جِن کے تین سنہری بال | سارہ قیوم

جِن کے تین سنہری بال
سارہ قیوم

کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ ایسا بیمار ہوا کہ کسی دوا سے ٹھیک نہ ہوا۔ حکیموں نے کہا: ”اگر بادشاہ کو جن کے تین سونے کے بال پیس کر کھلائے جائیں تو ہ ٹھیک ہو جائے گا۔” لیکن جن کے بال لائے کون؟ آخر دوردیس سے ایک شہزادہ آیا اور اس نے جن کے تین سونے کے بال لانے کا وعدہ کیا۔ جن بہت دور ایک پہاڑ پر اپنی نانی کے ساتھ رہتا۔ شہزادہ پہاڑ کی طرف چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اس شہر کے لوگ بہت اداس تھے۔ شہزادے نے پوچھا: ”تم لوگ اتنے اداس کیوں ہو؟
انہوں نے جواب دیا: ”ہمارے شہر میں ایک بہت بڑا فوارہ ہے جس کا پانی شہد کی طرح میٹھا ہے۔ سارا شہر اسی فوارے سے پانی لیتا ہے۔ اب کچھ دنوں سے فوارے میں پانی آنا بند ہو گیا ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟”
شہزادے نے کہا: ”میں جن کے تین سنہری بال لانے جا رہا ہوں۔ اگر ہو سکا تو تمہارے اس مسئلے کا حل بھی تلاش کر لائوں گا۔”
شہر کے لوگوں نے شہزادے کو ایک خوب صورت ہیروں کا ہار تحفے میں دیا۔ شہزادہ دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ سفر کے دوران وہ ایک اور شہر میں پہنچا جہاں کے لوگ بہت پریشان تھے۔ شہزادے نے پوچھا ”تم لوگ پریشان کیوں ہو؟” انہوں نے جواب دیا: ”ہمارے شہر میں ایک بہت بڑا انار کا درخت ہے جس پر بے حد میٹھے اور رس دار انار لگتے ہیں۔ اب وہ درخت مرجھا رہا ہے۔ سمجھ نہیں آتی اس کو کیا ہو گیا ہے اور ہم اس کو کیسے ٹھیک کریں۔”
شہزادے نے کہا: ”میں جن کے تین سنہری بال لانے جا رہا ہوں۔ ہو سکا تو تمہارے مسئلے کا حل بھی ڈھونڈ لائوں گا۔”
شہر والوں نے شہزادے کو ایک خوب صورت سرخ ریشمی دوپٹہ تحفے میں دیا جس پر سونے چاندی کی تاروں سے کڑھائی بنی تھی۔ شہزادہ آگے چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ ایک دریا کے کنارے پہنچا جہاں ایک ملاح اپنی کشتی میں بیٹھا تھا۔ شہزادہ دریا کرنے کے لیے اس کی کشتی میں بیٹھ گیا اور ملاح چپو چلانے لگا۔ جب دوسرے کنارے پر پہنچے تو ملاّح نے کہا: ”لگتا ہے آپ کسی خاص سفر پر جا رہے ہیں۔ کیا آپ میرے ایک سوال کا جواب تلاش کر لائیں گے؟”
شہزادے نے کہا ”ضرور کیا سوال ہے؟”
ملاح نے کہا: ”میں اس کشتی کا قیدی ہوں۔ اس سے نکل نہیں سکتا۔ دن رات اسی میں بیٹھے رہنے پر مجبور ہوں۔ کیا کوئی ایسا طریقہ ہو سکتا ہے کہ میری اس سے جان چھوٹ جائے؟”
شہزادے نے جواب ڈھونڈنے کا وعدہ کیا۔ ملاح نے شہزادے کو سونے کی ایک انگوٹھی تحفے میں دی۔ شہزادہ کئی دن سفر کرتا رہا۔ آخر اُس پہاڑ تک پہنچا جہاں جن کا گھر تھا۔ شہزادہ پہاڑ پر چڑھا اور اس نے جن کے دروازے پر دستک دی۔ جن کی نانی نے دروازہ کھولا۔
شہزادے نے کہا: ”السلام علیکم نانی جان۔”
بے چاری بوڑھی نانی سارا دن اکیلی رہتی تھی۔ شہزادے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور بولی: ”ارے کتنے اچھے لڑکے ہوتم کتنی تمیز سے سلام تم کون کرتے ہو بیٹا؟ کہاں آئے ہو؟ کیا کام ہے؟”
شہزادے نے کہا ”نانی جان میں ایک شہزادہ ہوں۔ آپ کے پاس جو جن رہتا ہے اس کے سر میں سونے کے تین بال ہیں۔ میں وہ بال لینے آیا ہوں۔ اگر آپ وہ بال مجھے دے دیں تو میں آپ کو تین تحفے دوں گا۔”
نانی یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور بولی: ”آج تک کوئی میرے لیے تحفہ نہیں لایا۔ جلدی سے دکھاؤ کیا تحفے ہیں؟”
شہزادے نے کہا: ”ہر تحفے کے ساتھ ایک سوال بھی ہے جس کا جواب آپ کو دینا ہو گا۔”
نانی خوشی سے تالیاں بجا کر بولی ”ارے واہ! یہ تو بہت مزے کا کھیل ہے۔ تحفے کے ساتھ سوال کا جواب۔ بتاؤ کیا سوال ہیں؟”
شہزادے نے کہا: ”پہلا سوال یہ ہے کہ ایک شہر میں ایک فوارہ ہے جس کا پانی شہد کی طرح میٹھا ہے۔ اس فوارے کا پانی بند کیوں ہو گیا ہے؟”
یہ کہہ کر اس نے ہیروں کا ہار نکال کر نانی کی خدمت میں پیش کیا۔ نانی خوشی سے اچھل پڑی۔ جلدی سے ہار لے کر گلے میں ڈال لیا اور کہنے لگی: ”اتنا خوب صورت ہار تو میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ بیٹا جلدی سے بتاؤ دوسرا سوال کیا ہے؟”
شہزادے نے دوسرا سوال بتایا: ”ایک شہر ہے، جہاں انار کے درخت پر میٹھے انار لگتے ہیں، وہ درخت کیوں سوکھتا جا رہا ہے؟”
یہ کہہ کر سرخ ریشمی دوپٹہ نکال کر نانی کے حوالے کیا۔ نانی نے جلدی سے دوپٹہ اوڑھ لیا اور خوشی سے بولی: ”ارے واہ کس قدر خوب صورت دوپٹہ ہے۔”
تیسرا سوال شہزادے نے کہا: ”وہ جو دریا میں ملاح ہے، وہ اپنی کشتی کی قید سے کیسے نکل سکتا ہے؟” یہ کہہ کر سونے کی انگوٹھی نانی کو دی۔ نانی نے انگوٹھی پہن لی اور بولی: ”ان تین سوالوں کے جواب میں تمہیں تین سنہری بالوں کے ساتھ دوںگی۔ اب تم جلدی سے چھپ جاؤ جن کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔”
نانی نے شہزادے کو ایک الماری میں چھپا دیا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ جن آگیا۔

”آدم بو… آدم بو۔” اس نے آتے ہی شور مچا دیا ”مجھے کسی انسان کی بو آرہی ہے۔”
نانی نے کہا: ”ارے یہ تو میں نے تمہارے لیے پراٹھے پکائے ہیں، یہ خوشبو ان پراٹھوں کی ہے۔ آجلدی سے کھانا کھا لے۔”
جن نے ایک سو بیس پراٹھے کھائے اور بولا: ”واہ نانی! آج تو آپ نے بڑے مزے کا کھانا بنایا ہے۔ کھانے کھا کر تو اب نیند آنے لگی ہے۔”
نانی پیار سے بولی: ”آجا میرا بچہ۔ یہاں میری گود میں سر رکھ کر سو جا۔”
جن نانی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ نانی آہستہ آہستہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں جن کے خراٹے گونجنے لگے۔ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پھیرتے نانی نے ایک سنہری بال تلاش کیا اور جھٹکے سے توڑ لیا۔ جن گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔
”کیا ہوا نانی؟” اس نے گھبرا کر کہا ”بال کیوں کھینچ رہی ہو میرے؟”
نانی بولی: ”ارے معاف کرنا بیٹا! وہ دراصل میں کچھ سوچ رہی تھی۔ غلطی سے تمہارے بال کھینچ لیے۔”
جن جمائی لے کر بولا: ”کیا سوچ رہی تھی نانی؟”
”میں سوچ رہی تھی کہ دور وہ جو ایک شہر ہے جس میں ایک میٹھے پانی کا فوارہ ہے، وہ فوارہ کیوں بند ہو گیا ہے؟”
جن نے قہقہہ لگایا: ”ہا ہا ہا… اس سوال کا جواب صرف مجھے معلوم ہے۔ اس فوارے کے سوراخوں میں مٹی پھنس گئی ہے۔ اگر وہ بے وقوف لوگ فوارے کو کھول کر صاف کر لیں تو پانی پھر سے چل پڑے گا۔”
نانی نے خوش ہو کر کہا: ”ارے تم کتنے عقل مند ہو میرے بچے۔ چلو اب تم سو جاؤ۔ سو جاؤ میرے بچے۔”
جن دوبارہ نانی کی گود میں سر رکھ کر سو گیا اور خراٹے لینے لگا۔ نانی دوبارہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔ انگلیاں پھیرتے پھیرتے اس نے دوسرا سنہری بال پکڑا اور جھٹکے سے توڑ لیا۔ جن اچھل پڑا۔
”نانی” اس نے غصے سے کہا: ”کیا ہو گیا آپ کو؟ پھر سے بال نوچ لیے میرے؟”
نانی بولی: ”معاف کرنا بیٹا! اصل میں یہ سوچ رہی تھی کہ دور وہ جو ایک شہر ہے جس میں میٹھے اناروں کا درخت ہے، وہ درخت کیوں سوکھتا جا رہا ہے؟”
جن نے کہا: ”اس سوال کا جواب صرف مجھے معلوم ہے۔ اس درخت کی جڑوں میں ایک بہت موٹا چوہا بیٹھا جڑوں کو کتر رہا ہے۔ شہر والوں کو چاہیے کہ وہاں سے کھود کر اس چوہے کو مار ڈالیں۔ درخت پھر سے ہرا بھرا ہو جائے گا۔”
نانی خوش ہو کر بولی: ”واہ واہ! تم کتنے عقل مند ہو میرے بچے چلو اب تم پھر سے سوجاؤ۔”
جن نے کہا: ”دیکھنا اب میرے بال نہ کھینچنا نانی ورنہ میں یہاں سے اٹھ کر چلا جائوں گا۔”
نانی بولی: ”نہیں نہیں بیٹا! تم بے فکر ہو کر سوجاؤ… سو جاؤ میرے بچے۔”
جن خراٹے لینے لگا۔ نانی نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے تیسرا سونے کا بال تلاش کیا اور جھٹکے سے توڑ لیا۔ جن تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔
”کیا کرتی ہو نانی؟” اس نے تڑپ کر پوچھا۔
نانی بولی: ”ارے معاف کرنا بیٹا۔ دراصل میں سوچ رہی تھی کہ بڑے دریا میں جو ملاح کشتی چلاتا ہے، وہ اپنی کشتی سے اترتا کیوں نہیں؟”
جن بولا: ”کیا ہو گیا ہے نانی؟ آج ساری دنیا کے سوال آپ ہی کیوں سوچ رہی ہیں۔ وہ ملاح اصل میں ایک بادشاہ ہے جسے اس کے دشمن نے جادوکے زور سے ملاح بنا دیا تھا اور خود اس کے تخت پر قبضہ کر لیا تھا۔ اگر یہ ملاح اپنا چپو کسی کو پکڑا دے تو وہ آزاد ہو جائے گا اور چپو پکڑنے والا کشتی میں قید ہو جائے گا۔”
نانی بولی: ”واہ واہ! بہت اچھی بات کی تم نے… چلو اب تم سو جاؤ میرے بچے۔”
جن نے کہا: ”میری توبہ نانی! میں اپنے کمرے میں جا کر سوئوں گا۔ یہاں رہا تو آپ میرے سارے بال نوچ ڈالو گی۔”
جن چلا گیا تو نانی نے شہزادے کو الماری سے نکالا اور کہا: ”یہ رہے جن کے تین سنہری بال اور سوالوں کے جواب تو تم نے سن ہی لیے ہوں گے۔”
شہزادے نے نانی کا شکریہ ادا کیا اور واپسی کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ سب سے پہلے وہ دریا پر پہنچا۔ ملاح نے پوچھا: ”میرے سوال کا جواب لائے؟” شہزادے نے کہا: ”ہاں مگر دوسرے کنارے پر پہنچ کر بتائوں گا۔” ملاح نے اسے کشتی میں بٹھا کر دوسرے کنارے پر پہنچا دیا۔ شہزادہ کشتی سے اتر کر کنارے پر کھڑا ہوا اور ملاح کو وہ جواب بتایا جو اس نے جن سے سنا تھا۔ ملاح نے پوچھا: ”یہ بات تم نے مجھے کشتی ہی میں کیوں نہ بتائی؟” شہزادہ مسکرایا اور وہاں سے چلا گیا ۔
شہزادہ کئی دن چلتا رہا۔ پھر وہ انار کے درخت والے شہر میں پہنچا۔ وہاں کے لوگ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ شہزادے نے ایک بیلچہ منگوایا اور درخت کی جڑوں کو کھودنے لگا۔ وہاں ایک واقعی موٹا تازہ چوہا بیٹھا جڑیں کتر رہا تھا۔ شہزادے نے اسے مار ڈالا۔ درخت پھر سے ہرا بھرا ہو گیا۔ شہر کے لوگ خوشی سے جھوم اٹھے۔ انہوں نے ڈھیر سارے ہیرے جواہرات شہزادے کو تحفے میں دیئے۔
شہزادہ اپنے سفر پر چل پڑا۔ کئی دن بعد وہ فوارے والے شہر میں پہنچا۔ لوگ بے چینی سے اس کی راہ تک رہے تھے۔ شہزادے نے فوارے کو کھول کر اس کے سوراخوں میں پھنسی مٹی صااف کر دی اور فوارہ پھر سے چل پڑا۔ لوگ بے حد خوش ہوئے۔ انہوں نے بہت سا مال و دولت تحفے میں شہزادے کو دیا۔
کئی دن کے سفر کے بعد شہزادہ بیمار بادشاہ کے پاس پہنچا اور جن کے تین سنہری بال اس کے حوالے کیے۔ جونہی وہ بال پیس کر بادشاہ کو کھلائے گئے۔ وہ اسی وقت صحت یاب ہوگیا۔ بادشاہ نے شہزادے کے پاس اتنا مال و دولت دیکھا تو اس کے دل میں لالچ آگیا۔ وہ سمجھا کہ شاید شہزادہ یہ مال و دولت جن سے لے کر آیا۔
اس نے اسی وقت سفر کی تیاری کی اور جن کے گھر جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ کئی دن چلتے رہنے کے بعد آخر وہ اس دریا پر پہنچا جہاں ملاح اپنی کشتی میں بیٹھا تھا۔ دریا پار کرنے کے لیے بادشاہ کشتی میں بیٹھا تو ملاح نے کہا: ”بھائی ذرا یہ چپو تو پکڑنا بادشاہ نے بے خیالی میں چپو پکڑ لیا۔ ملاح اسی وقت کشتی سے اتر کر دریا کے کنارے کھڑا ہو گیا۔ بادشاہ نے غصے سے کہا: ”کہاں جا رہے ہو ملاح؟ مجھے دریا پار کروائو۔” ملاح نے ہنس کرکہا ”اے دوست! ملاح اب میں نہیں تم ہو۔ مجھے غور سے دیکھو۔ میں وہی بادشاہ ہوں جسے تم نے جادو کے زور سے اسی کشتی میں قید کر دیا تھا اور خود میری جگہ بادشاہ بن بیٹھے تھے۔ اب تم اس کشتی کے قیدی ہو۔ میں اپنا تخت و تاج لینے واپس جا رہا ہوں۔”
یوں اس ظالم شخص نے اپنے کیے کا پھل پایا اور تمام زندگی ملاح بن کر کشتی چلاتا رہا۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

جادوئی جنگل | سمیعہ علی

Read Next

صاحبِ حال — بلال شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!