حسن عمر: ایک زمانے میں سب رنگ سالانہ چھپنا شروع ہوگیا تھا، سال میں ایک دفعہ، دو سال میں ایک دفعہ،اس کی کیا وجہ تھی؟
شکیل: ایک بار تو پونے چار سال بعد آیا تھا… اس کی وجہ دماغ کا فتور تھا۔ تخلیقی کام کو میں نے کبھی کاروبار نہیں سمجھا تھا اور نہ ہی اسے بہ طور کاروبار کیا۔ شاید یہ رویہ رکھتے تو اشاعت باقاعدہ رہتی۔ جب ڈائجسٹ نے بے حد مقولیت اختیار کر لی تو سوچا کہ مزید بہترین مواد جمع کرتے ہیں اور اچھی کہانیاں جمع ہوجائیں گی تو تب چھاپیں گے تاکہ قارئین کو پہلے سے بھی زیادہ معیاری، معلوماتی اور ذوق طبع کے مطابق مواد پڑھنے کو ملے۔ پرچے کی اشاعت میں وقفے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شروع شروع میں کئی لکھاریوں نے لکھا ، لیکن بعد میں میں بھی شامل ہو گیا اور اپنے قسط وار سلسلے شروع کیے، اب چونکہ پرچہ بھی میرا تھا اور اس کی اہم قسط وار کہانی بھی میں لکھتا تھا تو جب تک وہ قسط پوری نہیں لکھی جاتی تھی تو پرچہ نہیں آتا تھا۔ سن ستہتر (1977) میں سات پرچے آئے، پھر وقفہ بڑھتا رہا، ایک بار پونے چار سال کا وقفہ یوں آیا کہ میری بیٹی کا آپریشن تھا، اسے لندن لے جانا پڑا ، جو اس طویل وقفے کا باعث بنا۔ لیکن ایک بات ہے کہ پرچہ جب بھی چھپتا: اس کی پذیرائی میں کمی نہ آتی اور وہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔ ہم نے اسے باقاعدہ بنانے کے لیے اس کے معیار پر سمجھوتہ کرنے کا کبھی سوچا بھی نہ تھا، کیوں کہ معیار پر سمجھوتہ کر کے رسالہ بیچنا کاروباری انداز بن جاتا جو ہمیں گوارا نہ تھا۔ اگرچہ اس طرح مالی طور پر ہمیں مشکل ضرور تھی۔ اب پورا سٹاف موجود ہے، بائیس آدمی ہیں۔ اگر آپ پرچہ نہیں بھی چھاپتے تو آپ کو تنخواہیں تو دینا پڑیں گی، جو ہم باقاعدہ دیتے رہے، کئی بار تو اپنی جیب سے بھی خرچہ برداشت کیا۔ سات سال تک پرچے کی باقاعدگی نے اگرچہ ہمیں مالی آسودگی دی تھی مگر کب تک چلتا سب کچھ۔ جب سب جمع پونجی خرچ ہوئی تو ہم نے آسودگی کے زمانے کی خریدی ہوئی جائیدادیں بیچنا شروع کر دیں(قہقہہ) اور ڈائجسٹ کا خرچ چلاتے رہے۔
حسن عمر: آپ کے پاس اوسطاً کتنی تحریریں آتی ہیں؟
شکیل: اب تو میںپرچہ نکالتا ہی نہیں تو تحریریں کیسے آئیں گی۔
حسن عمر: تو آج کل آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟
شکیل: آج کل میں ”جیوانٹرٹینمنٹ” سے منسلک ہوں جہاں کہانیوں اور ڈراموں کے سکرپٹ دیکھتا ہوں۔ دو آدمی ہیںیہاں، ڈاکٹر انور سجاد اور میں ، جن کو یہ مسودے دیے جاتے ہیں اور پھر ان کی رائے طلب کی جاتی ہے۔ بعد میں اس پر ڈرامہ بنانا یا نہ بنانا ان لوگوں کا کام ہے، ہم تو اپنی رائے دے دیتے ہیں۔
حسن عمر: کہانی یا مسودے میں سب سے زیادہ قابلِ غور بات کیا ہوتی ہے؟
شکیل: دیکھئے کہانی ادب کی سب سے مشکل لیکن مقبول صنف ہے کیوںکہ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ کہانی ادب کی سب سے زیادہ کمائو صنف بھی ہے۔ کیوں کمائو ہے؟ لوگ اچھی کہانی پڑھنا پسند کرتے ہیں، اُسے ڈرامے کی شکل میں دیکھنا پسند کرتے ہیں، اس کی پذیرائی کرتے ہیںاور جس چیز کی پذیرائی ہو اس کی قیمت بھی اچھی ہوتی ہے۔ اچھوتی، نرالی، زندگی کا درس دینے والی کہانی پڑھنا تو ہر کوئی پسند کرتا ہے۔ ہم نے سب رنگ میں جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ یہ کہ ہم کہانیوں کے انتخاب میں بڑ ے حساس تھے، سب رنگ میں تراجم کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی بہترین کہانیاں چھپی ہیں۔اس زمانے میں ایک اہم کام یہ کیا تھا کہ ہم نے غیر رسمی سا ایک بورڈ بنا لیا تھا، جو کہانی ہمار ے پاس چھپنے کے لیے آتی اسے ہم اس بورڈ کے حوالے کرتے۔ انتخابی معیار کا طریقہ یہ تھا کہ بورڈ والوں سے کہہ رکھا تھا کہ آپ یہ کہانی پڑھنے کے بعد اسے 100 میں سے کتنے نمبر دیتے ہیں۔ بورڈ کوئی پانچ چھے افراد پر مشتمل تھا، یہ سب صرف ادیب ہی نہ تھے بلکہ مختلف طبقہ ہائے زندگی سے منتخب لوگ تھے۔ ان میں ہم نے عام آدمی کو بھی شامل کیا تھا، کیوں کہ ادیب کے انتخاب کا اپنا معیار تھا اوراور ایک عام قاری کا اپنا، اور ادیب عام طور پر اتنی اچھی کہانی منتخب نہیں کرتے تھے ۔ اس طرح ہمیں اندازہ ہوجاتا کہ یہ کہانی جو ہم شائع کررہے ہیں، وہ عمومی پسندیدگی پائے گی یا نہیں۔ سب رنگ کی بے مثال کامیابی کی وجہ بھی یہی بورڈ تھا۔ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈائجسٹ کی دنیا میں چند گنی چنی کہانیاں ہی ہیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں، یہ بس کہنے کی باتیں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے موضوعات تو تقریباً ایک سے ہی جن سے آپ کو کہانی بنانا ہے، لیکن مسئلہ ہے اس کے اسلوب کا کہ آپ اسے پیش کس طرح کرتے ہیں۔ اشفاق صاحب کس طرح لکھتے ہیں، منٹو کا اسلوب کیا ہے، قاسمی صاحب کا طرزِ تحریر مختلف ہے، کرشن چندر کا اپنا ایک انداز ہے۔ کہانی کا نیا اسلوب ہی اسے نیا بناتا ہے۔ سب رنگ میں ہم نے ادب کو بھی ترویج دی۔ اردو کے سکہ بند ادیبوں کی تخلیقات کے لیے رسالے کے کچھ صفحات مختص کیے۔ ہم نے ان سے کہانیاں لکھوائی نہیںبلکہ ادبی رسائل میں چھپی ان کی کہانیوں سے انتخاب کیا ۔ وہ ادبی رسائل بہت کم تعداد میں چھپتے تھے اور اس طرح وہ کہانیاں ایک محدود طبقے تک رہی تھیں۔ہماری اس کوشش سے وہ تحریریں عام آدمی تک پہنچیں۔ اس طریقۂ انتخاب میں دشواری بھی تھی کہ پڑھنا بہت پڑتا تھا۔ اس کے لیے الگ سے ایک شعبہ ترتیب دیا گیا، جس کے ذمے بس کہانی کا چنائو تھا۔ وہ ہمیں جو کہانیاں چن کر دیتے انہیں پھر ہم بورڈ کے حوالے کرتے جہاں ایک بار پھر اس کے معیار کا جائزہ لیا جاتا۔ اس کے بعد ان کے چھپنے کی باری آتی۔ کہانیوں کی تخلیق میں ابھی بھی کمی نہیں آئی۔ امریکا میں بہت اچھی کہانی لکھی جا رہی ہے، برطانیہ میں بھی۔ اصل میں کہانی کہنا شطرنج کی بساط جیسا ہوتا ہے، ہر بار بازی نئی ہوتی ہے لیکن مہرے وہی بتیس لیکن ان بتیس مہروں سے کھیلے جانے والی ہر بازی الگ ہوتی ہے۔ اسی طرح کہانی کے کردار اور موضوعات تو تقریباً روزِ اوّل سے آج تک وہی ہیں لیکن اس کی بنت الگ ہوتی ہے۔ کہانی دو چیزوں سے مل کر بنتی ہے۔ پچاس فیصدکہانی اور پچاس فیصد اس کا اسلوب، کہ وہ کس انداز اور تیور سے لکھی گئی۔