”تو یوحنّاجوزف! یہ ہی نام ہے نا تمہارا؟” دو دن بعد انہوں نے پہلا کیس لینے کے لئے یوحنّاجوزف کو بلالیا تھا۔ وہ پانچویں کلاس میں تھا اور چیونگم منہ میں ڈالے اس وقت ایک خالی کلاس روم میں ان تینوں کے سامنے بیٹھا ببل پُھلا رہا تھا، اور وہ تینوں بے حد مدبّر نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے چہرے پر بے پناہ سنجیدگی لئے اُسے گھورتے ہوئے اپنے لیپ ٹاپ یوں چلارہے تھے جیسے پتہ نہیں وہ جوزف کے کیس کے حوالے سے کیا کیا ریسرچ کرکے بیٹھے تھے۔ شیردل نے بالاآخر اپنے لیپ ٹاپ پر نظر ڈالتے ہوئے اُس کا نام لیا تھا۔
”ہاں!” وہ منہ سے ببل بناتے ہوئے رُکا تھا۔
”تو تمہارے گھر کے لان میں ایک درخت ہے اور تمہیں شک ہے کہ اُس پر بھوت رہتے ہیں۔”
”بھوت نہیں چڑیلیں۔” یوحنّا نے اُسے ٹوک کر تصحیح کی۔
”ایک ہی چیز ہیں۔” شیر دل اُس کے ٹوکنے پر کچھ گڑبڑایا تھا۔
”ایک ہی چیزنہیں ہے gender کا فرق ہے۔” یوحنّا نے بڑے اطمینان سے اُسے سمجھایا۔
”اوہ اچھا! کتنی ہیں؟” شیردل نے احد اور نایاب کو دیکھ کر لیپ ٹاپ میںکچھ نوٹ کرتے ہوئے کہا۔
”اگر میں خود گن سکتا تو آپ لوگوں کے پاس کیوں آتا؟” یوحنّا نے تیکھے انداز میں کہا۔
”Valid point… اچھا درخت کتنا پرانا ہے؟” شیر دل نے اعترافی انداز میں اُس کی بات تسلیم کرتے ہوئے پوچھا۔
”اس سے پہلے کہ میں تم لوگوں کے کسی اور سوال کا جواب دوں پہلے تم لوگ میرے سوالوں کا جواب دو۔ ” یوحنّا نے منہ سے چیونگم نکال کر ایک ٹشو میں لپیٹی تھی۔
”یہ شاہین ہے کیا؟”
” تم نے ویب سائٹ دیکھی ہے؟” شیر دل نے پوچھا۔
”ہاں!”
”تو پھر یہ سوال کیوں کررہے ہو؟” یوحنّا سرکھجا کر بولا۔
”تو مجھے اب فیس دینی ہے؟” شیر دل ایکسائٹڈ ہوا۔
”ہاں۔”
”پر میں تم کو کیوں دوں؟ تم شاہین تو نہیں ہو۔” یوحنّا نے یک دم کہا۔
”ہم اُن کے نمائندے ہیں۔” احد درمیان میں کودا تھا۔
”ہم پیپر ورک کریں گے اُن کے لئے۔” یوحنّا نے احد کو سرسے پاؤں تک دیکھتے ہوئے کہا۔
” انہوں نے پیپر ورک کے لئے بچے رکھے ہوئے ہیں؟” اُس نے بچے پر اس طرح زور دے کر کہا تھا کہ وہ تینوں تپ گئے تھے۔
”تم خود کیا ہو؟” نایاب نے سُلگ کر اُس سے پوچھا تو یوحنّا گڑبڑایا:
”میں ایک ummm … ”
”بچے ہو اور ہم سے زیادہ بچے ہو۔ تم فائیو میں ہو ہم سکس میں، تو ہم تم سے بہت بڑے ہیں، سمجھے فیس دکھاؤ!” نایاب نے اُس کی بات کاٹ کر اُس کو ڈانٹتے ہوئے کہاا ور یوحنّا نے فرمانبرداری سے فیس کا لفافہ نکال کر اُن کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ شیر دل نے لفافہ کھول کر اُس کے اندر ہی نوٹ گنے اور پھر کہا:
”50روپے کم ہیں۔”
”اس کا لفافہ لیا تھا۔ ” یوحنّا نے اطمینان سے کہا۔تینوں نے بیک وقت اُسے گھورا پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر جیسے 150 روپے میں وہ کیس لینے کا فیصلہ کیا۔
…٭…
وہ اگلے دن اپنے بیگ پیک لئے سیاہ گلاسز لگائے تقریباً ایک طرح چلتے ہوئے یوحنّا کے گھر پہنچے تھے جو اُن کی کالونی میں ہی ایک سڑک چھوڑ کر تھا۔
”وہ کیوں نہیں آئے؟” یوحنّا نے بے حد بے تابی سے اُن تینوں کو دیکھتے ہی کہا تھا۔
”وہ آجائیں گے۔ پہلے ہم لوکیشن دیکھیں گے، فائل تیار کریں گے۔ اس کے بعد شاہین کی ٹیم آئے گی۔” شیر دل نے اُسے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
یوحنّا نے ہاتھ میں پکڑی آئس کریم چاٹتے ہوئے اُنہیں دیکھا اور پھر کچھ کہے بغیر اُنہیں اپنے گھر کے پچھلے لان میں لے گیا جہاں ایک برگد کا بہت پرانا اور بڑا درخت تھا اور وہ درخت اتنا بڑا، اونچا اور گھنا تھا کہ اُسے دیکھتے ہی اُن تینوں کی جان نکل گئی تھی۔
”تو اس درخت پر چڑیلیں ہیں تو آپ کو اُن سے کیا مسئلہ ہے؟” نایاب نے ایک نوٹ بک میں جیسے نوٹس لیتے ہوئے یوحنّا سے پوچھا، جس نے بھولے سے بھی اُن سے آئس کریم کا نہیں پوچھا تھا۔
”مسئلہ تو کوئی نہیں۔” یوحنّا نے سڑاپ سڑاپ کون پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
”بس میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کون ہیں؟ کیا کرتی ہیں؟ کہاں رہتی ہیں؟”
”اگر وہ چڑیلیں آپ کو کچھ نہیں کہہ رہی تو آپ اُنہیں کیوں ڈسٹرب کرنا چاہتے ہیں؟” احد نے جیسے اُسے سمجھانے والے انداز میں کہا ۔ یوحنّا ہتھے سے اُکھڑا۔
”یہ کیا بات ہوئی؟ ہمارا گھر ہے، ہمارا درخت ہے، ہماری مرضی کہ کون درخت پر رہے گا یا نہیں آپ کو کیا… آپ نے فیس لی ہے تو بس میرا مسئلہ حل کریں۔” تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر شیر دل نے جیسے صورت حال سنبھالنے کی کوشش کی۔
”آپ کو کیسے پتہ کہ اس درخت پر چڑیلیں ہیں؟”
”مجھے پتہ ہے۔”
”کیسے پتہ ہے؟” شیردل نے اصرار کیا۔ وہ سب اس وقت درخت کے بالکل نیچے کھڑے تھے۔ اس سے پہلے کہ یوحنّا کچھ کہتا شیر دل کے پیروں میں ایک بڑی سی ہڈی آکر گری تھی جس پر لگا ہوابچا کھچا گوشت یوں ظاہر کررہا تھا جیسے وہ تازہ تازہ کھایا گیا تھا۔ شیردل ، نایاب اور احد تینوں کا رنگ بیک وقت اُس ہڈی اور اُس پر لگے ہوئے خون آلود گوشت کو دیکھ کر اڑا تھا۔
”اس طرح پتہ چلتا ہے کہ درخت پر چڑیلیں رہتی ہیں۔ ویسے یہ ہڈی کس جانور کی ہو سکتی ہے؟” یوحنّا بڑے اطمینان سے اُسی طرح کون چوستے ہوئے اُن سے بولا تھا۔
شیر دل اور احد اور نایاب میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ ہڈی اُٹھا کر اُس کا تجزیہ کرتے۔ وہ دو فٹ لمبی ہڈی جیسے کسی کی ٹانگ کی ہڈی لگی تھی اُنہیں۔
”میرا خیال ہے کہ کوئی پرندہ…”
شیر دل نے کھنکارتے ہوئے اپنی کانپتی ہوئی آواز کو سنبھالا اور کچھ کہنے کی کوشش کی مگر اُس کوشش کے درمیان ہی درخت سے ایک اور چیز آکر اُن کے پیروں میں گری تھی۔
وہ ایک خون آلود انسانی کھوپڑی تھی۔
٭…٭…٭