”اماں تجھے میری قسم مان لے نا اس بار…” اس نے نویں بار ماں کی منت کی تھی لیکن دوسری طرف مجال ہے کہ کوئی بھی اثر ہوا ہو۔
”اماں دیکھ تھوڑی دیر کی تو بات ہے، میری اچھی ماں۔” وہ اب ماں کی ٹھوڑی چھو رہی تھی۔
”دیکھ فوزیہ! میں نے تجھے ہزار بار سمجھایا ہے کہ مجھ سے اس طرح کی ضد مت کر، ایسی ضد اپنے میاں کے گھر جا کر کرنا، سمجھی… اب چل جا کر کپڑے بدل اور جانے کی تیاری کر۔ دو بسیں بدل کے جانا پڑے گا پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے۔” سکینہ بیٹی کو کہہ کے چادر اُوڑھنے لگی۔ مجبوراً فوزیہ بھی بے دلی سے اُٹھ کر تیاری کرنے لگی۔ وہ جانتی تھی کہ اب کسی صورت بھی ماں کی ”نا” ہاں میں نہیں بدلنے والی، اس لیے سوجے منہ کے ساتھ تیاری کرنے لگی۔
٭…٭…٭
دیکھ نا اماں! یہاں سب لڑکیوں نے زیور پہنا ہوا ہے اور ایک تُو ہے جو پہننا تو دور کی بات دیکھنے بھی نہیں دیتی، صرف جُھمکے ہی تو مانگ رہی تھی نا تجھ سے، ذرا دیر پہن لیتی تو کون سی قیامت آجاتی۔ پتا نہیں تو اتنی سنگ دل کیسے بن جاتی ہے۔ میں نے تیری کتنی منتیں بھی کیں لیکن تُو تو تُو ہے، اتنی آسانی سے کہاں بات مانے گی۔ وہ ماں اور دو سال چھوٹی بہن کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھی یہاں وہاں گھومتی لڑکیوں کے زیور اور خاص طور پر کانوں میں پڑے جُھمکے بڑی حسرت سے دیکھ رہی تھی، دل میں چھپی کسک مزید گہری ہوگئی۔
دیکھ فوزیہ! پھر سے مت شروع ہو جانا۔ شادی میں آئی ہے، چُپ چاپ کھانا کھا اور واپسی کا سوچ۔ دوبارہ کسی لڑکی کی طرف دیکھ کے مجھے اشارہ کیا تو تجھے سب کے سامنے وہ سناؤں گی کہ تُو یاد کرے گی۔” بیٹی کی ضد سے اُکتائی سکینہ نے ڈرانے کی خاطر اپنا لہجہ خوب سخت رکھا جس کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا، کیوں کہ اس کے بعد فوزیہ منہ سے کچھ نہ بولی۔ آخر اُسے اپنی عزت بھی پیاری تھی۔
فوزیہ اور رابعہ دو ہی بہنیں تھیں، سکینہ بی بی نے بیٹیوں کو ہر طرح سے اچھی زندگی دینے کی کوشش کی، خالد صاحب کی معمولی سی تنخواہ میں گزارہ مشکل ہونے لگا تو انہوں نے سلائی کا کام کرکے اپنی بیٹیوں کو پالا تاکہ ان کی بچیوں کو ہر چیز میسر آسکے۔ بڑی فوزیہ چودہ پڑھی ہوئی تھی اوراپنے خالہ زاد سے منسوب تھی بلکہ دوماہ بعد بیاہ کر فرخ کے سنگ چلے جانا تھا۔ سکینہ نے بڑی محنتوں اور مشکلوں سے تھوڑا تھوڑا جمع کرکے فوزیہ کی شادی کے لیے ایک لاکٹ سیٹ بنوایا تھا، جس کے بڑے بڑے جھمکے اکثر ہی فوزیہ کا دل للچائے رکھتے لیکن سکینہ کو لڑکیوں کا شادی سے پہلے زیور پہننا گوارا نہ تھا۔ اس کے اَن پڑھ ذہن میں یہی سوچ تھی کہ شادی سے پہلے لڑکیوں کا زیور پہننا اچھی بات نہیں۔ اس لیے وہ فوزیہ کو بھی یہی کہتی کہ زیور کا ارمان شادی کے بعد میاں کے گھر میں پورا کرے۔ فوزیہ کو ماں کی اس سوچ سے شدید اختلاف تھا لیکن باوجو شدید اختلاف کے وہ موڈ خراب کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کرسکتی ۔ ہاں دل ہی دل میں شادی میں رہ جانے والے دنوں کو گنتی اور خواب میں بھی خود کو جُھمکے پہنے دیکھتی رہتی۔ آخر کار وہ دن آن ہی پہنچا جس کا اُسے انتظار تھا۔ دلہن بنی فوزیہ رُخصتی کے دن بار بار اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر خود کو یقین دلاتی رہی کہ یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے، اور اُس نے واقعی میں یہ خوب صورت اور بڑے بڑے جُھمکے پہن رکھے ہیں۔ ”اب تو میں ہر وقت انہیں پہن کے رکھوں گی۔ کوئی منع کرنے والا بھی نہیں ہوگا، کتنا مزہ آئے گا۔ میں اپنا شوق خوب پورا کروں گی۔” اُس نے دل ہی دل میں مستقبل کے ارادے باندھے۔
٭…٭…٭
”یہ تم کیا ہر وقت دلہن بنی رہتی ہو، جب دیکھو تو کانوں میں یہ لٹکائے ہوتے ہیں۔ شادی کو بیس دن تو ہوگئے ہیں اور تم اُتارنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اب بس بھی کرو۔”
”نئی نویلی دلہن بننا بند کرو اور خدا کے واسطے ان کو اتار دو۔ میں جب بھی انہیں دیکھتا ہوں تو خون کھول اُٹھتا ہے۔ یہ بیس دن بھی بڑی مشکلوں سے برداشت کیا کہ شاید تم خود ہی اُتار دو لیکن تم تو شاید ساری زندگی نہ اُتارتی۔” فرخ کا غصے سے یوں چبا چبا کے بولنا اُسے ذرا بھی نہ بھایا لیکن، لیکن اس کے باوجود اس کا ہاتھ خود بہ خود ہی کانوں تک گیا تھا اور اپنے من پسند بڑے بڑے جُھمکوں کو چھونے لگا۔
خدا کے واسطے اُتار دو اِن جُھمکوں کو، اور ایک بات کان کھول کے اچھی طرح سن لو کہ مجھے یہ چونچلے ذرا بھی پسند نہیں اس لیے آج کے بعد میں دوبارہ تمہارے کانوں میں نہ دیکھوں۔” فرخ نے اس کے کانوں کی طرف اشارہ کرتے کہا اور غصے سے تن فن کرتا باہر نکل گیا۔ ہر قسم کے میک اپ سے بے نیاز چہرہ پل بھر میں دھواں دھواں ہوگیا تھا۔ اس کی زبان بالکل خاموش تھی لیکن ذہن میں ماں کا ایک جملہ گونج رہا تھا۔ ”زیور کا ارمان میاں کے گھر پورا کرنا۔” پھر اُس نے اپنا وہ واحد شوق اور ارمان بھی جُھمکوں کے ساتھ ہی اُس چھوٹی سی ڈبیا میں بند کردیا تھا۔
٭…٭…٭