کسک — حسنین انجم

”وہ اپنی ذاتی عداوت کے باعث میری زندگی کیوں خراب کرنا چاہتے ہیں۔ میں یتیم مسکین دوسروں کے ٹکڑوں پر پلا کسی نواب کا داماد بننے سے رہا۔ مجھے اس بَک بَک کو ختم کرنا ہے۔ میں آپ سب کی پریشانی و بدنامی کا سبب کیوں بنوں؟ میں ہوں کیاآخر ؟ ”وہ الجھا الجھا سالگ رہا تھا۔
وہ دیر تک اُسے سمجھاتی رہیں۔ لیکن شاید مریم سے شادی کا وہ فیصلہ کر چکا تھا ۔ اس لیے اُن کی کسی بات پر دھیان نہ دے رہا تھا۔ تب ہر طرف سے نااُمید و لاچارہو کر انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور منصورہ کو ساتھ لے جا کر دانش کی بات طے کر دی۔ مریم کے تو دن عید اور راتیں شب برات تھیں۔ اس نے یہی تو چاہاتھا۔اپنے سارے ارمانوں کو دل میں سمیٹے وہ دانی کی دلہن بن گئی۔ شادی کیا تھی۔ چند لوگوں پر مشتمل بارات تھی۔ تایا جی کو سخت رنج ہوا تھا اور بھی بہت سے رشتہ دار بے دلی سے شامل ہوئے۔ مختلف اندازے اور قیاس آرائیاں تھیں جو نکاح کے بعد بھی کئی دن چلتی رہیں۔ مریم دو گلیوں کے فاصلے سے ڈولی میں بیٹھ کر آئی اور پورے گھر کی مالک بن گئی۔
شادی کے ابتدائی چارسال گزرے تو وہ تین بچوں کی ماں بن چکی تھی اور گزرتے ہوئے ماہ و سال عشق و محبت کے چڑھے ہوئے سیلاب کو کم کرتے گئے۔ جس سرعت سے پریم کہانی شروع ہوئی تھی اُسی سُرعت سے جھگڑے بھی جنم لینے لگے۔ لو میرج کا چارم جلدی ختم ہو گیا کہ محبت بھری باتوں اور عملی زندگی میں خواب اور حقیقت جیسا فرق ہے اور اسی فرق کو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ خواب و خیال کی دُنیا میں عشقیہ گیت، رومانٹک جملے، ذو معنی باتیں یا رسیلے گیت جو پہلے اُس کے دل کو گُد گُداتے رہتے تھے اب پھیکے لگنے لگے تھے۔ تب وہ زندگی کے پھیکے پن پر کھول اُٹھتی۔ دانش اُس کی ایک ایک کمی اور خرابی کو نوٹ کرنے لگا تھا۔ وہ تازہ اور مست ہوا کے جھونکے کی طرح گھومنے پھرنے کی شوقین تھی۔ دانش اور بچوں کی وجہ سے یہ شوق بھی برائے نام رہ گیا تھا۔
تب وہ پھٹ پڑی۔ ”کیا بکواس ہے یہ زندگی”۔
”پہلے سوچنا تھا جب پاگل ہو رہی تھی اور کسی آسیب کی طرح میرے پیچھے لگ گئی تھیں”۔
دانش کے ایسے جملے اُسے مزید بدمزہ کر دیتے تھے۔ تب وہ اکثر ہی بیری کی اُوپر والی شاخ میں ٹنگے تعویز کو دیکھتی اور بے ساختہ مسکرا دیتی ”چلو تمہیں پا تو لیا ناں۔ اپنے دل کی خوشی تو حاصل کی۔ اب چاہے روکے کٹے یا ہنس کر”۔
احساسِ ملکیت سے وہ سرشار سی ہو جاتی اور دانش اُس کی جذباتیت پر کُڑھنے لگتا۔ ”معلوم نہیں تم مردوں کا پیار اتنی جلدی کیسے ختم ہو جاتا ہے؟” وہ اکثر اُسے کہ دیتی۔
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

آسمان مغرب کی سمت میں ڈوبتے سورج کی سُرخی سے رنگین ہو رہا تھا۔ آگ کے گولے کی طرح اُفق کے پار، نیچے نیچے اُترتا ہوا سورج اُسے بہت بھلا لگ رہا تھا۔ وہ دیر سے لان میں بیٹھی اس دیکھتی جا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ روشنی کم ہو رہی تھی۔ اُس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کوک دیکھی۔ ابھی آدھی باقی تھی۔ ”اوہ گرم ہو گئی ہے” کوک کی بوتل واپسکینٹین پر دینے کے لئے وہ لان سے اُٹھی۔ جب ہی سامنے سے آتی ہوئی لڑکی پر نظریں ٹھہر گئیں۔ بیگ پکڑے وہ گاڑی سے نکلی تھی کچھ گھبرائی اور بوکھلائی ہوئی۔ چند لمحوں بعد گیٹ پر کھڑے حشمت نے کار کی ڈکی سے بستر بند اور اٹیچی کیس نکالا اور اُس لڑکی کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ ”روم نمبر16” لڑکی نے آہستہ سے کہا۔
”حجاب بی بی… آپ کی روم میٹ آئی ہے”حشمت کی آواز پر وہ کوک کینٹین کے کاؤنٹر پر رکھ کر جلدی سے آگے بڑھی۔
”مجھے حجاب کہتے ہیں۔ لاء کر رہی ہوں” اُس نے ہاتھ بڑھا دیا۔
”میں روحہ ہوں۔ ایم ۔ اے انگلش پارٹ ون”۔ وہ اُسے ساتھ لیے کمرے میں آگئی۔ حجاب کی سادہ سی شخصیت میں پتا نہیں کون سی کشش تھی کہ آدھے گھنٹے کی رفاقت کے بعد وہ دوسرے کی فیورٹ بن جاتی۔ روحہ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ وہ اگلے دو چار دنوں میں گہری دوست بن چکی تھیں۔
”ویسے یار پولٹیکل سائنس میں ماسٹرز کے بعد ایل۔ ایل۔ بی بات کچھ جچی نہیں”۔ روحہ اُسے کرید رہی تھی۔
”کیوں بھئی تمہارے پاس کوئی پروپوزل تونہیں میرے لیے جو ایسی جاسوسی کر رہی ہو۔ قسم سے کبھی کبھی تو تم جاسوس ہی لگتی ہو”۔
”میرے تو بھائی ہی چھوٹے ہیں یار البتہ فیملی میں سکوپ بن سکتا ہے”۔ روحہ اُسے چھیڑ رہی تھی۔
”روحہ تم اپنے ننھے دماغ پر میرے بارے میں زیادہ بوجھ نہ ڈالا کرو کھسک جائے گا”۔
دونوں شام ڈھلے نہر کنارے تک پہنچیں اور پھر وہیں بیٹھ گئیں۔ جب بھی اُن کا دہی بھلے وغیرہ کھانے کا موڈ ہوتا یا ہاسٹل سے اُکتاتیں تو آخری پل تک پیدل مارچ کرتیں اور دہی بھلے یا کچھ اور کھا کر ڈھیروں باتیں کر کے لوٹ آتیں۔ آج بھی حسبِ معمول وہ وہیں سڑک کنارے بنے لان میں بیٹھی تھیں۔ دہی بڑے والا انہیں پلٹیں دے کر چلا گیا تھا۔
”حجاب تم ہاسٹل میں کیوں رہ رہی ہو؟” روحہ نے ایک دم پوچھا۔ ”دو سال گھر والوں نے سخت ڈیوٹی دی تھی ماسٹرز کے دوران ڈیفنس سے ادھر۔ پک اینڈ ڈراپ میں وہ چکرا گئے تھے۔ اب ایل۔ ایل۔ بی میں ایڈمیشن لیا تو پاپا کا میٹر گھوم گیا۔ وہ کسی اور چکر میں تھے اور میں کسی اور چکر میں۔ مجھے اُن کا بوجھ بانٹنے کایہی طریقہ سمجھ آیا سو میں نے ہاسٹلائز ہو کر اُن کی پرابلم ختم کر دی اور اب تو تھوڑا وقت باقی ہے”۔ وہ بڑی بے پروائی سے کہہ رہی تھی۔
”لاء کے بعد پریکٹس کرو گی”؟
”ہاں ارادے تو بہت بلند ہیں۔ بس پاپا سے کچھ دشمنی ہو گئی ہے۔ دراصل میری چھوٹی بہن کی شادی ہو چکی ہے۔ بھائی بھی انگیج ہے۔ پاپا میری اور بھائی کی شادی اکٹھے کرنے کی کوشش میں ہیں۔ بہ قول میری ماں جی کے، کہ میری شادی کی عمر تو نکلی جا رہی ہے۔ بلکہ نکل گئی ہے”۔ اپنی بات کے اختتام پر وہ حسبِ عادت ہنس دی۔ وہ اپنی عمر سے چار پانچ سال کم لگتی تھی۔ سمارٹ اور پُرکشش سی۔ جب کسی بات پر کھل کر ہنستی تو آنکھوں میں ستارے سے چمکنے لگتے تھے ۔
وہ اپنی باتوں میں مگن تھیں کہ اچانک بارش کی ننھی ننھی بوندیں ٹپکیں۔ ”اوہ اٹھو”۔ روحہ کو لے کر وہ جلدی سے چند قدم دور بنی ہوئی ”افتخارلائبریری ” میں گھس گئی۔بارش سے بچنے کے لیے چند منٹ وہ وہیں رکیں اور پھر یونی ورسٹی بس پر بیٹھ کر اپنے ہال میں آپہنچیں۔ کیمپس کے خوب صورت دن پَر لگائے اڑے جا رہے تھے۔ ”مجھے یوں لگتا ہے کہ وقت سے برکت اٹھ گئی ہے۔”
اُس روز وہ اُلجھی اُلجھی سی بیٹھی تھی۔ دو دِن گھر گزار کر آئی تھی اور چہرے سے بیمار لگ رہی تھی۔ ”بخار ہے مجھے” وہ دھیمے سے بولی۔ ”اوہ۔ ایک دن کے بخار سے یہ حال ہو گیا ہے”۔ روحہ کو بے چینی سی ہوئی۔ ”یہ بخار نہیں جانم تپ ِہجر ہے”۔ وہ حسبِ عادت ہنس پڑی۔
اک ہجر جوہم کو لاحق ہے تادیر اُسے دہرائیں کیا
ہولے سے شعرپڑھتی ہوئی وہ بیڈ پر درازہو گئی۔ ”طبیعت ایسی خراب تھی تو ایک دن اور گھر رہ لیتیں…” روحہ نے اُس کی سست طبیعت کے پیش نظر کہا۔
”گھر رہنا مشکل تھا۔ اماں جانی سے پیپرز کا بہانہ کر کے آئی ہوں”۔
”تم ایک دم پاگل ہو حجاب”۔
”ہاں شاید”۔وہ بے حال سی لگ رہی تھی۔ اگلے دو تین دن تک بھی اُس کی طبیعت نہ سنبھلی۔ ٹمپریچر بھی نہیں تھا لیکن وہ تھکی تھکی سی لگ رہی تھی۔
”دوپہر کو احسن کا فون آیا تھا حجاب تم سو رہی تھیں۔ شام کو ملنے آئے گا”۔ روحہ نے اُسے اطلاع دی۔
”اوہ مائی گاڈ آجائے گا بے زارکرنے”وہ چڑ گئی۔
”اتنا ہینڈسم ساکلاس فیلو ہے تمہارا اور تم ہو کہ بس …”۔
”پھر میں کیا کروں”۔
”وہی کرو جو اتنے دِن سے کر رہی ہو۔ سوئی رہو اور وہ عاشقِ نام دارخوار ہو کر خود ہی چلا جائے گا”۔ روحہ کو اس کا رویہ سخت بُرا لگا۔
”ویسے تم عجیب ہو۔ کیمپس لائف اوربوائز سے اتنا گریز۔ جب کہ تم اتنی بولڈ اور آوؑٹ سپوکن ہو”۔ روحہ حیران سی ہو رہی تھی۔
”روحہ بی بی تم کچھ زیادہ ہی چالاک نہیں ہوتی جارہیں”؟
”تمہاری دوست ہوں گو کہ عمر، تجربے اور علم میں کم ہوں لیکن عقل زیادہ رکھتی ہوں۔”
”واہ ظالم جتا دی نامجھے میری عمر، باقی دُنیا کی طرح”۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اُسی لمحے خان بابا نے اُسے آواز دی ”حجاب بی بی فون ہے”۔ ”یقینا اماں کا ہو گا”۔ وہ جلدی جلدی دوپٹہ سیدھا کرتی سیڑھیاں اُترنے لگی۔ روحہ چیزیں ترتیب دینے لگی کہ حجاب کی بیماری کی وجہ سے سارا کمرہ اُلٹ پلٹ ہو رہا تھا۔ کمرے کی حالت درست کرنے کے بعد اُس نے چائے کا سامان نکالا۔ میس کی بدمزہ سی چائے انہیں پسندنہ تھی۔ سو وہ دونوں اپنے لیے کمرے میں خود ہی چائے بنا لیتیں۔ کبھی کبھار دوسری لڑکیاں بھی اُن کی چائے کی محفل میں شامل ہو جاتیں۔ کچھ اُن کی دریا دلی پر حیران ہوتیں اور کچھ اُن کی فراغت پر۔ اظہار ِ خیال کرتیں کہ اتنا وقت مل جاتا ہے تم دونوں کو کھانے پینے کا اہتمام کرتی رہتی ہو۔
”جان ہی نہیں چھوڑتے یہ نا کام عاشق۔ پتا نہیں گھروں سے عشق کی پلاننگ کر کے آتے ہیں یونی ورسٹی”۔ وہ بڑ بڑ کرتی کمرے میں داخل ہوئی۔
”کیا ہوا حجاب کس کا فون تھا؟” روحہ نے کیتلی سے پانی کپ میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”وہی احسن… اتنی دیر وہاں کھڑے کھڑے ٹانگیں شل ہو گئیں پر اُس کی پریم کہانی ختم نہ ہو رہی تھی۔ مجھے پانی پلاوؑ”۔ وہ گہرے گہرے سانس لیتی بیڈ پر لیٹ گئی۔
”ویسے حجاب لڑکا وہ بہت نائس ہے۔ سوچ لو”۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

وہ راحت جاں — دانیہ آفرین امتیاز

Read Next

دانہ پانی — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!