لال کتاب — حنا یاسمین

اس کچے سے صحن میں شام اُتر رہی تھی۔ ہوا نے چلنے سے انکار کر دیا اور بڑھتی حبس نے سینوں کے اندر دھڑکتے دل پژمردہ کر دیئے تھے۔ وہ خاندانی گویئے تھے۔ سال ہا سال سے گیت سنگیت کا کام کیا جاتا۔ سارنگی… باجے… ہیلا… بگل سنگھا… ترئی… دف… ڈھول… …ستار… سنکھیا… بینجو… پیالو… جھانجر … ڈگڈگی… ڈھولک… سرود… سیٹی اور سرمہ تقریباً سبھی سے واقف تھے۔ یہ سارے موسیقی کے آلات اُن کے لیے روحانی پیشوائوں کی طرف سے عبادت کا ایک ذریعہ تھے۔ ان کو بجانے۔ دھنیں بنانے اور نت نئی اختراع، موسیقی کی دنیا میں متعارف کروانے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ صبح جب سورج اپنے نور کی پہلی کرن کو دھرتی کا دکھ سمیٹنے کیلئے بھیجتا تو اس گھر میں مرغ کی بانگ کے ساتھ ہی ریاض کا کام شروع کر دیا جاتا۔ پائل… چمپا… سسی اور ان کا باپ مورکھ راج اپنے کام کا آغاز کر دیتے۔ تینوں بیٹیاں، باپ کے ہم راہ ریاضت سمجھ کر موسیقی کے آلات سے آشنائی حاصل کرتیں۔ سمن لال ان سے نئی نئی دھنیں تیار کرواتا اور بڑے بڑے پروڈیوسروں کے ہاتھوں بڑی بڑی قیمتوں میں بیچ آتا، چار پیسے مورکھ راج کے ہاتھ پر بھی رکھ دیتا۔ یہ غریب تین بیٹیوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے ہنسی خوشی قبول کرتا۔





بس بھگوان کی کرپا ہے… کبھی وہ وقت بھی تھا… جب دو نوالے روٹی کے نصیب نہ تھے۔ وہ جب بھی سمن لال سے پیسے وصول کرتا تو کتنی ہی دیر پیسے آنکھوں پر لگائے۔ بھگوان کا شکر ادا کرنے لگ جاتا۔
احمدپور شرقیہ کی اس پرانی حویلی میں پچھواڑے کا حصہ بیچ کر باقی والا صحن اور برآمدے کے ساتھ والے دو کمرے مورکھ راج کے تھے۔ جن لوگوں کو اس نے پچھواڑے کا حصہ بیچا تھا ان لوگوں نے اس پر چار دیواری ڈال کے صرف جگہ گھیری تھی۔ خرید کر کوئی تعمیراتی کام اس پر شروع نہیں کیا تھا۔ چمپا کتنا روئی تھی جب اس کی ماتا کے مرنے کے بعد اس کے پتا نے پیچھے کا حصّہ بیچ ڈالا۔ وہاں موتیا کی کلیاں اور گلاب کی کیاریوں کو اس نے اور پائل نے کتنی محبت سے اُگایا تھا۔ پھر پھول کھلتے اور وہ خوب صورت گجرے بنا کر سسی کو دیتیں۔ سسی کو الٹی چٹیا گندھوا کر ان پر پھول سجانے کا بڑا شوق ہوتا۔ وہ سب سے چھوٹی اور مورکھ راج کی لاڈلی تھی۔ پائل چٹیا بنا دیتی اور چمپا اس کے بالوں میں موتیے اور گلاب کی کلیاں ٹانک دیتی پھر وہ احمد پور شرقیہ کی گلی گلی… محلہ … محلہ پھرتی… بیس بیس روپے اور پندرہ پندرہ روپے میں گجرے فروخت کر آتی۔ چمپا شادیوں میں ڈگڈگی… ڈھولک… جھانجر بجا آتی۔ پائل کو کتھک ڈانس کی اچھی مشق تھی۔ بھلا ہو صلہ دیدی کا… چندی گڑھ سے انہیں پاکستان ملنے آئی اور یہ فن پائل میں منتقل کر گئی۔ ہنر کوئی بھی بے کار تھوڑی جاتا ہے۔ جب گندم پکنے کے دن آتے یا چاولوں کی فصل کھڑی ہوتی تو سانول گائوں سے تانگہ لے آتا۔ چودھریوں کے ہاں محفل موسیقی رکھی جاتی… یا بچے کی ولادت کی خوشی میں جشن… چمپا گانا بجانا کرتی اور پائل ناچ ناچ کر اُن کے بڑے دالانوں میں مورنی بنے پھرتی۔ گندم کے دانے اور چاولوں کی بوریوں سے کچھ مہینے آرام سے گزر جاتے۔ چودھرائن کبھی میٹھا گُڑ اور کٹے کا گوشت بھی عنایت کر دیتی۔ البتہ وہاں سے وہ کچھ کھا نہ سکتی تھیں۔ اگر کھانا آتا بھی تو علیحدہ برتنوں میں۔ وہ لوگ خاندانی مسلمان تھے اور وہ ہندومذہب کی تھیں بھلا ان کے ساتھ کچھ کھایا پیا جا سکتا تھا؟
پائل کی آنکھیں بہت پیاری تھیں پھر امّاں نے جنہیں وہ بی بی جان کہتی تھی چاندی کی نتھلی اُسے تحفتاً دی۔ وہ پہن کر تو اس کی سنہری رنگت اور دمک گئی تھی۔ نور باجی تو سچ مچ کسی دیوتا کی دیوی لگتی۔ پائل کی اس کے ساتھ اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ ہر وقت سفید دوپٹہ اور سفید شلوار کے ساتھ کسی بھی رنگ کی قمیص زیب تن کئے رکھتی۔ بس دوپٹہ اور شلوار لازماً سفید رنگ کے ہوتے۔ بی بی جان کہتی تھیں کہ اُن کا خاوند شہید ہو گیا ہے۔ اسی لیے وہ ان کے ہاں رہتی تھیں۔ پائل کیا جانے شہید کیا ہوتا ہے۔ چمپا بتاتی تھی کہ جو ان کے بھگوان کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کر دے وہ شہید ہوتا ہے۔ چمپا نے مسلمانوں کے سکول سے کچھ جماعتیں پڑھی ہوئی تھیں۔ نور باجی کی آنکھیں ہر وقت متورم سی رہتیں اور ان کی نازُک سی ناک پر چمکتی ہیرے کی لونگ میں بھی اداسیاں گھُلی رہتیں۔ وہ اداس شام میں کھڑی سفید مورتی لگتی۔
بی بی جان کبھی کبھی پائل کو بلوا بھیجتی تاکہ نور باجی کا دل لگا رہے۔ اس بڑے سے گھر میں نوکر… چاکر… ڈھور ڈنگروں کے علاوہ وہ دونوں خواتین رہتی تھیں۔
یہ لوگ گدی نشین تھے۔ ان کے بڑے ابا کی وفات کے بعد ماحول قدرے بدل گیا۔ اب گانے بجانے… ساز و آلات… سب کچھ جائز تھا۔ بدلتی رتوں اور گزرتے وقت نے بہت کچھ نیا اور انوکھا کر دیا تھا۔





نور باجی کا بھائی وجاہت حسین ولایت پڑھنے گیاتھا۔ بی بی جان بتاتی ہیں کہ وہ ہر سال آجاتا جب آموں پر بور آنے لگتی اور موسم اپنی کروٹ بدلنے لگتا۔ کوئی وقت مقرر نہ تھا۔ ہر سال بعد اُس کا چکر ضرور لگتا۔ گائوں کی زمین کو نور باجی کے چاچے سنبھالتے… لوگ چودھریوں کی عزت بہت کرتے تھے، نور باجی لال رنگ کی کتاب بہت شوق سے پڑھتیں۔ پائل حیران ہوتی اُس کتاب کو پڑھنے سے پہلے وہ ہاتھ دھوتیں۔ منہ دھوتیں… پائوں دھوتیں… اس کو چومتیں، سینے سے لگاتیں اور پھر پڑھنے بیٹھ جاتیں۔ پائل کو اس وقت وہ درشن دیوی کی طرح پوتر اور دودھ سے دُھلی لگتیں۔ ان کے چہرے پر ایسا حزن ہوتا۔ ایسی سرمستی ہوتی جیسے گرما میں اترتے ٹھنڈے بادلوں کی اوٹ میں بیٹھا مدھم چاند… یا سورج کی کرنوں کو اپنے پروں میں سمیٹ کر زمین پر پھیلی پیلی دھوپ سمیٹے پچھم سے پورب کی طرف بہتی ہوائیں…
”وقت کا بھی نشہ ہوتا ہے پائل!… جب شام ہمارے چوباروں پر ڈیرہ جمانے آتی ہے اور دن بھر کی تھکی کرنوں کو واپس بھیجنے کیلئے کمربستہ ہوتی ہے تو دل پر یادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں، روح پر اداسیاں اترنے لگتی ہیں۔ اس سے پہلے کہ وجود گھائل ہو اور نمک کی طرح پگھل کر اپنا آپ کھو دے، تب یہ لال کتاب مجھے بہت سنبھالتی ہے…”
ایک دن پائل کے استفسار پر کہ وہ اس مخصوص وقت میں ہی کیوں لال کتاب پڑھتی ہیں پر انہوں نے مفصل جواب دیا۔
”نور باجی! یہ کتاب ساری اداسی دور کر دیتی ہے…؟ وہ حیران ہوتی۔
”یہ کتاب اداسی بھی دور کرتی ہے… بیماری بھی… دکھ درد بھی…” وہ پیار سے اس بھولی بھالی لڑکی سے بولیں۔ ”ہر دکھ تکلیف…؟” وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں مزید پھیلا کر پوچھتی۔
”ہاں ہر دکھ ہر تکلیف…” اُس کی آنکھوں میں اشتیاق ہی نہیں بلکہ ایک شوق کا جہان آباد تھا۔ پائل کو لگا اس کتاب سے اچھا کوئی ہم درد نہیں۔ وہ نور باجی سے کتاب سننے کی فرمائش کرتی۔ وہ اس کی بات مان جاتیں اور اُسے کتاب پڑھ کر سنانے لگتیں۔ الفاظ موتی بن جاتے جو اس کے دل پر اِترا اِترا کر شوق اور دل چسپی کا محل تعمیر کرنے لگتے۔ وہ بھاگی بھاگی نور باجی سے ملنے سانول کے پیغام پر جاتی۔
پچھلے کچھ دنوں سے ابّا کی کھانسی زور پکڑنے لگی تھی… ریاض ٹھیک نہ ہو پاتا۔ سوہنی خالہ کے کہنے پر ابّا کو دارچینی اور الائچی کی چائے بھی دی۔ موڑ پر موجود حکیم جان محمد سے نیلی شیشی والا شربت بھی لے کر پلایا پر ابّا ساری رات کھانستا رہا۔ سسی کی آنکھیں بھرنے لگی۔ پائل اور چمپا کتنی ہی دفعہ سسی سے چھُپ کر رو چکی تھیں۔ اسی طرح ان کی ماتا کی کھانسی نہیں رکتی تھی اور پھر ایک دن وہ چپکے سے بھگوان کے پاس چلی گئی۔ اب پِتا جی…؟ سو ہنی خالہ نے انہیں ابا کہنا سکھایا تھا۔ مُسلوں کے محلے میں پِتا ماتا عجیب سا لگتا۔ مسلمانوںکو ابّا مُسلے کہتا تھا۔
سنکھیا… ستار، سارنگی… جھانجر… بینجو بھی انہی کی طرح اُداس تھیں۔ مورکھ راج کے سُر بکھرنا بند ہو گئے… شدید طوفان میں لٹکتی کچی اینٹوں کی طرح ٹوٹتی دیوار جیسی زندگی رہ گئی۔
اور لالی… کوّے اور چڑیا کی آواز پر اُٹھتی چمپا نے صحن کے کچے حصے سے پودینہ کی پتیاں اُتار کر ابّا کے لیے قہوہ بنانے کا انتظام کیا۔ ابّا کھانس کھانس کر پرانی جھلنگا چارپائی کی رسی کے ساتھ جھول رہا تھا۔ کھانسی اُسے ٹِک کر کسی ایک جگہ پر قائم رکھنے میں ناکام ثابت کر رہی تھی اور قہوہ سمیت ابّا کے پاس پہنچی چمپا کی چیخوں نے صحن کے دوسری طرف پڑی چارپائی پر موجود دو نفوس کو ہڑبڑا کر اُٹھنے پر مجبور کیا تھا۔ ”ابّا مر گیا…؟” سسی نے بے ساختہ پائل کی کلائی پر اپنے پنجے گاڑے شیر کو دیکھ معصوم ہرنی کی آنکھوں میں اُتر جانے والی اداسی کے سارے رنگ اُس کی نگاہوں میں نظرآرہے تھے۔ ”بھگوان کی کرپا… ایسے نہ کہو…” پائل اُس کی بات دہل کر بولی۔
”چمپا کیوں چیخی…؟” پائل کی آواز گونج بن کر اُس کے کچے صحن میں پھریریاں لے کر عقبی دیواروں سے ٹکرائی… پھر آناً فاناً کھیس پیچھے پھینکے گئے۔ ٹوٹی نائلون کی جوتیوں میں پیر پھنسائے، خاکستری گلابی اوڑھنیاں گردن کے گرد جھلاتی دو لڑکیاں ایک گُندھے بالوں والی اور ایک چھوٹی لٹوں کو سر کے دائیں بائیں گھماتے ابّا کی چارپائی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئیں۔ ابّا کا استخوانی ہاتھ لال نشانوں اور نیلی ٹکیوں سے بھر گیا تھا۔ پھر ایسے ہی نشان کمر سے لے کر پیٹ تک بنے ہوئے تھے۔ چمپا جیسی چیخ پائل اور سسی نے بھی ماری۔ چیخوں نے آپس میں مقابلہ کیا اور دوڑ میں سسی کی چیخ کو پیچھے چھوڑتی، پائل کی چیخ خالہ سو ہنی کے مکان تک پہنچی۔ وہ دوڑی چلی آئیں۔ تینوں لڑکیوں کے آنسو پونچھے اور نیلی شیشوں کی دکان سجائے حکیم جان محمد کے پاس پہنچ گئی، انگوری رنگ کا پھٹا ہوا تنبو پہنے۔ چمپا مُسلوں کے برقعہ والی خواتین کو تنبو پہننے والی خواتین کہتی تھی، جو شادی بیاہ میں لگائے جاتے۔ حکیم صاحب سکّہ رائج الوقت کے مطابق پندرہ روپے اور پچیس پیسہ پر راضی ہو کر گھر مورکھ راج کو چیک کرنے آگئے نیلے سرخ نشانوں کو اس نے کسی ماہر ڈاکٹر کی طرح چیک کیا۔ ”اس کا تو خون خراب ہے۔ بڑے ہسپتال لے جانا پڑے گا۔ پھر ڈاکٹر اِس کے ٹیسٹ کرے گا اور بیماری کے بارے میں بتائے گا۔ بیٹا یہ تو بہت لمبا چوڑا کام ہے۔ اس پر بہت پیسہ لگے گا۔” حکیم جان محمد نے تینوں بہنوں کے پیروں سے جان نکال دی۔ ابّا کو بچانا بھی ضروری تھا۔ ان کے علاوہ اس جہاں میں ان کا تھا ہی کون…؟ پر پیسہ وہ بھی اتنا سارا اکٹھا کہاں سے لے کر آتیں۔ سمن لال نے دو ہزار روپے نئی دھن بنانے کے دیئے۔ حالاں کہ پیچھے سے وہ پتا نہیں کتنے لاکھوں کما کر لایا تھا۔ دو ہزار لے کر پائل خوشی خوشی حکیم جان محمد کی دکان پر گئی۔




Loading

Read Previous

شکستہ خواب — فرحین خالد

Read Next

ارمان رہ گئے — حمیرا نوشین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!