شاہین قسط ۱  ”برگد کی چڑیلیں” – عمیرہ احمد

شاہین –  ”برگد کی چڑیلیں” – عمیرہ احمد

”میرے گھر میں ایک پرانا برگد ہے جس پر چڑیلیں رہتی ہیں جو ہمیں بہت تنگ کرتی ہیں۔ کیا ٹیم شاہین مجھے برگد کی ان چڑیلوں سے چھٹکارا دلواسکتی ہے؟”
شیر دل نے کاغذ پر انگلش میں لکھی ہوئی اُس تحریر کو باآواز بلند پڑھا تھا اور نایاب اور احد یک دم بہت ہی پرجوش نظر آنے لگے تھے۔
”یہ ہوا نا کیس… بس یہ ہی تفتیش کریں گے ہم سب سے پہلے۔” نایاب نے سکول کی ڈیسک پر ہاتھ مار کر جیسے حتمی فیصلہ کردیا۔
”کیس ہے کس کا؟” احد نے شیر دل سے پوچھا۔
”یوحنّا جوزف کلاس فائیو۔” شیر دل نے اُس کاغذ کے نیچے لکھا نام پڑھتے ہوئے کہا جو ٹیم شاہین کے لاکر میں کسی نے ڈالا تھا۔






وہ تینوں آج وہ لاکر کھول کر اُس میں موجود وہ سارے خطوط پڑھ رہے تھے جو سکول کے مختلف بچوں نے ٹیم شاہین سے رابطے کے لئے اپنے مسئلے کے ساتھ بھیجے تھے، اور پچھلے آدھے گھنٹے میں کوئی ایک کیس ایسا نہیں تھا جو اُن کے دل کو لگتا۔ وہ عجیب عجیب مسائل تھے جو بچوں نے کیس بناکر اُنہیں بھیج دیئے تھے۔ کسی کو اپنی وہ والی بلّی کی تلاش کروانا تھی جو تین سال پہلے غائب ہوگئی تھی اور کسی کو اپنے گھر کے چوہوں سے نجات چاہیے تھی۔ کسی کو اپنے موزوں سے بدبو کا مسئلہ حل کروانا تھا اور کسی کو کھجلی کی شکایت پر اُن سے رہنمائی چاہیے تھی۔ کسی کو اپنے چھوٹے بہن بھائی کو پٹوانا تھا اور کسی کو اپنے بڑے بہن بھائی کو اغوا کروانا تھا۔ وہ تینوں مسئلے پڑھ پڑھ کر تپ رہے تھے۔ وہ ٹیم شاہین تھے اُس سکول کی پہلی ”جاسوس تنظیم” اور وہ انہیں احمقانہ کیس لکھ لکھ کر بھیج رہے تھے۔ اُن تینوں کا موڈ بے حد خراب ہوگیا تھا ،تب ہی اُن کے ہاتھوں یوحنّا جوزف کا وہ کیس آیا تھا اور یک دم وہ تینوں جیسے کھل اُٹھے تھے۔
یہ شیر دل شیرازی تھا جسے جاسوسی ناولز پڑھنے اور فلمیں دیکھنے کا جنون تھا اور اس ہی جنون نے اُسے یہ یقین دلادیا تھا کہ وہ خود بھی جاسوس بن سکتا تھا۔ وہ اخباروں اور ٹی وی پر مختلف جرائم کی خبریں سنتا اور پھر انٹرنیٹ پر تب تک اُن کیسز کو فالو اپ کرتا رہتا جب تک وہ حل نہ ہوجاتے اور مجرم پکڑا نہ جاتا۔ اکثر اوقات شیر دل کے جو اندازے مجرم کے بارے میں ہوتے تھے وہ صحیح ثابت ہوتے تھے اور ایسا ہونے پر وہ خوشی سے بے قابو ہوجاتا۔ احد اُس کا بہترین دوست تھا اور نایاب اُس کے چچا کی بیٹی اور وہ دونوں اُس کے کلاس فیلوز بھی تھے اور شیر دل کے اس جنون سے واقف بھی لیکن شیردل کے ذہن میں جب ایک جاسوسی تنظیم بنانے کا خیال آیا تھا تو اُس نے اُن دونوں کو بھی مکمل طور پر بے خبر رکھا تھا۔ وہ اُس وقت تک شرلاک ہومز سے متاثر تھا مگر شرلاک ہومز کی طرح ایک بھی ساتھی رکھنے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اُس کا خیال تھا وہ سب خود کرسکتا تھا۔
شاہین کا نام اُس نے اپنی دادی سے علامہ اقبال کے اشعار میں شاہین کا ذکر سن سن کر سوچا تھا۔ اُسے وہ پرندہ ، اُس کی پرواز اور اس سے منسلک شاعر مشرق کا ”فلسفۂ خودی” پسند تھا۔ شاہین بھی اکیلا اونچی پرواز کرتا اپنے ہدف پر جھپٹتا تھا اور شیر دل شیرازی بھی اُس ہی کی طرح تنہا اُس تنظیم کو چلانا چاہتا تھا جس کا اس وقت وہ بانی تھا۔
گھر بیٹھے اُس نے خود ہی ایک دن شاہین کے اغراض و مقاصد لکھ لئے تھے۔ وہ تنظیم کیا کیا کرسکتی تھی اور کیسز حل کرنے کے لئے جو معاوضہ شاہین لیتی شیردل نے اُس کا بھی تعین کرلیا تھا۔ ایک ویب سائٹ بناکر اُس نے شاہین کے لوگو کے ساتھ یہ ساری معلومات وہاں پر چڑھادیں اور اپنا ای میل ایڈریس اور سکول میں ایک لاکر نمبر ایک pamphletپر ڈیزائن کرکے اُس نے سکول کے نوٹس بورڈ پر لگا دیا۔ ایک گھنٹہ میں ہی شاہین کا لفظ پورے سکول میں گردش کرنے لگا تھا اور نوٹس بورڈ کے نیچے بچوں کا ہجوم اکٹھا ہونے لگا تھا۔
”ہم سکول کے بچوں کے کیسز حل کرنے والی پاکستان کی سب سے بڑی جاسوسی تنظیم ہیں جس کی شاخیں عنقریب پاکستان بھر کے سکولوں میں کھولی جانے والی ہیں اور اس سکول میں شاہین کا ہیڈ کوارٹر کھولا جارہا ہے۔ ہمارے پاس جدید ترین جاسوسی کے آلات ہیں اور ٹیکنالوجی پر مہارت رکھنے کی وجہ سے ہم آپ کا کوئی بھی مسئلہ منٹوں میں حل کرسکتے ہیں۔
شاہین آپ کی زندگی کو مسائل سے پاک وہ پرواز دے گی جس کے آپ اہل ہیں تو آئیں آج ہی اپنی ہر پریشانی اور مسئلے کے حل کے لئے ہم سے رابطہ قائم کریں۔” شیر دل جانتا تھا اُس نے اپنی تنظیم کا تعارف کرواتے ہوئے تھوڑی نہیں بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا تھا لیکن جھوٹ نہ بولنے پر یقین رکھنے کے باوجود اُس کا خیال تھا پروموشن کے لئے تھوڑا بہت مبالغہ ضروری تھا اور ویسے بھی وہ جو اُس pamphletمیں لکھ رہا تھا وہ ایک دن سب کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔





”سنو، یہ شاہین ٹیم تم نے بنائی ہے نا؟” نایاب نے سکول میں اُس pamphlet کو پڑھتے ہی شیر دل سے پوچھا تھا۔ شیر دل نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
”میں صرف اس آرگنائزیشن کا فوکل پرسن ہوں اور کچھ نہیں۔”
”جھوٹ مت بولو ، ویب سائٹ تم نے بنائی ہے۔” شیر دل بھونچکا رہ گیا۔
”تمہیں کیسے پتہ؟”
”گھر میں Networking ہے سارے کمپیوٹرز کی، تم رات کو بیٹھے یہ بنارہے تھے اور میں بھی دیکھ رہی تھی۔ ” نایاب نے بڑے اطمینان سے اُسے بتایا اور شیر دل دانت پیس کر رہ گیا تھا۔ نایاب اگر پروگرامر نہ ہوتی تو پھر ہیکر ہوتی، وہ کسی بھی کمپیوٹر کا پاس ورڈ بدل سکتی تھی۔ کسی بھی سسٹم اور سافٹ ویئر تک رسائی کر سکتی تھی۔ انٹر نیٹ پر موجود کسی بھی ویب سائٹ کے بیک اینڈ تک رسائی حاصل کرنا اُس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ شیر دل کو پچھتاوا ہوا کہ اُس نے اس ویب سائٹ پر کام کرتے ہوئے Networking ختم کیوں نہیں کی۔
”اوکے! لیکن اب اپنا منہ بند رکھنا۔” شیر دل نے اعتراف کرنے کے ساتھ ہی اُسے دھمکایا۔
”صرف ایک صورت میں۔”نایاب نے فوراً کہا۔
”کیا ؟”
”اگر تم مجھے بھی اس میں شامل کرو۔ اپنے سیکنڈان کمانڈ کے طور پر۔” شیر دل ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے اُسے دیکھتا رہا۔ اُس کے پلان آف ایکشن میں کوئی دوسرا ممبردور دور تک نہیں تھا مگر پھرمجبوراً اُس نے نایاب کو اپنا نائب بنانے کی حامی بھرلی۔
”ایسا کیا ہے جو تم شاہین کے لئے کرسکتی ہو؟” شیر دل نے اُس سے پوچھا ۔
نایاب نے اطمینان سے کہا:
”بہت کچھ! اس کی ویب سائٹ اور ٹیکنالوجی سے متعلق سارے کام کرسکتی ہوں جو تم بھی کرسکتے ہو لیکن تم ان میں میرا مقابلہ نہیں کرسکتے۔” وہ دھڑلے سے کہہ رہی تھی۔ شیر دل نے اُس کو ٹوکا نہیں۔ وہ سچ کہہ رہی تھی۔
”میں Archer ہوں تو کسی بھی مشن میں تمہیں میرے نشانے کی ضرورت پڑے گی اور میں جو ڈو کی بہترین کھلاڑی ہوں ۔ جتنا تمہیں جاسوسی کہانیاں پڑھنے کا شوق ہے اُتنا ہی مجھے بھی ہے۔” وہ بتاتی جارہی تھی اور شیر دل سرکھجاتا سنتا جارہا تھا۔ وہ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ نایاب اپنے بڑے بھائی تیمور اور ماں باپ کے ساتھ اوپر والے فلور پر رہتی تھی۔ اُس کا بھائی میڈیکل کا سٹوڈنٹ تھا اور والد ایڈیشنل سیکشن جج۔
شیر دل نیچے والی منزل پر اپنے ماں، باپ، دادی اور چھوٹی بہن خدیجہ کے ساتھ رہتا تھا۔ اُس کا باپ ایک بینکر تھا اور ماں ایک بیکر۔
”اوکے! ٹھیک ہے مگر یہ سب راز رہے گا۔ کسی اور کو اس کی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہیے۔” شیر دل نے اُس سے کہا تھا اور اس سے پہلے کہ نایاب کوئی جواب دیتی شیردل کو عقب سے اچانک احد کی آواز آئی۔
”تم اب مجھ سے بھی سب کچھ چھپایا کروگے؟” نایاب اور شیر دل جیسے کرنٹ کھا کر پلٹے تھے اور اُن کے عقب میں احد کمر پر دونوں ہاتھ رکھے بے حد غصّے سے کھڑا تھا۔
احد شیر دل کا بہترین اور بچپن کا دوست تھا۔ اُس کی ماں ایک سول سرونٹ تھی اور باپ کا انتقال ہوچکا تھا اور وہ شیردل کی ہی کالونی میں رہتا تھا۔
”اوہ! تم چھپ کر ہماری باتیں سنتے ہو۔” شیر دل نے اُسے ٹالنے کے لئے ناراض ہوکر کہا تھا۔
”میں کیوں چھپ کر سنوں گا میں تو ویسے ہی سب سُن سکتا ہوں۔ میرے کان اتنے باریک ہیں اور میں شاہین کا تیسرا ممبر ہوں۔” شیردل نے بے چارگی سے اُسے دیکھا اور کچھ کہنے کی کوشش کی مگر اُس سے پہلے ہی احد نے اُسے پچکارتے ہوئے کہا۔
”دیکھو تمہیں پتہ ہے میں کک باکسنگ میں کیا کیا کرسکتا ہوں اور غلیل سے میرا نشانہ نایاب کے تیروں سے بھی زیادہ اچھا ہے اور میں دُنیا کا سب سے بہترین map reader اور سیکیورٹی کیمروں کا ماہر ہوں۔ دُنیا کا ہر کیمرہ ہینڈل کرسکتا ہوں اور میرے پاس کتنے خفیہ کیمرے ہیں وہ بھی پتہ ہے تم لوگوں کو اور…”
وہ ایک سانس میں بولتا چلا گیا اور اس سے پہلے کہ بولتا ہی چلا جاتا، شیردل نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا:
”اچھا اچھا! بس کلاس شروع ہونے والی ہے۔”
”تو پھر میں بھی آج سے ٹیم شاہین ہوں؟” احد نے اطمینان اسے اُس سے پوچھا اور شیردل نے جھنجھلا کر اُسے دیکھتے ہوئے کہا:
”میرے پاس کوئی چوائس ہے انکار کی؟”
احد اور نایاب نے بے اختیار کیا۔ ”No۔”
شیردل نے کندھے اُچکاتے ہوئے جیسے ہتھیار ڈالے۔ شاہین دو دنوں میں ون مین شو سے ٹیم بن گئی تھی۔






…٭…

Loading

Read Previous

الف نگر میگزین ۔ ستمبر اور اکتوبر ۲۰۲۱

Read Next

ستائش —ضوفشاں قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!