پتھر، پارس، ہیرا

”اسود بھی تو پتھر ہے۔ وہ تو خوب صورت نہیں اگر تمہاری نگاہ سے دیکھا جائے، پھر اس کے چاہنے والے دیکھو اربوں کی تعداد ہے۔“
”اسی لیے تو کہتا ہوں سب مقدروں کے کھیل ہیں۔ یہ اسود کا مقدر ہے کہ وہ مقدس حیثیت پا گیا۔“ لڑھکتا پتھر پھر اپنی ہٹ پر ڈٹ گیا۔
”اگر دنیا میں صرف مقدر ہی کا وجود دائم اور اٹل ہوتا تو دعا کا وجود نہ ہوتا پھر۔ محنت، کوشش اور لگن کا وجود نہ ہوتا۔ اللہ یہ نہ کہتا کہ دعا اور کوشش سے تقدیر کو بدلنے کی سعی کرو۔ انسان وہ واحد مخلوق ہے جس کے پاس محنت کوشش اور لگن کے ساتھ ساتھ دعا کا ہتھیار بھی موجود ہے اور دیکھو حضرت انسان کو، جتنے زیادہ ہتھیار ہیں اتنا ہی وہ نہتا ہے، اتنا ہی ناشکرا ہے۔“ ہیرا تلخ ہو گیا۔
لڑھکتا پتھر جوش سے بولا:
”ہاں مجھے بھی اپنا وجود انسان جیسا ہی لگتا ہے۔ انسان اتنا کچھ ہوتے ہوئے بھی آخر میری طرح کیوں جا بہ جا لڑھکتا پھرتا ہے۔ تم کہتے ہو انسان کے پاس یہ قوی ہتھیار ہیں۔ پھر بتاؤ وہ کیوں روتا ہے؟ وہ کیوں در در لڑھکتا ہے؟“
پتھر کا یہ سوال پارس سے تھا، جو سب سے زیادہ سمجھ دار تھا۔ پارس دُکھ سے مسکرایا اور بولا۔
”تمہارا جواب تمہارے ہی سوال میں پنہاں ہے۔“
”وہ کیا بھلا؟“
”کیوں کہ انسان نے بھی خود کو بھلا انسان کب رہنے دیا ہے۔ پتھر ہی تو بنا لیا ہے۔ لڑھکتا ہوا پتھر۔ رولنگ سٹون۔“
پتھر، پارس، ہیرا۔
مہر بہ لب تھے۔ اب چار سو معنی خیز خاموشی کا راج تھا۔

٭٭٭٭

Loading

Read Previous

مرد

Read Next

سعی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!