میخیں ۔ افسانہ

میں شکستہ انداز میں وہاں سے روانہ ہوا۔میری نگاہوں سے اس کا ملول چہرہ نہیں ہٹتا تھا، وہ اپنے شوہر کے بغیر جیتے جی مر گئی تھی۔میں اس درداں ماری کے خیالوں میں کھویا مایوسیوں میں گھرا گاؤں کے کچے راستے پر پیڈل پر پیڈل مارے چلا جا رہا تھا کہ اچانک چھوٹی سی ”ٹھس“ کی آواز ابھری اور سائیکل کے اگلے ٹائر سے ہوا نکلتی چلی گئی۔میں نے بریک لگا کر دیکھا تو اگلا ٹائر پنکچر ہو چکا تھا۔
 ”دھت تیرے کی۔“ میرے منہ سے نکلا اور میں سائیکل سے اتر پڑا۔ 
”اب کیا ہو گا؟“ 
سائیکل ایک طرف کھڑی کر کے میں سوچنے لگا۔ کسی گاؤں والے کی تلاش میں ادھر ادھرنگاہ دوڑائی مگر دونوں طرف کھیت کھلیان میں گھرا یہ کچا راستہ قدرے سنسان تھا۔ ایک دم سے میری نظر راستے کے بیچوں بیچ ابھری ہوئی لوہے کی ایک سلاخ پر جا پڑی جس کی نوک باہر کی طرف جھانک رہی تھی۔
”اچھا! تو اس وجہ سے میری سائیکل پنکچر ہوئی ہے؟“ میں تلملا کر رہ گیا۔
”پتہ نہیں یہ کس کی شیطانی ہے؟ کسی کو اذیت دے کرکیا ملتا ہے ہمارے لوگوں کو؟“
میں بھناتے ہوئے بڑبڑایا اور سوچا کہ سلاخ کو باہر ہی نکال دوں تاکہ کوئی اور اس کی زد میں نہ آجائے۔ میں آگے بڑھا اور لوہے کی نوکدار سلاخ کو پکڑ کر زور سے کھینچا مگر اس میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ میں نے دو تین بار زور لگا کر اسے باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ ہلی تک نہیں۔ چونکہ راستہ کچا تھا، اس لیے میں نے ساتھ ہی پڑی اینٹ اٹھائی اوراُس کی نوک سے زمین کو کھودنا شروع کر دیا۔ سوچا کہ تھوڑا سا کھودوں گا تو سلاخ باہر نکل آئے گی۔ عجیب بات تھی کہ زمین کھودتے ہوئے میرے پسینے نکل آئے مگر سلاخ باہر نکلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ زمین کھودتے ہوئے مجھ پر جیسے ایک جنون کی سی کیفیت طاری ہو گئی کہ سلاخ باہر نکال کر ہی دم لوں گا۔گرمی اور گھٹن سے میرا برا حال ہو گیا اور سانسیں اکھڑنے لگیں، اِ س کے باوجود بھی میں دیوانہ وار زمین کھودتا چلا گیا۔اچانک تیزی سے چلتے میرے ہاتھ رک گئے اور میں ایک ہی جگہ پر جامدسا ہو گیا۔ میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ جن لال آنکھوں کو میں ماضی کی گلیوں میں ڈھونڈتا پھر رہا تھا وہ گاؤں کے کچے راستے میں دفن پڑی ہوئی تھیں۔اُس غریب کا کھلا منہ مٹی سے بھرا ہوا تھا اور آنکھوں میں لوہے کی سلاخیں کھبی ہوئی تھیں۔ اس کی لاش دیکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ میں نے اس ددرناک  منظر کو جھٹلانے کی بہت کوشش کی مگر اس لاچار انسان کی لاش حقیقت میں میرے سامنے پڑی تھی۔میں پسینے میں شرابور اور مٹی مٹی ہاتھ لئے اٹھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے گھر جا کے اطلاع کر دی۔ اگلے ہی لمحے اس کی بیوی کی دلدوز چیخیں آسمان کا سینہ چیرنے لگیں۔ پل بھر میں پورا گاؤں میرے ساتھ ہو لیا۔ اس کی ابتر لاش کے آر پار اتری ہوئی سلاخیں دیکھ کر سب کانپ کر رہ گئے۔ کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک مزدوری کرنے والے بے ضرر شخص کو کوئی اتنی بیدردی سے کیسے قتل کر سکتا ہے؟جب لاش اس کے گھر پہنچی تو جیسے اس چھوٹے سے آنگن میں قیامت اتر آئی۔ اس کی بیوی کی فلک شگاف دھاڑیں دلوں کو چیرتی ہوئیں گاؤں کے ہر گھر میں گونجنے لگیں۔ اس کا کبڑا بیٹا سکتے کے عالم میں تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے گاؤں کی سبھی عورتیں اور مرد جمع ہو گئے۔اس کی بیوی کی خراب حالت دیکھ کر گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ آخری رسومات جلد ہی ادا کر دی جائیں، ایسا نہ ہو کہ اسے صدمے سے کچھ ہوجائے۔ اس لئے گھنٹہ بھر میں ہی اس کی تدفین کر دی گئی تھی۔ 
میں کافی دیرتک وہاں گم صم بیٹھا اپنا بچپن اور اس کی گھورتی ہوئی لال آنکھوں کو یاد کرتا رہا۔ اس دوران میری سائیکل کا پنکچر لگا دیا گیا تھا۔ شام ہونے کو تھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں اجازت لے کر وہاں سے چل پڑا۔ اس کی بیوی نے روتے پیٹتے مجھے یوں رخصت کیا جیسے میں اس کی سگی اولاد تھا۔ میری بھی آنکھیں نم ہو گئیں اور سارا راستہ میں آنسوبہاتاسائیکل چلاتا رہا۔ مردہ دل کے ساتھ جب میں گھر میں داخل ہوا تو رات کے سائے ہر طرف پھیل چکے تھے۔اداسی، پریشانی اور تھکن اتنی شدید تھی کہ میں کمرے میں قدم رکھتے ہی بستر پر گر گیا۔ کافی دیر تک اس غریب کی لاش میری نگاہوں میں گھومتی رہی اور میں غم کی کھائیوں میں لڑھکتا رہا۔ شاید میری حالت پر قدرت کو ترس آ گیا اور حیرت انگیز طور پر روٹھی ہوئی نیند کی دیوی نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ پتا نہیں میں کتنی دیر سویا تھا کہ اچانک بابا کمرے میں داخل ہوئے اور مجھے پیسے پکڑاتے ہوئے بولے:
”منو پتر! جا بھاگ کے جا، بازار سے تین انچی والی میخیں لے کے آ۔“
میں نے بابا کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں پہلے کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہاں کسی میخ کا نام و نشان تک نہیں تھااور وہ بہت خوش لگ رہے تھے۔ 
میں جھٹ سے پیسے لے کر بازار کی طرف دوڑ پڑا۔اُس تھڑے کے قریب پہنچا تو کام میں جتے اس کالی رنگت والے ٹھگنے موچی نے کام چھوڑ کر اپنی لال آنکھیں مجھ پر گاڑ دیں اور میں ڈرا سہما سا اس کی طرف دیکھنے لگا۔ 
مگر یہ کیا؟ مجھے حیرت کا خوشگوار جھٹکا سا لگا، وہ  میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور اس کی آنکھوں کی لالی تیزی کے ساتھ ختم ہوتی جا رہی تھی۔

Loading

Read Previous

ایک معمولی آدمی کی محبت ۔ افسانہ

Read Next

خواہشوں کے پھیر ۔ افسانہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!