باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

اگلے دن کنول پولیس سٹیشن میں بیٹھی تھی۔ایس ایچ او اُسے خبیث سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
”دیکھو بی بی،یہ قرض کا معاملہ ہے۔تیرے بھائی نے وعدہ کیا تھا کہ مدعی کے دو لاکھ دومہینے میں واپس کردے گا۔آج چار مہینے گزر گئے ،قرض خواہوں نے تو پیسہ واپس لینا تھانا۔”ایس ایچ او نے بہت نروٹھے انداز میں کہا۔
”دیکھیں ایس ایچ اوصاحب ،تھوڑا ٹائم اور دے دیں۔میں اس کی بہن ہوں،وعدہ کرتی ہوں جلد از جلد پیسوں کا انتظام کر دوں گی۔”کنول نے اس کی منت کی۔
”بی بی اسی طرح تیرے بھائی نے بھی بہت سے لارے دے رکھے تھے۔بلکہ آخری بار تو اس نے دھمکی دی تھی کہ جا نہیں دیتا جو کرنا ہے کر لے۔”ایس ایچ او نے غصے سے کہا۔
کنول ایس ایچ او کے پاس آکر کھڑی ہوگئی،۔اس نے ایک خبیث سی نظر اس پر ڈالی۔
”خدا کے لیے آپ میری بات کا اعتبار کریں،میں وعدہ کرتی ہوں کہ جلد ہی کوئی انتظام کر دوں گی۔”کنول نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
ایس ایچ او نے طنزیہ انداز میں اُے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بولا۔”خوب صورت عورتوں کے وعدے کبھی سچے نہیں ہوتے،جب تک پیسے نہیں آئیں گے تیرابھائی اسی طرح لاک اپ میں رہے گا، لیکن…”ایس ایچ او نے خبیثانہ انداز میں جملہ ادھورا چھوڑا۔
”لیکن کیا؟”کنول نے بے تابی سے پوچھا۔
”او رسول بخش بی بی کوسمجھاؤ” لیکن ”کیا ہوسکتا ہے۔”ایس ایچ او نے مکروہ انداز میں ہنستے ہوئے اپنے ماتحت کو بلایا۔
”آؤ بی بی اندر آؤ۔”رسول بخش کنول کو پکڑ کر ایک طرف لے گیا۔
کنول حیران پریشان سی رسول بخش کے ساتھ اندر والے کمرے میں چلی گئی۔رسول بخش نے اسے سرگوشی کے انداز میں ساری بات سمجھائی جسے وہ بہت تحمل سے سن رہی تھی۔ اس کے چہرے پرسپاٹ سی کیفیت تھی۔رسول بخش کی بات مکمل ہوئی تو اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھر آئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

تھوڑی دیر بعد وہ پردہ اُٹھا کر کمرے میں دوبارہ داخل ہوئی ۔ایس ایچ او نے ایک خبیث سی نظر اس پر ڈا لی۔
”او رسول بخش سمجھا دیا بی بی کو لیکن کا مطلب؟”ایس ایچ او نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
”جی سر اچھی طرح۔”رسول بخش نے چاپلوسی سے جواب دیا۔
” ہاں بی بی ”لیکن” سمجھ آگیا تمہیں؟”ایس ایچ او نے کنول کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”جی سر۔”کنول نے نظریں جھکائے جواب دیا۔
”پھر کیا سوچا؟بھائی کو جیل میں سڑانا ہے یا…”ایس ایچ او نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”نہیں مجھے آپ کی ہر بات منظور ہے جیسا آپ کہیں۔”کنول نے سپاٹ سے انداز میں جواب دیا۔
”چل بی بی پھر ٹھیک ہے شام تک تیرا بھائی گھر پہنچ جائے گا۔”ایس ایچ او نے تھوڑا اطمینان سے ہونٹوں پر مکروہ سی مسکراہٹ سجا کر کہا۔
٭…٭…٭
رحیم رہا ہونے کے بعد فوزیہ کے گھر میں بیٹھا ماں سے کہہ رہا تھا کہ میں اب واپس گاؤں نہیں جاؤں گا، شہر میں ہی کچھ کام ڈھونڈوں گا۔
”اللہ کا شکر ہے کہ تو رہا ہوگیا،فوزیہ نہ جاتی تو کبھی رہا نہ ہوتا۔”ماں نے اس کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں اماں باجی نے پیسے دے دیے ہیں،تب ہی بھائی کو ان سے چھٹکارا مل گیا۔”مُنی نے پیار سے کہا۔
”بس اماں میں نے سوچ لیا میں اب واپس گاؤں نہیں جاؤں گا،یہیں رہ کر کوئی کام وام ڈھونڈوں گا۔”رحیم نے چارپائی پر لیٹتے ہوئے کہا۔
”ہاں پتر یہ بھی تیرا ہی گھر ہے، لیکن تو یہاں کرے گا کیا؟”ماں کے لہجے میں بیٹے کے لیے پیار کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی تھی۔
”فوزیہ سے کہہ کر کچھ پیسے دلا دے تو یہیں دکان ڈال لوں گا۔دیکھو نا اب ابا کو بھی میری ضرورت ہے۔مُنا ابھی چھوٹا ہے،آوارہ ہو رہا ہے۔”رحیم نے ماں کی منت کی۔
”ہاں کہہ تو ٹھیک رہا ہے، مگر یہ اسما کہاں گئی؟”ماں نے سر ہلاتے ہوئے کہا جیسے وہ ٹھیک کہہ رہا ہو۔
”اماں اسماکو میں نے ہی گاؤں بھیجا ہے تا کہ ادھر جوچھوٹا موٹا سامان ہے وہ صبح تک یہاں لے آئے۔”رحیم نے جواب دیا۔
”اچھا… اچھا…”ماں نے تھوڑی فکر مندی سے کہا مگر چہرے پر حیرانی تھی۔
”کچھ کھانے کو ہے تو دے دے بڑی بھوک لگی ہے۔”رحیم لاڈ دکھاتے ہوئے بولا۔
”ہاں تو لیٹ میں ابھی لائی۔”ماں نے پیار سے کہا۔
٭…٭…٭
اسما جلدی جلدی اپنے گھر میں چھوٹا موٹا سامان سمیٹ رہی تھی ۔اسے گاؤں سے شہر جانے کا سنہری موقع مل رہا تھا جسے وہ کسی صورت کھونا نہیں چاہتی تھی۔بچوں کے کپڑے الماری سے نکال کر رکھنے کے ساتھ ساتھ اسکول بیگ اور دوسری ضروری چیزیں بھی بکسے میں ڈالیں اور جانے کے لیے تیار ہوگئی۔ساجد اسے اپنے رکشے میں شہر تک چھوڑ آیا۔
٭…٭…٭
ایس ایچ او اور فوزیہ بس اڈے پر کھڑے تھے۔ ایس ایچ او جیپ میں تھا،اسی جیپ سے فوزیہ اُتر کر باہرکھڑی تھی۔
” ٹھیک ہے بی بی اگر آئندہ بھی کوئی کام پڑے تو بندہ حاضر ہے۔”ایس ایچ او نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔
”ایسا تو کوئی کام نہیں لیکن بس اتنا چاہتی ہوں کہ آئندہ میرے بھائی کے خلاف کوئی پرچہ نہ کاٹنا کہ اسے حوالات جانا پڑے۔”فوزیہ نے اس کی منت کی۔
”ہاں بی بی ایسا ہو تو سکتا ہے لیکن ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے۔”ایس ایچ او نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیسی قیمت؟”فوزیہ نے فوراً پوچھا۔
”یہی کہ تو بھی ہم سے ملتی رہے۔”ایس ایچ او نے مکروہ انداز میں فرمائش کی۔
”ٹھیک ہے ملتی رہوں گی۔”فوزیہ نے کہا،اس کے چہرے پر ایک عجیب سے مسکراہٹ تھی جس کے کوئی معنیٰ نہ تھے۔وہ جانتی تھی کہ اب یہی اس کی قسمت ہے۔اس نے سوچ لیا تھا کہ اپنے گھر والوں کے لیے اپنی ہر خواہش کو قربان کر دے گی اور اس کے لیے اسے سب سے پہلے شہریار کی قربانی دینا تھی،کیوں کہ دل کی سب سے بڑی خواہش تو وہ بن چکا تھا۔
٭…٭…٭
وہ لیپ ٹاپ لیے بیٹھی تھی اور ایک ویڈیو میسج کرتے ہوئے بہت ریلیکس انداز بنا کر بات کر رہی تھی۔لیپ ٹاپ کے کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے خود کو بہت پرسکون ظاہر کیا۔
”اف!جب زندگی میں کچھ کرنے کو نہ ہو تو کتنا سکون ہوتا ہے نا۔کچھ لوگ آپ کی زندگی کا سکون ختم کردیتے ہیں،خواہ مخواوقت بے وقت فون اور ملنے کا تقاضا کر کر کے آپ کی زندگی میں زبردستی گھس بیٹھتے ہیں۔اپنی زندگی میں سکون کے لیے ان کاآپ کی زندگی سے چلا جانا ہی ضروری ہے اور میں نے بھی اب ایسے تمام لوگوں کو اپنی زندگی سے نکال دیا ہے،اب نو میسج،نو فون! گُڈ نائیٹ فرینڈز،stay blessed” ویڈیو لیپ ٹاپ پر ریکارڈ ہو رہی تھی۔ریکارڈنگ بند کر کے اس نے ویڈیو شیئر کر دی۔
٭…٭…٭
شہریار نے بھی اس کی ویڈیو دیکھی اور سمجھ گیا ۔دراصل یہ بات وہ اس سے کہہ رہی تھی۔اس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ لیپ ٹاپ آف کر دیا اور بُڑبُڑایا۔
”تمہاری آنکھیں تمہارے جھوٹ کا ساتھ ہیں دے رہیں کنول ،لیکن اگر تم اس طرح خوش ہو تو پھر ٹھیک ہے،تمہاری خوشی کی خاطر مجھے یہ بھی قبول ہے۔”
اُدھر کنول اپنی ویڈیو شیئر کرنے کے بعد اسٹیٹس چیک کر رہی تھی۔ایک ہی رات میں ڈھیروں ڈھیر میسجز آئے ہوئے تھے۔وہ ان میسجز میں شہریار کا میسج ڈھونڈنے لگی۔جب نہ ملا تو ان باکس چیک کیا،وہ بھی شہریار کے میسج سے خالی تھا۔وہ تھوڑا دکھی ہوگئی اور لیپ ٹاپ بند کر دیا،لیکن پھر سوچا کہ خود بھی تو یہی چاہتی تھی کہ وہ مجھے کوئی میسج اور کال نہ کرے،اب دکھی کیوں ہوں۔
٭…٭…٭
صبح وہ جلدی اُٹھ گئی اور کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی کہ ریحان کسی سے فون پر بات کرتا ہوا اندر داخل ہوا۔
” ٹھیک ہے ٹھیک ہے میں پچیس کو پہنچ جاؤں گا ایئرپورٹ تم فکر مت کرو، اوکے بائے۔”
‘یار آج صبح صبح اُٹھ گئیں خیر ہے؟”ریحان نے اسے کچن میں دیکھاتوحیرانی سے پوچھا۔
کنول نے اس کی بات کا جواب نہ دیا اور پوچھا۔”کون آرہا ہے؟”
”میری خالہ زاد بہن امریکا سے آرہی ہے وہ گرمیوں کی چھٹیاں میرے ساتھ ہی گزارتی ہے۔”ریحان نے جواب دیا۔
”اوہ اچھا،آملیٹ لو گے؟”کنول نے اس سے پوچھا۔
”اپنے لیے بنا رہی ہو؟”ریحان پاس آکر کیٹل کا پلگ لگاتے ہوئے بولا۔
”ہاں،کھاؤ گئے؟”کنول نے پوچھا۔
”پھر میرے لیے بھی بنا دو،آج تمہارے ہاتھوں کا آملیٹ بھی کھا کر دیکھتے ہیں۔”ریحان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
” دعویٰ نہیں کرتی لیکن بُرا بھی نہیں ہوگا۔” کنول نے تھکے تھکے سے انداز میں کہا۔
” کیا ہوا رات سوئی نہیں؟ شہریار سے بات ہوئی تھی کیا؟”ریحان نے غور سے اس کا چہرہ دیکھااور کھوجنے والے انداز میں پوچھا۔
”یہاں شہریار کا کیا ذکر؟”کنول نے تپ کرتیزی کے ساتھ پھینٹا اور جل کر کہا۔کنول نے تپ کرتیزی کے ساتھ پھینٹا اور جل کر کہا۔
ریحان اس کے سامنے کھڑا ہوگیا،اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر اوپر کیا۔”جو میں پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دو۔”
”بریک اپ ہوگیا ہے ہمارا،بلکہ میں نے خود ہی اس سے ہر رشتہ ختم کر لیا یار۔اسے میں اپنی زندگی میں افورڈ نہیں کر سکتی،اور پوچھو کیا پوچھو گے؟”کنول نے کانٹا زور سے میز پر پٹخا اور غصے میں جواب دیا۔
”کیسا بریک اپ؟کیا وہ تمہارا منگیتر تھایابوائے فرینڈ؟”ریحان نے طنز کرتے ہوئے پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں۔”کنول نے ٹھنڈی سانس بھر کر جواب دیا۔
”بے نام رشتوں میں کبھی بریک اپ نہیں ہوتے،تمہی نے کہا تھا نا کہ یہ ایک بے نام رشتہ ہے۔”ریحان ہولے سے مسکرایا۔
کنول نے غصے سے اس کی طرف دیکھا جیسے اسے یہ بات بری لگی ہو،اس نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
”اچھا بکواس نہ کرو،تم بحث بہت کرتے ہو۔یہ بتاؤتمہاری خالہ زاد بہن کب آرہی ہے؟” کنول نے آملیٹ فرائی پان سے اتارتے ہوئے پوچھا۔
”پچیس کو،کیوں؟”ریحان نے حیرانی سے سوال کیا۔
”کچھ نہیں یوں ہی۔”کنول نے کندھے اچکائے۔
”مجھے آج تم ٹھیک نہیں لگ رہیں۔”ریحان نے سلائس سے آملیٹ کھاتے ہوئے اسے غور سے دیکھا۔
”مجھے کچھ نہیں ہوا،ناشتہ کر و تم۔”کنول نے کہا۔
”نہ بتاؤ تمہاری مرضی،لیکن آملیٹ بہت مزے کا ہے۔”ریحان نے بے پروائی سے کہا۔ کنول نے کوئی جواب نہ دیا،کیا وہ کچھ سوچ رہی تھی؟یہ صرف اسے پتا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۸

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!