صلیب — ثمینہ طاہر بٹ

بلال کی اس شان دار کام یابی نے انہیں بے پناہ خوشی اور فخر کا احساس دیا تھا۔ بوا جی جو بہت بوڑھی ہو چکی تھیں اور اپنے پوتے کی خوشیوں کے لیے ہی زندہ تھیں، اس خبر کے سنتے ہی سجدے میں گرگئیں۔ خوش تو وہ بھی بہت تھا اور ہوتا کیوں ناں، اس نے انگلش میں ماسٹرز پروفیسر صاحب کی خواہش پر ہی تو کیا تھا اور یہ ٹاپ پوزیشن قندیل کو خوش کرنے کے لیے حاصل کی تھی کیوں کہ یہ اس کی خوہش تھی اور قندیل کی کوئی خوہش ہو اور بلال پوری نہ کرے، یہ تو ممکن ہی نہیں تھا۔
”بلال! بیٹا اب تمہارا آگے کیا پروگرام ہے؟ کسی کالج میں اپلائی کیا ہے یا ابھی سوچ رہے ہو؟” پروفیسر صاحب نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اس سے پوچھا، تو اس کے ساتھ ساتھ بوا جی بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئیں۔




”جی بابا! کئی جگہ اپلائی کر رکھا ہے۔ کئی کالجز سے تو انٹرویو کال بھی آ چکی ہے، میں بس آپ سے مشورہ کرنے ہی والا تھا کہ کون سا کالج جوائن کروں۔” بلال انہیں تفصیل بتانے لگا۔
” جی نہیں! آپ کسی کالج میں پروفیسر صاحب نہیں لگیں گے۔ اس شہر میں استادوں کی کمی نہیں ہے جو ایک آپ بھی اس ”بحرِ بیکراں” کا حصہ بننے کا سوچ رہے ہیں!” قندیل نے اس کی بات کاٹتے ہوئے نخوت سے کہا، تو وہ بے ساختہ ہنسنے لگا کیوں کہ اسے پوری امید تھی کہ وہ کچھ ایسا ہی کہے گی۔ اسے اس طرح ہنستے دیکھ کر جہاں پروفیسر صاحب اور بوا جی کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی، وہیں قندیل بھی جھنجھلا سی گئی۔
” اچھا! ایم اے انگلش کرنے کے بعد میں ٹیچر نہیں بنوں گا، تو کیا سرکاری افسر لگ جاؤں گا کہیں؟ بھئی سیدھی سی بات ہے، میرے بابا جان بھی پروفیسر ہیں اور مجھے بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پروفیسر ہی بننا ہے۔ ابھی ایم اے کیا ہے، پھر ایم فل کروں گا اور پھر انشااللہ پی ایچ ڈی۔”
” ہر گز نہیں! آپ ایسا کچھ بھی نہیں کریں گے۔ آپ سیدھے سیدھے مقابلے کا امتحان دیں گے اور اس میں مثالی کام یابی حاصل کرنے کے بعد پولیس میں اعلیٰ پائے کے افسر لگیں گے۔ بس! اس کے سوا آپ اور کچھ بھی نہیں کریں گے۔ سمجھے آپ؟” اس کی بات ایک بار پھر کاٹتے ہوئے اس نے اس قدر یقین سے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ پروفیسر صاحب بھی بھونچکا رہ گئے۔ بے چاری بوا جی تو بس مُنہ کھولے ان دونوں کو ہی دیکھے جا رہی تھیں۔
”قندیل! بیٹا یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ آپ کسی کو اس طرح فورس نہیں کر سکتیں۔ کسی پر اپنی مرضی اس طرح تھوپنا اچھی بات نہیں ہوتی بیٹا!”
” لیکن بابا! یہ ” کسی” اور ”کوئی” نہیں، یہ بلال ہیں اور انہیں وہی کرنا پڑے گا جو میں ان سے کہوں گی، ورنہ ہماری دوستی ہمیشہ کے لیے ختم۔” اور یہ بات تو بلال کبھی مر کے بھی نہیں چاہ سکتا تھا۔ قندیل کی دوستی ہی اس کی زندگی تھی اور اس کی زندگی اس سے روٹھ جاتی، یہ وہ ہونے نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے اس نے وہی کیا جو قندیل چاہتی تھی۔ اس نے بابا اور بوا جی کو بھی منا لیا تھا۔ سی ایس ایس میں شان دار کامیابی تک تو بابا بھی اس کے ساتھ تھے، مگر جب اس نے قندیل کی اگلی فرمائش پر پولیس جوائن کرنا چاہی تو بابا بھی ڈگمگا سے گئے۔
”بلال بیٹا! آپ کوئی اور فیلڈ چوز کر لو۔ کسی بھی دوسری فیلڈ میں اپلائی کر دو، مگر بیٹا! یہ پولیس کی نوکری۔ نہیں بیٹا۔ میرا دل نہیں مانتا۔ آپ یہ جاب مت کرو!” بابا نے پریشان سے انداز میں کہا، تو بلال بھی پریشان ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ بابا کیوں خوف زدہ ہو رہے ہیں؟ یہ شعبہ ہے ہی ایسا کہ اس کے ساتھ نام جڑتے ہی بندہ خواہ مخواہ ہی مشکوک ہو جاتا ہے۔ پھر اگر وہ ایمان دار اور سیدھے راستے پر چلنے والا ہو تو اس کے راستے میں رکاوٹیں بھی بڑی کھڑی کی جاتی ہیں اور اس کے دشمن بھی بڑے بن جاتے ہیں، اپنے بھی اور بیگانے بھی اور یہ بات بلال خود بھی اچھی طرح جانتا تھا، اس لیے وہ بابا کی پریشانی سمجھ رہا تھا۔
”بابا! آپ کیوں فکر کر رہے ہیں؟ یہ پولیس بھی ہماری ہے اور اسے ٹھیک ٹریک پر لے جانے کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا، جب مجھ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اسکواڈ میں شمولیت اختیار کرلیں۔ اسی لیے میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے بابا۔ اور ویسے بھی آپ نے ہی تو ہم میں یہ جذبہ حب الوطنی بھرا ہے۔آپ پریشان مت ہوں۔ میں اپنے وطن کی آن پر جان دینے کی ہمت رکھتا ہوں اور اس کے دشمنوں کی جان لینے کی طاقت بھی ہے میرے پاس۔ مجھے تو آپ کا ساتھ اور آپ کی دعائیں چاہئیں بس!” اس کا عزم دیکھتے ہوئے وہ مسکرا دیے تھے۔
” شاباش میرے بچے! مجھے تم سے یہی امید تھی، مگر میرا دل جانے کیوں انجانے خدشوں سے ڈول رہا ہے!”
”بے کار کے خدشے مت پالیں بابا۔ بلال کے لیے یہ فیلڈ ہی بیسٹ ہے اور پھر انہیں اپنی جائیداد بھی تو واپس لینی ہے ناں اپنے بابا کے چچاؤں سے۔تو ان کے لیے پولیس آفیسر بننا بہت ضروری…”
”قندیل! یہ کیا کہہ رہی ہو؟ یہ کیسے کیسے خیالات آتے رہتے ہیں تمہارے دماغ میں؟ تم نے ایسا سوچا بھی کیسے کہ میں بلال کو گڑھے مردے اکھاڑنے کی اجازت دوں گا؟ نہیں! کبھی بھی نہیں۔ یہ پولیس میں جاب کر رہا ہے، میرے لیے اتنا دھچکا ہی بہت ہے۔ اب مجھ میں اور کوئی صدمہ سہنے کی ہمت نہیں۔ سمجھیں تم؟” قندیل نے جیسے ہی بابا کی بات کاٹتے ہوئے انہیں اپنے انداز میں تسلی دینے کی کوشش کی تو وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گئے اور اس کی بات کاٹتے ہوئے اس قدر درشتی سے بولے کہ وہ ایک دم سہم کر رہ گئی۔ بلال اور بوا جی حیرت سے انہیں دیکھنے لگے کہ یہ تو ان کا مزاج ہی نہیں تھا۔ وہ تو کبھی بھی کسی سے بھی اس انداز سے بات نہیں کرتے، کجا اپنی اکلوتی بیٹی کو اس بری طرح ڈانٹنے لگے تھے۔
”بابا! its okay۔ آپ Relax ہو جائیں پلیز۔ قندیل تو صرف مذاق کر رہی تھی، اس کا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا!” بلال نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
” وہ تو ٹھیک ہے بیٹا! مگر مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ میری بیٹی ہو کر اس نے ایسا سوچا بھی تو کیسے؟” وہ اب بھی غصے میں تھے۔




” بابا! میرا ایسا سوچنا کوئی ایسی غلط بات بھی نہیں تھی کہ آپ اس قدر ہائپر ہو گئے۔ آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ کسی کا حق چھینو نہیں اور اپنا حق چھوڑو نہیں۔ تو اگر میں بلال کو اس کا حق دلوانا چاہتی ہوں، تو اس میں غلط کیا ہے؟ بتائیں مجھے ذرا؟” وہ جو وقتی خوف کی وجہ سے ایک دم ڈر سی گئی تھی، اب پوری طرح سنبھل چکی تھی اور پھر اس کی سب سے بڑی ڈھال ”بلال” بھی تو اس کی مدد کو موجود تھا اسی لیے اس نے اپنا نقطۂ نظر بابا پر واضح کرنے کی ٹھانی اور فوری طور پر کمر کس کر میدان میں اتر آئی۔
” اور تم کیا سمجھتی ہو کہ وہ لوگ بڑے آرام سے اس کا ”حق” اس کے حوالے کر دیں گے؟ یہ آپ کی بھول ہے بیٹا جی۔ جہاں تک میں ان لوگوں کو سمجھ پایا ہوں، وہ انتہا درجے کے سنگ دل اور کینہ پرور ہیں۔ کسی کی جان لینا ان کے لیے بہت معمولی بات ہے اور پھر وہ لوگ پورا گروہ ہیں، ایک جتھہ ہیں جبکہ بلال بالکل اکیلا۔ وہ ایک اکیلا اس پورے خاندان کا مقابلہ کیسے کر پائے گا بھلا؟ نہیں! میں اسے کسی بھی ایسی اندھی دشمنی کا شکار نہیں ہونے دے سکتا جس کا انجام سوائے تباہی کے اور کچھ بھی نہ ہو۔” بابا نے قطعیت سے کہتے ہوئے جیسے بات ہی ختم کردی تھی۔ قندیل نے کچھ کہنے کو مُنہ کھولا، مگر بلال نے اشارے سے روک دیا۔ بوا جی نے بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جیسے بابا کی بات کی تائید کی تھی اور جب سب ایک طرف ہو گئے تو بے چاری قندیل اکیلی کیا کر سکتی تھی، سو وہ مُنہ پھلائے پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔
جلد ہی بلال ٹریننگ کے لیے چلا گیا۔ اس کے پیچھے بابا ایک بار پھر اپنی اکیڈمی اور اسٹوڈنٹس میں مصروف ہو گئے تو قندیل اپنی پڑھائی میں کھو گئی، مگر ایک ملال سا اس کے دل میں گھر کر چکا تھا کہ بلال نے اس کی بات نہیں مانی اور بابا نے اسے ماننے نہیں دی۔ وہ اندر ہی اندر کڑھتی رہتی، مگر مُنہ سے بات نہیں نکالتی تھی کہ کہیں پھر بابا اور بوا جی سے ڈانٹ نہ کھانی پڑ جائے۔البتہ بلال سے وہ پوری طرح ناراض ہو چکی تھی، اسی لیے نہ تو اس کی کوئی کال اٹینڈ کرتی اور نہ ہی اس کے کسی میسج کا جواب دیتی تھی۔ بلال کو بھی اس کی ناراضی کا اچھی طرح سے اندازہ تھا، لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اس سے زیادہ دیر خفا رہ نہیں سکتی اسی لیے وہ مطمئن تھا، مگر نہیں جانتا تھا کہ بعض اوقات انسان اپنی انا میں خود اپنا کس قدر نقصان کر جاتا ہے۔ ضد، انا اور نام نہاد خودداری، شیطان کے پھیلائے ایسے جال ہیں جس میں انسان بہت آسانی سے پھنس جاتا ہے اور اس بری طرح جکڑا جاتا ہے کہ پھر کوئی راہِ فرار باقی ہی نہیں رہتی۔
قندیل ماسٹرز کے آخری سال میں تھی۔ اس کی فیلڈ گَرافکس ڈائیزانگ اور آئل پینٹنگ تھی اور اب وہ اپنی سولو ایگزی بیشن کی تیاری کر رہی تھی۔ اس سے پہلے وہ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ کئی نمائشوں میں حصہ لے چکی تھی اور اس کے کام کو بہت پسند بھی کیا گیا تھا، اب اس کے پروفیسرز اور ساتھی طلبہ نے اسے فورس کیا، تو وہ بھی راضی ہو گئی اور پھردل و جان سے اس کی تیاریوں میں جت گئی۔ بابا اور بوا جی اس کی اس ایکٹیویٹی سے خوش تھے۔
اور پھر ان مصروف دنوں میں اسے زریاب خاں ملا۔ وہ مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا۔ ماریہ جو کہ قندیل کی دوست تھی اس نے تو اسے دیکھتے ہی ”اپالو” کا نام دے دیا تھا اور یہی اپالو جانے کیوں قندیل کے آگے پیچھے پھرنے لگا تھا۔ وہ کسی دوسری یونیورسٹی سے یہاں آیا تھا اور آتے کے ساتھ ہی قندیل سے اس کا سامنا ہوگیا تھا۔ اسے جانے اس میں کیا کشش نظر آئی کہ بے حد حسین و جمیل اور اسٹائلش لڑکیوں کو چھوڑ کے وہ سیدھی سادھی سی قندیل عالم کے گرد دیوانہ وار منڈلانے لگا۔
قندیل نے پہلے پہل تو کوئی خاص توجہ ہی نہیں دی کہ اس مخلوط تعلیمی ادارے میں وہ سب ہی بہت دوستانہ ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، مگر آہستہ آہستہ اسے کوئی عجیب سا احساس ستانے لگا۔ یہ احساس کو جگانے میں بھی اس کے دوسرے کلاس فیلوز کا ہاتھ زیادہ رہا۔ زریاب کی بولتی نگاہیں اور کچھ کہتے انداز قندیل کو خواہ مخواہ کی گھبراہٹ کا شکار کرنے لگے اور پھر اس سے پہلے کے وہ کچھ اور سمجھ پاتی، زریاب نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا اور اپنی امو جان کو اس کا رشتہ لینے بیت العلم بھیج دیا۔
بابا تو حیرت کی تصویر بنے ہی تھے، بوا جی کے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑ گئے۔ وہ بلال کی پسند اور مرضی سے اچھی طرح واقف تھیں۔ اپنے پوتے کی آنکھوں کے جیتے جاگتے خواب اور دل میں بسنے والے ارمانوں کی انہیں خوب خبر تھی۔ اسی لیے زریاب اور اس کی امو جان کی آمد کا مقصد جان کر وہ حواس باختہ ہو گئی تھیں۔ بابا نے ان سے سوچنے کے لیے وقت مانگ لیا اور بواجی کی سانسیں رکنے لگیں۔




Loading

Read Previous

سلامی — امینہ خان سعد

Read Next

عکس — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!