اور پھر ایک ماہ کے اندر اندر انہوں نے بیاہ کی تیاری کر لی۔ وہ اپنے بھائی کے بیاہ کا دِن کس طرح بھول سکتے تھے جب مردا نے میں آکر شمع نے اُن کے بھائی کے چہرے سے سہرا نوچ لیا تھا اور گھٹیا زبان استعمال کر کے باراتیوں کو حیران کر دیا تھا۔قریب تھا کہ حالات مزید بگڑتے انہوں نے عجیب سی حکمتِ عملی اختیار کی۔ شمع کے بوڑھے باپ کو وہاں بلوایا اور غیرت کا احساس دلا کر شمع کو گھر بھجوا دیا۔ معاملہ سلجھنے کے کچھ ہی دیر بعد بارات روانہ ہو گئی تھی۔ شام کے بعد بارات دلہن لے کر واپس آئی تو شمع کے بھائی انور حسین سے اُن کی بھرے بازار میں لڑائی ہو گئی وہ خنجر لہراتاہوا اُن پر پل پڑا تھا۔ خنجر کے وار سے اُن کو بازو پر شدید زخم آیا۔ لیکن لوگوں کے جمع ہو جانے سے بیچ بچاؤ ہو گیا۔ہاسپٹل سے ڈریسنگ کروانے کے بعد وہ گھر پہنچے اور اپنی ساری فیملی کودلہا دلہن سمیت لاہور لے گئے۔ شادی اپنوں میں ہی تو ہونی تھی۔ لہٰذا خاندان میں کوئی مسئلہ نہ اُٹھا۔
انہوں نے مزید بدمزگی سے بچنے کے لیے اپنے بھائی کی دعوتِ ولیمہ لاہور میں ہی کی۔ رفتہ رفتہ دلہا دلہن کی انڈر سٹینڈنگ ہوئی تو انہوں نے سکون کا سانس لیا۔ پھر وہ اپنے سارے خاندان کو لاہور سیٹ کرتے گئے۔ گاؤں میں صرف بڑا بھائی مقیم رہا کہ جائیداد و زمین کا انتظام بھی تو سنبھالنا تھا۔ وہ دو تین سال بعد وہ بھی گاؤں کا چکر لگا لیتے۔
دانش کے خاندان سے اُن کی پرانی تعلق داری تھی۔ ذات، برادری، گاؤں کے ناطے کے علاوہ دودھ شریک ہونے کی وجہ سے وہ اُس خاندان سے ہمیشہ مخلص رہے تھے۔ دانش کے ماں باپ کی وفات کے بعد انہوں نے اپنا فرض بہ خوبی نبھایا۔ دانش کی دونوں بڑی بہنوں کی شادی میں بڑھ چڑھ کرشریک ہوئے۔دانش کو بچپن سے ہی انہوں نے اپنے پاس رکھا اور پھر آرمی میں کمیشن کے سلسلے میں قدم قدم پر رہنمائی کرتے رہے۔ دانش ایف ایس سی کے بعد زیادہ تر گاؤں کے سپرد ہی رہنے لگا تھا۔ سلیکشن کے بعد دانش نے آرمی سے ریزائن کر دیا تو وہ شدیدناراض ہوئے۔ تب سے انہوں نے دانش کے معاملات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی تھی اور اُسے اُس کے حالات کے سپرد کر دیا تھا۔ ”اب میں سمجھا۔ اسی لیے وہ آرمی سے بھاگا تھا۔ اپنی اس محبت کی وجہ سے۔ ہوں”۔ انہوں نے ہنکارا بھرا۔ ذکیہ سے سارا معاملہ جاننے کے بعد وہ سب کچھ سمجھ گئے تھے۔
”وہ خاندان جس سے مجھے شدیدنفرت ہے بلکہ عداوت بھی”۔ اُن کا موڈ سخت خراب ہو رہا تھا۔ ”دانش بھائی کو یہ کیا سوجھی؟” پاس بیٹھی حجاب ساراقصہ سُن کر حیران ہو رہی تھی۔ ”جوانی کا جوش ہے، اُسے میرے پاس بھیجو ذکیہ۔ دماغ درست ہو جائے گا۔” انہوں نے حتمی بات کی۔”میں تو ساتھ لانا چاہ رہی تھی۔ لیکن وہ مانا نہیں”۔ ”تو کیا میں خود جا کر صاحبزادے کو سمجھاؤں”۔ وہ تلخی سے بولے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”دیکھو تم اُسے میرا پیغام دو کہ کسی اور لڑکی کی طرف ایک بار اشارہ کر کے بتائے، وہیں اُس کی بارات لے جاؤں گا لیکن صابر حسین۔ ہونہہ”آج بھی اُن کے لہجے میں وہی گرج تھی۔ ذکیہ ڈر گئی۔ ”پاپا۔ دانش بھائی تو بہت ضدی ہیں” حجاب بولے بغیر نہ رہ سکی۔ ”دانش کی چمچی تم یہاں سے اُٹھو اور جا کر پڑھو”۔
انہوں نے حجاب کو ڈانٹ کر اٹھا دیا۔ ذکیہ ایک رات اُن کے پاس ٹھہر کر واپس آگئی۔
”ذکیہ تمہارے بھائی نے کیا تماشا بنا رکھا ہے۔ سارے علاقے میں رُسوا کر رہا ہے”۔ بڑے انہماک سے دوپٹے میں پھول بناتی ہوئی ذکیہ چونک گئیں۔ اُس کی تو چاروں طرف سے سختی آئی ہوئی تھی۔ لاہور گئیں تو تایا جی نے سخت سست سنائیں۔ گاؤں میں گھر سے باہر کہیں آنا جانا ہوتا تو تب دس لوگوں سے دس طرح کی باتیں سننا پڑتیں۔ سسرالی الگ کٹھی میٹھی بات جتا دیتے۔ ”میرے لیے تو اِس گاؤں میں رہنا مصیبت ہو گیا ہے۔ منصورہ اچھی ہے ناں سب مسائل سے آزاد شہر میں بیٹھی ہے”۔ اُس نے دل ہی دل میں سوچا اور اپنے میاں کی طرف متوجہ ہوئی جو ماتھے پر تیوری ڈالے اُسے کو گھور رہے تھے۔ ”صابر حسین آیا تھا میرے پاس فیکٹری۔ چھ بیٹیاں ہیں اُس کی، رو رہاتھا، تمہارے بھائی کا تو دماغ خراب ہے، کوئی کام سیدھا نہیں کرتا۔ بدنام کر رہا ہے صابر حسین کے گھر کو”۔ وہ جو مُنہ میں آیا کہہ رہے تھے۔ ”اب ایسی بھولی بن کر میرا منہ نہ دیکھو، بھائی کے کرتوت دیکھو۔ یا تو بھائی کے گلے میں پٹہ ڈالو یا دو بول پڑھوا کر غریب آدمی کو رُسوا ہونے سے بچاؤ۔ آخرہم بھی بال بچوں والے ہیں۔
”شریکا برادری ہے۔ نواب صاحب سمجھتا ہے خود کو۔ آرمی چھوڑ دی۔ اب دو سالوں سے بی۔ اے کا شور سن رہے ہیں۔ جانے کیا گل کھلائے گا لاڈلا”۔
”ایسی توکوئی بات نہیں شان کے ابا”۔ وہ صفائی پیش کرنے لگی۔
”تمہیں کیا پتا ہے بھلی لوگ۔ دونوں بہنیں اپنے گھروں میں ہیں۔ وہ گھر میں اکیلا رہتا ہے۔ روکنے ٹوکنے والا کوئی ہے نہیں۔ تمہاری آنکھوں پر تو بھائی کی محبت کی پٹی بندھی ہے”۔
”مامی شریفاں بھی تو وہیں ہوتی ہے اکیلا کب ہے”۔وہ دھیرے سے بولی۔
”مامی شریفاں… واہ… وہ بوڑھی عورت جسے ٹھیک طرح سے سنائی نہیں دیتا۔ ایک آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا وہ اُسے کیا کہہ سکتی ہے۔ بس روٹی کپڑے کا کام کر دیتی ہے”۔
اُس رات دیر تک ذکیہ کے میاں دل کی بھڑاس نکالتے رہے۔ وہ چپکی سنتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ کہ بات اتنی بڑھ گئی ہے تبھی تو اس کے میاں کو بولنے کا موقع ملا ہے۔ معاملے کے سبھی پہلوؤں پر غور کرتی وہ جانے کب سو گئی اور پھر صبح ناشتے سے فراغت پا کر جونہی اُس کے میاں فیکٹری جانے کے لیے نکلے وہ بھی چادر اوڑھ کر دوسری گلی میں اپنے میکے گھر آگئی۔ سرخ اینٹوں سے بنا یہ گھرانہیں کتناعزیز تھا یہ صرف وہی جانتی تھی۔ جونہی وہ قدیم طرز کے لکڑی کے بڑے سے دروازے کی چوکھٹ کے اندر قدم رکھتیں اُسے سکون کا احساس سا ہوتا۔ گو اُس گھر میں اُس کا بچپن اور جوانی اتنے خوش کُن نہ گزرے تھے لیکن بابل کے گھرکا احساس بڑا طمانیت بخش تھا اور آج چوکھٹ کے اندر قدم رکھتے ہوئے اسے سکون کی بجائے عجیب سے اضطراب سے گزرنا پڑا۔ ”مریم! تم اِدھرکدھر؟” اُن کے منہ سے بہ مشکل نکلا۔ مریم کے ہاتھوں میں پکڑی ٹرے میں کچھ برتن ڈھکے ہوئے تھے۔ چمکتے چہرے پر جذبوں کی لالی پھیلی ہوئی تھی۔ ”آپا، میں دانی کو ناشتہ دینے آئی تھی”۔
”لیکن کیوں”؟
”حلوہ پوری بنایا تھا ناں ہم نے، سوچا اُسے بھی دے آؤں”۔ وہ مستی اور اُمنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ”تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ خود تو ڈوبی ہو اُسے بھی لے ڈوبو گی”۔
”آپا… میں تو اُس پر جان وار دوں۔ اُس کے بغیر حلوے پوری کا کیا مزا آتا۔ آج شب برات ہے”۔
”دیکھو مریم۔ ہم پہ رحم کرو۔ تمہارے اور دانش کے مقدر نہیں ملتے خدا کے لئے اُس کی زندگی سے نکل جاؤ”۔ وہ بے بسی سے رو پڑیں۔
”ہائے میں مر جاؤں آپا۔ ساری رات میں نے جاگ جاگ اس کے لیے نفل پڑھے ہیں اور آپ کہتی ہو اُس کی زندگی سے نکل جاوؑں”۔ وہ جانے عشق و محبت کی کن منزلوں پر تھی۔ ذکیہ اُلجھ گئی۔
”تمہیں کیا ملے گاہمیں برباد کرکے”۔
”برباد… واہ میری بھولی آپا میں تو یہ گھر آباد کرنا چاہتی ہوں۔ تمہارا میکہ۔ تمہارے بھائی کی زندگی میں بہار بن کر آنا چاہتی ہوں”۔ وہ عجیب دھڑلے سے کہہ رہی تھی۔
”یہ ناممکن ہے مریم”۔
”دنیا میں ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا۔ میرا پیار سچاہے۔ آپا مجھے میرے ابا سے مانگ لو ناں… ورنہ میں…میں دانی کے ساتھ بھاگ جاؤں گی”…
”کیا کہہ رہی ہو؟” زمین اُس کے قدموں تلے کانپ اُٹھی تھی۔ اسے ایک لمحہ کے لیے گھر کی دیواریں ڈولتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ ”تو اور کیا اگر ہم ایک نہ ہو سکے تو بھاگ جائیں گے یا اکٹھے مر جائیں گے” شدتِ جذبات سے اُس کی آواز اونچی ہو گئی تھی۔
دانش اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آگیا تھا۔ ”بہت اچھا کرو گے۔ دانی ماں باپ کی قبر کو رسوا کرنے کے کن چکروں میں پڑ گئے ہو۔ ہوش کرو”۔ انہوں نے دانش کے شانے کو پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا۔
آپا کیا ہو گیا ہے آپ کو۔ وہ میرا احساس کرتی ہے۔ اگر کھانے کو لے آئی ہے تو کیا ہوا؟ آپ کیوں اتنا غصہ کر رہی ہیں؟” دانش کے لہجے میں ڈھٹائی اور بے پروائی پر وہ گرفتہ دل سی ہو گئی۔ تالی ددونوں ہاتھوں سے بج رہی تھی۔ عشق ومحبت کے اِس کھیل میں اُن کا بھائی برابر کا شریک تھا۔
”کیا بنے گا دانی؟”۔ وہ آنے والے دِنوں کا تصور کرکے ہول گئی۔
”آپ کا بھائی دُلہابنے گا۔ یہ گھر آباد ہو گا۔ میرے خوابوں کو تعبیر ملے گی۔ وہ دیکھیں آپا، میں نے وہ بیری کے اُوپر شاہ جی سے تعویز لے کے باندھا ہے۔ شاہ جی کہتے ہیں کہ مَن کی مراد نوے دنوں میں پوری ہو جائے گی”۔ عشق نے اُس لڑکی کو جرأت و بے باکی دی تھی یا رسالوں اور رومانی فلموں کا اثر تھا۔ وہ کسی طرح اپنی بات سے پیچھے نہ ہٹ رہی تھی۔ ذکیہ نے چار پائی پر بیٹھ کر سرتھام لیا۔مامی شریفاں بھی وہیں آبیٹھیں۔
”آپ اسے کیوں آنے دیتی ہیں مامی”۔
”میں کون ہوتی ہوں بیٹا۔ دانی کی مرضی، جس کا گھر ہے۔”
مامی شریفاں کی بے بسی سے وہ معاملے کی گہرائی بھانپ گئی۔ بال بچوں والی ،زمانہ ساز تھی اور عورت کی ہٹ اور ضد سے بھی آگاہ تھی۔ ”میرا خیال ہے میں اس گاؤں سے کہیں چلی جاؤں۔ میرا تو جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ میاں کی چخ چخ، تم دونوں کی ڈھٹائی۔ اچھی ہے ناں منصورہ میاں باہر بیٹھا ہے اور خود شہر میں، نہ یہاں کی کچھ سنتی ہے نہ پریشان ہے ۔”
”تو آپ کو کیا مصیبت ہے؟ میری زندگی ہے، میری مرضی”۔دانی کے چہرے پر بہت بے نیازی تھی۔
لو جی بدنام تو میں ہو رہی ہوں اور پریشان آپ ہیں”۔دونوں نے اسے گھیر لیا تھا۔
”ویسے آپا، آپ مریم کے گھر جائیں اور رشتہ مانگیں تاکہ یہ سب بک بک ختم ہو جائے۔” دانی نے جھٹ عجیب ساحل نکالاتھا۔ وہ خاموش رہی۔
”مریم اپنے گھر جاؤ” اُس کے لہجے کی سختی محسوس کرتے ہوئے مریم چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
”تایا جی، صابر حسین کے گھر تمہارا رشتہ کبھی بھی نہیں کریں گے”۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});