میخیں ۔ افسانہ

گزرے وقتوں سے سفر کرتا ہوا یہ جملہ پھر سے میری سماعتوں میں گونجنے لگا مگریہ دیکھ کر میرے دل میں کٹاری سی چل گئی کہ اب وہاں بابا کی چوبی دروازے والی بوسیدہ دکان کا نام و نشان تک نہیں تھا، جس کا زنجیر نما آہنی کنڈہ لٹکتا رہتا تھا۔ کہن سالی نے دکان کو ہڑپ کر کے اس کی جگہ پختہ اینٹوں والا مکان کھڑا کر دیا تھا، شاید اسی کے اندر ہی بابا کا جملہ کہیں دفن پڑا تھا۔پتہ نہیں وہاں اب کون رہتا تھا مگرمیں نے پکی اینٹوں والی دیوار کو بابا کی دکان سمجھ کر ہاتھ پھیرا تو دفعتاً وقت کی سرحدوں کے اس پار سے مجھے بابا کی ہتھوڑی کی”ٹھک ٹھک“ اور آری چلنے کی ”زی زی“ کی کھردری آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔ میں چشمِ تصور سے حسرت بھری نظروں سے اس عالیشان مکان کی جگہ بابا کی کچی اوربھُرتی ہوئی دکان کو دیکھنے لگا، جس کے ٹیڑھے میڑھے کالے شہتیروں کو دیمک چاٹتی رہتی اورکچی دیواروں سے جھڑتی مٹی اُس کی خستہ حالی کا اعلان کر تی رہتی تھی مگر بابا بے فکری کی دولت سے مالا مال دھوتی باندھے،قمیص اتارے،کام میں جتے پسینے بہا بہا کر شام کو بچوں کے لئے حق حلال کی سانسیں کما کے گھر لے جایا کرتے تھے۔ایسی کتنی ہی یادیں کونوں کھدروں سے نکل کر میرے سامنے دوزانوں بیٹھتی چلی گئیں۔ اچانک دھول میں اٹی ایک یاد میرے سامنے آ ن کھڑی ہوئی اور اس کے اندر دھڑکتا منظر مجھے پکارنے لگا۔ میں نے اس میں جھانکا تو مجھے بابا کی دکان صاف دکھائی دینے لگی۔میں کچی عمر کا لڑکادکان کے باہر بیٹھا بیر وں کی گول گول گٹھلیوں سے کنچے کھیل رہا تھا اور بابا پسینے میں شرابور آری چلاتے ہوئے لکڑی چیرنے میں مصروف تھے، جس سے نکلتا بُورا اڑ اڑ کر ان کی بانہوں سے چمٹ رہا تھا۔ کام کرتے کرتے باباایک دم سے اٹھ کھڑے ہوئے اور رومال سے بُورا جھاڑتے ہوئے بولے: 
”مْنو پتر! دکان کا خیال رکھنا، میں ابھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔“ 
”جی بابا جی!“ میں نے فرمانبرداری سے کہا۔ زمین پر بکھری بیر کی گٹھلیاں جلدی جلدی اٹھائیں اور انہیں جیب میں ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا۔ 
بابا دکان سے باہر نکل کر سامنے والی جگہ جگہ سے چھدری ہوئی کچی دیوار کے سائے میں جا کھڑے ہوئے جہاں آرا مشین لگی ہوئی تھی اور لکڑی چِرنے کی تیزو تند آوازوں سے گلی ہر وقت چنگھاڑتی رہتی۔اُس روز ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ بابا وہاں تھوڑی دیر تک کھڑے اِدھر اْدھر دیکھتے رہے، جیسے انہیں کسی کا انتظار ہو اور پھر وہ بازار کی طرف چل دیئے۔ ان کے جاتے ہی بارش تیز ہو گئی اور میں جلدی سے دکان کے اندر جا کے لکڑی کے لمبوترے تختے پر جا کے بیٹھ گیا جسے بابا اڈا کہا کرتے اوروہاں بیٹھ کر رندے سے لکڑیوں کو چھیل مُوچھ کر ان کا کھردرا پن چن لیا کرتے تھے۔ بابا کو گئے ہوئے دو ہی منٹ گزرے تھے کہ اچانک آرا مشین کی کچی دیوار دھڑام سے عین اس جگہ پر آ گری جہاں کچھ دیر پہلے بابا موجودتھے۔ کچی اینٹیں اور مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے سیدھا دکان کے اندر آ کرگرے اور ہر طرف گردو غبار کے بادل چھا گئے جن میں میری چیخیں دب کر رہ گئیں۔ دیوار گرتی دیکھ کر میرے ہوش جاتے رہے اور میں روتے ہوئے ”بابا بابا“ پکارنے لگا۔ بابا جب واپس آئے تو میں ان سے لپٹ کر خوب رویا اور انہوں نے مجھے اٹھا کر اپنی بانہوں میں یوں سمیٹ لیا جیسے زمانے بھر کے حادثے میرے پیچھے پڑے ہوں۔مگر اب نہ بابا کی دکان تھی، نہ ہتھوڑی کی ٹھک ٹھک، نہ لکڑی چرنے کی چنگھاڑتی آوازیں اور نہ ہی بابا کی مضبوط پناہیں….آرا مشین کی جگہ پر اب پکی اینٹوں والی دکانیں پھیلی ہوئی تھیں، جن کے اندر میری بے شمار یادیں مقفل پڑی تھیں۔ 

میں وہاں کھڑا یادوں کے ہجوم میں گھرا ہوا تھا کہ اچانک اُس گھر سے ایک ننگ دھڑنگ بچہ نکلا اور نکلتے ہی دیوار کے ساتھ بیٹھ کے پیشاب کرنے لگا۔ دوڑتے قدموں کی آوازیں سن کر میری ساری یادیں ایک دم سے کونوں کھدروں میں چھپ گئیں۔ اس دوران اگر میں جھٹ سے پیچھے نہ ہٹتا تو پیشاب کی دھار میری شلوار پر پڑ چکی ہوتی۔ مجھے لڑکھڑاتا دیکھ کر وہ بچہ اپنے پیلے پیلے دانت نکال کر”کھی کھی“ ہنسنے لگا، جس کے پیشاب کی دھاریں عجیب ٹیڑھے انداز میں نیم دائرہ بناتی ہوئیں ”شرررررررر“ کی آواز کے ساتھ گلی کے عین وسط میں پڑنے لگیں۔ مجھے اس کی بدتمیزی پر شدید غصہ آگیا۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی اور ہم ابھی تک گلی کوچوں میں رفع حاجت والے برسوں پرانے سسٹم کو ہی نہیں بدل پائے تھے۔ میں غصے کے عالم میں اسے کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ وہ مثانہ خالی کرتا اور قطرے ٹپکاتا ہوا پلک جھپکتے میں گھر کے اندر یہ جا وہ جا ہو گیا۔اس کا غصہ ابھی اترا نہیں تھا کہ اس دوران ایک منچلا کانوں میں ایئر فون لگائے بائیک پر سوار”زوں زوں“کرتا گلی میں رینگتے پیشاب پر سے چھینٹیں اڑاتا اور میرے کپڑوں کو پلید کرتا ہوا وہاں سے گزرگیا۔میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا یعنی یک نہ شد دو شد۔
”اوئے!“ میں شدید جذباتی انداز میں زور سے چلایا مگر اس لڑکے کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وہ بائیک دوڑاتا ہوا غائب ہو گیا۔
”کیسی بد تہذیب نسل ہو گئی ہے ہماری۔“ میں غصے سے بڑبڑایا اور اپنی شلوار کو دیکھنے لگا جہاں پیشاب کے بڑے بڑے داغ پڑ چکے تھے۔ میں نے گلی میں نگاہ دوڑائی، دور کہیں لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے اور ان کے علاوہ گلی میں کوئی بھی نہیں تھا۔میں نے واپس مڑتے ہوئے خشمگیں نظروں سے اس دیوار کی طرف دیکھا جوپیشاب کی وجہ سے اب گیلی ہو چکی تھی۔
”ارے یہاں تو جانو چاچا کا تندور ہوا کرتا تھا۔“دفعتاً میرے کانوں میں کوئی یاد منمنائی اور میں چونک کر اس دیوار کو غور سے دیکھنے لگا۔ واقعی اِس جگہ پر تو جانو چاچا کا بانس کی کچی چھپر والا تندور ہوتا تھا اوربابا کی دکان کے آس پاس ذائقہ دار ترکاریوں کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی رہتی تھی۔ میرے ذہن کے دھندلکوں میں سے ایک منظر نمودار ہونے لگا اور کچھ ہیولے حرکت کرتے نظر آنے لگے۔ میں نے آنکھیں ان پر گاڑ دیں۔دھند میں مجھے کسی کے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آنے لگیں، جو میری سماعتوں کو مانوس سی لگ رہی تھیں۔منظر بالکل واضح ہو چکا تھا اورکچی مٹی کے بنے تھڑے پر بیٹھا ایک شخص دھواں اگلتے تندور کو سلگانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”ارے یہ تو جانو چاچا ہے۔“ میں چونک اٹھا۔
”تم نے ابھی تک سالن کا پتیلا نہیں چڑھایا؟یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو نکمی عورت؟ تھوڑی ہی دیر میں گاہک آ جائیں گے۔اٹھو دفع ہو یہاں سے۔“ جانو چاچا تندور پر بیٹھا حسبِ معمول اپنی بیوی پر برس رہا تھا، جو اس کے پیچھے کونے میں زمین پر بچھے پھوہڑ پر بیٹھی حقہ گڑگڑا رہی تھی۔
”میں تمہاری نوکرانی نہیں ہوں کہ ہرکام میں تمہارا ہاتھ بٹاؤں۔تمہارا تندور ہے، تمہارے گاہک ہیں،تم ہی سنبھالو۔مجھے تنگ مت کرو۔“ اس کی بیوی نے منہ سے چلم ہٹا کر دو تین پٹاخے پھوڑے اور پھر سے حقہ گڑگڑانے لگی۔
”اب مغز مت چاٹو اور جلدی سے پتیلا چڑھاؤ۔“جانو چاچا نے تندور میں بڑی سے لکڑی ڈالتے ہوئے غصے سے کہا۔ گاڑھے دھوئیں کی جلن سے اُس کی آنکھیں پانی پانی ہو رہی تھیں۔
”ارے منو تم؟“ اچانک جانو چاچا میری طرف دیکھتے ہوئے کہا 
”کھڑا کیوں ہے؟ ادھر آ! چل آتجھے پکے پکے بیر کھلاتا ہوں۔“ جانوچاچاقمیص کے پلو سے اپنی آنکھیں رگڑتا ہوا بولا اور تندورسے اٹھ کرسیدھا میری طرف آ گیا۔ وہ مجھے گود میں لے کر ساتھ ہی بنے اپنے گھر میں لے گیا جہاں باس بھرے کچے آنگن میں بیری کا گھنا درخت تھا اور اُس کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہر طرف سرخ و سبز رنگ کے کچے پکے بیر بکھرے ہوئے تھے۔ اتنے سارے بیر دیکھ کر میری باچھیں کھل اٹھیں۔جانو چاچا نے لعاب چھوڑتے ہوئے میرے دونوں گالوں کو بار بار چوما۔کچھ دیرتک مجھے اپنی گود میں بٹھائے رکھا، پھر مجھے نیچے اتارتے ہوئے بولا 
”چل منو! یہ سارے بیر چن لے شاباش۔“
میں خوشی خوشی پنجوں کے بل چلتا ہوا بیر چن چن کر اپنی جھولی میں جمع کرنے لگا۔ جانو چاچا بھی ہمیشہ کی طرح بیر اٹھاتے ہوئے میری جھولی میں ڈالنے لگا۔اس کے ہاتھوں میں عجب جادو تھا۔ بیر چنتے ہوئے پتہ نہیں وہ کیا کرتا کہ ایک عجیب سی لذت میرے تن بدن میں دوڑنے لگتی تھی۔ میں کافی دیر تک بیر چنتا رہا اور جانو چاچا بھی مجھ سے چمٹا رہا۔وہ بار بار مجھے چومنے لگتا اور اپنی گود میں بٹھالیتا۔
”شرم کرو! یہ کیا کر رہے ہو بچے کے ساتھ؟“ اچانک اس کی بیوی کی چیختی آواز آنگن میں گونجی اور جانو چاچا مجھے چھوڑ کے جھٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”تم یہاں کس لئے آ گئی ہو جلتا تندور چھوڑ کے؟“ جانو چاچا کھسیانا ہو کر غصے سے بولا

Loading

Read Previous

ایک معمولی آدمی کی محبت ۔ افسانہ

Read Next

خواہشوں کے پھیر ۔ افسانہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!