کسک — حسنین انجم

”سوچنے کو میں ہی رہ گئی ہوں۔ اماں کہتی ہیں طاہر کے بارے میں سوچو اور وہ کہتا ہے کہ بس مجھے ہی سوچوبتاؤ میں کیا کروں؟”
”تم سب سے بہترین انتخاب کرو”۔ روحہ نے چائے کا کپ اُسے تھما دیا۔
”میرا برا وقت آگیا ہے شاید۔ بہت سال من مانی کر لی ہے بہ قول اماں جانی کے” وہ ہنوز کچھ سوچ رہی تھی۔
”مجھے اپنے مسئلے کی اُلجھی ڈور کا کوئی اِک سرا تھماؤ تو میں تمہیں کچھ بتاؤں”۔
”صرف یہی بتا دو اگر تم نے کبھی کسی سے سچے دل سے کوئی وعدہ کیا ہو اور وعدے کی پاس داری کا ایک وقت بھی متعین کیا ہو، اور وہ وقت گزر جائے تو پھر کیا کرنا چاہئے؟” اُس کی اُلجھی باتیں ذہنی خلجان کا پتہ دے رہی تھیں۔
”میرا خیال ہے ایسے میں دِل کی مان لینی چاہیے”۔ روحہ نے آسان حل پیش کر دیا۔
”دل کا کیا ہے وہ تو دیوانہ ہے۔ اِسے تو اپنی بات پر ڈٹے برسوں بیت جاتے ہیں لیکن بے کار ہے سب، کون سنتا ہے بھلا اس دیوانے کی۔” اتنا وقت ساتھ رہنے سے روحہ اُس کے مزاج سے آگاہ ہو چکی تھی۔
”تم ذہنی دباوؑ میں ہو حجاب بات کھل کر کہوہم میں کچھ چھپا نہیں ہے۔” لیکن وہ اُس کے اصرار سے بے نیاز کچھ سوچتی ہوئی چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لے رہی تھی۔ چائے ختم کرتے ہی وہ بیڈ سے اُٹھ گئی۔
”چلو میرے ساتھ ذرااماں کو فون کر لوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پہنچ کر اپنی طبیعت بتا دینا۔ پریشان ہو رہی ہوں گی”۔ وہ کمرہ لاک کر کے اُس کے نیچے آگئی۔
”تم فون کر لو۔ پھر کچھ دیر ٹی وی دیکھیں گے۔ بڑے مزے کا ڈرامہ آرہا ہے آج”۔ روحہ اُس کو فون کے پاس چھوڑ کر خود کینٹین سے کچھ لینے کے لئے چلی گئی۔ ”جی اماں جانی۔ ٹھیک ہے۔ میں آجاؤں گی اگلے ویک اینڈ پر۔ فکر نہیں کریں۔ پکااماں جانی۔ نہیں اب گڑ بڑ نہیں کروں گی”۔ روحہ نے آخری چند باتیں سنیں اور پھر حیران ہو کر اُس کے لرزتے بدن کو دیکھا۔ وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تم ٹھیک ہونا حجاب” روحہ نے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ ٹھنڈی ہو رہی تھی۔
وہ بغیر کچھ بولے چپ چاپ اُس کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتی کمرے تک پہنچی۔
”حجاب…” روحہ نے حیرت سے اُس کی آنسووؑں سے بھیگی آنکھیں دیکھیں۔ ”حجاب گھر میں خیریت ہے نا”۔ ”ہاں، اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”پھر تمہیں کس فیصلے نے اتنا رنجیدہ کر دیا۔ تم اماں سے کس فیصلے کی بات کر رہی تھیں”۔ روحہ اُسے اشک بار دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی۔
”اماں جانی کے فیصلے نے رنجیدہ کر دیا ہے یا میرے اپنے فیصلے نے۔ پتا نہیں روحہ”۔ وہ سسک رہی تھی۔ وہ جو کبھی ایک آنسو کسی کے سامنے بہانا اپنی توہین سمجھتی تھی۔
”جو اشک کسی کے سامنے آنکھ سے گرتا ہے وہ مگرمچھ کا ہوتا ہے”۔ اُس نے اپنی بیان کردہ عجیب منطق اپنا رکھی تھی۔
”روحہ ایک محبت کو بچاتے بچاتے۔ ایک دل کی حفاظت کرتے ہوئے، ایک وعدے کا پاس کرتے ہوئے کہیں میری باقی محبتیں فنا نہ ہو جائیں۔ اس لئے میں نے اماں کی بات قبول کر لی ہے۔ اُس نے تو صرف پانچ سال کہا تھا اور میں نے تو دُگنا انتظار کیا ہے۔ اُس کی واپسی کا رستہ تکتے تکتے میں تھک گئی ہوں۔ لیکن اب میں اپنے دوسرے رشتے خراب نہیں کر سکتی۔ اپنے کردار پر ایک حرفنہیں آنے دے سکتی”۔وہ دھواں دھار رو رہی تھی۔ ایک سیلِ رواں تھا جو آنکھوں بہ نکلا تھا اور اس میں وہ اپنی عمرِ رفتہ کو کھوج رہی تھی۔ گزرے ہوئے شب و روز کو بے نقاب کر رہی تھی۔
”نہیں آپا میرا ایک ایک دِن قیمتی ہے۔ میرے پیپرز ہیں”۔ ویسے بھی وہ کیوں جاتی۔ اُس کا نازک سا وجود اور معصوم عمر اتنے طاقت ور کہاں تھے کہ دوسرے کے سر پر چڑھا عشق کا بھوت اُتار دیتے لہٰذا اُس نے صاف انکار کر دیا اور پھر جب شادی کا بلاوا آیا تو وہ کارڈ کو دیکھ کر کچھ دیر کے لئے رنجورسی ہو گئی۔ دل میں کسی انجانے سے درد کا احساس ہوا۔ وہ دونوں اکٹھے ہی تو رہے تھے۔ دونوں کی عمر میں آٹھ سال کا فرق تھا۔ لیکن ایک سکولنگ اور ایک ماحول نے انہیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا تھا۔ دانش کی سکولنگ دیر سے شروع ہوئی تھی۔ اِس لیے دونوں میں صرف تین کلاسز کا فرق تھا۔ اُن کے کھیل کود مشاغل ایک جیسے تھے۔ وہ دونوں اپنے پروگراموں میں زارا اور وصی کو بھی شامل رکھتے لیکن آپس میں زیادہ دوستی تھی۔ دانش کا ماضی کھلی کتاب کی طرح اُس کے سامنے تھا۔ اماں جانی نے سب کچھ بتا دیا تھا۔ اُسے دانش کی شادی اٹینڈ نہ کرنے کا بہت ملال تھا لیکن پاپا کے حکم سے سرتابی کی مجال نہ تھی اور تب وہ ایف۔ اے کے پیپرز دے رہی تھی جب اُسے دانش کی بیٹی کی خبر ملی۔ وہ حیران سی رہ گئی۔ دانش بھائی ابو بن گئے، یہ خیال عجیب سا تھا۔ پھر انہی دنوں وہ سب تایا ابا کے آخری بچے کی شادی میں شرکت کے لیے اپنے گاوؑں آئے تو وہیں اُس نے دانش بھائی اور اُن کی مسز کو دیکھا۔
”اوہ۔ اتنے ہینڈ سم دانی بھائی کی ایسی وائف”۔ وہ اُسے زیادہ پسند نہ آئی تھی۔ اماں جانی نے اُسے ٹوک دیا۔
”اماں جانی آپ خود ہی غور کریں ذرا۔ آنکھیں گھما گھما کر اُسے بولتے ہوئے دیکھیں”۔ حجاب کو وہ ہنستی کھیلتی ذرا بھی اچھی نہ لگی تھی۔ ”دانی بھائی تو بہت سیریس رہتے ہیں اور یہ … ویسے کیا شے پسند کی انہوں نے بھی، وہ دیر تک اُس کی پسند پر غور کرتی رہی۔ تب ہی اُس نے دانش بھائی کو دیکھا جو اماں سے ملنے کے لئے اندر آگئے تھے اور جانے کس بات پر سوگوار سے ہو رہے تھے۔
”بیٹا! تمہیں تو معلوم ہے اپنے تایا جی کا۔ انہیں غصہ ہے تم پر۔ تم نے آرمی سے ریزائن کر کے بھی انہیں پریشان کیا، صابر حسین کی لڑکی سے شادی کرکے مزیددُکھ دیا۔ اب وہ اپنا دل کیوں کر صاف کریں”۔ اماں صاف گوئی سے کہہ رہی تھی۔ جواباً دانش کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر حجاب چونک گئی۔
”مرد بھی روتے ہیں بھلا”۔
”کیوں مردانسان نہیں ہوتے۔ اُن کے سینے میں دل نہیں ہوتا کیا؟” جواب میں دانش بھائی کی بھرائی ہوئی آواز نے اُسے شرمندہ کر دیا۔ وہ خاموشی سے پرے ہٹ گئی۔ دانش اٹھ کر باہر چلا گیا۔ ”دراصل تائی جی! دانی اور مریم خوش نہیں ہیں۔ دونوں کی آپس میں بنتی نہیں۔ لڑائی جھگڑا روز کا معمول بنا گیا ہے”۔ ذکیہ آپا ہولے ہولے بتا رہی تھیں۔
”دانش کا دماغ خراب ہے اپنی مرضی سے سب کچھ کرتا ہے اور پھر رونے روتا ہے” اماں جانی کو غصہ آگیا تھا۔
”بس وہ بچی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے”۔
”دیکھو ذکیہ اُسے بالشت بھر کی بچی کی فکر لگ گئی ہے ابھی سے۔ ابھی حوصلہ کرے صبر سے زندگی کو سیٹ کرے۔ آپس میں صلح سلوک سے رہیں گے تو بچی کی تربیت ٹھیک ہو جائے گی۔ رونے دھونے لڑنے سے تو کچھ نہ ہو گا۔”
اور تب واپسی کا سفر کرتے ہوئے حجاب اسی ادھیڑ بن میں رہی کہ لو میرج کا انجام ایسا کیوں ہے؟ دو سال سے بھی کم عرصے میں دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے اُکتائے اُکتائے لگ رہے تھے۔ کتنے دن تک وہ یہی اُلجھنیں سلجھاتی رہی اور پھر اپنی پڑھائی اور کتابوں میں کھو گئی۔
”تمہیں دیکھ کر مجھے یوں لگتا ہے حجاب جیسے تم صرف کتابوں کے لئے بنی ہو”۔ بیڈ پر کتابوں کا ڈھیر لگا کر پڑھنا اُسے بہت پسند تھا۔ وہ جب بھی پڑھنے بیٹھتی نوٹس، کتابیں اپنے ارد گرد جمع کر لیتی۔ اماں اور پاپا اُس کی اس عادت پر اکثر اُسے ٹوکتے۔ ”بیٹا زارا اور وصی کی طرح سٹڈی ٹیبل پر پڑھا کرو”۔ پاپا نے آرمی والے سخت اصول اور ڈسپلن گھر میں بھی بنا رکھا تھا۔
”پاپا جانی ویسے نہیں پڑھا جاتا مجھ سے۔ یوں لگتا ہے جیسے پڑھائی کا دکھاوا ہو رہا ہے بس”۔
”آپی آپ کا خیال ہے کہ ہم دونوں دکھاوا کرتے ہیں”۔ زارا اور وصی اُس کی بات پر جل اُٹھتے اور وہ اپنی چمکتی آنکھوں سے ہنس کر انہیں دیکھتی اور پھر اپنی کتاب پر نظریں جما دیتی۔
”چپ رہو اور بس مجھے فالو کرو”۔ وہ اکثر ہی اپنے بڑے ہونے کا فائدہ اُٹھا لیتی۔
پیپرز ختم ہوئے تو اُس نے سکھ کا سانس لیا۔ آج کل وہ فری تھی۔ کبھی پینٹنگ لے کر بیٹھ جاتی، کبھی پن ورک شروع کر دیتی اور کبھی اماں کے ساتھ گھومنے نکل جاتی۔ پاپا آج کل بارڈر پر تھے۔ انہی دِنوں ذکیہ آپا کی ساس کی اچانک وفات کا فون آیا۔ وہ اماں کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئی۔
”زارا اور وصی کے پیپرز ہو رہے ہیں۔ تم مت جاوؑ۔” اماں نے اُسے منع کر نا چاہا۔
”اماں جانی ایک دن کی تو بات ہے۔ میں اتنا بور ہو رہی ہوںذرا سفر انجوائے کروں گی”۔ وہ اصرار کر کے اُن کے ساتھ آپا ذکیہ کے گھر آگئی۔ اماں کچھ دیر دم لے کر ذکیہ کے ساتھ اُس کے سسرال چلی گئیں اور وہ ذکیہ آپا کے بچوں سے گپ شپ کرنے لگی۔
”لگتا ہے غلطی کی ہے۔ سفر بھی بور گزرا اور یہاں بھی بوریت کا سامنا کرنا پڑا”۔ راستے میں کوچ کی خرابی کی وجہ سے انہیں کافی دشواری ہوئی تھی۔ وہ اِس وقت چپ چاپ بیٹھی ذکیہ آپا کے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔ جو ہر طرف سے بے نیاز اپنا ہوم ورک کر رہے تھے۔ اُن کی بڑی بیٹی کپڑے دھو رہی تھی۔ سو اُسے کمپنی کیا دیتی؟ تبھی اُس نے باہر گیٹ سے دانش کو اندر آتے دیکھا۔
”کیسی ہو؟” دانش کی آنکھوں کی چمک سے وہ کچھ حیران سے ہوئی۔
”ٹھیک ہوں اپنی کہئے”۔
”اپنی کہنے ہی تو آیا ہوں۔ ابھی کچھ دیر پہلے مجھے تمہاری آمد کا پتہ چلا۔ سو ملنے آگیا۔ تمہیں تو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی”۔ دانش کے گلے پر وہ ہنس پڑی۔
”لگتا ہے تایا جی کی طرح خفا ہو”۔
”ارے بابا مجھے کیا مصیبت ہے آپ کی لائف ہے جو مرضی کریں۔ میں جیو اور جینے دو کی قائل ہوں” وہ صاف دلی سے بولی۔
”حجاب مجھے تمہارا کچھ وقت چاہیے۔ پتا نہیں پھر موقع ملے کہ نہیں”۔ دانش کرسی کھینچ کر سامنے ہی بیٹھ گیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

وہ راحت جاں — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!