پراڈکٹ – نظیر فاطمہ

سبزی منڈی کے ایک جانب گلی سڑی سبزیوں کے ڈھیر تھے، جن پر مکھیاں اور مچھر بھنبھنا رہے تھے ۔ ارد گرد ناقابلِ برداشت بد بو پھیلی ہوئی تھی ۔ ہلکی سی ہوا چلتی تو بدبو کے یہ بھبھکے اس کے ساتھ لپٹ کر دور دور تک چلے جاتے اور لوگوں کو ناک پر ہاتھ رکھنے پر مجبور کر دیتے ۔ گندے مندے حلیے والے پانچ سات بچّے ان ڈھیر وں میں سے قدرے کم گلی سڑی سبزیاں اکٹھی کر کے اپنی بوریوں میں ڈال رہے تھے۔یہ گلی سڑی سبزیاں ان کا پیٹ بھرنے کا وسیلہ تھیں ۔ بھوک شاید سب سے بڑی بیماری ہے یا پھر غریب سب سے ڈھیٹ مخلوق ۔۔۔تبھی تو یہ گلی سڑی سبزیاں، گندا پانی اور باسی کھانا ان لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔ جب کہ لوگ گلی سڑی سبزیوں کے ان ڈھیروں کے پاس سے گزرنے سے بھی پرہیز کرتے تھے۔





ایک سیاہ چمچمائی لینڈ کروزران ڈھیروں کے قریب آ کر رکی ۔ گاڑی اتنی چمک دار تھی کہ سیاہ رنگ ہونے کے باوجود اس میں آئینے کی طرح ہر چیز کا عکس دیکھا جاسکتا تھا۔ گاڑی سے ایک شخص اُترا۔اُس کے چہرے پر صحت مندی اور آسودگی کی چمک تھی۔گلے میں نئے ماڈل کا مہنگا ترین کیمرہ لٹک رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں بڑا سا شاپر تھا۔ پیروں میں امپورٹڈ جاگرز جو اپنی قیمت کا چیخ چیخ کر اعلان کر رہے تھے ۔مہنگی جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس اس شخص نے گویا آسمان سے سیدھا زمین پر پائوں رکھا تھاجس پر زمین کی کسی مشکل یا گندگی کا ذرا برابر اثر نہیں ہوا تھا۔بدبو کا تیز بھبھکا اس کے نتھنوں سے ٹکرایا۔ اس بدبو کو بڑی مشکلوں سے برداشت کر کے وہ آگے بڑھا۔وہ کوڑے کے ڈھیروں کے قریب پہنچا تو وہاں گلی سڑی سبزیاں چنتے بچّے اپنی بوریاںچھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور حیرت سے اُسے دیکھنے لگے۔قریب تھا کہ وہ بچّے اپنی بوریاں اُٹھا کر بھاگ جاتے، اُس شخص نے پیش بندی کی۔
”ارے، ارے، بچّو! کہاں جا رہے ہو؟ ٹھہرو شاباش! یہ دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں؟” اُس نے ایک پھولا سا شاپر اُن کے سامنے لہرایا جسے دیکھ کر بچّے وہیں ٹھہر گئے ۔
” اوئے کچھ کھانے والا ہو گا۔ رک جاتے ہیں۔” وہ بچّے جن کے چہروں سے بھوک لپٹی ہوئی تھی ، آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔
” اس میں تم لوگوں کے لیے کھانے پینے کی بہت سی چیزیں ہیں، کھائو گے؟” اُن کے ٹھہرنے پر اُس شخص نے اُنھیں جیسے لالچ دیا۔بچّے شرم اور جھجھک کے مارے ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے ہاں میں سر ہلانے لگے۔
” پہلے تم لوگوں کو میرا ایک کام کرنا ہو گا۔بولو کرو گے؟”کھانے کی چیزوں کے لالچ میں بچّے سب کچھ کرنے کو راضی تھے۔
”شاباش! ٹھیک ہے۔ پہلے میں تم لوگوں کی کچھ تصویریں اُتاروں گا ۔ پھر یہ ساری چیزیں میں تم لوگوں میں بانٹ دوں گا۔ چلو اب میں جیسے تمہیں کہتا ہوں ویسے کرتے جائو شاباش۔” اُس نے اپنا کیمرہ ہاتھوں میں پکڑ کر سیٹ کرنا شروع کیا۔
” چلو تم سب اپنی اپنی بوریاں پکڑ کر اس ڈھیر سے سبزیاں تلاش کرو۔”
بچّے جھٹ پٹ اپنا کام کرنے لگے، یہ ان کا روز کا کام تھا۔ وہ شخص ہر ہر زاویے سے انہیں فوکس کرنے لگا ۔کوئی دس بارہ تصویریں اُس نے گروپ میں اُتاریں۔ ہر تصویر اُتارتے وقت اُس نے بچّوں کو مختلف ہدایات دی تھیں۔
”اب تم یہ گلا ہوا ٹماٹر اس طرح منہ میں ڈالو۔” اُس نے ایک لڑکے کو ہدایت دی۔
وہ بچّے تو گلی سڑی سبزیاں کچی کھا جانے میں ماہر تھے۔ اُس نے بالکل اُسی طرح وہ ٹماٹر منہ میں ڈالا جس طرح اُسے ہدایت کی گئی تھی۔
”گڈ۔” اُس شخص نے حسبِ منشا نتائج ملنے پر خوش ہو کر بچّے کو سراہا۔
پھر اُس نے ہر بچّے کو انفرادی طور پر ہدایات دے کر فوکس کیا ۔ہر تصویر کو دیکھنے کے بعد وہ شخص جیسے خوشی سے جھوم رہا تھا۔ اُس کا جوش اُس کے چہرے سے چھلک رہا تھا۔ تقریبا ً ایک گھنٹے کی محنت کے بعد اُس شخص نے اپنا کام مکمل کیا، کیمرہ بند کیا اور بڑا شاپر کھول کر اس میں سے چھوٹے چھوٹے شاپر نکالے ۔ ہر شاپر میں دو دو چکن پیٹیزاورجوس کا ایک ایک چھوٹا ڈبہ تھا۔
” آئو ، یہ لو ” اُس نے ایک ایک شاپر ہربچّے کو دیا۔
اس کے بعد اس نے اپنی جیب سے والٹ نکالا اور ہر بچّے کو سو سو روپے کا نوٹ دیا۔ وہ ایک گھنٹے سے یہاں تصویریں اُتار رہا تھا ۔ اُس کو دیکھ کر کئی لوگ وہاں جمع ہو گئے تھے۔ وہ سب دم سادھے اُس شخص کی فیاضی ملاحظہ کر رہے تھے، جو کوڑا کرکٹ چن کر اپنا رزق تلاش کرنے والے بچّوں پر اتنا مہربان ہو رہا تھا۔
” اچھا بچّو! اللہ حافظ” وہ پلٹ کر اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا تو ایک ادھیر عمر شخص نے اُسے پکارا:
”صاب! یہ سب تو غریب بچّے ہیں، ان سے اتنی محبت کیوں؟”اُس نے پلٹ کر سوال کرنے والے کو دیکھا۔
”یہ بچّے میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔” اُس نے مسکرا کر سامنے دیکھا جہاں وہ بچّے کھانے کے ساتھ نبرد آزما تھے ۔ پھر اُس نے اطمینان بھری گہری سانس کھینچی اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے گاڑی بھگائی اور گاڑی کے پہیوں سے سے اُڑنے والی دھول نے چند لمحوں کے لیے سارے منظر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
٭…٭…٭





پیرس میں فوٹو گرافی کے عالمی مقابلے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس مقابلے میں پوری دنیا کے مشہور فوٹو گرافرزنے حصّہ لیا تھا ۔پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے فوٹو گرافر کو لاکھوں ڈالر انعام دیا جاناتھا ۔ ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور تھوڑی دیر میں مقابلے کے نتائج کا اعلان ہونے والا تھا۔ نمائش میں حصہ لینے والے تمام فوٹو گرافرز یہاں موجود تھے۔سب کی کھینچی گئی تصاویر ہال کی دیواروں پر آویزاں تھیں۔ مقابلے کا عنوان تھا ”ٹاکنگ فوٹو گرافس”۔ مقابلے کے نتائج کا اعلان شروع ہوا ۔ تیسری اور دوسری پوزیشن کا اعلان ہونے لگا۔ان پوزیشن ہولڈر زکی بڑی اسکرین پر دکھائی جانے والی تصویریں واقعی بولتی ہوئی تھیں۔ تالیوں کا شور تھما تو سب دل تھام کر پہلی پوزیشن کے اعلان کا انتظار کرنے لگے۔
”پہلی پوزیشن جاتی ہے عالم گیر جیلانی کو۔”
انگریزی زبان میں اعلان ہو رہا تھا اور ساتھ ہی بڑی اسکرین پر عالم گیر جیلانی کی کھینچی گئی تصاویر ایک ایک کر کے دکھائی جا رہی تھیں۔کوڑے سے کھانے پینے کی چیزیں چنتے ہوئے بچّے،وہ گلی سڑی سبزیاں کھاتے ہوئے ننگ دھڑنگ بچّے جو جانور بھی سونگھنے کے بعد چھوڑ کر چلے جاتے تھے ۔ عالمگیر جیلانی کی تصاویر”ٹاکنگ فوٹو گرافس’ ‘نہیں بلکہ ”شائوٹنگ فوٹو گرافس” تھیں جوغربت، بھوک، محرومی اور حسرت کا چیخ چیخ اعلان کر رہی تھیں۔
عالم گیر جیلانی نے تالیوں کی گونج میں دو لاکھ ڈالر کا چیک فخر سے مسکراتے ہوئے وصول کیا۔ دو ہزار کی سرمایہ کاری کر کے اُس نے دو لاکھ ڈالر کمائے تھے۔ آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بڑا کاروباری ذہن رکھتا تھا اور ایک کاروباری شخص کے لیے اس کی پراڈکٹ سب سے قیمتی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کی کامیابی کا انحصار اُس کی پراڈکٹ پر ہوتا ہے۔ غربت اور کسمپرسی کا چلتا پھرتا اشتہار یہ بچّے عالم گیر کے لیے بہت قیمتی تھے، کیوں کہ وہ اس کی پراڈکٹ تھے۔




Loading

Read Previous

فتور – ماہ وش عدیل کرمانی

Read Next

لوریوں کا پیکٹ – فرزانہ ریاض

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!