سوئٹو کا محافظ — عمارہ خان

میری شخصیت بچپن سے ہی کمزور رہی ہے،اعتماد سے عاری فرد ہوں میں ۔جلدی گھبراجانا،لوگوں کا سامنا کرنے میں عجیب جھجک اور شور وغل سے گھبراہٹ کا شکار ہوجانا میرے لئے معمولی بات ہے۔گھر میں جب کبھی باجی کی سہیلیاں آجاتیں تب بھی میرا وقت زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی گزرتا تھا جب کہ وہ مجھ سے ملنا اور میرے ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھیں۔
اب آپ سوچیں گے کیوں؟ایسا کیوں تھا؟۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنے والدین کے بڑھاپے کی اولاد ہوں،مجھے سے پندرہ اور تیرہ سال بڑے سہیل بھائی اور رانی باجی ہیں،وہ ویسے بھی مجھے چھوٹا سا کھلونا سمجھتے ہیں جس سے وہ ہروقت کھیلیں اور خوش ہوں۔آخری اولاد ہونے کے ناطے تھوڑے زیادہ ہی لاڈ پیار سے پرورش کی گئی ہے میری اور سب نے ہی مجھے بگاڑنے میں اپنا پورا حصہ ڈالاہے۔کچھ پیدائشی رنگ روپ میں قدرت نے بھی فیاضی سے کام لیا تھا۔ باقی کسر میرے گھر والوں کے لاڈ پیار نے پوری کر دی ۔
قد کاٹھ اچھا تھا اور رنگ بھی ماشاء اللہ اور سونے پہ سہاگا ایسے گھنے اور کالے سیاہ بال کہ بس۔۔جو بھی دیکھتا تو امی سے پوچھتا ۔ ”اے بہن!سوئٹو کے بالوں میں کیا لگاتی ہو۔ایسا گھنا پن تو کم کم دیکھنے میں آتا ہے اب۔”
اور امی اُن نظر باز لوگوں کے جاتے ہی میری نظر اتارتیں تب کہیں جاکے انہیں اور پھر مجھے سکون ملتا تھا۔
ویسے جب بھی امی اور باجی یہ کہتی تھیں :”سوئٹو پہ نخرہ بہت ہی جچتا ہے ”
تو میری گردن میں خود بہ خود ہی ایک اکڑ سی آجاتی اور مجھے لاڈ و بچہ بننا اچھا لگتا ۔میری شخصیت کا کباڑاکرنے میں انہی دو خواتین کا ہاتھ سب سے زیادہ ہے،ہمیشہ ہتھیلی کا چھالابنا کر رکھا۔میں نے ”پراعتماد” شخصیت تو بننا ہی تھا۔
بچپن سے ہی میرے بھائی اور باجی میرے محافظ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔در اصل ہمارے چھوٹے سے علاقے میںلڑکے لڑکیاں مڈل تک ساتھ ہی پڑھتے تھے ،سو باجی اور بھائی نے مجھے ہمیشہ ہی اپنی نگرانی میں رکھا ،پھر کالج میں بھی کُچھ ایسے ساتھی مل گئے کہ مجھے کبھی اکیلے آنے جانے کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا ۔
وہ تو جب باجی کی شادی ہوئی ،تواحساس ہوا کہ وہ گھر میں میری کتنی بڑی دُوسراہٹ تھیں۔کیوں کہ مجھ میں تو اعتماد نام کی کوئی چیز نہ تھی لہٰذاباجی نے ہمیشہ ابا جی تک میری آواز پہنچائی اور کامیاب لوٹیں۔۔آپ کو تو معلوم ہی ہے بھائی کہاں اتنی پروا کرتے ہیں۔انہیں تواحساس بھی نہیں ہوتا کہ گھر میں چھوٹا بہن یا بھائی اکیلا ہے۔۔اُسے کُچھ وقت دے دیا کریں۔۔کُچھ خیال کر لیا کریں۔۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

جب مجھے اکیلے رہنا پڑا تو معلوم ہوا کہ باجی سے کتنی رونق تھی گھرکی۔۔اُن کی سہیلیاں آتیں تو ہلچل مچی رہتی تھی ۔ہ بھی مجھے اور بھائی کو اپنے ساتھ ہی لگائے رکھتیں۔ان کے جانے کے بعد تو گھر بے رونق ہی ہوگیا تھا۔۔میرا دل ہی نہیں لگتا تھا گھر میں۔۔کالج سے آکے جب مجھے میرے کمرے کی ویرانی سے سامناکرنا پڑتا تو دل گھبراجاتا ۔اسی وجہ سے میرا پڑھائی میں دل لگنے لگا تھا۔ظاہر ہے جب کچھ کرنے کو نہیں تو اب انسان یا تو پڑھے گا یا باہر نکل جائے گا۔
باہر نکلنا اور وہ بھی اکیلے۔۔اُف ف ف ف ف ۔۔۔توبہ توبہ۔۔سوچ کر ہی جھرجھری آجاتی ہے۔پتا نہیں کالج کے دو سال بغیر بھائی کے آنا جانا کیسے ہوتا رہا۔ورنہ میرا تو موڈ پڑھائی چھوڑ کر گھر بیٹھ جانے کا تھا ،تاکہ سکون سے کچھ لکھنا شروع کردوں۔۔کیوں کہ مجھے لگتا تھا کہ ایک عظیم لکھاری میرے اندرموجود ہے جو تڑپ رہا ہے باہر نکلنے کو۔۔ویسے بھی لکھنا لکھانا تو فارغ۔۔۔میرا مطلب ہے حساس لوگوں کا کام ہے نا۔۔اب مجھ سے زیادہ حساس بھلا کہاں ملے گا کسی کو۔۔اور پھر پڑھ لکھ کر مجھے کرنا ہی کیا تھا۔۔
مجھے پڑھ لکھ کر کون سی ملازمت کرنے کی اجازت مل جاتی ۔بتایا تھا نا آپ کو کہ میں ذرا لاڈلی اولاد ہوں۔۔گھر بھرمجھے زمانے کی ہوا نہیں لگنے دینا چاہتا تو مجھے بھی کون سی مصیبت پڑی تھی، جو زمانے سے بھگتوں۔۔جب گھر بیٹھے آسائشیں میسر ہوں تو بے وقوف تھوڑا ہی ہوںجوایسی خواہش رکھوں اور اپنا رنگ و روپ خراب کروں۔
ابا جی کی اتنی اچھی اور چلتی ہوئی دودھ دہی کی دُکان جومیرے نام ہے۔۔ایک دُکان بھائی کے نام بھی ہے لیکن وہ کرائے پر دے رکھی ہے اور باجی کو تو جہیز ہی اتنا دے دیا تھا کہ اب ہمارے معاشرے کی روایات کے عین مطابق جائیداد میں اُن کاحصہ نہ رکھا گیا۔ویسے بھی وہ ابا کے بڑے بھائی کے گھر ہی تو بیاہی تھیں کون سا کسی غیر کے گھر۔
تو اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا میرے اکیلے پن اور نازک صورت حال کا۔۔کیوں کہ گھر میں کوئی ہے ہی نہیں ،جس کے ساتھ وقت گزاروں تو مجھے۔۔یعنی سوئٹو کو کُچھ شیئر کرنے کے لئے کاغذ قلم کا سہارالینے پر مجبور ہونا پڑتا تھا۔۔۔
آج آپ لوگ میرے ایک راز سے واقف ہونے والے ہیں۔
مجھے۔۔مجھے پیار ہوگیا ہے۔۔ہاں جی وہی پیار ،عشق،محبت اور عاشقی۔۔جو مرضی نام دے دیں۔۔ویسے آپ لوگ بھی حیران ہوں گے کہ کمزور اور دبو شخصیت رکھتے ہوئے پیار۔۔؟۔۔بس جی یہ تو ہو جانے والی چیز ہے۔۔کسی کا بس کہاں چلتا ہے اس پر۔۔تو میری زندگی میں بھی بہار آگئی۔۔اور مانو اجالا ہی ہوگیا۔
پہلے تو مجھ پرایک جمود سا طاری رہتا تھا اور اب دن رات کیسے گزرتے ہیں نہیں معلوم۔۔ہر وقت محبوب کا خیال مجھے بے چین کئے رکھتا ہے۔۔دل چاہتا ہے کہ چوبیس گھنٹے اپنی چھت سے برابر والوں کی چھت پر ٹکٹکی باندھے رکھوں۔
آپ بھی سوچتے ہوں کہ یہ اچانک کیا معاملہ پیش آگیا۔حقیقت یہ ہے کہ میرے محبوب کا گھر برابر والا ہی تو ہے۔۔خیر سے ”وہ”ہمارے نئے پڑوسی ہیں۔۔جب دوسال پہلے وہ لوگ ادھر آئے تھے تو مجھے کیا معلوم تھا کہ میری ویران زندگی میں چپکے سے بہار آنے والی ہے۔
میرے ”اُن” کے بات کرنے کا اسٹائل۔۔آہ، اُف!۔۔اور کیا ہمت و بہادری پائی ہے۔۔اس پر اعتماد کی دولت سے مالا مال شخصیت۔۔اُف !کیا غصہ ہے میرے ”اُن” کا۔۔اور بات کرنے کا ایسا بارعب انداز کہ کوئی آگے سے بول نہ پائے ۔۔مجھے تو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ لوگ اتنے باہمت بھی ہوتے ہیں۔۔۔اپنے محبوب کو دیکھا تو احساس ہوا۔
میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں۔۔کم ہے۔۔۔سب جانتے ہیں کہ آج کل اچھے رشتے ملتے کہاں ہیں۔۔اب اگر مجھے پڑوس میں ہی اپنا شان دار ”مستقبل” مل گیا تو خوش قسمتی ہے نا میری۔۔میرا محبوب اتنا بہادر ہے کہ اکیلا رکشے میں آتا جاتا ہے۔۔اور پورے گھر کا کام بھی کرتا ہے۔۔مجال ہے کہ اُسے کسی کاڈر ہو ۔
دراصل وہ اکلوتی اولاد ہے نا اسی لئے اُس کے والدین نے اُس کی پرورش اور تربیت بہادر مردوں کی طرح کی ہے۔۔ورنہ مجھے کیا معلوم تھا کہ لوگ اس عمر میں اتنے بہادر بھی ہوتے ہیں کہ دوسرے بات کرتے ہوئے بالکل بھی ڈریں ۔
اُس کی شجاعت اور بہادری کے بہت سے چشم دید گواہ ہیں اور بس اُسی وقت میرا نازک سا دل اُس کا طلب گار ہوامگرمحبوب تو سنگ دل ہی ہوتا ہے نا ، سو اُس نے نظر اُٹھا کر بھی مجھے نہ دیکھا ۔۔کہ کوئی کتنی میٹھی میٹھی نظروں سے اُس کا حصار کئے ہوئے ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہوا کہ میری وین جو ابا جی نے میری سہولت کے لئے لگوارکھی ہے وہ گھر سے کچھ دور خراب ہوگئی اور میرا پریشانی کے مارے بُرا حال تھا کیوں کہ گلی کے نکڑ پر کُچھ اوباش لڑکے بیٹھے رہتے تھے ۔ اُنہیں بس موقع چاہئے ہوتا تھا مجھے چھیڑنے کا،لچے لفنگے کہیں کے ۔۔خیر تو جیسے ہی وین پنکچر ہوئی میں نے فوراً بھائی کو فون کیا اوریہ سن کر مجھے غش ہی آگیا کہ انہوں کہا کہ وہ ابھی یونی ورسٹی میں ہیں اور اباجی ظاہر ہے اس وقت دُکان پر تھے ،اب امی کو فون کر کے گلی سے باہربلانا کچھ مناسب نہیں لگ رہا تھا آخر میں اُن کی جوان اولاد ہوں ۔۔بے شک جسمانی لحاظ سے کمزور ہی سہی پر ہوں تو جوان جہان۔
ہمت مرداں مدد ِخدا کے تحت اپنی پیٹھ خود ٹھونکی ۔یہ الگ بات ہے کہ میرا دل اتنی تیزی دھڑک رہا تھا جیسے ابھی باہر نکل کر آ جائے گا۔دھک دھک کی آواز گویا میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔اور ہتھیلیاں پسینا پسیناہوچکی تھیں۔میں نے اپنا بیگ درست کیا ،فائل میرے ہاتھ میں لرز رہی تھی، مضبوطی سے پکڑی اور خود کو تسلی دیتے ہوئے لرزتی ٹانگوں سے گھر کی جانب قدم بڑھادئیے۔۔
مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ بدمعاش مجھے دور سے دیکھ کر کسی شرارت کی پلاننگ میں مصروف ہیں ۔اتنی دور سے بھی کم بختوں کے چہروں پر پھٹکارصاف نظر آرہی تھی۔ایسے نازک وقت میں،میری ذات اُن کا آسان ہدف تھی کیوں کہ میرے محافظ بھائی اور بہن ساتھ نہیں تھے۔اُن کے قریب پہنچتے ہی میرے قدم خود بہ خود سست پڑتے گئے اور حلق بالکل خشک ہوچکا تھا ۔
اچانک۔۔اچانک گلی کے نکڑ پر ایک رکشہ رُکا اور وہ بدمعاش ادھر متوجہ ہوگئے ۔
کیوں کہ اُس رکشے میں دو حسین لڑکیوں کے ساتھ میرے مستقبل کا محافظ بھی تھا۔شائد اُن لفنگوں نے کوئی نازیبا با ت کی۔بس ایک بجلی سی چمکی اور وہ جو اس بد معاش ٹولے کا سردار تھا چاروں شانے چت پڑا دھول چاٹ رہا تھا۔اُس کے باقی دوست مدد کوآگے بڑھے ہی تھے کہ محلے والوں نے بیچ میں آکر معاملہ رفع دفع کرادیا۔میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور جلدی سے گھر کا راستہ ناپا اور تقریباً بھاگتے ہوئے گھر میں داخل ہوکر سکون کا سانس لیا۔
لیکن بس۔۔وہ ایک پل ہی سکون کا تھا۔۔اب تو اٹھتے بیٹھتے صبح شام اُسی ظالم کا دھیان رہنے لگا تھا۔دل چاہتا فوراً امی کو بتادوں۔۔۔لیکن آہ۔۔! یہ مشرقی روائتیں بھی نا۔۔اکثر ضبط کا امتحان لیتی ہیں۔لیکن۔۔کچھ تو کرنا ہی تھا نا۔۔ایسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھا جاسکتا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۴

Read Next

داستانِ حیات — علی فاروق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!