دوسراہٹ — لبنیٰ طاہر

دیوار پر جھولتی ، بہار دکھاتی پھولوں کی بیل دل موہ رہی تھی ۔ اس سے پرے کھڑکی کی آ ہنی جالی کے نقش و نگار مجھے تقریباًحفظ ہو چکے تھے ۔اس پہ ٹنگا خوب صورت گلابی حریری پردہ ۔۔۔ اور پردے کے پیچھے کبھی چھپتا اور کبھی ظاہر ہوتاہوا ایک گلابی چہرہ۔۔۔
سامنے والے گھر میں ایک خوب صورت لڑکی رہتی ہے ،پتا نہیں سچ مچ خوب صورت ہے یا صرف میری نگاہیں اسے خوب صورت دکھاتی ہیں۔۔۔ تانک جھانک اخلاقی طور پہ قطعاًاچھی بات نہیں مگر میں بااخلاق ہونے کے باوجود دل کے ہاتھوں مجبور یہ غیر اخلاقی حرکت کرتا رہتا ہوں ۔ مجھے اس کام میں شرمندگی سے زیادہ لطف آتا تھا کہ کتنی آسانی سے میں اس کے شب و روز کی تفصیل جان جاتا ہوں ۔۔۔ میری اس غیر اخلاقی حرکت میں کسی حد تک اس کا اپنا بھی قصور ہے ،جو صبح صبح کھڑکی کھول کر پردہ ہٹا دیتی اور اس کے بعد ایک قیامت خیز انگڑائی لیتی ہے تو مجھ جیسا کوئی بھی با اخلاق شخص ایسی حرکت پر مجبور نہ ہو تو کیا کرے۔




میری کھڑکی سے اس کے کمرے کا آدھا حصہ نظر آتا ہے اور باقی کا آدھا کھوجنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔۔۔ نظر آنے والے آدھے حصے میں ایک سنگھار میز ،دو تپائیاں اور دو نشستی ایک صوفہ نظر آتا ہے ۔۔۔ صبح جاگنے کے بعد وہ سیدھی سنگھار میز پہ جاتی ، اپنے بالوں کو کبھی جوڑے کی شکل میں باندھتی اور کبھی کھلے ہی رہنے دیتی ۔کبھی کبھی اس کے گیلے بالوں سے موتیوں کی مانند ٹپکتا پانی اس کی بل کھاتی کمر کو بھگورہا ہوتا ۔۔۔ کبھی وہ کمرے کے دکھائی دینے والے حصے میں ہوتی کبھی نادیدہ حصے میں چھپ جاتی اور پھر کچھ دیر بعد سنگھار میز کے سامنے آن موجود ہوتی ۔
پائو ڈر ،کریم ، آنکھوں میں کاجل کے سیاہ ڈورے ڈالنے کے بعد آخر میں وہ ہونٹوں کو لپ اسٹک سے سجاتی ۔ جب وہ ہونٹوں کو کھول کر سرخی کی تہ جماتی اور پھر دونوں ہونٹوں کو جوڑ کر اسے برابر کرتی تب اس کے کھلتے بند ہوتے ہونٹ گلاب کی مانند دکھائی دیتے ۔۔۔ پھر جب وہ جاتے جاتے مڑ کے پھر سے اپنا سراپا شیشے میں دیکھتی تو اس وقت اس کا رخ میری جانب ہوتا ۔وہ چند لمحے ساکت ہوتی، جیسے اسے محسوس ہو جاتا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے شاید یہ اسے برا نہیں لگتا۔
سراہا جانا عورت کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور دنیا کی ہر عورت اپنی اس کمزوری سے بہ خوبی واقف ہے ۔
پھر وہ کھڑکی بند کر کے پردہ برابر کرتی اور کمرے سے نکل جاتی ۔شاید کہیں ملازمت کرتی ہے ۔ اس کے بعد میری اُداسی کے لمحات شروع ہو جاتے ہیں۔ اگلی صبح تک وہ گلابی پردہ کسی سٹیج کے پردے کی مانند گرا رہتا ہے ۔
حالاں کہ صبح کے وقت مجھے اس کھڑکی کامنظر دیکھنے کے لئے سخت محنت اور تردد درکار ہوتا ہے کیوں کہ میں یہ کام ملازم کی مدد کے بغیر کرتا ہوں۔
باقی تمام دن میرا ملازم مجھے وہیل چیئر پہ بیٹھنے میں مدد دیتا ہے لیکن صبح کے وقت میں اُس کی کوئی مدد نہیں لیتا ۔ کیوں کہ میں اُسے اس حسین منظر کا حصہ دار نہیں بنانا چاہتا ۔ میری تنہا زندگی میں صرف اک یہی حسین دُوسراہٹ ہے ۔




Loading

Read Previous

بس کا دروازہ — نوید اکبر

Read Next

بارش کب ہوگی — مریم جہانگیر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!