سٹیفن کنگ
مدیحہ ریاض
کامیابی کوئی کہانی نہیں ہے جس کا ایک آغاز، ایک درمیان اور ایک اختتام ہو۔ یہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ راستوں کی بھی یا تو منزلیں ہوتی ہیں یا dead ends۔ مجھے لگتا ہے کامیابی ایک ذہنی کیفیت ہے، ایک رویہ، کوشش ، کوشش، اور ہر لمحہ کوشش۔۔۔ہنر پر بھروسا۔۔۔خطرہ اٹھانے کی ہمت۔۔۔اور قربانی دینے کا حوصلہ۔۔۔یہ سب وہ کنجیاں ہیں جو اس رویے ، اس کیفیت کا خاصہ ہیں۔ آپ کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی کی کہانی اٹھا کر دیکھ لیں، یہ چند عناصر ہر کہانی میں موجود ہوں گے۔
اس مرتبہ ہم جس شاہکار کی کہانی آپ سے بانٹ رہے ہیں وہ جدید انگریزی فکشن کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔ انگریزی فکشن انہیں “Master of Horror”, “The King of Horror” اور “The King” جیسے القابات سے مخاطب کرتا ہے۔ ہارر، مسٹری، سسپنس اور غیر ماورائی بہ شمول سائنس فکشن لکھنے میں انہیں ایک عجیب ملکہ حاصل ہے۔
یہ تمام وہ اصناف ہیں جنہیں لکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے حقیقتاً ایک انتہائی قابل ذہن ، مسحور کن تخّیل اور قدرتی ہنر بہت ضروری ہیں۔ رومانی اور معاشرتی مسائل پر لکھنا نسبتاً بہت آسان ہے کیوں کہ ان کہانیوں کی مثالیں اور inspirations زندگی کے ہر موڑ پر بکھری پڑی ہیں۔ ہارر ، مسٹری اور سسپنس وہ اصناف ہیں جنہیں لکھنے کے لیے قلم کار کو پچھتر سے اسّی فیصد اپنے تخیل کو ہی استعمال میں لانا پڑتا ہے۔ لیکن اگر آپ کا تخیل سٹیفن کنگ جیسا شان دار اور کہانیوں سے بھرا ہو تو بس، آپ کا آدھا کام تو ہو گیا۔
سٹیفن کنگ ایک ایسے ہارر رائٹر ہیں جنہوں نے اس صنف کو ایک نئی شکل دی ہے۔ بھوت پریت، غیر ماوارئی مخلوقات، زندہ لاشیں، کراہتے دروازے اور خون سرد کر دینے والی چیخیں، جو تقریباً ہر ہارر سٹوری کا حصہ ہوتی ہیں، خال خال ہی سٹیفن کنگ کی کہانیوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں باقی مصنفین کا ہارر پڑھتے کبھی تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور کبھی بے یقینی سے آنکھیں گھمانے کا دل کرتا ہے، وہیں سٹیفن کنگ کا ہارر آپ کی رگ رگ جکڑ لیتا ہے۔
سٹیفن کنگ کا ہارر انسان کی اپنی نفسیات سے جنم لیتا ہے۔ evil کوئی بیرونی واقعہ نہیں جو کرداروں کے ساتھ وقوع پذیر ہوتا ہے بلکہ اس کی جڑیں کرداروں کے خود اپنے اندر ہوتی ہیں۔ سٹیفن کنگ کی بہت کم ایسی کہانیاں ہیں جہاں کردار کسی بیرونی شیطانی طاقت کا سامنا کرتے ہیں، لیکن ان کہانیوں میں بھی آپ کو خوف میں مبتلا کر دینے والی چیزیں وہ طاقت ور غیر ماوارئی مخلوقات نہیں، بلکہ انسانی کرداروں کے ان طاقتوں کا سامنا کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رویے، فیصلے اور اعمال ہیں۔
اس بارے میں اپنے ایک انٹرویو کے دوران بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:
”میں برائی کے ہونے اور اس کی موجودگی پر یقین رکھتا ہوں۔ لیکن اپنے پورے کیرئیر میں بار بار میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی بہت بڑی، بُری یا بیرونی طاقت ہے جو ہمیں برباد کرنا چاہتی ہے؟ یا پھر یہ تمام برائیاں ہمارا اپنا ہی حصہ ہیں، ہمارے ماحول اور جینیات سے پیدا ہوتی او ر بڑھاوا پاتی ہیں۔ “
دنیا میں کسی شیطانی طاقت کے ہونے یا نا ہونے پر اتنے معروضی انداز میں بات کرتے ہوئے اس پر اعتماد لکھاری کے بارے میں شبہ ہوتا ہے کہ شاید وہ ہمیشہ سے ہی اتنا پر اعتماد اور مطمئن تھا۔ لیکن اپنے ہنر میں طاق اس لکھاری نے Master of Horror Storytelling کا لقب پانے سے پہلے زندگی کو کیسی کیسی کروٹیں لیتے دیکھا، آئیں جانتے ہیں۔
سٹیفن کنگ اکیس ستمبر 1947 ءکو امریکی ریاست ©”مین“ کے شہر پورٹ لینڈ میں پیدا ہوئے۔ سٹیفن کنگ کا باپ ایک سمندری تاجر تھا اور ماں ایک گھریلو عورت۔ زندگی نے جب پہلا جھٹکا سٹیفن کنگ کو دیا تب دو سال کا یہ بچہ اس صدمے کی شدت اور بدصورتی محسوس کرنے سے محفوظ تھا۔ ایک عام سی شام تھی جب سٹیفن کنگ کا باپ ڈونلڈ اپنے بیوی بچوں سے سگریٹ خریدنے کا بہانہ کر کے گھر سے نکلا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا۔ پتا نہیں اگلے کچھ دن اور کچھ راتیں دو بچوں کی اس نوجوان ماں نے کیسے کاٹی ہوں گی، روتے ہوئے بچوں کو باپ کے واپس آنے کے بارے میں کیا بتایا ہو گا؟