میخیں ۔ افسانہ

 
”چل بھاگ جا منو یہاں سے۔“ اس کی بیوی نے مجھ پر آنکھیں نکالتے ہوئے کہا اور میں وہاں سے اٹھ کر بھاگنے لگا تو جلدی میں جھولی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور سارے بیرآنگن میں بکھرتے چلے گئے۔میں لڑھکتے بیروں کو چھوڑ کر ڈر کے مارے باہر بھاگ گیا۔ دونوں میاں بیوی پھر سے لڑنے جھگڑنے لگے تھے۔میں سہما ہوا گھر سے باہر نکل آیا مگر ان کی گالم گلوچ میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔مجھے ڈر تھا کہ کہیں وہ لڑتے جھگڑتے میرے پیچھے ہی نہ آ جائیں، میں نے بھاگتے ہوئے مڑ کے پیچھے کی طرف دیکھا تو اچانک میرے دوڑتے قدم زمین میں دھنس گئے اور میں بت بنا رہ گیا۔ وہاں نہ تندور تھا، نہ جانو چاچا کا گھر اور نہ لڑنے بھڑنے کی آوازیں بلکہ اس جگہ پر سپاٹ سی پکی دیوارمیرا منہ چڑا رہی تھی۔ وقت نے جانو چاچا اور اس کی بیوی کے لڑائی جھگڑوں کے ساتھ ساتھ تندور اور وہاں سے اٹھتی سالن کی خوشبوؤں کو بھی ہمیشہ کے لئے دیوار میں چن دیا تھا۔ شاید ہی اب کسی کو معلوم ہو کہ بھلے وقتوں میں یہاں ایک تندور اور بیری کا بڑا سا درخت ہوا کرتا تھا جس کی چھاؤں میں دو میاں بیوی لڑائی جھگڑا کرتے ہوئے گاہکوں کو ذائقہ دار ترکاری کھلایا کرتے تھے۔
میں نتھنوں میں سالن کی خوشبو محسوس کرتا، میاں بیوی کی نوک جھونک سے محظوظ ہوتا اور جانو چاچا کی حرکتوں کو سمجھتا ہوا بے اختیار آگے کو بڑھ گیا کیونکہ دیگر یادیں مجھے مسلسل پکارے چلی جا رہی تھیں، جیسے روتا ہوا بچہ اپنی ماں کو پکارتا ہے۔ میں یادوں کے کارواں کے ساتھ چلتا ان دکانوں کے سامنے جا پہنچا جہاں سے گزرتے ہوئے مجھے ہمیشہ دو لال آنکھیں گھورا کرتی تھیں جن سے امڈتے خوف کے لشکر میرے پیچھے پڑ جایا کرتے اور میں وہاں سے بھاگ کر گزرا کرتا تھا مگر آج ان بند دکانوں کی ابتر حالت نے میرے پاؤں جکڑ لئے اور مجھے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھنے دیا۔
وہ منظر میری آنکھوں کے پردے پر جھلملانے لگا جب کسی زمانے میں ان مقفل دکانوں کے تھڑے پر دو موچی جھلستی دھوپ میں حوصلے کی چھاؤں میں بیٹھ کر اپنے گھر والوں کے لئے خوشیاں گانٹھا کرتے تھے جن کے ساتھ چائے کا ایک ہوٹل بھی ہوا کرتا، جس کے مالک پیر غلام کا ایک بازو مکمل طور پر کٹا ہوا ہونے کے باوجود وہ ایک ہاتھ سے ایسی ذائقہ دار چائے بنایا کرتا کہ صرف اٹھنی کا ایک بڑا سا چائے کا پیالہ پینے لوگ کہاں کہاں سے آتے تھے۔ پیر غلام کے ہوٹل پر ہر وقت ایک گہما گہمی کی چادر سی تنی رہتی۔ دکان کے تھڑے پر بنی انگیٹھی پر سلگتے انگارے، مہین دھواں اگلتی چائے کی چینکیں، گول ہتھی والی ہتھ دھونکنی کی گونجتی ”گْھرر گْھرر“ اور چمچ سے گرما گرم چائے کا ذائقہ چکھتا کلین شیو پیر غلام ہر وقت انگیٹھی سے چمٹا رہتا مگر اب وہاں سناٹے خیمہ زن تھے،وقت کی دھول نے ہمکتی زندگی کو کہیں چھپا دیا تھا۔
دکانوں کو بڑے بڑے آہنی تالے پڑے ہوئے تھے اور ان کے آگے پڑے گندگی کے ڈھیر نے میری طبیعت مکدر کر دی، ایک تعفن سا پوری گلی میں پھیلا ہوا تھا۔ پتہ نہیں وقت کا کیسا اجنبی لمحہ وہاں گرا تھا کہ جس نے اس گلی سے ساری رونقیں ہڑپ کر وہاں ویرانیاں بچھا دی تھیں۔ میں نے بند دکانوں کے اداس تھڑے کو غور سے دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے اداسیوں میں گھرا میرا بچپن اب بھی وہاں سو رہا ہو۔ مجھے اپنائیت بھری مہک آنے لگی جیسے تھڑے نے بھی مجھے پہچان لیا ہو۔دفعتاًاس پر سوتا میرا بچپن اٹھ بیٹھا اور میری انگلی پکڑکے مجھے اُن زمانوں میں لے گیا۔ وہی گلی، وہی ہوٹل، وہی رونقیں، وہی چائے کے چلتے دور، آتے جاتے لوگ، سادہ زندگی، وہی شناسا چہرے اور گلی کی نکڑ پر موجود مٹھائی کی دکان سے آتی سوہن حلوے کی وہی خوشبوآنے لگی جس سے گلی ہر وقت مہکتی رہتی تھی۔ وہی منظر پھر سے جاگتے چلے گئے اور میں حیرت سے آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگا۔
اچانک بابا کی آواز میرے کانوں میں گونجی۔ 
”منو پتر! جا بھاگ کے جا، بازار سے تین انچی والی میخیں لے کے آ۔“ 
میں ”جی بابا“ کہہ کر باہر رکھی کرسی سے اٹھا اور پیسے لے کر بازار کی طرف دوڑ پڑا۔
چاچا پیر غلام نے ہمیشہ کی طرح اپنائیت بھری مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتے ہوئے مجھے آتے دیکھا جو بدستور ہوٹل پر کھڑا ہتھ دھونکنی کا ہینڈل گھماتے ہوئے چائے بنانے میں مصروف تھا، جس کی مخصوص ”گْھرر گْھرر“ کی میٹھی لے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ میں ایک نظر چاچا پیر غلام کو دیکھتے ہوئے ڈرتے ڈرتے اس تھڑے کے قریب جا پہنچا جہاں حسبِ معمول وہ دونوں موچی ایک ساتھ بیٹھے اپنے کام میں جتے ہوئے تھے۔
ایک لمبا تڑنگا گونگا موچی جو ہر آنے جانے والے سے منہ ٹیڑھا کر کے ”آ ……آ……آ“ کی آوازیں نکالتا ہوا ہاتھوں کے اشاروں سے باتیں کیا کرتا اور دوسرا ٹھگنے قد کا سیاہ رنگت والا موچی اس کے برعکس چپ چاپ اپنے کام میں مگن رہتا جو مجھے آتا دیکھ کر اپنی لال آنکھیں مجھ پر گاڑ دیتا، اس کے سیاہ چہرے پر اکڑی ہوئی بڑی بڑی لال آنکھوں سے مجھے بہت خوف آتاتھا۔ خاص طور سے اُس وقت تو میری روح کانپ رہی ہوتی جب بابا میرے عید کے نئے جوتے بنوانے کے لئے مجھے اس کی دکان پر لے جاتے اور وہ مجھے گھورتا ہوا ایک موٹے سے کالے چمڑے پر میرے پاؤں جما کر اطراف سے پنسل کی لکیر یں لگاتے ہوئے میرا ناپ لیتا اور میں بری طرح سے سہما ہوا بابا سے چمٹا رہتا تھا۔ وہ موٹے تلے والے دیسی انداز کے ایسے مضبوط جوتے بناتا کہ عید بقرعید اماں مجھے وہی پہناتی اور سال بھر میں تڑخنا تو دور کی بات اُن کا تلا تک نہیں گِھستا تھا بلکہ میرے وہ جوتے پورے سکول میں مشہور ہوتے اورخالص دیسی انداز کے بھاری بھرکم بھدے سے جوتے دیکھ کر اکثر لڑکے تو میرا مذاق بھی اڑایا کرتے تھے۔ کام کے دوران اس کے سر کے ملگجے سفید بالوں سے سرسوں کا تیل رِس رِس کر اس کے کالر بھگوتا رہتا اور گلے سے لٹکتے میلے مفلر سے وہ اپنا پسینہ پونچھتا رہتا تھا۔

میں ایک بار پھربابا کی میخیں لینے جا رہا تھا اور اس ٹھگنے موچی نے مجھے دور سے آتے دیکھا تو حسبِ معمول کام چھوڑ کر اپنی گھورتی ہوئی لال آنکھیں مجھ پر لگا دیں اور میں ہمیشہ کی طرح خوفزدہ ہو کر وہاں سے تیز تیز قدم اٹھاتا بھاگ نکلا۔میں جب میخیں لے کر لال آنکھوں کے خوف سے ڈرا سہما واپس گلی میں آیا تو حیرتیں مجھ سے لپٹ گئیں، وہاں سے سب کچھ لپیٹا جا چکا تھا۔ نہ موچی، نہ لال آنکھیں، نہ دکان، نہ دیوار پر ٹنگے ہوئے چھوٹے بڑے جوتے، نہ پیر غلام کا ہوٹل اور نہ ہتھ دھونکنی کی پر کیف”گھرر گھرر“ ذرا سی دیر میں وقت نے اس دھڑکتی ہوئی گلی سے سارے بولتے منظر چھین کر اسے سکوت پہنا دیا تھا۔ جن تھڑوں پر چلچلاتی دھوپ اور ٹھٹھرتے جاڑوں میں بیٹھ کر کبھی حلال رزق سے نسلیں پالی جاتی تھیں وہاں اب اداسی، ویرانی اور تعفن پل رہا تھا۔ گلی کا یہ سونا پن دیکھ کر میری روح تڑپ اٹھی۔اُس اجڑے تھڑے کو لال آنکھوں کے بغیر دیکھا تو مجھے ادھورا پن چاٹنے لگا۔ سچ تو یہ تھا کہ مجھے آج بھی اُن لال آنکھوں کی اشد ضرورت تھی جو میری نیند کا استعارہ تھیں، شاید ان گھورتی آنکھوں کو دیکھ کر بچپن کی طرح مجھے آج پھر سے نیند اپنی پناہ میں لے لے۔
 مجھے ہر صورت اس لال آنکھوں اور پتلی آواز والے ٹھگنے موچی سے ملنا تھا۔ گلی کی نکڑ پر موجود دکانداروں سے میں نے پوچھا مگر اس کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ بالآخر ایک بوڑھے نے مجھے بتایا کہ مدت ہوئی تمہارے بابا کی وفات کے بعد وہ موچی بھی یہاں سے چلا گیاتھا۔ اس بوڑھے نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہ موچی کہاں گیا مگر اس کے گاؤں کا پتہ مجھے ضرورسمجھا دیا۔ میں نے اُس کے گاؤں جانے کی ٹھان لی۔ پتہ نہیں کیوں اس سے ملنے کی شدید خواہش میرے اندر جنم لے چکی تھی۔ 
دوسرے ہی روز میں اپنی بائیسیکل پر سوار اس کے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھنٹہ بھر کی مسافت کے بعد میں وہاں پہنچا تو کئی حیرتیں میری منتظر تھیں۔ پورے کا پورا گاؤں رتجگے کا شکار تھا۔لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کی لال آنکھیں سب میں نیندیں بانٹا کرتی تھیں مگر جب سے وہ غائب ہوا ہے تب سے سارے گاؤں کی نیندیں وہ اپنے ساتھ لے گیا۔نہ اس کے گھر والوں کو پتا تھا اور نہ لوگوں کو کچھ خبر کہ وہ گاؤں چھوڑ کے اچانک کہاں چلا گیا؟ 
میں پوچھ تاچھ کرتا اس کے گھرجا پہنچا، اس کے درودیوار سے برستی ویرانیاں دیکھ کر میرے دل میں آری سی چلنے لگی۔وہ گھر نہیں دکھوں کی ایک جھونپڑی تھی جہاں اس کی بیوی اس کی یاد میں رو رو کر اپنی بینائی آنسوؤں کے ساتھ بہا چکی تھی۔گھر میں ہر طرف وحشتوں کا راج تھا۔اس کا اکلوتا کبڑا بیٹا گاؤں کی مسجد کے قریب بیٹھ کر جوتے مرمت کیاکرتا، جس نے حیرت انگیرز طور پر باپ کے پیشے کو زندہ رکھا ہوا تھا۔اس کی بیوی نے روتے ہوئے مجھے بتایا کہ چند روز قبل شام کو دروازے پر دستک ہوئی،اس کا شوہر باہر نکلا اور تھوڑی دیر میں واپس آنے کا کہہ کر گیامگر آج تک نہیں لوٹا۔وہ دکھی ہو کر رونے لگتی، اس کی ذہنی حالت کافی خراب ہو چکی تھی۔ میں نے جب اپنے بچپن کے قصے سناتے ہوئے اسے بتایا کہ کس طرح اس کا شوہر مجھے گھورتا اور میں ڈر کے مارے باباسے لپٹ جایا کرتا۔وہ میری باتیں بڑی دلچسپی سے سنتی رہی اور فرطِ جذبات سے بار بار میرے ہاتھ اور پیشانی چومنے لگتی۔ میں نے اس کے ساتھ بیٹھ کر کافی وقت گزارا اور جب جانے لگا تو وہ مجھے پکڑ پکڑ بٹھاتی کہ ابھی مت جاؤ، کچھ دیر اور بیٹھ جاؤ۔ اس کی اپنائیت اور والہانہ پن دیکھ کر میرا دل بھی بھر آیامگر نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے واپس آنا پڑا۔ 

Loading

Read Previous

ایک معمولی آدمی کی محبت ۔ افسانہ

Read Next

خواہشوں کے پھیر ۔ افسانہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!