صاحبِ حال — بلال شیخ

مقدرر سب کی زندگی میں ایک دفعہ سے زیادہ اس کا دروازہ کھٹکاتا ہے اور بار بار اس کو کام یابی کی طرف بلاتا ہے مقدر نے کبھی انکار نہیں کیا کبھی منہ نہیں پھیرا لیکن انسان اپنے تصورات میں جکڑا ہوا ہے۔ مواقع روز اسے سلام کرتے ہے لیکن شاید انسان میں غرور ہی بہت ہے۔ اس طرح کی کچھ کہانی تین دوستوں کی ہے ایک کا نام صاحب ِمستقبل دوسرے کا صاحب حال اور تیسرے کا صاحب ماضی تھا۔
وہ تینوں اپنی اپنی فکر میں مگن تھے۔ خیالوں میں گم تھے کہ مقدر ان کے پاس آیا، ہنستا مسکراتا پر رونق چہرے کے ساتھ۔ اس نے صاحبِ مستقبل کو دیکھا تو اس کے پاس چلا گیا اور اس سے پوچھا۔
”تم کون ہوں؟”




صاحبِ مستقبل نے جواب دیا۔
”میں صاحبِ مستقبل ہوں، میں ایک خوف کا نام ہوں، ہر لمحہ خوف، دوست کے دشمن ہوجانے کا خوف، امیری سے غریبی کا خوف، اپنوں کے چھوٹ جانے کا خوف، قرض لے کر قرض اُتارنے کا خوف، خطرناک حادثے کا خوف، دولت کے لٹ جانے کا خوف کسی کی بددعا نہ لگ جائے، مجھے میرا کوئی ساتھی برا نہ جانے۔ مقدر نے جب یہ سنا تو مسکراتے ہوئے بولا:
”میں بنوں گا نا تمہارا دوست، میں جس سے ملتا ہوں اس کی زندگی بدل دیتا ہوں۔ میں اس کے خوف کو بہادری بنا دیتا ہوں، مین اس کو دولت مند بنا دیتا ہوں۔ میں وہ دعا ہو جو مائیں اپنی اولاد کو دیتی ہیں میرے دوست۔”
صاحب مستقبل نے جب یہ سنا تو تو کہا: ”نہیں! میں تمہارے ساتھ دوستی نہیں کرسکتا کیوں کہ مجھے خوف ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہوں۔”
مقدر کو غصہ آگیا اور اس نے غصہ سے کہا:
”تم تو پاگل ہو۔ تم کبھی سکون سے نہیں رہ سکتے کیوں کہ تم سکون چاہتے ہی نہیں ہو۔”
مقدر یہ کہہ کر آگے چل دیا۔ آگے صاحب ماضی بیٹھا تھا جو کافی خاموش تھا۔ آج کی کوئی فکر نہ کل کا کچھ پتا مقدر نے دیکھا تو پوچھا تم کون ہو؟ صاحبِ ماضی بولا:
”میں صاحبِ ماضی ہوں۔ میں ایک درد بھرا احساس ہوں۔ میں کسی کو جینے نہیں دیتا میں کسی کو معاف نہیں کرتا، میں غم زدہ رہتا ہے میں احساس کم تری ہوں، مجھے لوگوں کی تلخ مزاجی سے نفرت ہے، میں کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔”
مقدر نے یہ سنا تو کہا:
”میں خوش نصیب ہوں، میں تمہارا کل بہتر کر دوں گا۔ میرے ساتھ رہوں گے تو مٹی بھی سونا بن جائے گی تمہارے خیالات میں بہتری آجائے گی۔ میں سب کا حوصلہ بلند کر دیتا ہوں۔ میں جذبۂ محبت ہوں۔ میں تمہارے دشمنوں کو دوست بنا دوں گا، میں تمہارے درد کو کم کردوں گا۔ میں سکون ہوں، ایک آواز ہوں۔”
صاحب ماضی نے یہ سنا تو سوچ میں پڑ گیا اور بولا:
”نہیں! میں کیسے بن سکتا ہو تمہارا دوست؟ میں کسی کا دوست نہیں بن سکتا۔ دنیا نے پہلے ہی مجھے بہت غم دیے ہیں۔ میں کبھی کام یاب نہیں ہوسکتا۔ تم چلے جاؤ یہاں سے مقدر نے سنا تو اس کو افسوس ہوا اور اس پر رحم آیا۔ اس نے صاحبِ ماضی سے منہ پھیر لیا اور آگے چل دیا۔ آگے اس کی ملاقات صاحب حال سے ہوئی جو بہت خوش مزاج اور پر رونق لگ رہا تھا۔
وقت آگے مقدر نے اس سے پوچھا:
”تم بھی صاحبِ حال اور صاحب مستقبل کی طرح کسی سے دوستی نہیں کرتے؟”
صاحب حال نے کہا:
”نہیں تو، میں ایسا نہیں ہوں میں صاحبِ حال ہوں۔ میں ایک خوش حال زندگی ہوں، مجھے ماضی کی فکر ہے نہ مستقبل کی پرواہ۔ میں آج میں رہتا ہوں فقیری میں بھی خوش، دولت میں بھی خوش اور تنہائی میں بھی خوش، دشمن سے بھی دشمنی نہیں کرتا، میں ہر وقت دوست بناتا ہوں اور شکر کرتا ہوں اور کبھی کسی سے غلطی ہوجائے تو اس کو بھی معاف کردیتا ہوں۔ میں ایک خوشی ہوں۔”
مقدر یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس نے کہا:
”صاحبِ حال مجھے بھی اپنا دوست بنا لو۔ میں مقدر ہوں ہم دونوں مل جائیں گے تو بلندیوں کا سفر کریں گے، کوئی ہمیں توڑ بھی نہیں سکے گا۔ میں تیری فقیری ختم کردوں گا اور اگر دولت آئے گی تو اس میں برکت ڈال دوں گا۔ تم جو کروں گے اس میں کام یاب رہوگے۔”
”ہاں بالکل! میں تو تمہارے جیسے وفادار دوست ڈھونڈتا رہتا ہوں۔ میں تمہارے ساتھ ضرور دوستی کروں گا اور اگر کبھی تم ساتھ چھوڑ بھی دو گے تو میں تمہارا انتظار کروں گا اور اس طرح مقدر اور صاحبِ حال نے آپس میں دوستی کرلی اور ان کی دوستی نے ساری دنیا پر راج کیا کبھی کسی بادشاہ کی شکل میں کبھی کسی جرنیل کی شکل میں تو کبھی بہترین دوست کی شکل میں۔ کبھی دولت مند مددگار بن کر تو کبھی مشکل میں پھنسے لوگوں کے لیے بابا جی بن کر اور آج بھی دنیا ان کی دوستی پر رشک کرتی ہے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جِن کے تین سنہری بال | سارہ قیوم

Read Next

داستانِ محبت — ندا ارشاد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!