پتھر، پارس، ہیرا

پتھر، پارس، ہیرا

شبینہ گل

”میں ایک پتھر ہوں۔ لڑھکتا ہوا پتھر۔ان چاہا، بے مول، لایعنی، بے مقصد۔ ٹھوکروں کی زد میں رہنا اور لڑھکتے لڑھکتے عمر تمام کر دینا جس کا مقدر، خود کو غبار آلود، بدہیئت بنا کر اپنی اصل شکل کھو دینا جس کا انت ہے۔“
مٹیالے پتھر نے فریاد کی تو پاس پڑے بھورے سے پتھر کے وجود پر سمجھ داری بھری ملائمت چمکی۔
”یہ صرف تمہاری سوچ ہے اور ہر کسی کے مقدر کا سرا کہیں نہ کہیں جا کر اس کی اپنی سوچ کی جڑوں سے ملتا ہے۔ میں بھی پتھر ہوں۔ اسی خاکی زمین کی پیداوار اسی کی زینت ہوں۔لیکن یہ مجھ پر منحصر ہے کہ میں ٹھوکروں کی زد میں آکر راندۂ درگاہ ہو جاؤں یا اپنے وجود کو نکھار لوں۔ اس گردو غبار کی لپیٹ میں خود کو دے کر بری الذمہ ہو جاؤں یا اس سے بچ کر اپنا وجود چمکا لوں۔ یہ میرا اپنا انتخاب ہے کہ میں نے ان ٹھوکروں سے خود کو رگڑ کر گھس کر اپنی بناوٹ کو نکھار لیا۔“ لڑھکتے پتھر نے توجہ سے اسے دیکھا۔ وہ بھورا پتھر جواقعی بے حد چمک دار تھا، اس کی سطح شفاف اور ملائم تھی اور ساخت کی گولائی میں خوب صورتی تھی۔ فطری حسن کا کوئی دیوانہ اسے دیکھتا تو لحظہ بھر سوچے بنا اسے اُٹھا کر اپنے گھر کی سجاوٹ کی اشیا میں نادر اضافہ کرنے میں خوشی محسوس کرتا۔ وہ قائل تو ہوا لیکن پسپا نہیں ہوا۔ چند لمحوں کی خاموشی نے اسے چند مزید تاویلیں عطا کی تھیں جنہیں دلائل کی جگہ استعمال کرتے ہوئے وہ پھر بولا۔
”لیکن میں خود کو ٹھوکروں سے بچاؤں بھی تو بھلا کیسے؟ حضرت انسان کی ہر ٹھوکر اتنی خوف ناک اور طاقت ور ہوتی ہے کہ لمحوں میں کہیں کا کہیں پہنچا دیتی ہے۔ میں روتا بلکتا، لڑھکتا سسکتا دور…… مزید دور جا پڑتا ہوں۔ لڑھکتے لڑھکتے کسی کے پیروں تلے آکر اس کے لڑکھڑانے کا باعث بن جاؤں تو پہلے سے بھی زیادہ خوف ناک ٹھوکر میرا مقدر ہوتی ہے۔ اس ٹھوکر سے مزید آگے کسی کا مالی نقصان ہو جائے تو وہاں الگ زیر عتاب آتا ہوں۔ ہر کسی کو بس اپنی ہی تکلیف کا احساس تڑپاتا ہے میرے احساسات کی بھلا کس کو سمجھ، کس کو فکر؟“
بھورا پتھر بُردباری سے مُسکرایا، ہمدردی سے آگے کو آیا پھر نرمی سے بولا…… اپنی چمک دار سطح کی نرم چمک جیسی نرمی سے، ”بات پھر وہی آجاتی ہے کہ تم نے زمانے کی ٹھوکروں کو منفی لیا اور کچھ نہ سیکھا۔ ہر ٹھوکر ایک نیا درس ایک نیا ہنر دیتی ہے۔ تم اس درس اس ہنر سے صرف نظر کر کے محض اپنی چوٹوں پر نگاہ جمائے روتے رہے اسی لئے کملا گئے۔ تم نے زمانے کی ٹھوکروں میں چھپے اسرار و و رموز نہ سمجھے، ان میں دبے جوہر نہ کھوجے۔ اُدھر دیکھو، وہ پارس ہے۔ وہ بھی کبھی عام سا پتھر تھا۔ لیکن دیکھو اس نے کیسے زمانے کی نبض کو تھاما ہوا ہے۔“
پارس آگے آیا۔ لڑھکتے پتھر نے دیکھا وہ بھی عام سی ہیئت کا پتھر تھا لیکن اس کے وجود پر اس کی حیثیت کا دبدبہ چمکتا تھا۔ لڑھکتا مٹیالا پتھر مرعوب ہوا۔ پارس مُسکرایا۔
”ہاں میں بھی عام سا پتھر تھا۔ لیکن میں شکوہ کناہ نہیں میں بھی در در ٹھوکریں کھاتا رہا، مجھے دنیا صرف اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی رہی اور میں بہ خوشی استعمال ہوتا رہا۔“ لڑھکتا پتھر پھر ایک بودی سی منطق کھینچ لایا اور قدرے نخوت سے بولا:

”ہاں لیکن تم پارس ہو۔ تم تو لوگوں کو چھو کر انہیں سونا بنا دیتے ہو۔ تمہاری بھلا کیوں نہ قدر و منزلت ہو……“
پارس تلخی سے مسکرایا۔
”تم اپنی ہی کہی بات پر غور کرو۔ میں پارس پتھر ہوں، لوگوں کو چھو کر سونا بنا دیتا ہوں لیکن میں خود تو پتھر ہی رہتا ہوں نا۔ خود تو مجھے کبھی بھی حاصل نہیں ہوتا۔ قدرومنزلت لوگ مجھے نہیں اس سونے کو دیتے ہیں جو وہ میرے طفیل حاصل کرتے ہیں۔ مجھے تو وہ محض استعمال کرتے ہیں۔ تو پھر کیا سمجھے؟ میرا کام صرف دینا اور دیتے رہنا ہے، لینے کی حرص سے عاری۔ بدلے میں مجھے صرف نام ملا ہے۔ پارس۔“
بھورا پتھر پھر آگے آیا اور بولا:
”میں بھی اسے زندگی کا یہی فلسفہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔“ایک کونے میں روشنی کا کوندا سا لپکا۔ ان تینوں پتھروں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی۔ وہ ہیر اتھا۔ پارس کی چمک بڑھی۔
”اسے دیکھو یہ ہیرا ہے۔ یہ بھی پتھر ہے اور یہ تو بہ ذاتِ خود کتنا قیمتی ہے۔ لیکن اس کی قدروقیمت بھی اسے بھلا کیا دے رہی ہے۔ یہی دے رہا ہے لوگوں کو سب کچھ۔ پیسہ، فائدہ، خوب صورتی، شان و شوکت، عزت……“
ہیرے کے رُعب حسن و جمال سے مٹیالا لڑھکتا پتھر کچھ اور بد صورت ہو گیا، کم مائیگی اور کمتری کے احساس سے۔
”ہاں مگر اس کی کتنی عزت ہے۔ اسے سونے میں جڑا جاتا ہے، حفاظت سے تجوریوں میں سنبھالا جاتا ہے، لاکھوں کروڑوں میں تولا جاتا ہے۔ یہ جس کی ملکیت ہو لوگ اس سے جلتے ہیں۔ یہ لوگوں کی ٹھوکروں میں تو نہیں رہتا۔“
ہیرا اس کی بات پر کرب سے مسکرایا۔
”ہاں تم صحیح کہتے ہو۔ لیکن عزت و مرتبے کے اس مقام تک پہنچنے سے قبل، جو مجھ پر گزرتی ہے وہ کون جانتا ہے۔ ہاں میں ٹھوکروں میں نہیں رہتا، مگر میں اذیتوں کے بحرِ بیکراں عبور کر کے اس درجے کو پہنچتا ہوں۔ سونا بھی تپ کر کندن بنتا ہے۔ انسان بھی آزمائشوں کی بھٹی میں جل کر ولی بنتا ہے۔ زمین بھی ہل کر تکلیفیں جھیل کر بیج کو زندگی دیتی ہے۔ ماں بھی موت کو چھو کر بچے کو جنم دیتی ہے۔ تم یہ کیوں سوچے بیٹھے ہو کہ تمہیں بنا ٹھوکر کے عالی مرتبہ مل جائے؟“
پتھر، پارس دنگ ہوئے۔ ہیرے کی کہانی ابھی ادھوری تھی۔
”میرے اس خوب صورت وجود کے گرد ٹنوں وزنی خام پتھر ہوتے ہیں۔ اس حسین پیکر کے حصول کے لیے مجھے کوٹنے، توڑنے اور کچلنے جیسے ہزاروں اذیت بھرے مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی میرے وجود سے چپکے گرد و غبار اور کنکروں کو مجھ سے جدا کرنے کے لیے مجھے اُبلتے پانیوں سے گزارا جاتا ہے۔ کوئی بھی شے آسانی سے دوام حاصل نہیں کر سکتی۔ زندگی جینا سہل نہیں ہوتا۔“ لڑھکتا پتھر لاجواب تھا لیکن شکست تسلیم کرنا آسان کب ہوتا ہے۔ وہ پھر منمنایا۔
”مر مر بھی تو پتھر ہے، کتنا خوب صورت ہے…… ایک میں ہی بدصورت ہوں، بد قسمت ہوں۔“
پارس کو غصہ آیا تو بولا:

Loading

Read Previous

مرد

Read Next

سعی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!