لاری اڈّے پر ہمیشہ کی طرح ٹریفک کی بہت گہما گہمی تھی۔ میں موٹر بائیک سے اُتر کر بک سنٹر سے دل والے لفافے خریدنے لگا۔واپسی پر روڈ کراس کرنے کے لیے مجھے انتظار کرنا پڑا۔ ایک بڑی شالیمار آکر رکی۔ جس کا سٹاپ پانچ منٹ تھا۔ مسافر ایک دوسرے کے اوپر سے ہوتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے۔اندر والے باہر اور باہر والے اندر گھسنے کے لیے بھڑنے لگے ۔اس شالیمار بس سے ایک سادہ سی دیہاتی خاتون باہر نکلیں جنہوں نے ایک بڑی سی چادر سے جسم ڈھانپ رکھا تھا۔سادہ لوح خاتون نے اپنی آٹھ سالہ بچی کو کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ ماں اور بچی کا تعلق کسی بہت غریب اور دکھی گھرانے سے لگ رہا تھا۔بس سے اترکر وہ ایک جانب سڑک پر کھڑے ہوکر آٹو رکشہ کا انتظار کرنے لگیں۔پاس ہی ریڑھی پر خوب صورتی سے سجے سیب دیکھ کر اس بچی کا جی للچایا۔وہ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے دھیمی آواز میں بولی:
’’ امیمجھے سیب لے دو۔‘‘ ماں نے اس کی بات سُنی اَن سُنی کردی۔بچی کا والیوم اور اصرار بڑھنے لگا۔ماں کے پاس پیسے نہیں تھے اگر تھے بھی تو صرف کرایہ دینے کے لیے، اس لیے وہ بچی کی بات پر کان نہ دھررہی تھی لیکن بچی اپنی ضد کی پکی تھی۔
ماں نے کہا: ’’بیٹا ہم آگے چل کر لیں گے۔‘‘
ریڑھی والے کو جب معاملے کا علم ہو اتو اس نے ایک سیب کاٹ کر بچی کو دے دیا۔ماں نے پیسے دینے چاہے لیکن اس بھائی نے لینے سے انکار کردیا کہ میں نے اپنی بچی سمجھ کر دیا ہے۔ماں نے ممنونیت سے نظریں جھکالیں اور ایک شفقت بھری نظر اپنی بیٹی پر ڈالی ۔اتنے میں آٹو رکشہ آگیا۔ جس میں سوار ہوکر وہ آگے بڑھ گئیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
آج اجمل کے گھر میں چوتھی بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ جس کا نام آمنہ رکھا گیا۔خاندانی رسم و رواج کے مطابق جب بیٹی کی عمر پانچ سال ہوئی تو اس کی منگنی کردی گئی۔اکبر ایک سال بعد روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہوگیاتو چھوٹے سے گھرانے میں بڑی قیامت کا سماں تھا، گھر کا چولہا تک ٹھنڈا رہنے لگا۔سب سے بڑی بیٹی شادی کے لائق ہوچکی تھی۔بشریٰ بیگم نے اپنے خاوند کے ہوتے ہوئے جہیز کی کچھ چیزیں خرید لی تھیں۔ اب جب حالات بگڑتے جارہے تھے تو بشریٰ بیگم ایک سکول میں صفائی کا کام کرنے لگی تاکہ گھر کی چکی چلتی رہے۔
کچھ عرصے بعد بشریٰ بیگم نے اپنی بڑی بیٹی کو بیاہنے کا سوچا ۔اس کے خرچے کے لیے اپنے کانوں کی بالیاں بیچ دیں۔لڑکے والوں سے بات کی گئی توانہوں نے سب سے پہلے جہیز کا پوچھا۔جہیز صرف ضروری اشیا پر مشتمل تھا۔اس بات کا علمہوتے ہی لڑکے والوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ جہیز ہماری مرضی کے مطابق ہوگا، ورنہ شادی نہیں ہوگی۔ دوٹوک جواب سُن کر بشریٰ بیگم کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔انہوں نے منت سماجت کی کہ جیسے ہی میرے پاس پیسے آئیں گے میں اپنی بیٹی کو اور سامان دیتی رہوں گی ،خدارا آپ رشتے سے انکار مت کریںلیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
بیس سال پہلے کیا گیا یہ رشتہ پل بھر میں ٹوٹ رہا تھا۔ یہ ان کی خاندانی رسم تھی اگر ایک جگہ سے رشتہ ٹوٹ جائے تو پوری عمر لڑکی دوسری جگہ شادی نہیں کرسکتی ۔لڑکی اور والدین کی زندگی میں سوائے طعنوں کے کچھ نہیں بچتا۔ماں کو اس غم نے تقریباً ادھ موا کر دیا۔دن مہینوں اور مہینے سالوں میں کٹ رہے تھے۔اب دونوں چھوٹی بیٹیاں بھی بیاہنے کے لائق ہوگئیں۔ان کے ساتھ بھی اپنی بڑی بہن والا سلوک ہوا تھا۔بیٹیوں کا غم بشریٰ بیگم کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹنے لگا ۔وہ لوگوں کے مزید طعنے برداشت نہیں کرسکتی تھیکیوںکہ اب سوال اس کی ذات کا نہیں بلکہ بیٹیوں کی زندگی کا تھا۔
وہ انہیں خیالوں میں گم تھی اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا ۔ ایک نئے جذبے سے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑی ہوگئی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
آٹو رکشہ نے انہیں ان کی منزل گو گو ہائوس تک پہنچادیا۔یہ ایک بڑی سی حویلی تھی۔ جس میں بندوقیں اٹھائے بھاری بھر کم چا ر گارڈ کھڑے تھے۔ بشریٰ بیگم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا:
’’ج ۔۔۔جج۔۔۔جی وہ گو گو صاحب؟ ‘‘ایک گارڈ نے اپنے ساتھ والے کمرے کی طرف انگلی کے اشارے سے بتایا۔
’’آئو بی بی جی ۔۔۔گوگو نام ہے میرا۔۔۔بو لو کیا کام ہے؟۔‘‘ مسٹر گوگو نے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا۔
یہ بھاری بھر کم آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی۔جس سے آمنہ تو سہم کر اپنی ماں کو چمٹ گئی۔بشریٰ بیگم نے آنے کی وجہ بتائی۔
’’جی بی بی! ہم نے آپ کا کام کردیا ہے۔اگر وعدہ کے مطابق واپسی نہ ہوئی تو ہم نکلوانا بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘ہزارکے نوٹوں والے چھے پیکٹ کائونٹر پر رکھتے ہوئے گوگو نے مکروہ قہقہہ لگایا۔بشریٰ بیگم نے وہ پیکٹ کپڑے میں باندھ کر بغل میں چھپا لیے۔
انہوں نے گھر آکر بتایا میں نے کسی سے قرض لیا ہے۔ شادی کے بعد آسان اقساط میں واپس کردیں گے۔ اتنے سارے پیسے دیکھ کر گویا مُردہ دلوں میں جان آگئی ۔ شادی کی تیاریں شروع ہوگئیں۔ کچھ جہیز پہلے بنا ہوا تھا۔ان پیسوں سے انہوں نے مزید سامان خرید لیا، جو لڑکے والوں کا منہ بند کرنے کے لیے کافی تھا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
آج تینو ں بہنوں کی شادی ہوگئی تھی اور انہیں اگلے گھر عزت سے بیاہ دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ فرض نبھا کر اطمینان کا سانس لیا۔ان کو اب وعدہ کے مطابق قرض کی ادائیگی کرنا تھی۔ گو گو صاحب نے ڈاکٹر کے ساتھ ڈیل کر لی تھی۔ اس بدبخت ماں نے بالآخر بیگانے ہاتھوں میں جاکر ہسپتال میں آپریشن سے اپنا گردہ اس گو گو صاحب کے حوالے کرکے چھے لاکھ کا قرض اتار دیا۔اس کے بعد انہوں نے اپنی بڑی بیٹی کو فون کرکے بتایا میری طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹرنے کچھ دن آرام کا مشورہ دیا ہے مجھے گھر لے جائو۔ گردے کے بدلے قرض کا راز تب کھلا جب دو سال بعد وہ اپنی بیٹیوں کو روتا چھوڑ کر دنیا سے گذر گئیں۔
٭٭٭٭