صبر بے ثمر — سحرش مصطفیٰ

حیدرآباد سے کراچی تک دو گھنٹے کا سفر اذیت ناک تھا ۔ سارے راستے موبائل کان سے لگائے میں امی کو تسلیاں دیتی رہی، لیکن حالات کی تفصیلات جان کر میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ سارے راستے میں اپنے اعصاب کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتی رہی لیکن بے سود۔ ماضی جیسے مجسم ہوکر میرے سامنے آرہا تھا ۔ آپی سے متعلق ساری غلطیاں اور کوتاہیاں، سب کچھ بار بار میرے سامنے گھوم رہا تھا۔ بالآخر میں آپی کے گھر میں داخل ہوئی، وہ مجھے سامنے ہی مل گئیں پہلے کی طرح بالکل گم صم سی۔
میں حیرت کے عالم میں آگے بڑھی اور سامنے کھڑی آپی کے چہرے کو غور سے دیکھا ۔ مرکزِ نگاہ چہرہ تھا نہ ہی نقوش، بلکہ ان کی آنکھیں تھیں ۔ میں بہ غور اُن کی بڑی بڑی بادامی آنکھوں میں جھانکنے لگی ۔ ایسی نایاب آنکھیں جو کبھی روشنی سے جگمگاتی تھیں، پھر ان میں الجھن اتری اور ایک دور آیا جب ان پر اداسی کی حکمرانی رہی۔ پھر ایک وقت وہ تھا جب ان آنکھوں نے دنیا سے منہ موڑ لیا، وہ جھک گئیں تھیں اور انہوں نے دنیا کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔ میں سمجھی کہ وہ بردباری کی انتہا تھی، لیکن وہ بردباری نہیں، بربادی تھی۔ وہ آنکھیں اپنے اندر کی وحشت کو چھپانے کے لیے جھکائی گئی تھیں۔بکھرے ہوئے بال اور وحشت برساتی آنکھیں ساری کہانی سنا رہی تھیں کہ کوئی الزام جھوٹانہیں تھا، جھوٹا تھا تو بس میرایقین۔ برسوں کا یقین اور بھروسا، میں جس صبر کا راگ الاپتے ہوئے آپی کے لیے دعا کرتی تھی، وہ کڑوا نکلا تھا۔




ابیہاآپی ہم سب کے لیے مثال تھیں۔ ایک ایسی مثال جو بے مثال تھی۔ خاندان کے سارے صاحبِ اولاداپنی بیٹیوں کو مختلف مواقع پر آپی کی مثال دیتے ۔وہ قابلِ تقلید تھیں۔ ان کا صبر ، ان کا سلیقہ اور ان کی عادات و مزاج میں پائی جانے والی بردباری اور سنجیدگی، سب لاجواب تھا۔ سب سے بڑھ کر ان کی زبان جس نے کبھی انکار نہیں کیا تھا۔ ان کے منہ سے کبھی اُف تک نہیں سنا تھا۔ ان کی ساری زندگی مختلف امتحانات سے لبریز تھی۔
ان کا سب سے پہلا امتحان یہ تھا کہ میٹرک کے بعد امی کی طبیعت خراب رہنے لگی اورگھرداری کا مسئلہ ہوا، تب آپی آگے آئیں اور انہوں نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی ۔ سارا دھیان ہم بہن بھائیوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال پر لگادیا ۔ یہ ان کا ہی ظرف تھا ۔ ان کا دوسرا امتحان نوجوانی میںوارد ہوا، جب بھی ان کے لیے کوئی رشتہ آتا، تو وہ چھوٹی بہن کو پسند کر جاتا، کیوں کہ سب کو سلیقہ مندی اور خوب صورتی کے ساتھ ساتھ پڑھی لکھی لڑکی چاہیے تھی۔ سب ایک مکمل پیکج چاہتے تھے۔ امی ابا سب کو منع کردیتے، لیکن مسئلہ تب پیدا ہوا جب ربیعہ باجی کے ایک کلاس فیلو کو منع کردیا گیا اور گھر میں بھونچال آگیا۔ ربیعہ آپی نے زمین آسمان ایک کردیا۔ ان کے خیال میں آپی ایک ڈائن تھیں جو اپنی باقی بہنوں کی عمر اور خوشیوں کو کھارہی تھیں۔ یہ ایک بہن کی دوسری بہن کے لیے بدگمانی کی انتہا تھی۔ اس وقت پہلی بار مجھے آپی کی آنکھوں میں نمی کے ہلکورے نظر آئے، لیکن وہ چپ ہی رہیں ۔ربیعہ آپی نے رشتے داروں کو فون کرکرکے آپی کے خلاف زہر اگلناشروع کردیا۔ وہ ہر ایک کو مجبور کرتیں کہ وہ اماںابا کوقائل کریں اور وہ اس سارے عمل میں کام یاب ہو بھی گئیں،کیوں کہ امی ابا کے لیے یہ بہت ہی شرمندگی کا مقام تھا کہ ان کی ایک بیٹی دوسری بیٹی کو بدنام کرے۔ لہٰذا انہوں نے ہاں کردی اور پھر ربیعہ آپی کی شادی وہیں ہوئی جہاں وہ چاہتی تھیں ۔ میں اس سارے عمل کے دوران پریشان رہی کچھ کربھی نہیں سکتی تھی ۔ آپی اس دوران بھی خاموش رہیں، لیکن ان کی روٹین ویسے کی ویسے ہی رہی، کوئی شکوہ نہ کوئی گلہ۔ وہی گھر کے کام کاج، بہن بھائیوں کی خدمت اور ماں باپ کا حکم بجا لانا۔ کبھی کبھار مجھے ان کی خاموشی سے وحشت ہونے لگتی۔ میرے دل میں خیال آتا کہ کوئی انسان اتنی پکی چپ کیسے لگا سکتا ہے۔ میں انہیں اپنے لیے آواز بلند کرنے پر اکساتی لیکن انہوں نے کبھی میری باتوں کو سیریس ہی نہیںلیا۔ امی ابا اب مکمل طور پر آپی پر انحصار کرتے تھے۔ ان کا ہر کام آپی کے ذمے تھا ۔ اس کے علاوہ کچن بھی آپی ہی چلاتی تھیں ۔ سب بہن بھائیوں کی پسند ناپسند کی لسٹ ان کے پاس رہتی اور وہ سب کی خدمت میں جتی رہتیں۔ سب لوگ انہیں صابر قرار دیتے اور میں ان کی بے رنگ زندگی کو دیکھتے ہوئے اس صبر کے معنی تلاش کرتی رہتی، جو ان کی زندگی کو کھائے جارہا تھا۔ یہ کیسا صبر تھا؟
ان کی کوئی سہیلی تھی اور نہ کوئی ہم راز۔ انہیں میک اپ کا شوق تھا اور نہ ہی محفل کی جان بننے کا۔ البتہ ایک تبدیلی ضرور آئی تھی۔ وہ چپ تو پہلے بھی رہتی تھیں، لیکن اب گم صم بھی رہنے لگیں۔ انہوں نے محفل میں اٹھنا بیٹھناچھوڑ دیا تھا۔ نہ کسی کے گھر جاتیں اور نہ ہی مہمانوں کے آنے پر ان سے گھلتی ملتی تھیں۔ ان کا وجود تھا کہ بکھرتا ہی جارہا تھا۔ ایک عجیب بات جو میں نے نوٹ کی وہ یہ کہ ان کے بارے میںکوئی ایک بار سے زیادہ پوچھتا بھی نہیں تھا۔ کسی رشتے دار کے گھر جانے پر وہ سب کو اس وقت یاد آتی تھیں جب کوئی کام کرنا ہوتا۔ ”ابیہا ہوتی تو ہاتھ بٹا دیتی۔” اور بس ان کی اس سے زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ لوگ ان کے سلیقے اور طریقے کی تعریف کرتے اور پھر بڑے آرام سے انہیں بدقسمت قرار دے دیتے۔ ایک ایسی لڑکی جس کی وقت پر شادی نہ ہوسکے، وہ ہمارے معاشرے میں بدقسمت کہلاتی ہے۔ دنیا والے ہر انسان کے اندر کچھ خاص تلاش کرتے اور اس کے بعد اس کی پوزیشن ظاہر کرتے ہیں کہ کس کو کتنی عزت دینی چاہیے اور کون کتنے احترام کا مستحق ہے۔ ایک ایسی عورت جس کے پاس نہ تو کوئی ڈگری ہو اور نہ ہی کوئی خاص ملکوتی حسن، اس کی اوقات شوہر کی حیثیت کے مطابق طے کی جاتی ہے اور آپی تو ابھی تک اس شوہر یا سسرال نامی شے سے منسلک نہیں ہو پائی تھیں۔ تو طے یہ پایا کہ خاندان والوں کے لیے وہ ایک غیر ضروری وجود بن چکی ہیں۔ سب چھوڑیں، میری اپنی دوسری دو بہنیں ان سے دور رہتی تھیں۔
”یہ جو بڑی عمر کی غیرشادی شدہ لڑکیاں ہوتی ہیں نا، یہ کسی دوسرے کا گھر بستے ہوئے نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں ۔” ربیعہ آپی سرگوشی کرتیں۔ مجھے ربیعہ آپی کی ایسی باتیں سن کر بہت افسوس ہوتا تھا۔ وہ پہلے صابرکہلائیں، پھر بدقسمت اور اب نفسیاتی مریضہ۔ کیا کوئی صبر کرنے والا بدقسمت اور نفسیاتی مریض ہوسکتا ہے؟ مجھے لوگوں کی زبانوں اور سوچ پر اعتراض ہوتا، لیکن آپی کو کسی بات پر اعتراض نہیں تھا ۔ میں ہمیشہ سچے دل سے ان کے لیے اس صبر کے پھل کی دعا کرتی۔
وہ اب پینتیس کے پیٹے میں تھیںاور میں میڈیکل میں ایڈمیشن کی تیاری کررہی تھی۔ میری دو بہنوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ ابھی بھائیوں کی شادیاں نہیں ہوئی تھیں البتہ نسبت طے ہوچکی تھی۔ امی اب آپی کی وجہ سے بہت پریشان رہنے لگی تھیں۔ انہیں گھر کے کاموں کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا تھا۔ امی کو خدشہ تھا کہ شادی کے بعد آنے والی بھابی انہیں برداشت کرے گی یا نہیں۔ ان کا یہ شک بالکل ٹھیک نکلا۔ جب امی ابا بڑے بھائی کی تاریخ لینے گئے توانہوں نے یہ کہہ کر نیا پینڈورا باکس کھول دیا کہ آپی کی موجودگی میں وہ اپنی بیٹی اس گھر میں نہیں بیاہیں گے۔ انہیں اپنی بیٹی کے لیے الگ گھر چاہیے۔ تب امی ابانے آپی کے لیے ایک رشتہ ڈھونڈا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۴ (آخری قسط)

Read Next

فوبیا — فاطمہ عبدالخالق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!