مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

”تم نہیں بھاگ سکتے، وقت تمہارے تعاقب میں ہے اور پھسلتا جا رہا ہے۔”
”میں زندہ آنکھوں میں جلتی حسرتیں بجھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ میں اپنے دل میں جنم لینے والی مردہ خواہشات سے تنگ آگیا ہوں جنہوں نے میرا سب کچھ چھین لیا۔ نفرت ہوتی ہے دل میں سوئے ان ارمانوں سے جن کی لگن میں،میں نے اپنا سب کھو دیا۔” ایک بار پھر آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ ایک سسکی خاموش فضا میں بلند ہو کر معدوم ہو گئی۔
”میں نہیں دیکھ سکتا دعائوں کے بجھتے چراغوں کو ، میرا ہوش و حواس سے بیگانہ رہنا ہی ٹھیک ہے۔”
”لیکن کہیں بہت دیر نہ ہوجائے ۔ کہیں ماضی کی مٹی میں حال بھی دفن نہ ہوجائے۔” وہ ڈر گیا۔
دہشت بھری آنکھوں سے دھیرے دھیرے سانس لیتے اپنے باپ کا بوڑھا وجود دیکھا۔




”دیکھو! کہیں دیر نہ ہوجائے ۔” سرگوشی ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ وہ بے قراری سے اٹھ بیٹھا ۔ آنسو تواتر سے بہ رہے تھے ۔ نظریں باپ کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں، جیسے کسی مقدس عبادت گاہ کو محبت اور عقیدت سے دیکھا جاتا ہے۔
”بیٹا ! یہ مٹی ہماری پہچان ہے۔ اسے کبھی مت بھولنا کیوں کہ ایک بار انسان اپنی پہچان کھو دے تو وہ خود کو بھی کھو دیتا ہے ۔” اپنی رنگین زندگی میں پہلی بار ان الفاظ نے اس کے قدم جکڑ لیے۔ وہ پلٹنا بھول گیا۔ ایک قدرے بھاری اور محبت بھری آواز کی بازگشت اسے حال سے بہت دور لے گئی۔ کبھی کبھی بزرگوں کی آواز ساری زندگی ہمارا تعاقب کرتی رہتی۔ آج بہت عرصے بعد احمد کے ان الفاظ نے میرے قدم روک لیے تھے۔
”بڑے تو سمندر جیسے ہوتے ہیں، وسیع اور کشادہ ۔ اعلیٰ ظرف جو اپنے اندر دنیا جہان کی غلاظتیں سمیٹ کر بھی اپنے فیض سے محروم نہیں کرتے۔ اپنا وسیع دامن سب کے لیے یکساں پھیلائے رکھتے ہیں۔ نفرت ، غصہ ، نا فرمانی اور طنز کے بدلے بہت خاموشی سے محبت ، عزت ، پیار اور خیال کے پھولوں سے زندگی کی راہیں مہکاتے رہتے ہیں، تپتی دھوپ میں ایک گھنے سایہ دار پیڑ کے مانند۔ ماں با پ کے روپ میں ، جیسے مکمل آسماں، سر پر سایہ فگن رہتے ہیں۔ لیکن بدقسمت اولاد یہ سمجھنے میں دیر کر دیتی ہے۔
احمد حفیظ کا لہجہ بہت تلخ تھا ۔ مجھے لگا وہ مجھ پر طنز کر رہا ہے۔ یہ الفاظ نہیں بلکہ وہ سناٹے تھے جن سے بچ کر میں بہت عرصے سے بھاگ رہا تھا، لیکن ہر بار یہ کسی نہ کسی صورت میں میرے سامنے آ جاتے تھے۔
٭…٭…٭
”ولی محمد! تیرا پتر تیرا نام روشن کرے گا ۔” ما سٹر جی کے الفاظ مٹی کی سوندھی خوش بو کی طرح تھے۔ بابا کا سینہ فخر سے تن گیا تھا۔ رات کے سناٹے میں ماضی کسی آسیب کی طرح اس پر سوار ہونے لگا۔
”او خوش بختے! میں کہتا تھا نا کھیتوں کی مٹی میں کسان کا پسینہ ملے تو فصل ہری بھری ہوتی ہے۔ دیکھ لے! آج میرے پسینے کا حق ادا کر دیا میرے پتر نے ۔” بابا کی کھنکتی آواز رات کے پُرسکون ماحول میں ارتعاش پیدا کرنے لگی۔ میری بلائیں لیتی اما ں کا خوشی سے مسکراتا چہرہ دل کے افق پر اک شان سے دمک رہا تھا۔ اک روشن چاند جیسا چہرہ۔
میں ہاشم ولی محمد، اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ ایسی اولاد جسے بہت لاڈ پیار سے پروان چڑھایا گیا۔ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی تک مجھے اپنی ایک بھی ایسی خواہش یاد نہیں جو پوری نہ ہوئی ہو۔ اپنی ہر خواہش کو میں نے ہمیشہ اپنا حق سمجھ کر وصول کیا ۔ ہر ماں باپ کا تو فرض ہوتا ہے اولاد کو سکھ دینا، مگر ایک اولاد کا فرض کیا ہوتا ہے، یہ گائوں کے اکلوتے اسکول میں بارہا پڑھائے جا نے کے بعد بھی میری سمجھ سے بالا تر رہا یا شاید میں نے سمجھنا ہی نہیں چاہا۔
میری اعلیٰ کارکردگی ، قابلیت اور ذہانت کے پیشِ نظر ماسٹر جی کو لگتا تھا کہ ا علیٰ تعلیم سے میری شخصیت میں مزید نکھار پیدا ہوگا۔ اسی لیے انہوں نے مجھے شہر جا کر پڑھنے کا مشورہ دیا ۔ شہر کے نام سے میرا دل خوشی سے دھڑکنا بھول گیا۔ ماسٹر جی نے بابا کو اپنے نادر مشورے سے نوازا۔ ماسٹر جی کے مشورے اور میری خواہش کے آگے بابا کچھ دیر کے لیے چپ ہوگئے۔ وہ خود تو نہ پڑھ سکے تھے، لیکن ہر محبت کرنے والے باپ کی طرح وہ اپنی واحد اولاد کو دنیا کی کسی نعمت سے محروم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ماسٹر صاحب نے بابا کے دل میں امیدوں کے نئے دیپ جلا دیے تھے۔ وہ ان چراغوں کو بجھنے نہیں دینا چاہتے تھے۔
میرے بابا دنیا کے ان عظیم انسانوںمیں سے ایک تھے جنہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے سے کبھی کوئی امید نہیں لگائی تھی اور نہ ہی مجھے اپنے بڑھاپے کا سہارا قرار دیا تھا ۔ شاید وہ اپنی اولاد کی بد قسمتی سے واقف تھے۔ وہ ہمیشہ سے چلتے ہاتھ پیروں کی موت کے خواہاں رہے۔




Loading

Read Previous

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!