چاند مہکتا ہے — غزالہ رشید

”لائونج میں آنیا جان اس کی ناشتے کی ٹرالی کے ساتھ منتظر تھیں۔”
”دیکھو آج میں نے تمہارے لیے ناشتا خود تیار کیا ہے،تمہارا پسندیدہ پین کیک اور چاکلیٹ ٹرائفل مجھے معلوم ہے تمہیں صبح ہی ناشتا کرنے کی عادت ہے۔” وہ مسکرائیں۔
”جی آنیا جان! عادتیں بھلا کب بدلتی ہیں؟” اس نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
”تم ملازمت کرلو گی؟انہوں نے چائے کا کپ ٹرالی سے اٹھاتے ہوئے پو چھا۔
”جی! اسی وجہ سے تو اسلام آبا د واپس آئی ہوں اور میرا کمرہ ہے ناں؟ میں جانتی تھی کہ حسن جاوید نے میرا بیڈروم سیٹ آنیا جان کے گھر ایک ہفتے بعد واپس بھجوادیا تھا،جیولری تو لاکر میں ہی تھی اور اسے بھی جاکر دیکھنا تھا۔”
”ہاں ہاں! بلکہ میں نے اسے دوبا رہ پالش بھی کرادیا ہے، کل رات تو دل ہی نہیں چاہا کہ تمہیں اس کمرے کی .key دوں۔ ویسے تم جانتی ہو،میرے یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس جب مجھ سے ملنے آتے ہیں تو میرے ہی پاس ٹھہرتے ہیں۔ اپنے انکل کا تو تمہیں پتا ہی ہے، احمر اور سمیر کو بھی انہوں نے لندن میں ہی سیٹل کردیا، یہاں کے حالات دیکھتے ہوئے۔” آنیا کا وہی بیویوں والا انداز تھا، وہ ان پہ سوٹ بھی کرتا تھا۔





”چلیں آنیا جان! وہ کہیں بھی جاتے ہیںواپس تو اپنے ہی گھر لوٹتے ہیں ناں۔ اورآپ کے ہی ہیں نا ہمیشہ سے۔ عورت ایک بار اپنا گھر بنالے تو مضبوط ہوجاتی ہے۔” اس نے ٹھوس لہجے میں کہا۔
”ویسے تمہارے جانے کے بعد حسن جاوید کچھ عرصے تویہاں کی محفلوں کی خبر بن کر رہا، اب کچھ عرصے سے خاصی خاموشی ہے۔ ہوسکتا ہے شہر چھوڑدیا ہو۔ سال بھر تومیری فرینڈز پوچھتی رہیں کہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ مجھے بھی تم پہ غصہ آتا کہ کم ازکم مجھ سے ایک دفعہ ذکر تو کرتیں، تم نے تو کسی قسم کی ہو ا تک نہیں لگنے دی۔ میں تو ایسا اس کا دما غ درست کرتی۔ لو بھلا ہمارے خاندان کی اتنی پیا ری اور معصوم لڑکی پہ ترجیح دی بھی تو” جب تنویر نے تمہارے لیے لندن میں حسن کو پسند کرکے مجھے دکھایا تھاتو اتنا ڈیسنٹ اورسمجھ دار لگاتھا، نہ جانے کیا ہو اچانک ہی؟ زمانہ بھی کیسی چال چل جاتا ہے پتا ہی نہیں لگتا۔”
وہ اسی موضوع پہ آئیں اور یہ ہی لمحہ تھا جب اسے خود کو سنبھالنا تھا، بتانا تھا کہ یہ اس کی قسمت میںتھااور اسے سہنا بھی تھا۔
”وہ ایسا ہی تھا آنیا۔۔۔۔ ہمیں ہی اسے پرکھنا نہیں آیا،ویسے بھی انسانوں کو سمجھنا سب سے زیادہ مشکل ہے۔ وہ خود اپنی محبت میں مبتلا تھا۔ وہ گھر ،گاڑی ،بیوی،اور اپنی جاب پہ فخر کرنے والا بے حد مغرور آدمی تھا۔ تکبر انسان سے ایسے ہی فیصلے کراتا ہے۔اور سچ پو چھیں تومیں اس کی پسند ضرور تھی لیکن اس کی ہم مزاج نہ تھی۔ وہ مجھے میری ڈریسنگ اور بولڈ نیس سے جج کررہا تھا اور ایسا آپ سب نے بھی کیا، اندر تو میرے ایک اور ہی روح تھی ناں جو مجھے اداس رکھتی تھی،اور حسن جا وید کو مجھ سے کچھ ہی سا لوں میں بے زار کرنے لگی تھی، اور میں اسے اب ”بہن جی” ٹائپ پر شخصیت لگنے لگی تھی، اور مونا احمد تو مجھے بھی پسند تھی تو حسن کو پسندآگئی توحیرانی کی کیا بات تھی؟ دکھ تو صرف اپنی بے خبری کا ہے کہ میں جان ہی نہ پائی کہ کب کس وقت میری پسند اس کی محبت بن گئی؟ وہ بھی ایسی محبت جس کے لیے وہ سب کچھ چھوڑ سکتا تھا ،میرے پاس تو اسے روکنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا،حتی کہ اولاد جیسی نعمت بھی نہ تھی۔” افسردگی اس کے لہجے سے عیاں تھی۔
”تم نے سارا الزام اپنے ہی سر لے لیا، ان سب باتوں کی سمجھ مجھے تو نہیں آئی۔ ایسے تو تمہارے انکل بھی ہیں، ان کے اور میرے دوست بھی مشترکہ ہیں، لیکن یہ تو نہیں ہے ناں کہ ہر دوست آپ کی زندگی میں آئے اور آپ کا گھر ہی تباہ کرجائے۔ اصل میں تم بہت ہی سادہ ہو اپنی ماں کی طرح ،اسے بھی پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ کب کون اس کے ساتھ چال چل جاتا، ہر کسی پہ اعتبا ر کی عادت نے ہی تو اسے ہائی بلڈ پریشرکا مریض بنادیا تھا۔ کیسے اس کی زمینوں پہ اس کے دوست ہی قبضہ کرگئے، میں ہوتی اس کی جگہ یا تمہاری جگہ تو ایسا عدالتوں کے چکر لگواتی کہ سارا عشق کا بخار اتر جاتا، تم تو خود منہ چھپاکے بیٹھ گئیں۔” ان کا لہجہ تلخ ہوگیا۔
یہ ہی وجہ تھی اس رات ان کے گھر نہ آنے کی ،تین دفعہ لفظ طلاق کا سننے کے بعد گنجائش ہی کہاں تھی کہ پھر سے دل اور رشتہ جڑ پاتا،اور اب وہ پہلے والی فریا ل نہیں تھی،آگہی کا سفر شروع ہوچکاتھا،اسے اپنی تخلیق کا مقصد سمجھ آگیا تھا۔
”دیکھیںناں آنیا جان! حسن نے میری ہی وجہ سے مونا احمد کو پہلے Face Book پر تلاش کیاتھاناں،میری ہی خاطر کیاناں؟ اور پھرہم مونا احمد کے پروگرامز میں جانے لگے… ہیں ناں ایسا ہی؟؟” وہ جان رہی تھی کہ درد لا دوا ہے، لیکن سہنا تو تھا ناں!!!
” لو بھلا یہ کیا جواز ہوا اس پہ مر مٹنے کا اور تمہیں اس طرح تنہا کرنے کا؟ نہیں بھئی! میرا دل نہیں مانتا تمہاری دلیلوں کو۔” مسز تنویر کا انداز کب بدلنے والا تھا۔
شاید یہ دور ہی ایسا ہے لمحاتی فیصلوں کا، کچھ بھی کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ محبت بھی نبھانا اب پرانی روایت ہوچکی ہے۔
”دلیل تو وکیل مانتا ہے آنیا جان! محبت تو بس اپنے ہونے کا جواز مانگتی ہے۔ میں بھی شاید اپنے والدین کی جدائی میں خود سے اور شایدحسن جاویدسے بھی انجانے میں دور ہوگئی تھی اور وہ نہ جانے کب خاموشی سے راستہ بد لتا گیا۔ حسن جاوید کو تو فخر کی عادت تھی اور مونا احمد ایسی تو تھی ناں کہ اس سے ملنا، اس کی دوستی اس کا مان بڑھاتی چلی گئی اور میرا پارٹیز میں تنہا ہوجانا، بے زاری سے جانا اسے پہلے کھلنے لگا ،اور پھر اچھا لگنے لگا۔ شادی شدہ زندگی میں بے زاری آنے لگے ناں تو پھر شاید وقت ہا تھوں سے نکلنے ہی لگتا ہے، اور یقینا وقت میرے بھی ہاتھ سے نکلتا چلا گیا۔” وہ نہ جانے کیا کیا بولتی چلی گئی۔
”اس رات کیا ہوگیا کہ اس نے تمہیں ایک دم ہی طلاق دے دی۔” ان کا تجسس بڑھتا جارہا تھا۔ اس نے ایک لمبی گہری سانس لی؟
”اس رات کے لیے کیا جواز دوں؟ کیا کہانی کہوں؟ اس کی بے زاری تو میں بھی کا فی دنوں سے نوٹ کررہی تھی، آئے دن اسلام آباد سے مری کے ٹوئرز…. آپ کے گھر واپسی پروہ مسلسل اصرار کررہا تھا بلکہ مجھے قائل کررہا تھاکہ آپ کا اتنا بڑا گھر ہے، آپ بلاتی بھی رہتی ہیںتو مجھے آپ کے گھر رہنے جا نا چاہیے، رہنا چاہیے۔ بس بحث شروع ہوئی کیوں؟؟ اور پھر بیڈروم میں آتے ہی پھر سے شروع ہوگیا…. میں اکثر ہی خاموش ہو جاتی تھی ،لیکن نہ جانے کیوں مجھے بھی غصہ آگیا۔ گلا س رنگوں سے بھرنا اس کی عادت تھی، لیکن شاید میرا بھی صبر جواب دینے لگاتھا۔ وہ بولتا رہا اور اسی درمیان اس کے الفاظ میری روح تک زخمی کر گئے جب اس نے میرے مرحوم والدین کے بھی بارے میں فضول بولنا شروع کیا۔ ”آنیا جان” اس نے کہا ”مجھے تمہاری شکل ایک آنکھ نہیں بھاتی، تم میری برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہو،تم اور تمہارا گھرانہ مغرور ہے، بس خود پر فخر کرنا ہی آتا ہے تم جیسے لوگوں کو تم سب جوہر شناس ہو، میں ہیرا ہوں اور۔۔۔ اور… اورتم پتھر۔۔۔ صرف پتھر ہو اورخود کوسنگ مر مر کی مورتی سمجھتی ہو؟ بے جان مورتی جائو نکل جائو میرے گھر سے میں کہہ رہا ہوں نکل جائو۔۔۔۔طلاق دی تمہیں۔۔۔ طلاق! طلاق” اب کبھی بھی مجھے اپنی منحوس شکل نہ دکھا نا۔ اور پھر گاڑی نکال کے جاتے ہوئے چوکی دار سے کہا۔ کہ میں نے اسے طلاق دے دی ہے، تم اسے ٹیکسی لادو، یہ دفع ہوجائے یہاں سے!!!” وہ ربوٹ کی طرح بول رہی تھی اور وہ گھر سے چلا گیا۔
مسزتنویر احمد کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ اسے گلے لگا کے ایک بھی لفظ کہہ سکتیں۔درد کی کیفیت نے اسے کیا پتھر بنادیا تھایا پھر وہ سیپ میں چھپا موتی تھی۔
اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر کیا: ”اس وقت مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ میں آپ کے پاس آگئی تو وہ بار بار منانے آئے گا۔ عدت آپ کے گھر گزارنے اسی لیے نہیںآئی۔ ” وہ بے بسی سے مسکرائی۔
”اب تو صرف میری ذات ہے۔ سوچتی ہوں اسی لیے اللہ تعالی نے اس کے ساتھ ان سالوں میںمجھے اولاد نہیں دی۔ اب سوچا ہے جاب کروں گی، آپ کے ساتھ رہ کے بہت سی یادیں شیئر کروں گی، جو چھوٹی چھوٹی ملاقاتوں میں شاید دل میں ہی رہ جاتی تھیں اور آپ نے بھی میرے لیے پریشان نہیں ہونا، قران حکیم کی تفسیر بہت اچھی طرح پڑھی تو اپنے رب سے عشق ہوگیا، جو چھوڑ جائے وہ ہمارا ہوتا ہی کب ہے کہ اسے روتے روتے زندگی کی اس نعمت سے بندہ منہ ہی موڑ لے۔۔۔ زندگی بار بار تو نہیں ملتی ناں کہ روتے روتے گزاردی جائے۔۔۔ انسان ہونے کے ناتے میرا بھی اس زندگی پہ اتنا ہی حق ہے جتنا حسن جاوید کا ہے۔ وہ بھی تو مونا احمد کے ساتھ خوش ہی ہوگا ناںجو اسے ایک بار بھی میرا خیال نہیں آیا۔ کیسے بے یار ومددگار چھوڑ گیاتھا ناں اس رات چوکی دار کے حوالے کرکے۔ اب میں بھی جینا چاہتی ہوں، یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ میرا نصیب وہ تھا ہی نہیں۔۔۔ میرا ہم سفر، میرا ہم مزاج مجھے بھی خود ہی تلاش لے ورنہ اب میں اتنی بری بھی نہیں کہ آپ بھی مجھے گھر سے نکال دیں” وہ اپنی آنیا جان کو حیران چھوڑ کے ٹرالی کے ساتھ کچن کی طرف بڑھ گئی۔
اسے بھی خود کو، نئی جاب کی ذمہ داریوں کو سنبھا لنا تھا۔ روز روزبھلاان سوالوں کے جواب اور وضاحتیں کیوں دیتی؟
جان گئی تھی پچھتا وے تو ہم انسانوںکو دیمک بن کے چاٹ جاتے ہیں ناویسے بھی اسے اب آگہی نے یہ علم بھی عطا کیاتھا۔
”اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے ذیادہ تکلیف نہیں دیتا۔”
(سورئہ الاا عراف)
ختم شد




Loading

Read Previous

اچھے بچے

Read Next

الف نگر میگزین ۔ جولائی اور اگست ۲۰۲۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!