میخیں
افسانہ
منیر احمد فردوس
”منو پتر! جا بھاگ کے جا، بازار سے تین انچی والی میخیں لے کے آ۔“ بابا نے مجھے پانچ روپے کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا اور میں پیسے لے کر بازار کی طرف دوڑ پڑا۔
کئی راتوں سے یہ خواب میری آنکھوں سے چمٹا ہوا تھا اور میں تحیر خیز لمحوں میں جکڑا ہوا تھا کہ بابا کیوں بار بار خواب میں آ کے مجھے میخوں کا کہہ رہے ہیں؟میرے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ زندہ ہوتے تو پوچھ بھی لیتا مگر انہیں تو فوت ہوئے چند برس بیت گئے تھے۔ بابا ہر دوسرے تیسرے روز خواب میں آ کر بالکل اُسی طرح مجھے میخیں لینے بھیج دیتے جیسے وہ فرنیچر کی دکان پر کام کرتے ہوئے بچپن میں مجھے کہا کرتے تھے:
”منو پتر! جا بھاگ کے جا، بازار سے تین انچی والی میخیں لے کے آ۔“
پہلے تو میں نے خواب پرکوئی خاص توجہ نہ دی مگر ایک رات بابا جب لہو لہان آنکھوں کے ساتھ میری نیندوں میں داخل ہوئے تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ ان کی آنکھوں میں تین انچی والی میخیں اتری ہوئی تھیں اور ان کے ہونٹوں پہ ایک ہی بات جاری تھی:
”منو پتر! جا بھاگ کے جا، بازار سے تین انچی والی میخیں لے کے آ۔“
بابا کی یہ حالت اور خون اُگلتا خواب میرے اعصاب پر ایسا سوار ہوا کہ نیند میری آنکھوں سے رخصت ہو گئی جیسے زندہ وجودکو روح چھوڑ کر چلی جائے۔ میں سوچوں کے جزیرے کی طرف جا نکلا کہ بابا آخر مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟ بظاہر میری زندگی بہت آسودہ تھی۔ ایسا کوئی دکھ یا پریشانی لاحق نہیں تھی جو مجھے بے خوابی کے جنگلوں میں لا پھینکتی۔ جہاں سے فرار ہونے کے میں سو سو جتن کرتا مگر رتجگوں کے لشکر مجھ پر حملہ آور ہو کر میری نیندوں پر قبضہ کر چکے تھے۔ہر وقت بابا کی خون ٹپکاتی آنکھیں میری نگاہوں میں گھوم جاتیں اور ان کی ایک ہی بات میری سماعتوں میں اودھم مچانے لگتی:
”مْنو پتر! جا بھاگ کے جا، بازار سے تین انچی والی میخیں لے کے آ۔“
پتہ نہیں کیوں یہ بات میرے دل دماغ میں جڑ پکڑ گئی کہ خواب کو نظر انداز کرنے سے بابا مجھ سے ناراض ہو گئے ہیں اورجاتے وقت میری آنکھوں کے ساحل سے نیند کے سارے سیپ بھی چن کرساتھ لے گئے ہیں۔ بابا کی ناراضی کی گرد سے اٹا میں کئی بار ان کی قبر پر بھی گیا، وہاں بیٹھ کر ان سے اپنی کوتاہی کی معافی مانگی، آنسو بہائے مگر کچھ بھی کام نہ آیا۔ نہ میری آنکھوں میں نیند کی بارش ہوئی اور نہ ہی خوابوں کے راستے بابا پھر مجھ سے ملنے آئے۔ راتیں میری نیند کا راستہ روکے میری آنکھوں میں کھڑی ہو گئی تھیں۔
آج رات بھی بستر پر بے چینی سے کروٹیں بدلتا میں نیند کا شکار کرنے کے لئے مسلسل جاگ رہا تھا اور رت جگے کی اذیت میرے چہرے پرشکنیں بچھا رہی تھی۔ کمرے میں چاروں طرف بابا کی سرخ آنکھیں تھیں اور ان کا گونجتا ہوا جملہ تھا:
”منو پتر! جا بھاگ کے جا، بازار سے تین انچی والی میخیں لے کے آ۔“
نیند میری حسرت بن کے بابا کو آوازیں دینے لگی کہ صرف ایک بار وہ میرے خواب میں آئیں تو میں بابا سے معافی مانگتے ہوئے پوچھوں کہ بابا! مجھ سے ایسی کیا خطا ہو گئی کہ آپ نے مجھے خوابوں میں بھی دھتکار دیا۔
میں سوچوں کے انبار میں سے اِس اذیت سے نجات کا راستہ ڈھونڈنے لگا کہ آخر اس خواب کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟ گھنٹوں سوچتے سوچتے اچانک میرے ذہن کے دریچوں سے ایک گلی جھانکنے لگی۔
”ارے یہ گلی؟“ میں چونک اٹھا۔یہ تو وہی گلی تھی جہاں میرا بچپن کسی ہریالی بیل کی طرح سے پھیلا ہوا تھا۔ کہیں اس خواب کا تعلق اس گلی سے تو نہیں ہے؟ ایک دم سے مجھے خیال سوجھا اور میں اس خیال کی انگلی تھام کر اس کے ساتھ ہی اڑتا چلا گیا۔ جوں جوں اڑتا گیا، خواب پر سے دھول ہٹتی گئی۔
”ہو نہ ہو یہ خواب اسی گلی میں ہی کہیں پڑا ہوا ہے۔“ میرا گمان مجھ سے مخاطب ہوا اورمیں خیالوں کی رتھ میں سوار برسوں کی مسافت لمحہ بھر میں طے کرتا اس گلی میں پہنچ گیا جہاں ہر وقت بابا کا یہ جملہ میری سماعتوں میں بارش کے قطروں کی طرح ٹپکتا رہتا:
”منو پتر! جا بھاگ کے جا، بازار سے تین انچی والی میخیں لے کے آ۔“
وہ گلی میرے ذہن کے پردے پر پوری طرح سے جاگ اٹھی، اس کے ساتھ ہی اچانک اُن دو لال آنکھوں نے مجھے جکڑ لیا جن کے خوف سے میں بچپن میں رضائی کے اندر منہ چھپائے سو جایا کرتا۔ میں وقت کی چالوں پر حیران تھا جس نے میری یادداشتوں سے وہ آنکھیں بالکل ہی مٹا دی تھیں جن کا ایک عرصے تک میری نفسیات پر گہرا اثر رہا مگر اب مجھے یوں لگا جیسے ماضی کی دہلیز سے جھانکتی وہ لال آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں جن کی مجھے آج بھی ضرورت ہے۔ جن میں گہری نیندوں کے راز چھپے ہوئے تھے۔ میں اسی لمحے میں ہی ٹھہر گیا۔ وہ گھورتی آنکھیں آہستہ آہستہ میرے وجود میں اترنے لگیں اور مجھ پر وہی بچپن والی کیفیات طاری ہونے لگیں۔ ان سے جھانکتا خوف مجھے دھیرے دھیرے گھیر رہا تھا کہ اچانک بجلی چلی گئی اور اس لمحے نے مجھے گلی سے اٹھا کر کمرے میں لا پھینکا، جس نے اندھیرا اوڑھ لیا تھا۔ میں نے اٹھ کر موم بتی جلائی۔ ٹک ٹک کرتے گھڑیال پر نظر ڈالی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ بظاہرتو میں بچپن کے جادوئی لمحوں میں سانس لیتی اس گلی سے لوٹ آیا تھامگر وہ گلی میرے اندر دور دور تک بچھتی چلی گئی جن کے ساتھ جڑے کچھ شناسا چہرے بھی جاگ اٹھے تھے۔ ان میں وہ لال آنکھیں بھی شامل تھیں جو میرے اندر خوف بویا کرتی تھیں۔برسوں بیت گئے تھے مجھے اس گلی میں قدم رکھے ہوئے، جس نے مجھے پال پوس کر بڑا کیا تھا۔اسے دیکھنے کی شدید خواہش میرے اندرجاگ اٹھی اور صبح میں نے وہاں جانے کا تہیہ کر لیا۔
میں مدت بعد اس گلی میں کھڑا تھا جہاں چپے چپے پر میری یادوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ میری چاپ سنتے ہی وقت کے دبیز پردوں میں خوابیدہ منظر انگڑائیاں لے کر بیدار ہو گئے،جن میں میری دی ہوئی سانسیں دوڑ رہی تھیں۔ میں جس طرف بھی نگاہ ڈالتا وہاں سے کوئی نہ کوئی منظر مجھے آواز دینے لگتا۔گلی میں بکھری انگنت یادیں میرے دامن سے یوں لپٹ گئیں جیسے وہ برسوں سے میری ہی راہ دیکھ رہی تھیں۔ میں اُن بیتے لمحوں میں اتر کر ایسا کھویا کہ آس پاس سے بے خبر گلی کے ایک ایک حصے کو دیکھتا ہوا عین اس جگہ پر آٹھہرا جہاں بابا کی فرنیچر کی دکان ہوا کرتی تھی اور وہ کام کرتے کرتے اچانک مجھ سے کہہ اٹھتے:
”منو پتر! جا بھاگ کے جا، بازار سے تین انچی والی میخیں لے کے آ۔“