سٹیفن کنگ ۔ شاہکار سے پہلے

1966ءسے 1970ءکا یہ چار سالہ دورانیہ سٹیفن کنگ کی زندگی کے مشکل ترین ادوار میں سے ایک تھا۔ یونیورسٹی آف مین سے انگریزی میں بی اے کی ڈگری کی تعلیم حاصل کرتے اس نوجوان مصنف کے پاس کھانے، فیس اور دوسرے اخراجات کے لیے کبھی کبھی رقم بالکل ختم ہو جاتی۔ تب کبھی فیس کی ادائی اور کبھی دن بھر کے ایک کھانے کے لیے سٹیفن کنگ کو ہر طرح کی چھوٹی موٹی ملازمت کرنا پڑی۔ کچرا اٹھانے اور صفائی ستھرائی کرنے سے لے کر، پٹرول پمپ اور کپڑے دھونے کے کارخانے میں کام کرنے تک، سٹیفن کنگ پوری ہمت اور جاں فشانی سے یہ وقت کاٹتا رہا۔
جہاں اس کی ہمت ذرا بھی کمزور پڑتی تو Tabitha جو تب اس کی گرل فرینڈ تھی، اس کی ہمت بندھاتی۔ سٹیفن کنگ کو اپنی بیوی سے شدید لگاﺅ ہے۔ اپنی کامیابی اور شہرت کا تمام ذمہ دار وہ اپنی بیوی کو سمجھتا ہے۔ آٹھ بہن بھائیوں میں سے ایکTabitha خود بھی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور سٹیفن ہی کی طرح مختلف ملازمتیں کر کے اپنی تعلیم مکمل کر رہی تھی۔ دونوں کی ملاقات یونیورسٹی کے ایک مشاعرے میں ہوئی جہاں دونوں نے ایک دوسری کی شاعری سنی اور اسے پسند کیا۔
اپنے سکول کے دوستوں کی طرح سٹیفن نے Tabitha سے بھی اپنی تحریریں شئیر کیں اورکبھی کبھار کسی میگزین یا اخبار میں جو کہانیاں شائع ہو جاتیں وہ انہیں Tabitha کو ضرور دکھاتا۔اس کی گرل فرینڈ اس کی زندگی میں موجود ان چند لوگوں میں شامل ہو گئی تھی جنہیں سٹیفن کے ہنر اور اس کی ہمت پر بھروسہ تھا۔ یہ محبت بالآخر 1971ءمیں رنگ لائی جب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرتے ہی دونوں نے ایک سادہ سی تقریب میں ایک دوسرے کو زندگی بھر کے لیے قبول کر لیا۔ اس نئے جوڑے کے مالی حالات اتنے خراب تھے کہ سٹیفن کو تقریب کے لیے جوتے، سوٹ اور ٹائی کرائے پر لینے پڑے۔
شادی کے چند ہی سالوں میں دونوں ایک بیٹی اور ایک بیٹے کے والدین بن گئے۔ اس زمانے میں یہ فیملی کرائے کے ایک چھوٹے سے ٹریلر میں رہتی تھی۔ سٹیفن یونیورسٹی کی طرح ابھی بھی ادھر ادھر کی معمولی نوکریاں کر رہا تھا۔ کبھی کبھار کوئی کہانی شائع ہو جاتی جس سے ایک دو دن کے ناشتے کا خرچہ نکل آتا۔ Tabitha ڈنکن ڈونٹس میں بہ طور ویٹرس کام کر رہی تھی، لیکن دونوں کی اس ان تھک محنت کے باوجود، اس جوڑے نے خود کو بہ مشکل چندے پہ پلنے سے روکا ہوا تھا۔
یہ وہ وقت تھا جس نے Tabitha کی ہمت، بھروسے اور یقین کو بھرپور طریقے سے آزمایا۔ وہ جس الجھے بکھرے ناکام مصنف کے عشق میں مبتلا ہوئی تھی، وہ اس کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھا، اکثر شراب کے نشے میں دھت اپنے ٹائپ رائٹر پر کہانیاں لکھتا رہتا جنہیں کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا، اور یونیورسٹی سے نکلنے کے تین سال بعد بھی اس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ اپنے اُس دور کو اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے سٹیفن کنگ کہتے ہیں۔
”اگر زندگی کے اس مشکل اور تھکا دینے والے راستے پر Tabitha مجھے ایک بار بھی کہتی کہ لکھنا چھوڑو اور کوئی صحیح نوکری کرو، تو میں فوراً لکھنا چھوڑ دیتا۔“
لیکن Tabitha کو سٹیفن کنگ کے ہنر اور قابلیت پرسٹیفن سے زیادہ یقین تھا۔ ایسا پختہ یقین جو کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ڈگمگایا۔ یہاں تک کہ جب سٹیفن کو ایک متبادل استاد کے طور پر ایک سکول میں پارٹ ٹائم ٹیچر کی نوکری ملی،اور چند ماہ بعد اس کے کام سے خوش ہو کر اس کے باس نے اس کی نوکری کو مستقل کرنے کی بات کی تو خوشی سے بے قابو سٹیفن نے فوراً آکر یہ اچھی خبر اپنی بیوی کو سنائی۔ خبر کے جواب میں Tabitha کا ردِ عمل ناقابلِ یقین تھا۔ اُس نے کہا:
”کیا فل ٹائم نوکری کے بعد تمہیں لکھنے کا وقت مل سکے گا؟“
”کچھ زیادہ نہیں۔“ چند لمحے سوچنے کے بعد سٹیفن نے کہا۔
”پھر تو تم یہ آفر نہیں لے سکتے۔“
بات ختم ہوگئی۔ سٹیفن پارٹ ٹائم ٹیچنگ کرتا رہا اور Tabitha ڈنکن ڈونٹس میں لوگوں کے کھانے کے آرڈر لیتی رہی۔
لیکن اب قسمت بھی شاید دونوں کی آزمائش سے تنگ آ گئی تھی۔ وہ شاید ایسے لوگوں سے بھڑ بیٹھی تھی جو ہار ماننے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ تبھی سٹیفن کے دماغ میں ایک ایسی کہانی کا خیال آیا جس کی ہیروئن ایک سکول کی طالبہ ہے جو اپنی سوچوں سے اپنے ارد گرد کی چیزوں کو قابو کر سکتی ہے۔ Telekinesis نامی یہ طاقت اپنے ہم جماعتوں کے طنزو تضحیک کا نشانہ بنی Carrie ان سب لوگوں کے خلاف استعمال کرتی ہے جنہوں نے اس کو کبھی بھی پریشان کیا ہوتا ہے۔
کہانی کا پلاٹ بہت اچھا تھا، لیکن سٹیفن کو ایک پندرہ سولہ سالہ لڑکی کے نقطہ ¿ نظر سے کہانی کو بیان کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا، خاص طور پر تب جب وہ Carrie کے کردار کی بنیاد اس نے دو حقیقی لڑکیوں پر رکھی تھی۔ یہ دونوں لڑکیاں سٹیفن کے سکول میں پڑھتی تھیں اور چھوٹی عمر میں ہی دونوں کی موت ہو گئی تھی۔ ان تمام یادوں سے ایک بار پھر نپٹتے، اور Carrie کو پہنچنے والی تکلیفوں کی محسوس کرتے ، سٹیفن کنگ کئی طرح کے جذباتی مسائل کا شکار ہوا۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے لگنے لگا کہ وہ ایک انتہائی بے کار اور بکواس کہانی لکھ رہا ہے۔ کہانی کا پہلا مسودہ دوبارہ پڑھتے وہ اتنا دل برداشتہ ہوا کہ اس نے سارا مسودہ کچرے میں پھینکا اور کام پر چلا گیا۔
رات کو جب Tabitha کی کام پر سے واپسی ہوئی تو کچن میں کچرا سمیٹتے اس کی نظر کاغذوں کے اُس پلندے پر پڑی۔ سٹیفن کی غیر موجودگی میں اس نے کچرے دان سے وہ مسودہ اٹھا کر پڑھا اور سٹیفن کا انتظار کرنے لگی۔ شوہر کے واپس آنے پر اس نے اسے بتایا کہ اسے اس کہانی میں امید نظرا ٓئی ہے اور سٹیفن کو یہ کہانی مکمل کرنی چاہیے۔ اس کا یہ کہنا جیسے سٹیفن کے کندھے پر تھپکی تھی۔
نئے جوش سے پر اُمید سٹیفن نے پھر سے Carrie پر کام شروع کیا۔ لیکن اس بار اس الجھے بکھرے لیکن ذہین مصنف کے ساتھ اس سفر میں اس کی بیوی بھی شامل تھی۔ وہ ہر موڑ اور ہر صفحے پر سٹیفن کی مدد کرتی رہی۔ عورت کے نقطہ ¿ نظر سے چیزوں کو دیکھنا، ان کے محسوسات، جذبات کا اتار چڑھاﺅ، اندرونی گفت گو، رد عمل اور آپسی بات چیت۔۔۔Tabitha نے عورت کی اندرونی دنیا سے اپنے شوہر کو روش ناس کرایا، اور سٹیفن ایک اچھے شاگر د کی طرح ہر نکتے کو ذہن نشین کرتا گیا۔
نو مہینے کی دن رات کی محنت کے بعد آخر کار Carrie کا حتمی مسودہ تیار تھا۔ میاں بیوی نے پورے دل اور امید سے یہ کہانی ہر اچھے اخبار، میگزین اور ڈائجسٹ میں بھیجی۔
تیس مختلف جگہوں سے Carrie کو رد کیا گیا۔ لیکن یہ سٹیفن کنگن تھا۔ اندر سے وہی بارہ سال کا ضدی، لکھنے پر بہ ضد بچہ، جس نے گھر میں لوہے کا ایک کانٹا ٹھوک رکھا تھا جس پر وہ rejection slips ٹانگا کرتا تھا۔ اور اب اس کی پشت پر ایک ایسی شریک ِ حیات تھی جس کا شوہر کے خواب اور ذہانت پر یقین ہر لمحے اور مضبوط ہوتا تھا۔ انہیں جھکانے کی استعداد اب زندگی میں بھی نہیں تھی۔

Loading

Read Previous

مایا اینجلو ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

ساغر صدیقی ۔ شاہکار سے پہلے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!