توبہ ہے یار ۔۔۔ ابھی تک تم سے ایک فیصلہ نہی ہو پا رہا ۔۔۔؟ اس میں اتنا سوچنے کی کیا بات ہے ۔۔۔ موبائل سکرین پہ تراشیدہ لمبے ناخنوں والی انگلیاں چلاتے ہوئے نازش نے جھلائی أواز میں اپنی کولیگ نما دوست ماریہ سے کہا تھا جس کے چہرے سے ہی پریشانی اور اداسی ٹپک رہی تھی ۔۔۔
کافی دنوں سے ماریہ کشمکش کا شکار تھی ۔۔۔ اسے سمجھ نہی أ رہی تھی کہ کیا کرے ۔۔۔ زندگی کا سب سے اہم فیصلہ جس پہ اسکی أنے والی زندگی کی تمام خوشیاں ٹکی ہوئی تھیں وہ یونہی جلد بازی اور فیملی پریشر میں أ کر تو نہی لے سکتی تھی نا ۔۔۔ اس کے لیے نازش کولیگ بعد میں اور دوست پہلے تھی۔۔۔ اسی لیے اسنے اسے اپنا ہمدرد سمجھ کر دل اسکے سامنے کھولا تھا مگر نازش کے جملوں نے اسے مزید کشمکش میں ڈال دیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔
ابھی چند سال پہلے ماریہ نے یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا تھا اور اب ایک نامور تعلیمی ادارے میں اچھی جاب کر رہی تھی ۔۔۔ کچھ دنوں سے اس کے لیے گھر میں رشتے کی بات چل رہی تھی ۔۔۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ایک بھنور میں پھنسی ہوئی ہے کیونکہ وہ دل و دماغ سے اس رشتے کے حق میں نا تھی ۔۔۔ اسکے لیے أنے والا رشتہ ایک بی اے پاس لڑکے کا تھا جو کسی پرائیویٹ کمپنی میں کچھ ہزار کی ماہانہ تنخواہ پہ کام کر رہا تھا۔۔۔
کیا ہوا جو لڑکے کا گھر ذاتی نہی بلکہ کرائے کا تھا اور لڑکا بھی معمولی شکل و صورت کا مالک تھا ۔۔۔ ویسے بھی بقول اسکے بھائی، بھابھی اور ماں کے لڑکے کی شکل و صورت نہی دیکھی جاتی اور جہاں تک رہا سوال کم أمدنی کا تو بقول بھابی رزق اور دولت تو عورت کے نصیب سے شوہر کو ملتا ہے ۔۔۔ سو تمام معاملات بڑی سہولت سے ماریہ کے نصیب پہ تھوپ دیئے گئے تھے ۔۔۔ جو بھی تھا کم از کم بیٹی کا فرض تو ادا ہوتا ورنہ اچھے رشتوں کے انتظار میں بیٹھی رہتی تو عمر نکل جاتی ۔۔۔
یار سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھیں جاب کرنے والی لڑکی چاہیے ۔۔۔ صاف ظاہر ہے نا کہ انکا مطلب ہے کیونکہ انکا بیٹا خود اچھا نہی کماتا ۔۔۔ جاب کرنے کا فیصلہ میرا ذاتی ہونا چاہیے نا کہ سسرال کی ڈیمانڈ کی مجبوری کی شکل میں ۔۔۔ ماریہ نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا ۔۔۔ یار ماریہ تم بھی نا ۔۔۔ اتنا نیگیٹیو کیوں سوچ رہی ہو ۔۔۔؟ اچھا ہے اپنا کماؤ گی تو انڈیپینڈنٹ رہو گی بلکہ سسرال پہ اپر ہینڈ بھی ہو گا ۔۔۔ اور تم خوبصورت ہو زیادہ پڑھی لکھی بھی ہو تو تمھارا رعب رہے گا سسرال اور شوہر پر ۔۔۔ نازش کا انداز اب بھی پہلے والا ہی تھا ۔۔۔
نازش کی باتوں سے اسکا بہت دل دکھا تھا ۔۔۔ مگر میرے بھی اپنی زندگی اور لائف پارٹنر کو لے کر کچھ خواب ہیں ، میری بھی اپنی کوئی سوچ ہے ۔۔۔ میری شادی میری مرضی کے خلاف نہی ہو سکتی ۔۔۔ یہ تو خلاف شریعت بھی ہے ۔۔۔ ماریہ نے دبا دبا احتجاج کیا تھا ۔۔۔ تمھیں اور کیا چاہیے ۔۔۔؟ کسی شہزادے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو ۔۔۔ اصل زندگی کی حقیقت اور خوابوں کا کوئی میل نہی ۔۔۔ شادی شدہ زندگی سیکریفائز اور کمپرومائز کا نام ہے ۔۔ گھر أیا رشتہ ٹھکرا کر ناشکری نا کرو یہ نا ہو کل کو تم اس رشتے سے بھی جاؤ ۔۔۔ نازش نے مزید
سفاکی سےتبصرہ کیا تھا ۔۔۔ وہ اس بات سے یکسر بے نیاز تھی کہ اسکی باتوں سے ماریہ کے دل پر کیا بیت رہی تھی ۔۔۔ نازش اسے تصویر کے وہ رخ دکھا رہی تھی جو اسکی بڑی بھابھی اور بھائی پہلے ہی دکھا چکے تھے ۔۔۔ گھر والوں سے مایوس ہو کر اسنے اپنی دوست کو اپنا سمجھ کر مخلصانہ مشورہ چاہا تھا مگر یہاں بھی وہ جی بھر کر مایوس ہوئی تھی ۔۔۔
ماریہ نے نم أنکھوں سے اپنی نام نہاد دوست اور ویل وشر کو دیکھا جو اب بہت سکون سے بیٹھی سینڈوچ کھا رہی تھی۔۔۔ یہ ساری باتیں وہ اپنے گھر والوں سے پہلے ہی سن چکی تھی مگر نازش کے منہ سے بہت عجیب لگ رہی تھیں۔۔۔ گہری سانس خارج کرتے ہوئے اسنے أنکھوں میں چھائی دھند کو پلکیں چھبک کر مٹایا تھا ۔۔۔ ایک سوچتی نظر ماریہ نے قبول صورت ماڈرن دکھنے والی طرح دار نازش پہ ڈالی ۔۔۔ اچھا سنو نازش اگر تمھارے لیے ایسا رشتہ أتا تو تم کیا کرتی ۔۔؟ ماریہ کی صاف ٹھنڈی أواز میں پوچھے جانے والا معصوم سوال نازش پہ بجلی بن کر گرا تھا ۔۔۔ اب تک میں پہلی بار وہ پوری کی پوری ماریہ کی طرف گھومی تھی ۔۔۔ کیا مطلب ہے تمھارا، تم نے مجھے سمجھ کیا لیا ہے ۔۔۔؟ میرے لیے ایسا گرا پڑا رشتہ أئے، تم نے سوچا بھی کیسے ۔۔۔؟ میری اور میری فیملی کی سوچ کافی اونچی ہے ۔۔۔ میرے کچھ خواب ہیں ، خوشیوں کے معیار ہیں ۔۔۔ یونہی کسی للو پنجو سے بے جوڑ شادی کر کے میں نے اپنی پوری زندگی خراب نہی کرنی ۔۔۔ نازش کا تپا انداز اور جملے ایک ایک کر کے سارے پردے ہٹاتے چلے گئے تھے ۔۔۔ خونی رشتوں کے بعد أج دوستی سے بھی ماریہ کا اعتبار أٹھ گیا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔