی میں شرکت کے خیال سے ہاسٹل میں رک گئی تھی۔
”یہاں اکیلے کیا کرو گی سارے فارنرزہیں۔ میرے ساتھ چلو”۔ حجاب اصرار کر کے اُسے لے آئی اور روحہ نے اپنے چچا کو فون پر بتا دیا۔ اب دونوں سکون سے بیٹھی عید کے کپڑے سیٹ کر رہی تھیں۔
”حجاب تم بہت لکی ہو تمہارے اماں پاپاکتنے فرینڈلی ہیں؟” روحہ کو ایک لمحہ کے لئے بھی اجنبیت محسوس نہ ہوئی تھی۔
”زاراصبح آئے گی عید کی نماز کے بعد۔ اُس کے اِن لاز سیکنڈ ڈے قربانی کرتے ہیں۔ ہم کل کریں گے۔ بہت اچھا وقت گزرے گا تمہارا۔ ایک اچھی گیٹ تو گیدر ہو جاتی ہے عید کی شام۔” وہ ہولے ہولے اُسے بتا رہی تھی۔ ”ہاں بھئی اب تو روزانہ عید کی شام کہو، آخر عید کی تیسری شام جناب طاہرعلی کی شریکِ سفر بن جائیں گی” روحہ نے اُسے چھیڑا وہ جواب دینے سے پہلے ہی فون ریسیو کرنے چل دی۔
”جی ٹھیک ہوں”۔ ”نہیں مسئلہ تو کچھ نہیں بس ایسے ہی۔” دانش کا فون تھا۔
”میں نے سوچا تمہیں عید مبارک کہہ دوں”۔ روحہ نے اُس کے چہرے سے جان لیا تھا سو ایک دم تیزی سے بڑھی اور رسیور چھین لیا۔ ”دانش صاحب میں حجاب کی دوست روحہ ہوں۔ پرسوں حجاب کی منگنی ہے”۔ اُس نے جلدی سے اطلاع کی۔ ”منگنی! ویری نائس مبارک ہو۔ دو دو مبارکیں ہو گئیں عید بھی اور منگنی بھی”۔ وہی پُر سکون سا لہجہ تھا ۔
”بہت بڑے ایکٹر ہیں آپ۔ وہ برسوں سے آپ کی لگائی آگ میں سُلگ رہی ہے اور آپ”…
”میری لگائی آگ…”
”پلیزروحہ چپ کر جاوؑ” حجاب نے ماوؑتھ پیس پر ہاتھ رکھ دیا۔
”مجھے کہنے دو حجاب۔ تم لمحہ لمحہ موم بتی کی طرح پگھل رہی ہو۔ جذبات کی آنچ میں جل رہی ہو۔ اپنے آپ کو حصار میں بند کر کے دُنیا سے کٹ رہی ہو”۔ روحہ نے ماوؑتھ پیس سے ہاتھ پرے ہٹا دیا۔
”آپ نے حجاب کو اذیت ناک انتظار میں مبتلا کیا۔ اُس کے معصوم فرشتوں جیسے دل کو کسک سے آشنا کیا۔ کیوں بے وقوف بنایا اُسے؟”۔
”میں حجاب کے لئے کیا جذبات رکھتا ہوں یہ صرف خدا جانتا ہے روحہ بی بی۔ جب میں سعودیہ میں سیٹ ہو کر فیصلہ کن موڑ پر آرہا تھا تو میرے سسر کی اچانک ڈیتھ ہو گئی۔ میں ایک ماہ گزار کر واپس چلا گیا۔ اُسی سال میرے دو جڑواں بچوں کی پیدائش نے ہر وہ رستہ بند کردیا جو حجاب تک جاتا تھا۔ تین بچوں اور لامتناہی مسائل کا انبار حجاب کے سر پر نہیں لادا جا سکتا تھا۔ سو میں صبر و جبر کے ساتھ حالات سے گزرتا رہا… اور آپ کے خیال میں میں فلرٹ ہوں یا حجاب کا کوئی دشمن… میں تو خانہ برباد سا شخص ہوں۔ آپ حجاب کو فون دیں”۔ دانش کی وضاحت نے روحہ کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔
”حجاب! میری معصوم ساتھی۔ میرے دُکھ سُکھ کے لمحوں کی آشنا تم میرے الفاظ کی زنجیر سے آزاد ہو۔ میں نے تمہیں کہا تھا کہ تمہیں کبھی پریشان کروں گا۔ سو میرے دُکھوں کی گٹھڑی بس مجھے اُٹھا کر چلنے دو۔ میرے جیسے لوگ جو لہروں پہ آشیانہ بناتے ہیں یونہی ڈوبنے اور اُبھرنے کے خوف سے دو چار رہتے ہیں۔ خدا تمہیں خوش رکھے۔ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کی دعاوؑں میں رہیں گے”۔ دانش نے فون بند کر دیا تھا۔ وہ مسحور سی ریسیور پکڑے کھڑی تھی۔ پلکیں نم ہو گئی تھیں۔ کتنا خوبصورت سا موڑ دے کر دانش نے اُسے برسوں پرانے وعدے کی زنجیر سے آزاد کیا تھا۔ وہ کیوں خود فریبی میں رہی اتنے برس۔ کیوں حقائق سے آنکھ چراتی رہی۔ اتنے سالوں کی اذیت کا ذمہ دار کون تھا؟ وہ سوچے جا رہی تھی اور آنسو بنا رُکے لڑی کی صورت چہرے پر بہتے جا رہے تھے۔
”جی بھر کر ر و لو مگر آخری بار۔ دانش کے لئے بہنے والے یہ آخری آنسو ہونے چاہئے۔” روحہ نے اسے کھل کر رونے دیا۔
کئی دنوں سے وہ اُلجھی اُلجھی سی تھی۔ کچھ بھی تو اچھانہ لگ رہا تھا۔ دو چاربار اُس نے دانش سے پکچر دیکھنے کی فرمائش کی اور اُس نے بے دلی سے ٹال دیا۔ ”اتنا بھی نہیں کر سکتے۔ پہلے تو بڑے وعدے کرتے تھے”۔ وہ خواہ مخواہ تلخ ہو رہی تھی۔
”دیکھو پہلے کی بات اور تھی… اب تم تین بچوں کی ماں ہو۔ اپنے آپ میں سنجیدگی پیدا کرو”۔ دانش نے لکھتے لکھتے اُسے ڈانٹ دیا۔ کتنی دیر سے تو وہ اُسے ڈسٹرب کر رہی تھی اور اُسے آج ہی اپنی یہ اسائنمنٹ پوسٹ کرنا تھی۔ وہ اوپن یونی ورسٹی سے ایم۔ ایڈ کر رہا تھا۔ ”آپ کو تو بس پڑھنے لکھنے سے غرض ہے۔ میں بس پڑی سڑتی رہوں”۔ وہ تکیے اِدھر اُدھر پھینکتی ہوئی بول رہی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

وہ راحت جاں — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!