الف — قسط نمبر ۰۳

اپنے بستر پر بیٹھ کر اُسے وہ کھانا یاد آیا جسے بنانے کے لیے اس کی ماں کل سے تیاریاں کررہی تھی۔۔۔ وہ خوب صورت کیک جسے اُس نے پوری فیملی کے ساتھ کاٹنے کے لیے بنایا تھا۔
ہچکیوں سے روتے ہوئے اُس نے سوچا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو اُس کے بابا کو بھیجنا چاہیے تھا۔ دادا کو کیوں بھیجا اُنہوں نے۔ دادا کو تو نہیں بلوایا تھا اُس نے۔ وہ خفگی سے روتے ہوئے ساتھ ساتھ سوچ رہا تھا۔
”مومن۔۔۔” دروازہ یک دم کھلا اور اُس کی ماں اُس سے کچھ کہتے کہتے رُک گئی پھر بے قراری کے عالم میں اُس کے پاس آئی۔
”تم کیوں رو رہے ہو؟” اُس نے مومن کے پاس بیٹھ کر اُسے لپٹایا۔
”بابا کیوں نہیںآئے۔۔؟؟ اُنہیں آنا چاہیے تھا۔۔” وہ روتے ہوئے ماں سے لپٹا تھا۔
”وہ آجائیں گے۔۔۔” اس نے ماں کی تسلی پر بے ساختہ سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔ وہ اب رو نہیں رہی تھی۔ سرخ ناک، سرخ آنکھوں کے ساتھ بھی وہ مسکرانے کی کوشش کررہی تھی۔
”انہوں نے آپ کو بتایا ہے کیا؟” مومن ایک لمحے کے لیے رونا بھولا تھا۔
”ہاں، تم آجائو۔۔۔ کھانا کھائو۔۔۔ تمہارے دادا تمہارا انتظار کررہے ہیں۔” اُس نے ماں کو نظریں ملائے بغیر کہتے سُنا تھا۔ وہ اُٹھ کر کھڑی ہوئی تھی۔
”میں دادا سے کیوں ملوں؟ مجھے اُن کے ساتھ کھانا نہیں کھانا۔۔۔” اُسے اس وقت دادا کے علاوہ کوئی اور بُرا نہیں لگ رہا تھا۔ حسنِ جہاں ٹھٹھکی پھر اُس نے اُس سے کہا۔
”دادا کو تو اللہ نے بھیجا ہے۔۔۔ تم پھر بھی خفا رہو گے اُن سے؟” وہ لمحے میں موم ہوا تھا۔
اُس کی ماں بلیک میلر تھی۔ جو کام وہ کسی کے کہنے پر نہیں کرتا تھا، اُس سے اللہ کا نام لے کر کروا لیتی تھی۔
”میں بس کھانا کھائوں گا، بات نہیں کروں گا۔” اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے اُس نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
”اور جب تمہارے بابا آئیں گے اور اُنہیں پتا چلے گا کہ تم نے دادا سے بات نہیں کی تو وہ تم سے خفا ہوں گے۔۔۔ تم اُن کو خفا کرنا چاہتے ہو؟” اس کی ماں نے اب دوسرا ہتھیار استعمال کیا۔ مومن چِت ہوا تھا۔
”بابا کب آئیں گے؟” اس نے بے قراری سے ماں سے پوچھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”جلد ہی۔” اس نے ماں کی پشت دیکھی۔ وہ اب بیرونی دروازے کی طرف جارہی تھی مگر جانے سے پہلے مومن نے اُسے وہ سارا زیور اُتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے دیکھا جو وہ اُس کے باپ کے لیے پہنے ہوئے تھی۔۔۔ سب کچھ۔۔۔ ہار، جھمکے، انگوٹھیاں، چوڑیاں، بالوں میں لگائی ہوئی پھول دار چمکتی ہوئی سنہری سوئیاں۔۔۔ مومن نم آنکھوں کے ساتھ اُس کو سب کچھ اُتارتے دیکھتا رہا۔ وہ منظر اُس کے ذہن پر جیسے نقش ہوگیا تھا۔
”ممی۔” اُس نے ماں کو جیسے تکلیف میں مخاطب کیا تھا۔ حسنِ جہاں نے گردن موڑ کر عجیب خالی نظروں سے اُسے دیکھا۔
”آپ مجھے ایسے بھی اچھی لگتی ہیں۔”
”حسنِ جہاں کی آنکھیں پانی سے اور ہونٹ مسکراہٹ سے لرزے تھے۔
وہ مرہم رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اُس کے رِستے ہوئے زخم پر۔ قلبِ مومن نے ماں کو سر جھکاتے ہوئے دیکھا۔ اُسے تب بھی یہ اندازہ تھا کہ وہ آنسو چھپانا چاہتی ہے۔ وہ ہمیشہ روتے ہوئے اسی طرح سر جھکا کر اُس سے آنسو چھپایا کرتی تھی۔
”ہم کل تمہارے بابا کو ڈھونڈنے جارہے ہیں۔ تم دعا کرنا وہ مل جائیں۔” اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں جیسے قلب مومن کے سامنے دل کھول دیا تھا۔ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر قلبِ مومن نے دونوں ہاتھ دعا کی شکل میں جوڑ کر آنکھیں بند کرلیں۔
”مل جائیں۔۔۔ مل جائیں۔۔۔ ممی کو بابا جلدی مل جائیں۔” اُس کے ہونٹوں کی حرکت کو کوئی بھی پڑھ لیتا۔ حسنِ جہاں کو عجیب احساسِ جرم ہوا۔ وہ کس عمر میں اُس سے کیا کروا رہی تھی۔۔۔ بے چارگی سی بے چارگی تھی۔۔۔ بے بسی سی بے بسی۔
”مل جائیں گے۔۔۔” مومن نے اب آنکھیں کھول کر مسکراتے ہوئے ماں کو اطلاع دی۔ حسنِ جہاں بھی مسکرائی اور اُس کے لیے بانہیں پھیلائیں۔ وہ آکر لپٹ گیا۔ قلبِ مومن کی ہر دعا قبول ہوتی تھی۔ ہر بات پوری ہوتی تھی۔ حسنِ جہاں کو یقین نہیں اعتماد تھا۔
اُس سے لپٹے قلبِ مومن کو یاد آیا اُس نے ماں کو وہ خواب نہیں سنایا تھا جو اُس نے پچھلی رات دیکھا تھا۔
٭…٭…٭
اگلے کئی دن قلبِ مومن، عبدالعلی اور حسنِ جہاں کے ساتھ جگہ جگہ پھرتا رہا۔ ایک شہر سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے۔ اُس کے باپ کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ملا تھا۔ یوں جیسے وہ کہیں غائب ہوگیا ہو۔ حسنِ جہاں کی انگلی پکڑے مومن زندگی کے ایک نئے چہرے سے روشناس ہورہا تھا۔ اُمید سے، نا اُمیدی سے، آس سے، آس کے ٹوٹنے سے اور کُفر سے جو انہیں سرحدوں کے بیچوں بیچ کہیں اُڑتا پھرتا ہے۔
٭…٭…٭
جنگل میں وہ لیٹرباکس ویسے کا ویسا ہی پڑا تھا۔۔۔ تنہا۔۔۔ مومن کی طرح۔۔۔ اُداس۔۔۔ وہ بھی مومن کی طرح۔۔۔ اُس نے سائیکل زمین پر لٹا دی۔۔۔ وہ ایک بار پھر خط لے کر ایا تھا۔
لیٹر باکس میں خط ڈالنے کے بعد بھی وہ عجیب اُداسی کے عالم میں لیٹر باکس کے سامنے کھڑا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہ اس خط کو وہاں ڈال دینے کے بعد کیا کرے۔ اُس دن پہلی بار اُس نے سوچا تھا۔ آخر اللہ تعالیٰ کو خط کتنے دن بعد میں ملتا ہے۔۔۔ اور وہ کتنی دیر میں پڑھتے ہیں اور پھر جواب کے لیے اُنہیں کتنا وقت چاہیے۔
وہاں کھڑا وہ اپنے حساب کتاب کی ساری صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے جمع تفریق کرتا رہا۔ حل کچھ نہیں نکلا تھا۔ اللہ کی مرضی جب چاہے خط لے، جب چاہے پڑھے، جواب دے نہ دے، اُسے کسی نہ جیسے وسوسے کی شکل میں بتایا تھا۔ قلبِ مومن وہاں کھڑا جنگل کو دیکھتا رہا۔ اُسے اب وہاں سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ وہ وہاں اتنی بار آچکا تھا کہ ہر درخت کو پہچان سکتا تھا۔ پتوں کی سرسراہٹ کو بھی، پرندوں کی چہچہاہٹ کو بھی۔
”باقی سارے خطوں کا جواب دیر سے دے دیں۔ اُن سب خطوں کے جو میں آئندہ کبھی آپ کو لکھوں گا لیکن اس خط کا جواب جلدی دے دیں۔۔۔ پلیز۔۔۔ پلیز اللہ۔”
اُس نے بلند آواز میں یک دم پکارا تھا اُس کی آواز بازگشت کی طرح اُن بلند درختوں کے درمیان گونجتی۔ بہت دور تک گئی تھی۔ قلبِ مومن کو یک دم لگا۔ اُس کی دُعا پھر قبول ہوئی تھی۔ وہ بے حد مطمئن سائیکل اُٹھا کر بھاگتا جنگل سے باہر آکر اُس پر سوار ہوا تھا۔
٭…٭…٭
اپنے گھر کے باہر اُس نے ایک مجمع دیکھا تھا اور ایک ایمبولینس۔ وہ ابھی گھر سے بہت دور تھا مگر پھر بھی اُسے لگا۔ وہ اُسی کا گھر ہے جہاں وہ سب لوگ کھڑے تھے، خاموش۔۔۔ وہ سمجھ نہیں سکا۔ کیا بابا آئے تھے۔ اُس نے سائیکل تیز تیز چلانی شروع کردی تھی۔ خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے۔۔۔ اُس کے خط کا جواب آگیا تھا اور اتنا جلد۔۔۔ اتنا ”I love you ALLAH” اُس نے سائیکل دوڑاتے ہوئے بلند آواز میں کہا اور پھر اُس نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ ہوتے دیکھا۔۔۔ بیک وقت۔۔۔ اور اُس خاموشی کو محسوس کیا جو اُس کے گھر پر چھائی ہوئی تھی اور اُس اسٹریچر کو دیکھا جو کسی کو گھر سے باہر لا رہا تھا اور مومن کی سائیکل پھسلی تھی۔
٭…٭…٭
آخری چیز جس کی قلبِ مومن نے کبھی توقع کی تھی وہ اپنے دادا کے سامنے اس مجمع کے درمیان اس حالت میں دیکھا جانا تھا۔ مگر اُس کی زندگی میں اکثر وہ ہوتا تھا جس کی اُسے توقع بھی نہیں ہوتی تھی۔
اپنے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو بے حد آہستگی سے پاس آتے ہوئے ویٹر کی ٹرے میں رکھتے ہوئے قلبِ مومن اُس ساکت وصامت حیرت زدہ بوڑھے کی طرف گیا تھا جو وہاں یوں کھڑا تھا جیسے کوئی بچہ راستہ بھول کر کسی جنگل میں آنکلا ہو۔
”آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں اپنے آنے کا۔”اُن سے لپٹتے ہوئے قلبِ مومن نے بلند آواز میں اُن کے کان میں کہا۔ وہاں میوزک کا شور اتنا تھا کہ اُسے اونچی آواز میں بولنا پڑ رہا تھا۔
”میں نے تمہیں خط لکھا تھا۔۔۔شاید تمہیں ملا ہی نہیں۔” اُس کے برعکس اُس کے دادا نے سرگوشی ہی کی تھی اور قلبِ مومن نے اُن کی سرگوشی بھی سن لی تھی۔ اُن سے الگ ہوتے ہوئے اُن سے نظریں ملائے بغیر اُس نے شکور کے ہاتھ میں پکڑا اُن کا سامان دیکھا اور پھر اُس سے کہا۔
”دادا کو گیسٹ روم میں لے جائو میں آتا ہوں۔”
شکور کو بروقت اُس کی مشکل اور صورت حال کی نزاکت کا احساس ہوا۔ ”جی جی۔۔۔ میں لے کر جاتا ہوں۔۔۔ آئیں دادا جی۔”
شکور اُنہیں لے کر ایک دوسرے کوریڈور کی طرف گیا تھا اور قلبِ مومن نے عبدالعلی کو کسی اعتراض اور تامل کے بغیر شکور کے پیچھے جاتے دیکھا۔ یوں جیسے وہ بھی یہ چاہتے ہوں کہ مومن کو اس مشکل سے نکالنے کے لیے اُس کی مدد کریں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۲

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!