مرد

مرد

محمد طارق سمرا

 

جھولنے اور پالنے کا تو پتا نہیں، لیکن جب سے شعور کا پہلا در وا ہوا، وہ یہی سنتا آیا تھا کہ ”تم ایک مرد ہو اور مرد کبھی رویا نہیں کرتے۔“
بچپن میں کھلونا ٹوٹنے پر یا من پسند ٹافیاں چھن جانے پر وہ جب جب بھی رویا اسے یہی درس دیا گیا تم ایک مرد ہو اور مرد کبھی رویا نہیں کرتے۔
تب اسے معلوم نہیں تھا کہ مرد کس بلا کا نام ہے۔ البتہ ہوش سنبھالنے تک رفتہ رفتہ اس کی سمجھ میں آگیا کہ مرد ایسی بلا ہے جس میں مردانگی ہو۔ مردانگی ایک کیفیت کا نام ہے۔یہ پہاڑوں جیسا حوصلہ، سمندروں جیسی گہرائی اور پھل دار درختوں جیسے ظرف کا نام ہے۔مرد بننے کے لیے عزم اور ارادے کی چٹان بننا پڑتا ہے۔ایسی مستحکم چٹان کہ ناموافق حالات کی آندھیاں اور طوفان جتنا مرضی سر ٹکرائیں، ٹکرا کر خود ہی بکھر جائیں۔اورنرم خو اتنا کہ کوئی محبت سے تیشہ بھی چلا ئے تو بدلے میں دودھ کی نہریں پائے۔ اندر ہی اندر چاہے غیظ و غضب کا آتش فشان اُبل رہا ہو لیکن باہر سے خاموش اور پرسکون، گنگناتی ندیاں اور میٹھے چشمے بہاتا ہوا۔
وہ ایسا مرد تو نہیں بن سکا لیکن جوان ہونے تک اس نے اپنے آنسوؤں پر ضبط کرنا سیکھ لیا۔ اس بات کا ادراک اسے تب ہوا جب ابرار احمد، علینہ شیرازی اور وہ خود ایک تکون کے تین ضلعے بن گئے۔ ابرار احمد اس کے بچپن کا دوست اور لنگوٹیا یا رتھا،جس کے بغیر اس کا بچپن اور لڑکپن ادھورا اور اس کے آس پاس بکھری کائنات کی شوخیاں پھیکی اور رعنائیاں بے رنگ تھیں اور علینہ شیرازی اس کے من مندر کی جھیل میں کھلنے والا محبت کا پہلا پھول، جسے اس نے کبھی چھوا نہیں تھا لیکن اس پھول کی خوشبو نے اس کی جوانی کو سر سے پاؤں تک معطر کردیا تھا۔لیکن اس سے پہلے کہ یہ خوشبواس کے وجود سے نکل کر اس کی کائنات میں اپنے ہونے کا اعلان کرتی، اسے معلوم ہوا کہ اس کی راتوں کو رت جگے اور نیندوں کورنگین خواب دینے والی، اس کے یار ابرارپر فریفتہ ہے اور صرف یہی نہیں اس کا یار بھی اسی جان جاناں کی زلفوں کا اسیر ہے۔ اس کے اندر باہر کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ اس کا جی چا ہا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ روتے روتے ہلکان ہوجائے، گریبان پھاڑلے اور جنگل بیابان کی راہ لے لیکن وہ ایسا نہ کرسکا۔ ایک جملے نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا۔اسے کرب کی لذت سے آشنا نہیں ہونے دیا۔وہ ایک جملہ، جو بچپن سے اس کے لاشعور میں انڈیلا جا رہا تھا کہ تم ایک مرد ہو اور مرد کبھی رویا نہیں کرتے۔
وہ تقدیر کے اس ستم کو ہنس کر سہ گیا اور اپنی محبت کے پھول کو اپنے یار کے آنگن میں کھلانے کی تگ و دو میں لگ گیا۔علینہ شیرازی اگرچہ اس کی دور پار کی کزن بھی تھی لیکن اس کا حوالہ معتبر تھا۔ علینہ کے گھر والوں نے اس کی طرف سے گارنٹی ملنے پر ابرارکا رشتہ قبول کرلیا اورجلد ہی ان کی شادی بھی ہوگئی۔اس کے بعد تو ابرار کی قسمت کو جیسے پر سے لگ گئے۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے اچھی تنخواہ پر کنٹریکٹ ہوگیا اور وہ اپنی قسمت کی پری کو لے کر پہلے لاہور، پھر اسلام آباد اور بالآخر کینیڈا شفٹ ہوگیا۔دونوں میاں بیوی اس کو بھول کر اپنی دنیا میں مگن ہوگئے۔فاصلے تو یوں بھی قربتوں کے قاتل ہوتے ہیں۔لیکن ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ ایک دن ابرا راحمدجو اس کی ان کہی کو فوراً سمجھ لیتا تھا،اس کی آواز سن کر بھی اسے نہ پہچان پایا اور ”سوری رانگ نمبر“ کہہ کر فون بھی کاٹ دیا۔اسے لگا اس کا وجود اپنی روح سے کٹ گیا ہے۔ کئی دن اس کا دل خون کے آنسو روتا رہا لیکن اس نے آنکھ سے کوئی آنسو نہیں ٹپکنے دیا کیوں کہ وہ ایک مرد تھا اور مرد کبھی رویا نہیں کرتے۔

ابرا ر اور علینہ کے بغیر اس کی زندگی بے کیف تھی۔ لیکن تھی تو زندگی ہی اور زندگی جیسی بھی ہو اسے جینا پڑتا ہے۔اس نے بھی اپنی زندگی جینے کے لیے اور خود کو حوصلہ دینے کے لیے ماں کی شدید خواہش پر اپنی ماموں زاد کزن زرینہ سے شادی کرلی۔
زرینہ حور پری نہیں تھی لیکن اچھی لڑکی تھی اور بیوی اس سے بھی اچھی۔عام بیویوں کی طرح ہر وقت ترازو ہاتھ میں پکڑے شوہر کی محبت نہیں تولتی اور نہ ہی محبت کے لالچ میں شوہر سے محبت کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دل علینہ شیرازی میں اٹکا ہونے کے باوجود سرفراز شاہ کی زرینہ کے ساتھ اچھی نبھنے لگی۔ دوسرے ہی سال اللہ نے انہیں ایک چاند سی بیٹی بھی عطا کردی۔جس کی شکل وصورت تو باپ پر تھی لیکن رنگ روپ نہ جانے کہاں سے چرا کر لائی تھی۔اگر بچے فرشتے ہوتے ہیں تو وہ سچ مچ جنت کی حورکی تھی۔ ذرا بڑی ہوئی تو خاندان کی آنکھوں کا تارا بن گئی اور بڑی ہوئی تو اپنی معصوم اداؤں سے پورے اسکول کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔پھر باپ کے دل کی دھڑکن کیوں نہ بنتی۔اسی نے تو سرفراز شاہ کی زندگی کو جینے کا قرینہ سکھایا تھا۔لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ایک دن اچانک خاندان کی آنکھو ں کی روشنی، باپ کے دل کی دھڑکن باپ کا دل دھڑکتا چھوڑ کرجنت کی مکین ہوگئی۔خاندان میں ہی نہیں محلے بھر میں کہرام مچ گیا۔ جس جس نے سنا اشک بہائے بنا نہیں رہ سکا۔ایک نہیں رویا تو سرفراز شاہ نہیں رویاکیوں کہ بہرحال وہ ایک مرد تھا اور مرد کبھی رویا نہیں کرتے۔

Loading

Read Previous

خوبصورت آنکھیں

Read Next

پتھر، پارس، ہیرا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!