صلیب — ثمینہ طاہر بٹ

بعض اوقات انسان جو سوچتا ہے، جو کرنا چاہتا ہے وہ کر نہیں پاتا۔ کبھی زمانے کی زبانیں راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہیں، تو کبھی ذات برادری کے خود ساختہ، بے بنیاد اور کھوکھلے اصول، کہیں انا کی دیوار بیچ میں آ جاتی ہے، تو کہیں ضد اور غصہ اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی صلیب خود اپنے شانوں پر اٹھا نی پڑتی ہے۔ اس وقت اسے اپنے ارد گرد نہ تو کوئی اپنا ہم درد دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی رہ نما نظر آتا ہے۔ بس وہ انسان ہوتا ہے اور اس کے ناکردہ گناہوں کا بوجھ، جسے وہ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے چلتا چلا جاتا ہے۔




شہر کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے برن یونٹ کے اندر پڑی ادھ جلی لڑکی کی کرب ناک چیخیں اب آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھیں۔ وہ شاید غنودگی میں جا رہی تھی یا پھر بے ہوشی میں، دور سے دیکھنے پر کچھ خاص اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس برن یونٹ میں اس حالت میں لائی جانی والی وہ پہلی لڑکی نہیں تھی۔ یہاں تو روزانہ ہی اس طرح کے کئی مریض آتے جاتے رہتے تھے۔ برن یونٹ کی سرد اور خاموش دیواریں دن میں کئی بار ایسے ہی اندوہ ناک اور دل دوز مناظر دیکھتی تھیں۔ تیزاب پھینک کر جلائی جانے والی دوشیزائیں، پٹرول اور تیل چھڑک کر زندہ جلائے جانے والی بہوویں اور ان کے درد سے تڑپتے اپنے مُنہ سے موت مانگتے وجود دیکھ دیکھ کر ان دیواروں کی آنکھیں بھی پتھرا چکی تھیں۔ ان مریضوں کے خلق سے نکلنے والی کرب ناک چیخیں ، آہیں اور کراہیں برداشت کرنا ان دیواروں ہی کا کام تھا یا پھر اس وارڈ میں مشینی انداز میں اپنے اپنے کام میں منہمک نرسوں اور ڈاکٹرز کا حوصلہ ، جو شاید اب ان دیواروں کی طرح ہی سرد اور بے حس ہو چکے تھے۔ وارڈ کے اندر وہ جان کنی کے عالم میں مبتلا تھی۔ کمرے کے باہر سفید بالوں اور جھکے شانوں والا اس کا پریشان حال باپ سنگی مجسمے کی صورت سر جھکائے حزن و ملال کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ اس کی گود میں قطرہ قطرہ گرنے والے بے بسی کے آنسوؤں کو دیکھ کر احساس ہو رہا تھا کہ اس کے پتھرائے وجود میں ابھی بھی زندگی کے کچھ آثار باقی ہیں۔
”ڈاکٹر!! اب کیسی حالت ہے اس burn victum کی؟ کیا ہم اس کا بیان لے سکتے ہیں؟” سنگی مجسمے کے کانوں میں ایک جانی پہچانی آواز پڑی تو جیسے اس کے بے جان ہوتے وجود میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ بعض اوقات ایسے بھی تو ہوتا ہے ناں کہ جب ہم مایوسی اور دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں خود کو دھنستا ہوا محسوس کرتے ہیں، تو اسی وقت ہمارے آس پاس ہی ہمارے قریب، بہت قریب امید کے جگنو ٹمٹمانے لگتے ہیں۔ جب خوف اور اکیلا پن اپنے نوکیلے پنجے ہماری روح میں گاڑنے لگتے ہیں، تو ہماراکوئی اپنا، کوئی بہت ہم درد ایک دم ہاتھ بڑھا کر ہمیں اس خوف، اس اکیلے پن کے پنجے سے چھڑوا کر دور، بہت دور لے جاتا ہے۔ اس وقت بھی یہی ہوا تھا۔
”بلال۔” ان کے مضطرب ہونٹوں نے بے آواز جنبش کی تھی، مگر یہ آواز شاید دل سے نکلی تھی اس لیے سیدھی دل تک ہی پہنچی تھی۔
”پروفیسر صاحب آپ؟ آپ یہاں… کیسے… کیوں…؟” بلال نے یک لخت پلٹ کر دھیمی لرزتی آواز کی سمت دیکھا اور پھر کچھ اور دیکھنے کے قابل ہی نہ رہا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کا وجود پتھر میں ڈھل چکا ہے۔ خوف کی بھاری صلیب نے اس کی روح، اس کے دل کو اپنے بوجھ تلے دبا لیا تھا۔ وہ اندھوں کی طرح گرتا پڑتا پروفیسر صاحب تک پہنچا اور اب ان کے قدموں میں بیٹھا ان کے بے بسی سے بہتے آنسو چن رہا تھا۔
S.P بلال احمد اور جان بہ لب مریضہ کا مجبور باپ… یہ کیسا کنکشن تھا۔ پولیس کی بھاری نفری سمیت وہاں موجود ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے کان بھی کھڑے ہو چکے تھے۔ وہ سب تجسس بھرے انداز سے SP بلال صاحب کو اس ادھ جلی مریضہ کے باپ کے آنسو پونچھتے، انہیں گلے لگاتے، ان کے ہاتھ چومتے دیکھ رہے تھے۔
”سر! یہ اُسی مریضہ کے والد ہیں، جن کے بارے میں آپ investigation کرنے آئے ہیں۔” ڈاکٹر فاریہ نے ان کے پاس آتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا تو بلال احمد کا سارا وجود پتھر سے بھربھری ریت میں تبدیل ہو گیا۔ اسے لگا وہ وہیں، اسی کاریڈور میں ننھے ننھے ذرات بن کر بکھرتا جا رہا ہو۔ اس کے اپنے وجود کی ریت اُڑ اُڑ کر اس کی حیران آنکھوں میں چبھ رہی تھی۔




”قندیل!!” حیرت اور خوف کے غلبے کے زِیر اثر اس کی آواز بھی کہیں دم توڑتی جا رہی تھی۔
”بلال! قندیل جل گئی۔ میری قندیل جل گئی۔ بلال… میری قندیل بجھ گئی۔” پروفیسر صاحب اس کے شانے پر سر رکھ کر نوحہ کناں ہوئے تو وہ بھی جیسے ہوش میں آگیا۔
”نہیں بابا! قندیل نہیں بجھے گی۔ قندیل کبھی نہیں بجھ سکتی بابا، کبھی بھی نہیں!” پروفیسر صاحب نے ایک دم چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ ان کی ساکت نگاہیں بلال احمد کے پر عزم روشن چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔ وہ روشن چہرہ جسے انہوں نے اپنے ہاتھوں خود سے دور کر دیا تھا۔
پروفیسر عالم صاحب کا شمار ان اساتذہ میں ہوتا تھا جوعِلم کا عَلم اٹھائے نسل ِ انسانی کے لیے مشعلِ راہ بنے ہر طرف روشنی کی کرنیں بکھیرتے رہتے ہیں۔ ان کے بے شمار شاگرد تھے اور ان کے گھر اور دل کے دروازے علم کی پیاس رکھنے والوں کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ جس طرح پہاڑوں کے درمیان بہنے والا چشمہ ، بل کھاتا اپنی دھن میں مگن لوگوں کی پیاس بجھاتا چلتا چلا جاتا ہے، اسی طرح پروفیسر عالم صاحب بھی اپنے شاگردوں میں بلا امتیاز و تفریق علم کی دولت لٹا رہے تھے اور لوٹنے والے دونوں ہاتھوں سے جھولیاں بھر بھر کر لوٹ رہے تھے۔
بلال بھی ان کا ایسا ہی ایک شاگرد تھا۔ بلا کا ذہین اور سیلف میڈ انسان۔ بلال جیسے لوگوں کے لیے زندگی کبھی بھی مہربان دوست ثابت نہیں ہوتی۔ انہیں اپنی راہ میں پڑے پتھروں پر قدم جما جما کر چلنا پڑتا ہے۔ کبھی گرتے، کبھی سنبھلتے کسی نہ کسی طرح وہ لوگ بھی منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں، مگر یہ خوش نصیبی بھی صرف چند لوگوں کے حصے میں ہی آتی ہے اور بلال بھی بلا شبہ ان ہی خوش نصیبوں میں سے ایک تھا۔
اس کا اس بھری دنیا میں بوڑھی دادی کے سوا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے والدین اور دادی کے ساتھ گاؤں میں رہتا تھا۔ شاید وہ ہمیشہ ہی وہیں رہ کر پلتا بڑھتا اور جوان ہو کر اپنے باپ دادا کی طرح اپنی آبائی زینیں سنبھالتا، مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا کیوں کہ اگر ایسا ہو جاتا تو وہ نہ ہوتا جو تقدیر میں لکھا جا چکا تھا۔ بلال اگر ان پڑھ دیہاتی ہی رہتا، تو وہ ”بیت العلم ” کا مکین کیسے بنتا؟
پروفیسر عالم نے اپنی رہایش گاہ کو ”بیت العلم” کا نام دے رکھا تھا۔ وہ اپنی بیگم اور اکلوتی بیٹی کے ساتھ بڑی مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ اگر ان کا اوڑھنا بچھونا درس تدریس تھا تو مہک عالم کی زندگی کا محور عالم صاحب اور چھے سالہ قندیل کی خوشیوں کا خیال رکھنا تھا۔ سب ٹھیک چل رہا تھا، مگر اچانک چلتے چلتے ان کی زندگی جیسے رک سی گئی۔ مہک کو موسمی بخار نے جکڑ لیا۔ وہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف خود پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتی تھیں اور یہی بے توجہی ان کے ساتھ ساتھ ان کے شوہر اور بیٹی پر بہت بھاری پڑی۔ مسلسل رہنے والا بخار کسی بڑی بیماری کا پیشِ خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور جب سارے ٹیسٹ کروائے گئے، تو وقت ہاتھ سے ریت کی طرح نکل چکا تھا۔ مہک کو کینسر جیسے موذی مرض نے اپنا نشانہ بنا لیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے بڑی ہمت سے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور اپنے فرائضِ منصبی کے ساتھ ساتھ مہک کے علاج پر بھی پوری توجہ مرکوز کر دی، مگر اب واقعی دیر ہو چکی تھی۔ مہک کے پاس وقت بہت کم بچا تھا اور اسے اپنے سے زیادہ قندیل اور عالم صاحب کی فکر ستاتی تھی۔
ادھر بلال کے ساتھ بھی قسمت نے عجیب کھیل کھیلا تھا۔ وہ اپنی دادی کے ساتھ ان کی دور پرے کی عزیزہ ” مہک عالم” کی عیادت کے لیے شہر آیا تھا کہ پیچھے سے اس کی دنیا ہمیشہ کے لیے اجاڑ دی گئی۔ وہی گاؤں کی دشمنیاں اور زمین جائیداد کے بکھیڑے۔ اس کے داد کے شریکوں نے پیچھے اس کے ماں باپ اور بہن کو مار ڈالا اور ان کے گھر اور زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ دادی جو مہک کی دور پرے کی پھپھو تھیں یہ خبر سن کر ہوش وحواس کھو بیٹھیں۔ وہ تو اپنی مرتی بھتیجی کی آخری بار عیادت کو گئی تھیں اور اب خود اسی ہسپتال میں بستر علالت پر آن پڑی تھیں۔ عالم صاحب کا نرم دل بھی ان پر گزرنے والی قیامت سے لرز سا گیا۔ اس پر جب بلال کے باپ کے شریکوں نے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا، تو وہ اور زیادہ پریشان ہو گئے۔ دس سالہ معصوم بلال کی موہنی اور معصوم صورت ان کے دل میں ایسی بسی کہ انہوں نے اس کے رشتے داروں کو صاف انکار کر دیا۔
عالم صاحب کے اس انکار نے دوسری طرف آگ سی بھڑکا دی تھی۔ وہ لوگ تو دشمنیاں پالنے کے عادی تھے، انہوں نے عالم صاحب کو بھی اپنا دشمن مان لیا، مگر یہاں بلال کی دادی نے عقل مندی کا ثبوت دیا اور عالم صاحب اور بلال کے سر سے اس دشمنی کا بوجھ اتارنے کے لیے اپنی ساری زمینیں، گھر، مال مویشی سب کچھ شریکوں کے نام لگا دیا۔ سب معامالات کورٹ کچہری میں ہوئے۔ پکے کاغذات پر انگوٹھے لگے اور بوا رحمت نے اپنی کل دنیا، اپنے پوتے کی جان اس دشمنی کے گرداب سے بچالی۔
بلال کی جان تو بچ گئی، مگر مہک کو مزید مہلت نہ ملی اور وہ ایک دن باتیں کرتے کرتے اس سکون سے سوئی کہ پھر آنکھ ہی نہ کھول پائی۔ قندیل کے سر سے ممتا کی چھاؤں چھن گئی، مگر بوا جی نے اسے اپنی محبت بھری آغوش میں بھر لیا۔ اب بوا جی کی زندگی کا مقصد بلال کے ساتھ ساتھ قندیل بھی بن چکی تھی۔ پروفیسر عالم، مہک کی ابدی جدائی کو بڑی جی داری سے جھیل گئے تھے۔ انہوں نے خود کو پہلے سے زیادہ مصروف کر لیا۔ اپنے گھر کو اکیڈمی میں تبدیل کر دیا اور خود درس وتدریس میں کھو گئے۔
”بابا! بلال کا رزلٹ آگیا، دیکھیں اس نے پورے صوبے میں ٹاپ کیا ہے! ” قندیل بے حد خوش تھی۔ اس کے مسکراتے چہرے پر ایک انوکھی سی خوشی پھیلی تھی جیسے بلال کا نہیں اس کا اپنا رزلٹ آگیا ہو۔ پروفیسر صاحب نے کتاب سے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر اس کی خوشی کو محسوس کرتے ہوئے خود بھی خوش ہو گئے۔ بلال ان کے لیے سگی اولاد سے کم نہیں تھا اور پھر اس کی ذہانت، شرافت اور تابع داری اسے اور زیادہ ان کے دل کے قریب کرتی تھی۔




Loading

Read Previous

سلامی — امینہ خان سعد

Read Next

عکس — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!