عادت — ثمینہ سیّد

تیزی سے چلتی گاڑی سست ہونے لگی بالکل غیر ارادی طور پر ٹائر چرچرانے لگے اسٹیرئنگ پہ ہاتھ جم گئے۔ سڑک پر بائیں ہاتھ کھڑی لڑکی، اس کے ہاتھ، نقاب سے جھانکتی اُس کی آنکھیں۔ ’’یہ آنکھیں مَیں کیسے بھول سکتا ہوں بھلا‘‘ زہیر بُڑبُڑایا۔ ’’شاید میرا وہم…‘‘ ’’یہ کیسے ممکن ہے جو مَیں سمجھ رہا ہوں وہ سچ ہو۔‘‘ اس نے گاڑی آگے بڑھانے اور گزر جانے کی پوری کوشش کی مگر گاڑی رُک گئی اور اندھیرے میں کھڑی لڑکی دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔ زُہیر کی رگوں میں خون منجمد ہونے لگا۔ اسے یاد آنے لگا۔ سات سال پہلے بھی اس کی گاڑی ایسے ہی رُکی تھی۔ ایک لڑکی دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔ وہ سمجھ ہی نہ سکا کہ کیا کرے۔ اسے اُتر جانے کا کہے یا آگے بڑھ جائے اور پھر ایک ہی لمحے میں اس کے متجسس ذہن نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے گھر لے جائے گا۔
گاڑی میں غیر معمولی سنّاٹا تھا۔ زُہیر اور اس نامعلوم لڑکی کا ذہن تیزی سے چل رہا تھا مگر دونون بالکل مخالف سمتوںمیں سوچ رہے تھے۔ زُہیر عباس ایک مشہور صحافی تھا۔ بہت پڑھا لکھا اور ذہین نوجوان ماں کے انتقال کے بعد عباس جعفری اور زُہیر دو ہی لوگ ایک بڑے گھر میں رہتے تھے اور کبھی کبھی تو زُہیراکیلا ہی رہ جاتا جب ابا اپنے آبائی گائوں دوستوں، یاروں سے ملنے چلے جاتے تو مہینوں واپس نہ آتے۔ زُہیر نے کبھی محبت نہیں کی تھی۔ وہ بے بسی سے کہتا: ’’مجھے محبت نہیں ہوتی یار‘‘ اسے ساری لڑکیاں عام سی لگتی تھیں اور سڑک کے کنارے کھڑی لڑکی کو گھر لے جانا تو اچنبھے کی بات تھی۔ کوئی دیکھ بھی لیتا تو یقین نہ کرتا۔
’’کیا آپ گونگے ہیں؟‘‘ لڑکی نے شوخی سے کہا تو پہلی بار زُہیر نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ وہ بہ غور دیکھ رہا تھا لڑکی بہت خوب صورت تھی۔ اتنی کہ گاڑی میں روشنی سی بھر گئی تھی۔
’’مَیں زُہیر عباسی ہوں‘‘ زہیر نے تعارف کا مرحلہ طے کیا اور دانستہ اپنا پروفیشن بتانے سے گُریز کیا وہ ادا سے مُسکرائی۔
’’میَں نیناں، کام یہی ہے جس پر آن ڈیوٹی ہوں۔‘‘ نیناں کی آواز بھی اُس کے چہرہ کی مانند خوب صورت تھی۔ زہیر کے دل نے اعتراف کیا۔ وہ باہر سڑک پر گرتی، پھیلتی روشنیوں پر نظریں جمائے رہا۔





’’کب سے یہ کام کر رہی ہو؟‘‘ زہیر نے سپاٹ لہجے میں پوچھا تو کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ اس کی بے انتہا دل کش ہنسی کے جل ترنگ بُجھتے رہے تو ہنسی قابو کرتی ہوئی بولی۔
’’جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی کام کیا ہے۔‘‘
’’کچھ پڑھا وڑھا نہیں؟‘‘
’’میٹرک کیا تھا۔‘‘ وہ بولی پھر خاموشی فضا میں رقص کرتی جا رہی تھی۔ کافی دیر خاموشی رہی۔ گاڑی چلتی رہی۔ وہ برقعہ اتار کر لپیٹنے لگی پھر پرس اور برقعہ سیٹ پر رکھ کر سیدھی ہو کر ایک ادا سے بیٹھ گئی۔ زُہیر کی طرف ایک دوبار دیکھا وہ بالکل چُپ تھا وہ بھی باہر دیکھنے لگی۔ سڑکیں بھاگ رہی تھیں۔ گاڑی تیز تیز چلتی گھر کے سامنے آ رُکی۔
’’کون کون ہے گھر میں؟‘‘ نیناں نے چہک کر پوچھا زہیر اسے دیکھنے لگا۔ اس کا دل و دماغ جھکڑوں کی زد میں تھا۔ ’’مَیں نے ایسا کیوں کیا۔‘‘ بس ایک ہی سوال چیخ چنگھاڑ رہا تھا۔
’’چلو آرام سے اندر چلو۔ بس مَیں اور تم دونوں ہی ہوں گے۔‘‘ وہ بہ مشکل کہہ سکا تو وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔
’’تو ڈر کیوں رہے ہو؟‘‘
’’نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مَیں لایا ہوں تمہیں اپنی مرضی سے۔ ‘‘زہیر اس کے ساتھ اندر کی طرف جاتا اور لاک کھولتا بولنے لگا۔ ’’ابا اور مَیں ہوتے ہیں گھر میں۔ ابا گائوں گئے ہیں۔ زمینیں وغیرہ ہیں اور ان کے دوست یار۔‘‘
’’زمینوں کا رعب ڈال رہے ہو؟‘‘ نیناں نے ادا سے پوچھا۔
’’وہ کیوں تمہیں کیا لینا دینا کسی کی زمینوں سے، تم پر رعب ڈالنے کا فائدہ؟‘‘
’’اس لئے کہ میں متاثر ہو جائوں اور پھر تم سے روز روز ملوں۔ لیکن پہلے ہی سن لو میں کسی شخص سے کبھی دوبارہ نہیں ملتی۔ مجھے بالکل شوق نہیں چکر وکر چلانے کا، یا محبت وحبت کرنے کا۔ مَیں تو واقفیت تک کی قائل نہیں ہوں زہیر صاحب!‘‘
’’نہیں میرا بھی ایسا کوئی ارادہ نہیں بیوٹی فل۔‘‘ زہیر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خود اے سی آن کیا، پردے برابر کئے سامنے صوفے پر بیٹھ کر جوتے اتارنے لگا۔
’’تم آرام سے بیٹھو مَیں فریش ہو کر آتا ہوں، چائے پیو گی یا کافی؟‘‘
’’جوس اور پھل فروٹ پوچھتے ہیں لڑکیوں سے جناب‘‘ نیناں اسے دیکھ کر کمینگی سے مسکرا کر بولی توزہیر کو اس سے گھن آنے لگی۔
’’پرہیز گار نا بنو بیٹا عمر بھر کی عزت تو دائو پر لگا دی اب…؟‘‘ زہیر نے خود کو لعن طعن کی۔ نیناں اس کے جانے کے بعد گھر کا جائزہ لینے لگی۔ اسے خوشی یا دکھ نہیں ہوتا تھا۔ ہر طرح کے حالات اور لوگ اسے ایک جیسے ہی لگتے تھے۔
’’عجیب سڑوسا ہے، شکل سے نیک بھی لگتا ہے، لیکن … لیکن نیک ہوتا تو لڑکی کو گھر کیوں لاتا۔ اس بات کا فیصلہ کرنے کا بھی کوئی آلہ ہونا چاہئے تھا کہ کون نیک ہے اور کتنا؟‘‘
نیناں چلتے پھرتے سوچ رہی تھی۔
’’لو جی یہ شامی کھائو، بوتل پیو، مَیں تو چائے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ زہیر نے مسکرا کر ٹیبل پر پلیٹیں اور گلاس رکھے اور اپنی چائے لے کر بالکل سامنے صوفے پر جا بیٹھا۔
’’تم کچھ بنا لیتی ہو؟‘‘ زہیر نے چائے کا گھونٹ گلے سے اتارتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔ تو وہ ہنستے ہنستے بولی۔ ’’ہاں، الو…‘‘
’’خیر یہ کون جانتا ہے وہ الو بنا رہا ہے کہ بن رہا ہے۔‘‘ زہیر نے اسے گھورا تو وہ سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگی۔
’’تمہارے خیال میں ہمیں کیا چیز اُلٹے سیدھے کاموں پر اُکساتی ہے۔ ضرورت یا پھر عادت؟‘‘
’’تم اتنے سوال کیوں کرتے ہو۔ اخبار والے ہو کیا؟‘‘ نیناں نے گھور کر کہا۔ وہ چُپ رہا تو بولی۔
’’زیادہ وقت نہیں ہے ہمارے پاس…‘‘
’’کتنا وقت ہے؟‘‘
’’جب سے مَیں تمہارے ساتھ ہوں تب سے حساب رکھوں گی۔ چالیس منٹ گزر گئے بس ایک گھنٹہ بیس منٹ ہیں تمہارے پاس۔‘‘
’’کافی ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ تمہارا معاوضہ اور وقت دونوں کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘
’’لوگ ناز نخرے اٹھاتے ہیں۔ مرتے جاتے ہیں کہ وقت کم ہے اور تم …‘‘




Loading

Read Previous

دل تو بچہ ہے جی — کنیز نور علی

Read Next

خوشی بادشاہ — افراح فیاض

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!