عادت — ثمینہ سیّد

’’یہ میرا وقت ہے۔ مَیں جیسے بھی گزاروں‘‘ زہیر نے مسکرا کر کہا تو وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔
’’بتائو ضرورت یا عادت؟‘‘ زہیر نے اپنا سوال دہرایا۔
’’ضرورت بہت بڑی حقیقت ہے۔ معاشی ضرورت، جسمانی ضرورت، ذہنی ضرورت اور پھر یہ سب عادت بن جاتی ہے۔ جیسے نشے کی لت لگ جاتی ہے۔‘‘ نیناں نے بڑی رسانیت سے جواب دیا۔
’’اوہ… تو پھر تمہاری ضرورت عادی بن چکی ہے یا پھر ابھی کچھ پیچھے ہو تم؟‘‘ زہیر نے نیناں کے چہرے پر نظریں گاڑ کر پوچھا تو وہ بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتی رہی۔
’’کبھی سوچا نہیں مَیں نے۔‘‘ وہ دھیرے سے بولی۔
’’ابھی سوچو‘‘ زہیر نے کہا اور پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر بولا۔
’’تابع داری تمہارے پیشے کا پہلا اصول ہے۔ ہے ناں؟‘‘
’’ہاں… ہے تو‘‘ نیناں بڑبڑائی۔ پھر ہاتھ میں پکڑاشامی کباب منہ میں ڈالتی ہوئی پیچھے ہو بیٹھی۔ اسے دیکھے ہوئے سوچنے لگی۔
’’اچھا بھلا نارمل لگتا ہے، خوب صورت مرد ہے۔ پیسہ ویسہ بھی ہے… لیکن یہ بھی ذہنی مریض ہے… ہر مرد اور ہی طرح کا عذاب ہوتا ہے۔ عجیب مصیبت میں پھنس گئی ہوں‘‘ خاموشی دونوں کے مضطرب چہرے دیکھتی رہی اور چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتی رہی کہ کون کیا سوچ رہا ہے۔
’’تم بہت بور آدمی ہو‘‘ نینا نے کہا تو وہ ہنسنے لگا۔
’’اچھا صرف یہ بتائو تم یہ سب چھوڑ کر شادی کر سکتی ہو؟‘‘ نیناں اور زور سے ہنسنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں پانی آنے لگا ’’تم پاگل ہو بالکل کون مرد یہ برداشت کر سکتا کہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جس کی زندگی میں سو سے بھی زیادہ مرد آچکے ہیں۔ مرد تو ایک مرد کو برداشت نہیں کرتا پاگل آدمی۔‘‘ نیناں اپنی بات کہہ کر شامی کباب اُٹھا کے کھانے لگی ’’تم وقت ضائع کر رہے ہو۔‘‘ وہ کھاتے کھاتے بولی۔
’’میرا کتنا وقت رہ گیا ہے۔‘‘ زہیر نے اس کے موبائل کی طرف دیکھ کر وقت بتانے کو کہا تو وہ چڑ کر بولی۔ ’’اپنے موبائل پہ وقت دیکھو یا پھر ادھر کلاک پہ۔‘‘
’’تم بتائو، کیوںکہ وقت تمہاری گرفت میں ہے۔‘‘ زہیر نے حکم دیا۔
’’تیس منٹ‘‘ وہ چڑ کر بولی۔
’’ابھی تو بہت وقت ہے۔‘‘ زہیر مطمئن ہو کر بولا۔
’’مَیں نے کبھی محبت نہیں کی۔ تم میری ہر ایک بات کا یقین کرنا۔‘‘





’’مجھے محبت کرنے کے لئے کوئی لڑکی کبھی ملی ہی نہیں یا پھر وقت نہیں ملا۔ مَیں بہت ذہین فطین سٹوڈنٹ تھا۔ بڑا پڑھاکو قسم کا ہر لیول پر ٹاپ کرنا میرا جنون رہا ہے۔ ہمیشہ بہت سی لڑکیاں دوست تھیں جو آج تک ہیں۔ مگر محبت نہیں ہوئی کبھی کسی سے اور نہ ہی کبھی کوئی میری تنہائی میں شامل ہوئی اس طرح…‘‘ وہ اس کی طرف اشارہ کر کے بولا۔ تو نیناں کو اس سرد سی لہر اپنے وجود میں اٹھتی محسوس ہوئی۔ ’’مطلب تم پارسا ہو ایک دم۔‘‘ وہ طنز سے بولی۔ تو زہیر ہنسنے لگا۔ ’’ہاں… بالکل۔‘‘ زہیر نے اترا کر کہا۔
’’ہاہاہاہا… کیا تمہارے پاس کوئی آلہ ہے پارسائی ناپنے کا؟‘‘ نیناں ہنستے ہنستے بہ مشکل بولی وہ شرمندہ سا ہو گیا۔ سچا ہوتے ہوئے بھی۔ کیوں کہوں اسے لے کر آیا ہوا تھا اپنے گھر میں۔ سڑک کے کنارے پر کھڑی لڑکی کو اور پارسائی کے دعوے کر رہا تھا۔ وہ چُپ رہا۔
’’تمہارا وقت ختم ہونے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں۔ ذہین فطین، ٹاپر، پارسا آدمی۔ مَیں تمہیں بھول نہ پائوں گی۔‘‘
’’ہو سکتا ہے۔‘‘
پانچ منٹ بعد جو وقت شروع ہو وہ ہمارا وقت ہو۔ مَیں اور تم… ہم…‘‘ زہیر نے ایک تیر چھوڑا جو نشانے پہ لگا۔ وہ کلبلاتی رہی، ڈوبتی ابھرتی رہی۔ اس کی آنکھیں پانچ منٹ تک پھٹی رہیں۔ دونوں کی زبان گنگ تھی۔
’’اگر تم میرا مذاق اُڑا رہے تھے تو اب تمہارا وقت ختم ہو چکا ہے۔‘‘ نیناں نے ہاتھ جھاڑے اور اپنا پرس اور برقعہ سنبھالے اٹھ کھڑی ہوئی۔ زہیر مسکراتا ہوا قریب چلا آیا۔
’’ہماری شادی کا فیصلہ تم کرو گی یا مجھے تمہارے گھر جانا پڑے گا۔ آرام سے سوچ سمجھ کے جواب دو یہ کوئی خواب نہیں ہے۔ تم سچ مچ میری زندگی کا حصہ بن رہی ہو۔‘‘
’’ترس کھا رہے ہو یا تجربہ کرنے کے موڈ میں ہو؟‘‘ نیناں نے کڑے تیوروں سے پوچھا۔
’’کچھ مت سوچو۔ بس یہ بتائو… مجھ سے شادی کرو گی۔‘‘ زہیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا۔
’’کیوں؟‘‘ نیناں سراپا سوال بن گئی تو زہیر نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی اپنے مضبوط گرم ہاتھوں میں لے لیا اور نیناں کے چہرے پر نظریں گاڑ کر بولا: ’’شادی کرو گی مجھ سے؟‘‘ وہ چُپ رہی۔ پہلی بار دل دھڑک رہا تھا۔ ذہن میں جھکڑ چل رہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو زندہ انسان لگ رہی تھی۔
’’ہاں‘‘ وہ مُسکرا کر بولی۔
٭٭٭٭
شادی کر کے زہیر نیناں کو لے کر آسٹریلیا چلا گیا۔ آسٹریلیا میں رہنا بھی زہیر کا ایک خواب تھا اور اس لیے بھی اسے ضروری لگا کہ نیناں لوگوں کو اور لوگ نیناں کو بھول جائیں بالکل۔ پانچ سال بعد وہ واپس ملک آگئے۔
زینی اور علی کی پیدائش کے بعد بھی نیناں پہلے کی طرح خوب صورت اور دُبلی پتلی تھی۔ اپنا خیال رکھنا اس کی عادت تھی۔ شاید اسے دنیا میں سب سے زیادہ محبت اپنے آپ سے ہی تھی۔ نیناں دن میں کئی بار بولتی تھی۔ ’’محبت زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔‘‘ زہیر ہنسنے لگتا وہ مطمئن تھا خوشی کا احساس زندگی کو کس قدر آسان اور خوب صورت بنا دیتا ہے زہیر نے اپنے بے شمار دوستوں کو بتایا تھا کہ کامیاب زندگی گزارنے کے لئے کسی کو اپنا بنا لو اور بس اس سے محبت کرو۔ زہیر نے زندگی میں ہار تو دیکھی ہی نہیں تھی۔ مگر زندگی طے شدہ منصوبہ بندی سے نہیں چلتی۔
تیزی سے چلتی گاڑی کی رفتار سست ہونے لگی سڑک بھاگتے بھاگتے گھسٹنے لگی۔ گاری کے پہئے جیسے زمین نے پکڑ لئے۔ گاڑی رکتی دیکھ کر اندھیرے میں کھڑی لڑکی دروازہ کھول کر گاڑی میں آبیٹھی۔ زہیر کو لگا بس ایک پل میں مر گیا۔ یہ ہاتھ، یہ آنکھیں یہ پورا وجود اپنی خوشبو سمیت اس کا شناسا تھا، پوری طرح شناسا موت جیسے خاموشی محسوس کر کے لڑکی نے مڑ کر دیکھا۔ ’’آپ گونگے ہیں کیا‘‘ اور پھر گنگ رہ گئی گاڑی کچھ دور جا کر پھر رُک گئی۔ زہیر کا مردہ وجود گاڑی روک کر اسے دیکھنے لگا۔ ’’یہ ضرورت ہے یا عادت نیناں؟‘‘ مردہ وجود سے آواز آئی۔ لڑکی دروازہ کھول کر اترنے لگی۔ نیناں کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔
’’مجھے بھی آپ سے یہی پوچھنا ہے یہ ضرورت ہے یا آپ کی عادت؟‘‘ وہ اتر کر پیچھے کی طرف بھاگنے لگی۔

٭٭٭٭




Loading

Read Previous

دل تو بچہ ہے جی — کنیز نور علی

Read Next

خوشی بادشاہ — افراح فیاض

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!