لیا چکر مقدراں اِنج بُلھیا
اسی اُجڑ گئے اوہ شاہ ہوگئے
وہ رات مراد پر بڑی بھاری گزری تھی۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی آنکھ بند نہیں کرسکا تھا۔ اس نے ماں کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا کہ مراد کسی شے کی تمنا کرے اور تاجور وہ لانے کے لئے دوڑ نہ پڑے۔ تو پھر موتیا کی دفعہ کیا ہو گیا ماں کو؟
اس کے کمرے میں قانون کی کتابوں کے ڈھیر میں موجودکسی کتاب میں اس کا جواب نہیں تھا۔ وہ ماں پر جان قربان کرنے والا فرماں بردار بیٹا تھا اور موتیا پر آکر وہ نافرمان کیوں ہوا تھا؟ قانون کی کسی کتاب میں اس کا جواب بھی نہیں تھا۔ کوئی مراد سے پوچھتا تو وہ اسے محبت کہتا۔ تاجور سے پوچھتا تو وہ اُسے آزمائش کہتی۔
وہ ساری رات کمرے میں پڑی میز پر ماچس کی تیلیوں سے تاج محل بناتا رہا تھا۔ وہ تاج محل جس میں اُس نے موتیا کو بسانا تھا۔ پر اس تاج محل کا دروازہ وہ نہیں بنا سکا تھا۔
فجر کے وقت چوہدری شجاع نماز کے لئے اُٹھے تھے اورانہوں نے مراد کے کمرے کی روشنی دیکھی تھی پھر کھڑکی سے بیٹے کو سر پکڑے دیکھا تھا اور ان کے جیسے کلیجے پر ہاتھ پڑا تھا۔ عشق معشوقی انہوں نے خود کبھی نہیں کی تھی پر ہیر وارث شاہ بڑی سنی تھی۔ رانجھے کی فریاد بھی، مرزا کو لگنے والے تیروں کے نوحے بھی اور مہیوال کے اپنی ران کے گوشت کو کاٹ کر سوہنی کو کھلانے کی داستانیں بھی۔ پر جو حال انہوں نے اس وقت بیٹے کا دیکھا تھا انہیں سب کچھ بھول گیا تھا۔
”تاجور! یہ نہ کر۔ جوان اولاد ہے وہ بھی اکلوتی، نہ کر اتنی ضد اس کے ساتھ۔” چوہدری شجاع نماز کے لئے نیت باندھتی ہوئی تاجور کو ٹوک بیٹھے تھے۔ تاجور کو ان کی یہ مداخلت بے حد بُری لگی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”صبح سویرے اللہ کا نام لیتے ہوئے آپ کو ن سے قصے لے کر بیٹھ گئے ہیں۔” اس نے بے حد ناخوش انداز میں مصلّے پر کھڑے ہوئے میاں سے کہا تھا۔
”مراد ساری رات نہیں سویا۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا ہے۔ وہ پریشان بیٹھا ہوا ہے۔” چوہدری شجاع نے اُسے بتایا۔
تاجور نے جواب دینے کے بجائے ہاتھ اُٹھا کر نیت باندھ لی مگر چوہدری شجاع کے جملے جیسے اُس کے ذہن میں اٹک گئے تھے۔ وہ ہر دوسری آیت بھولی تھی۔ کبھی کچھ آگے کردیتی کچھ پیچھے۔ وہ اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی پریشانی کا سن کر تاجور بھی اپنے حواس میں نہیں رہی تھی پر شوہر کے سامنے وہ اپنے آپ کو کمزور ظاہر نہیں کرسکتی تھی۔ چوہدری شجاع نماز پڑھنے چلے گئے تھے اور جب وہ نماز پڑھ کر آئے تو تاجور تسبیح لے کر بیٹھی ہوئی تھی۔
”تم نے کچھ سوچا تاجور؟” چوہدری شجاع نے آتے ہی اس سے کہا تھا اور وہ جیسے آگ بگولہ ہوگئی تھی۔
”آپ چاہتے ہیں کہ میں ایک کمی کی بیٹی بیاہ کر گھر لے آوؑں۔”
”میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اس سارے معاملے کو حکمت سے سنبھالو۔ وہ ایک دو مہینے کے لئے یہاں ہے، واپس چلا گیا تو موتیا کی محبت کا بخار بھی اُتر جائے گا۔ ابھی ضد نہ کرو اُس کو ماہ نور کے ساتھ کسی رشتے میں باندھنے کی۔ بس اُسے کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں سوچنے کے لئے کچھ وقت دے۔ وہ اگلے سال آئے گا تو پھر فیصلہ کریں گے۔” شجاع نے جیسے اُسے سمجھا کر کوئی حل نکالنے کی کوشش کی ۔
”وہ نہیں مانے گا۔ اس نے ضد لگائی ہے ماں سے اور ضد میں کوئی تاجور کو کیسے ہرا دے۔”
تاجور نے چوہدری شجاع کے سامنے دو ٹوک انداز میں کہا تھا۔ وہ مسلسل تسبیح کے دانے گرا رہی تھی اور چوہدری شجاع اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے ضد کرنے والی ماؤں کا سنا تھا پر وہ دیکھ پہلی بار رہے تھے اور بے بس تھے۔ باپ ہوکر بھی وہ ماں کی اس ضد کے سامنے بیٹے کے لئے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
”میں نے نیا وظیفہ شروع کیا ہے اس کے لئے۔ آپ دیکھئے گا چار دن میں سیدھا ہوجائے گا۔ یہ سب جادو ٹونے ہیں جن کے اثر میں ہے وہ۔ جب اثر سے نکلے گا تو موتیا کی تو شکل بھی نہیں دیکھے گا۔”
تاجور نے بے حد اعتماد سے شوہر سے کہا تھا۔ وہ اسی طرح تسبیح کے دانے گراتی ہوئی کمرے سے نکل کر باہر صحن میں چلی گئی تھی جہاں برآمدے میں مراد کے کمرے کی کھڑکی سے اب بھی روشنی آرہی تھی۔ تاجور نے تسبیح پھیرتے ہوئے ڈوبتے دل کو سمجھاتے ہوئے اس کھڑکی سے نظریں چرائیں۔
”دل کو پکّا رکھنا تاجور! ایک دفعہ کمزور پڑی تو بس تیری سلطنت گئی تیرے ہاتھ سے۔” اس کے اندر جیسے کسی نے اس کو پکار کر کہا تھا اور تاجور نے اس پکار کو بار بار سنا تھا۔
…٭…
گامو اللہ وسائی کا چہرہ دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔
”تو کیا کہہ رہی ہے اللہ وسائی ؟ چوہدرائن اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر ہمارے گھر آئے گی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟” اللہ وسائی نے جواباً بڑے اعتماد سے اس سے کہا:
”تجھے بتایا تو ہے گامو! موتیا کو پسند کرتا ہے چوہدری مراد۔ اُس نے کہا ہے اس سے کہ وہ رشتہ بھیجے گا۔”
اللہ وسائی نے جھجکتے جھجکتے اُسے موتیا اور مراد کے بارے میں جیسے سب کچھ سنا دیا ۔ گامو بے حد پریشان ہوا تھا اور کچھ دیر کے لئے جیسے اس سے بات ہی نہیں ہوسکی تھی۔
”کچھ تو عقل کر اللہ وسائی! کہاں چوہدری کہاں ہم۔ تو نے موتیا کو سمجھانا تھا۔”
”سمجھایا تھا گامو! پر موتیا کا تو کوئی قصور نہیں، دل تو مراد کا آیا ہے۔ رشتہ بھیجنے کی خواہش تو اُس نے کی ہے۔”
اللہ وسائی نے موتیا کے جذبات پر پردہ ڈالتے ہوئے گامو کے سامنے بیٹی کا دفاع کیا۔ گامو اُس کا چہرہ دیکھ کے رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
”تیرا بھی تو دل کرتا تھا نا کہ چوہدری مراد کے ساتھ موتیا کا رشتہ ہوجائے۔تو نے بھی تو مجھ سے کہا تھا کہ میری موتیا کے ساتھ صرف وہی سجتا ہے۔” اللہ وسائی نے یک دم جیسے عجیب سے لہجے میں اُس کے جملے دہرائے۔
”میرے سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ میں تو پاگل ہوں، عقل کم ہے مجھ میں۔ ہر الٹی سیدھی بات سوچ لیتا ہوں۔ تو میری بات کیوں دہرارہی ہے؟” وہ یک دم گڑبڑا کر اللہ وسائی سے کہنے لگا۔
”کیا پتا چوہدرائن واقعی رشتہ لینے آجائے۔” اللہ وسائی نے شوہر کے ساتھ بحث نہیں کی تھی۔ اس نے جیسے تمنا کی تھی۔
”وہ نہیں آئے گی اللہ وسائی! میں جانتا ہوں چوہدرائن کو اور تو بھی جانتی ہے۔ اس لئے جھوٹے خواب نہ دیکھ۔” گامو نے اسے ڈانٹ دیا۔ اس نے جواباً بڑی عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا۔
”تو اور میں تو جھوٹے خواب دیکھتے ہیں پر موتیا تو ہمیشہ سچے خواب دیکھتی ہے۔ اس نے دیکھا ہے کہ چوہدرائن رشتہ لے کے آئی ہے اس کے لئے۔” گامو اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا ۔
اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ آمین کہے ، ما شاء اللہ یا الحمد للہ ۔ موتیا کا خواب ہمیشہ سچا ہوتا تھا۔ یہ وہ بھی جانتا تھا۔ پر یہ خواب کیسے سچا ہوسکتا تھا؟
…٭…
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});