کاروبار بُری طرح خسارے میں جارہا تھا اور بینک سے لئے جانے والا قرضہ ادا کرنے کی مدت ختم ہونے والی تھی جب کہ دوسری طرف سرمایہ لگانے والوں کی ایک بڑی تعداد اس کی اپنی برادری کی تھی، جو اپنے اپنے سرمائے پر منافع نہ ملنے پر رقم کی واپسی کا تقاضا کر رہے تھے۔ ان کے دن رات کا سکون برباد ہوچکا تھا اور اس سکون کی بربادی کے ذمہ دار وہ خود تھے۔ پیسہ والے گھر میں شادی ان کی بربادی بنی تھی۔مجتبیٰ زیدی کی بیوی کا انتقال ابھی حال ہی میں بلڈ کینسر کے سبب ہوا تھا۔ ان کے دو بیٹے تھے، جو امریکا میں اپنے ماموں کے پاس زیرِتعلیم تھے۔ وہ حالات سے بالکل مایوس ہوچکے تھے، مایوسی کفر ہوتی ہے اور کفر کا انجام موت ۔
’’ڈیفنس میں رہنے والے شخص مجتبیٰ زیدی نے مالی پریشانی سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔‘‘
اگلے دن شہر کے سب سے بڑے نیوز پیپر کی ہیڈلائن میں لگی خبر پڑھتے ہوئے لوگوں کے ذہن میں اُٹھنے والا پہلا سوال یہ تھا کہ جس کی ڈیفنس میں اتنی بڑی کوٹھی ہو اس کو بھلا کیا مالی پریشانی ہوسکتی ہے؟ وہ اتنے لوگوں کا قرضہ اپنے سر پر لے کر مرے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے چاہتے تو ڈیفنس والی کوٹھی بیچ کر باپ کا قرضہ اتار سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
ان کے مرنے کے بعد فیکٹری بینک نے نیلام کی تھی۔ نیلامی میں فیکٹری خریدنے والے بدنصیب آج بھی کورٹ میں پیشیاں بھگتتے پھر رہے ہیں کیوںکہ انہیں فیکٹری کے متنازع ہونے کا علم نہیں تھا۔ اس میں ان سب لوگوں کی ہائے لگی تھی، جن سے سرمایہ کے لئے رقم لی گئی تھی اور یہ فیکٹری کسی کو راس آنے والی نہیں تھی کیوں کہ اس کے باہر سے کچرا اُٹھانے والے جمعدار سے بھی مجتبیٰ زیدی نے منافع کا لالچ دے کر قرضہ کی مد میں ساٹھ ہزار روپے لیے تھے۔