وہ نیند کی حالت میں ہڑ بڑا کر اُٹھا تھا اور کچھ دیر کے لیے بستر پر پڑے اُسے اندازہ نہیں ہوا کہ اس طرح جاگنے کی وجہ کیا تھا مگر پھر اُس کے ذہن نے جیسے اُس آواز کی طرف اُسے متوجہ کیا جو بہت دھیمی آواز میں آرہی تھی۔ مگر گونج رہی تھی۔ وہ اذان کی آواز تھی۔ عبدالعلی کی اذان کی۔ انہیں عادت تھی ،فجر کے وقت وہ اذان دے کر نماز پڑھا کرتے تھے اور یہ اُن کی زندگی کا معمول تھا۔ اب یہاں اُس کے اپارٹمنٹ میں بھی وہ ہمیشہ کی طرح فجر کی نماز کے لیے اذان دے رہے تھے۔ بستر میں لیٹا، نیم تاریک بیڈ روم میں آنکھیں کھولے وہ اُس اذان کے الفاظ کو سنتا رہا جن پر اُس نے کبھی غور نہیں کیا تھا۔
اُس پینٹ ہائوس میں باہر کی آوازیں نہیں آسکتی تھیں۔ آس پاس موجود مساجد کے اسپیکرز سے آنے والی اذان کی آوازیں کبھی اُس کے گھر کی شیشے کی دیواروں کو پھلانگ کر اندر نہیں آسکتی تھیں۔ اُس کا گلاس ہائوس تقریباً سائونڈ پروف تھا۔ مگر جب بھی عبدالعلی وہاں آتے وہ پینٹ ہائوس ہر روز صبح فجر کے وقت اللہ کے نام سے اسی طرح گونجتا رہتا اور قلبِ مومن ہر صبح ان کی آواز پر اسی طرح میکانکی انداز میں بیدار ہوتا۔ اسی طرح میکانکی انداز میں بستر پر لیٹے لیٹے الصلوة خیر امن النوم (نماز نیند سے بہتر ہے) تک اذان سنتا اور پھر سو جاتا۔۔۔ آج بھی یہی ہوا تھا۔ دادا الصلوة خیر من النوم کے الفاظ پکار رہے تھے اور قلبِ مومن نے کروٹ لے کر آنکھیں بند کرلی تھیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”دادا جاگ گئے؟” اگلی صبح وہ بہت جلدی اُٹھا اور اُٹھتے ہی وہ سیدھا شکور کے پاس کچن میں گیا۔
”سلام مومن بھائی۔ جی کہہ رہے تھے جب آپ جاگ جائیں تو انہیں بتا دیں پھر وہ ناشتہ آپ ہی کے ساتھ کریں گے۔” شکور نے جواباً اُسے اطلاع دی۔
”اچھا۔۔۔ کچھ پوچھ تو نہیں رہے تھے؟” قلبِ مومن کچن سے نکلتے نکلتے کوئی خیال آنے پر واپس پلٹا تھا۔ ”رات کو۔”
”کس چیز کے بارے میں؟” شکور نے جواباً آملیٹ کے لیے انڈے توڑتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔
”میرے بارے میں کہ کون آتا جاتا ہے؟ یا رات کی پارٹی کے بارے میں۔۔۔ کہ کیا ہورہا تھا۔” شکور کے تاثرات سے قلبِ مومن کو اندازہ ہوا کہ اُس کے سوالات کتنے بے ربط اور احمقانہ لگ رہے تھے۔
”نہیں تو دادا جان کیوں پوچھیں گے؟ جو بھی آتا جاتا ہے دیکھ تو لیا انہوں نے اور جو ہو رہا تھا وہ بھی۔” شکور نے طنز نہیں کیا تھا۔ سیدھا جواب دیا تھا۔ جیسے جواب وہ دیتا تھا مگر قلبِ مومن کو لمحہ بھر کے لیے لاجواب بھی کیا اور خفا بھی۔
”زبان ذرا کم چلانا، جب تک وہ یہاں ہیں۔” اُس نے شکور کو تھوڑے سخت لہجے میں گھر ا تھا۔
”جی۔” شکور نے زیادہ اثر لیے بغیر کہا۔
”انسان مومن بھائی کی مانے تو گونگا ہی ہو جائے۔” اُس نے ساتھ ہی انڈے پھینٹتے ہوئے سوچا۔
”کب تک رہیں گے وہ یہاں؟” قلبِ مومن سوال کرنے کے بعد بے ساختہ پچھتایا تھا۔ شکور نے انڈے پھینٹتے پھینٹتے ہوئے کہا۔
”پتا نہیں جی۔۔۔ پوچھ آئوں؟” وہ قلبِ مومن کا ہر مسئلہ حل کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ مستعد رہتا تھا۔
”میں پوچھ لوں گا اُن سے۔ تم ناشتا بنائو۔” وہ اپنی غلطی پر جیسے پچھتاتا ہوا وہاں سے نکلا، جانتا تھا یہ ممکن نہیں کہ شکور اس سوال کا جواب دادا سے اس حوالے کے ساتھ نہ مانگتاکہ مومن بھائی پوچھ رہے تھے۔
٭…٭…٭
”اندر آجائوں؟” دروازے پر دتک دے کر وہ انہیں سلام کرتا ہوا اندر داخل ہوا۔ عبدالعلی ایک فریم کو میز پر رکھے اُس کی پیکنگ اُتار رہے تھے۔ چونک کر اُس کی طرف متوجہ ہوئے اور بے اختیار مسکرائے۔
”وعلیکم السلام۔ ابھی تمہارا ہی سوچ رہا تھا میں۔۔۔” مومن مسکرایا اور اُن کے بالمقابل اُس میز کے دوسری طرف جا کر کھڑا ہوگیا۔
”نیند ٹھیک سے آئی آپ کو؟” اُس نے دادا سے کہتے ہوئے ان کا چہرہ بغور دیکھا۔ اُن کے چہرے پر ہر بار کی طرح اس بار بھی کچھ جھریوں کا اضافہ ہوا تھا۔
”ہاں، بالکل ٹھیک سے آئی۔۔۔ فجر کے وقت آنکھ بھی کھل گئی تھی۔” انہوں نے جیسے خوش ہوتے ہوئے مومن کو بتایا اور مومن نے یہ نہیں کہا کہ یہ بات وہ پہلے ہی جانتا ہے۔
”یہ دیکھو۔” انہوں نے فریم کی پیکنگ اب کھول دی تھی اور اُسے میز پر رکھے انہوں نے مومن کی توجہ اُس خوب صورت خطاطی کی طرف مبذول کروائی۔ قلبِ مومن بے اختیار مسکرایا۔
”میری سالگرہ کا تحفہ؟” دادا نے اس کی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیا تھا۔
وہ پچھلے سات سالوں سے ہر سال اُس کی سالگرہ پر اُسے اپنی بنائی ہوئی ایک خطّاطی کا تحفہ دیا کرتے تھے۔۔۔ پچھلے سات سالوں سے یہ ایک روٹین تھی اور اب قلبِ مومن کو اُن کے تحفے کی نوعیت کا اس حد تک اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ بتائے بغیر بوجھ جاتا تھا۔ اُس کی سالگرہ میں ابھی کچھ دن باقی تھے اور ورہ اسی لیی آئے تھے۔
”ہاں۔” وہ مسکراتے ہوئے اب اُس محقق انداز میں بنائی ہوئی خطاطی میں لکھی ہوئی آیات پر انگلی پھیر رہے تھے۔
وَاَنّ اللّٰہ مَعَ المومِنِین۔(سورة الانفال، آیت نمبر 19)
انہوں نے انگلی پھیرتے ہوئے آیت پڑھی۔
”بہت خوب صورت ہے۔” مومن نے فریم کو بغیر اٹھائے یا ہاتھ لگائے ہوئے کہا۔
”مطلب نہیں پوچھو گے؟” دادا نے اُس سے پوچھا۔
”پوچھنے کا فائدہ؟” آپ نے ہر بار جتنی آیات کا مطلب بتایا ہے، میں ہر بار بھول جاتا ہوں۔” قلبِ مومن نے جواباً کہا۔ وہ جیسے دانستہ چاہتا تھا کہ وہ اُسے نہ بتائیں۔
”تم یاد رکھا کرو۔” دادا نے کہا۔
”یاد رہتا ہی نہیں۔” قلبِ مومن نے بے ساختہ عذر پیش کیا۔
”اللہ مومنین کے ساتھ ہے۔”
انہوں نے اس بار اس سے بحث کیے بغیر کہا تھا۔ قلبِ مومن چند لمحے خاموش ہوکر اُس فریم کو دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”اور میں مومن نہیں۔ آئیں ناشتہ کرتے ہیں۔”
وہ کہہ کر وہاں سے اُٹھ گیا اور عبدالعلی اُس کی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں پر جیسے اُلجھے اُسے جاتا دیکھتے رہے۔
٭…٭…٭
”یار! تم کیوں آئی ہو؟” دائود اُسے اپنے آفس میں دیکھ کر کراہ کر رہ گیا۔
”تم جانتے ہو۔” مومنہ نے اپنا بیگ کندھے سے اتار کر زمین پر کرسی کے پاس رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
”ہاں اور میں تمہیں اُس کا جواب پہلے ہی بتا چکا ہوں۔” دائود بے چارگی سے بولا۔ اُسے مومنہ سے ایسی حماقت کی توقع نہیں تھی۔
”دائود! تم نے اُس سے بات نہیں کی۔ میں جانتی ہوں۔” مومنہ نے دوٹوک انداز میں اُس سے کہا تھا۔
”ہاں۔۔۔ اور تم قلبِ مومن کو جانتی تھیں۔ اس لیے یہ بات کہہ رہی ہو۔” دائود نے اُسے ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا۔
”میں ایک بار ملنا چاہتی ہوں اُس سے۔۔۔ ایک بار۔” مومنہ نے اُس کی بات کاٹی تھی اور اس سے پہلے کہ دائود اُس سے کچھ کہتا، قلب مومن کچھ کاغذ ہاتھ میں لیے دروازہ کھول کر اندر آیا تھا۔
”دائود! یہ پیپرز ایک بار دیکھ لو پھرdespatchکرنا ہے اُنہیں اور۔۔۔”
وہ روانی میں اُن پیپرز کو تھمانے کے لیے آگے آیا اور اُس وقت پہلی بار مومنہ اپنی کرسی سے اُٹھ کر کھڑی ہوکر پلٹی تھی۔ وہ اور قلبِ مومن بالمقابل تھے۔ قلبِ مومن نے ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت لیا تھا اُسے پہچاننے میں۔ اس نے وہ ہاتھ پیچھے کرلیا تھا جس سے وہ کاغذات دائود کی طرف بڑھا رہا تھا پھر اُس نے ایک نظر دائود کو دیکھا تھا۔ جس کا رنگ اس وقت فق ہوچکا تھا۔ وہ جس بلا کو ٹالنے کی کوشش کررہا تھا، وہ نہیں ٹلی تھی۔
”تم کس لیے آئی ہو یہاں؟” تمام ادب، لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے قلبِ مومن نے بے حد تیز آواز میں ڈائریکٹ مومنہ سے کہہ دیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});