استنبول سے انقرہ تک  (سفرنامہ) | بُرصا کے رنگ | باب 3

تحریر:مدیحہ شاہد

استنبول سے انقرہ تک  (سفرنامہ)

بُرصا کے رنگ
باب3
صبح سویرے ہم نے ناشتہ کرکے سامان بس میں رکھوایا اور برصا کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں ہم ایک لیدر فیکٹری وزٹ کے لئے رکے جہاں لیدر سے بنی اشیاء بنائی جاتی تھیں۔ اس فیکٹری کا نام Levinson fur and leatherتھا۔ ہم فیکٹری کے اندر آئے تو وہاں پورا stitching unit تھا، بہت ساری مشینیں رکھی ہوئی تھیں اور لوگ کام میں مصروف تھے۔
ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپری منزل پر آئے تو وہاں لیدر سے بنی اشیاء کوٹ، جیکٹ، پرس وغیرہ رکھے تھے اور بے حد مہنگے تھے جن کی قیمت ڈالرز میں تھی۔ کرن تحسین نے ایک جیکٹ خریدی ہم مختلف چیزیں دیکھتے رہے۔
ترکی صنعتی لحاظ سے بھی خود کفیل ملک ہے۔ ملک کی معیشت کے لئے صنعتی ترقی بہت ضروری ہے۔ ترکی میں بے شمار صنعتیں ہیں۔ کچھ دیر بعد ہم باہر آئے اور تھوڑی دیر سڑک کے کنارے بیٹھے رہے۔
موسم خوشگوار تھا اور ہلکی دھوپ تھی سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی۔ میں اور یسریٰ سڑک کے کنارے بیٹھے کافی دیر آپس میں باتیں کرتے رہے۔ سڑک کے پار عمارتیں بھی نظر آرہی تھیں۔
ہم سے ذرا فاصلے پر فرح توقیر ، نورین مان، نیہا، صباحت اور نگہت موجود تھیں۔
کچھ لوگوں نے لیدر فیکٹری سے باہر آنے میں بہت دیر کردی۔ ہم لوگوں نے چونکہ فیکٹری اور وہاں موجود اشیاء دیکھ لی تھیں اس لئے جلد وہاں سے باہر آگئے تھے۔
لیدر کی مصنوعات بے حد مہنگی ہوتی ہیں۔ ہمارا تو اتنا بجٹ نہیں تھا۔ لیدر کی اتنی مہنگی کوئی چیز خریدتے اور پھر ہمیں لیدر کی چیزوں میں اتنی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اس لئے ہم فیکٹری وزٹ کرنے کے بعد جلد ہی باہر آگئے تھے۔
بس ذرا فاصلے پر کھڑی تھی۔
گروپ کے لوگ پیدل چلتے ہوئے بس تک آئے پھر وہاں سے ہم روانہ ہوئے اور بس میں بیٹھ کر ساحل پر آئے جہاں سے ہم بحری جہاز یعنی فیری (ferry) میں سوار ہوئے۔
اس بحری جہاز کے نچلے حصے میں گاڑیاں اور بس وغیرہ بھی پارک کی گئی تھیں۔ ہم فیری کے اوپر والے حصے میں آگئے۔
فیری نیلے پانی کے سمندر میں لکیریں بناتے ہوئے تیرتی جارہی تھی۔ یہ بے حد خوشگوار تجربہ تھا۔ مجھے یاد آیا بچپن میں جب ابا کی پوسٹنگ کراچی ہوئی تھی تو ہم نے پورٹ قاسم میں بحری جہاز دیکھے تھے۔ یہاں مختلف بحری جہاز تھے۔ جنہیں فیری (ferry) کہا جاتا ہے اور یہ مرمرا کے سمندر میں چلتے ہیں۔
ہم جہاز کے جنگلے کے پاس کھڑے ہوئے دھوپ کی سنہری کرنوں میں چمکتے نیلے سمندر کو دیکھتے رہے۔ کیسا خوبصورت اور دلکش منظر تھا۔ آسمان کی نیلاہٹیں خوبصورت تھیں۔ سفید سمندری پرندے فضا میں اڑتے ہوئے اِدھر سے اُدھر جارہے تھے۔ ہم کتنی ہی دیر ان خوبصورت نظاروں سے نظریں نہیں ہٹا پائے۔
خوبصورتی کو دیکھنا بھی ایک نعمت ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں اور غور و فکر کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا یہ اللہ رب العزت نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے۔ بے شک تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لئے ہی ہیں۔
استنبول سے برصا سمندر کے راستے بھی جایا جاسکتا ہے اور بذریعہ سڑک بھی لوگ جاسکتے ہیں۔
برصا ترکی کا ایک اہم شہر ہے۔ جو ٹیکسٹائل سے وابستہ ہے۔ یہ سرسبز شہر ہے اور یہاں بے حد خوبصورت عمارتیں اور مساجد موجود ہیں۔
برصا شہر صوبہ ٔ برصا کا دارالخلافہ ہے۔
یہاں حضرت خضر سے منسوب مسجد اور ترکوں کا قدیم قلعہ بھی ہے۔
اور چنار کا چھ سو سال پرانا درخت بھی ہے ، کہاجاتا ہے کہ اسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر خلافت ِ عثمانیہ کی داغ بیل رکھی گئی تھی۔ عثمان (اوّل) نے 1326 ء میں برصا شہر کو فتح کرلیا تھا۔
سب لوگ فیری کے سفر کو انجوائے کررہے تھے۔
دھوپ کے باوجود وہاں تیز ہوا تھی۔ لوگوں نے کوٹ ، جیکٹ اور سوئیٹر پہنے ہوئے تھے۔
ایک کونے میں یاسمین اور رفعت فیری کے جنگلے کے پاس کھڑی ٹائٹینک والا پوز بنائے کھڑے تھیں۔
رضوانہ اپنی سیلفی اسٹک کے ساتھ مصروف نظر آئیں۔
لوگ تصاویر اور ویڈیوز بنارہے تھے۔
نیلے پانی کا سمندر اتنا خوبصورت تھا کہ لوگ دیکھتے تو دیکھتے ہی رہ جاتے۔ ہم نے اوپر سے جھانکا تو فیری کی نچلی منزل پر گاڑیاں پارک ہوئی نظر آئیں۔ دور دور تک نیلا سمندر نظر آرہا تھا۔ نیلا سمندر ، لہریں، سمندر پرندے، نیلا آسمان، بادل ، قدرت کے نظارے بے حد دلکش تھے۔
میں فیری کے کوریڈور میں واک کرتی رہی اور خوبصورت نظارے دیکھتی رہی پھر میں فیری کے اندر آگئی۔ وہاں لوگوں کے بیٹھنے کے لئے بنچ موجود تھے۔ کونے میں کافی شاپ بھی تھی جہاں سے لوگ کھانے پینے کی چیزیں اور کافی لے رہے تھے۔ فیری میں بہت لوگ سوار تھے۔ نیلا سمندر، خوبصورت نظارے اور ٹرکش کافی، میں بھی وہیں چلی آئی کہ چلو ہم بھی کافی پیتے ہیں۔
کافی شاپ پر رش تھا۔ میں رش کم ہونے کا انتظار کرتی رہی۔ کچھ دیر بعد جب رش کم ہوا تو میں کائونٹر کے پاس چلی آئی جہاں کافی بنانے والا کھڑا تھا۔
”ایک کپ کافی۔”
میں نے اسے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ شخص کافی بنانے لگا۔

وہاں چینی چوکور ڈلیوں کی شکل میں ایک پیالے میں پڑی تھی۔
”تھوڑا دودھ اور ڈال دیں۔ ہم پاکستانی ہیں دودھ والی چائے اور کافی پیتے ہیں۔”
میں نے اسے انگلش میں بتایا۔
تین چار چینی کی چوکور ڈلیاں ڈالنے کے باوجود کافی کڑوی تھی۔
ہر علاقے اور ہر ملک کے لوگوں کی اپنی پسند و ناپسند ہوتی ہے۔ خیر اپنی تسلی کرکے، کافی میں میٹھا چیک کرکے میں پلٹی تو مجھے وہاں اپنے گروپ کا کوئی بندہ نظر نہ آیا میں پریشان ہوگئی۔
”گروپ کے سب لوگ کہاں چلے گئے!”
میں نے فیری کے ہال میں اِدھر اُدھر دیکھا، پھر باہر آئی تو کوریڈور سنسان سا محسوس ہوا میرے تو اوسان خطا ہوگئے۔
فیری ، سمندر ، پردیس… میں ہاتھ میں کافی لئے وہیں کھڑی رہ گئی ۔ سمجھ نہ آئی کہ اب کیا کروں ۔ ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ پورے بحری جہاز میں اپنے گروپ کا کوئی بندہ نا ملتا۔ کافی کی مصروفیت میں ایسی محو ہوگئی تھی کہ پتا ہی نہ چلا گروپ کے لوگ کہاں چلے گئے۔ پھر بھی میں نے تلاش جاری رکھی۔ میں دوبارہ باہر آئی اِدھر اُدھر دیکھا کہ اچانک سامنے سے عائشہ آتی نظر آئی۔ اُسے دیکھ کر دل کو اطمینان ہوا۔
”میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی ہوں۔ سب لوگ بس میں بیٹھ چکے ہیں، آپ کہاں گھوم رہی ہیں… چلیں جلدی کریں میرے ساتھ آئیں۔”
اس نے فکر مندی سے کہا۔
میں لپک کر اس کے پاس آئی۔
”ہاں وہ دراصل میں کافی لینے چلی گئی تھی، پتا ہی نہ چلا سب اچانک کہاں چلے گئے۔” میں اپنی اس لاپرواہی پر کچھ شرمندہ سی ہوگئی۔
”سفر کرتے ہوئے لوگوں کو بہت الرٹ اور چوکس رہنا پڑتا ہے۔اِدھر اُدھر نظر رکھنی پڑتی ہے برصا آگیا ہے، سب لوگ جاکر بس میں بھی بیٹھ گئے اور آپ کو خبر ہی نہ ہوئی ایسی کون سی اسپیشل کافی ہے۔” عائشہ نے کہا۔ ہم تیزی سے چلتے ہوئے بس کے پاس آئے اور بس میں سوار ہوئے تو سب لوگ ہمارا انتظار کررہے تھے۔
”ایک خاتون گم ہوگئی تھیں شکر ہے کہ مل گئی ہیں۔”
کسی نے کہا۔
میں فوراً اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ اس سفر میں میں بھی کسی جگہ گم ہوسکتی ہوں۔
”دیکھیں آپ لوگ محتاط رہیں، گروپ کے ساتھ رہا کریں۔ کوئی شخص گم ہوجاتا ہے تو ہمیں بے حد پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پردیس ہے… یہاں ان باتوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ میں باربار آپ لوگوں کو بتارہی ہوں۔ اس طرح ہمارا وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔”
یاسین نے خفا اور ناراض انداز میں دوبارہ اعلان کیا۔
میں کان لپیٹے سنتی رہی اور کافی پیتی رہی۔
میرے ساتھ بیٹھی یسریٰ نے تلوں والا رول دیا۔ جس کا نام simit ring ہے۔ یہ ترکی کا مشہور smack ہے اور جگہ جگہ عام ملتا ہے اور ذوق و شوق سے کھایا جاتا ہے۔
ہم برصا پہنچ چکے تھے۔ بس ایک جگہ رکی اور ہم لنچ کرنے کے لئے ایک ریسٹورنٹ میں آئے جس کا نام ”بنکار” تھا۔
برصا بے حد خوبصورت اور تاریخی شہر ہے۔ یہاں کی عمارت اور گھر کلاسیکل اور روایتی انداز میں بنے ہوئے ہیں۔
ترکی کے ہر شہر کا اپنا ایک مزاج ہے۔ اپنا ایک الگ کلچر ہے۔
برصا میں سبزہ ہے۔ پھول پودے، گھاس اور درختوں کی بہتات ہے۔ اس لئے اسے ”گرین برصا” (سرسبز برصا) بھی کہا جاتا ہے۔
برصا سلجھے ہوئے لوگوں کا شہر لگتا ہے ۔ یہاں صاف ستھری کشادہ سڑکیں اور باغیچوں والے کلاسیکل انداز میں بنے خوبصورت گھر نظر آتے ہیں۔ یہاں عمارات کا فن ِ تعمیر بے حد خوبصورت ہے۔
بنکار بے حد خوبصورت ریسٹورنٹ تھا۔ ہوٹل کی عمارت کے باہر ٹوکریوں میں پھول کھلے تھے۔ ہوٹل کے باہر خوبصورت سرسبز درخت تھے۔
وہاں ایک بے حد مزاحیہ سا ویٹر بھی تھا جس نے خوب شغل لگایا ۔ کھانے میں ڈونر کباب تھے۔ کسی کو بیف کے کباب ملے تو کسی کو چکن کے کباب ملے۔ گوشت کے تلے ہوئے ٹکڑوں کے ساتھ ٹماٹر اور ہر ی مرچیں تھیں، ساتھ دہی بھی تھا، کہاجارہا تھا کہ یہی کباب تھے۔
”یہ کیسے کباب ہیں، ہمارے ہاں تو ایسے کباب نہیں ہوتے!”
لوگ یہ کباب دیکھ کر حیران تھے۔
بیف کھانے والے کم تھے، چکن کی ڈیمانڈ زیادہ تھی۔ لوگوں نے اپنی فرمائشیں بھی کیں۔
”جو کچھ بھی ملے شکر کرکے کھالینا چاہیے۔”
یاسمین نے نخرے کرتے لوگوں کو دیکھ کر بارعب انداز میں نصیحت کی۔
پردیس آکر انسان صبر شکر بھی سیکھ لیتا ہے۔جب بھی پردیس جائیں ناز نخرے اپنے وطن میں چھوڑ کر آئیں اور اپنا سامان خود اٹھانے کی عادت ڈال بھی لیں۔ پردیس آکر ہم بہت کچھ سیکھ چکے تھے۔ سب لوگ کھانے میں مصروف ہوگئے۔
وہ مزاحیہ ویٹر آنکھ مار کر بات کررہا تھا۔ ہم حیران رہ گئے کہ یہ ویٹر آنکھ کیوں مار رہا ہے۔ پھر کسی نے وضاحت کی کہ یہ یہاں کے لوگوں کا انداز ہے۔ winkکرتے ہوئے بات کرتے ہیں۔ ہم نے اس انداز کو بھی سمجھ لیا اور جب بھی کوئی آنکھ مارتا اس سے نارمل انداز میں بات کرتے پردیس جاکر انسان کو وہاں کے ماحول اور کلچر کو سمجھنا پڑتا ہے۔
کھانے کے بعد ہم سِلک مارکیٹ چلے آئے جو برصا کا قدیم بازار تھا۔ بس سے اتر کر ہم سڑک پر پیدل چلتے رہے ایک جگہ سیڑھیاں نظر آئیں جن کے دونوں اطراف سرسبز لان تھے۔ ہم نے وہاں یادگار گروپ فوٹو بنوایا۔
برصا میں بھی پیدل چلنے کارواج تھا۔ گروپ کے لوگ پیدل چلتے ہوئے تھک گئے تو رفعت سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پربیٹھگئی۔
”ارے آپ فٹ پاتھ پر کیوں بیٹھ گئی ہیں؟ دیکھنے والے لوگ نہ جانے کیا سمجھ لیں گے۔”
کسی نے رفعت کو ٹوکتے ہوئے کہا۔
”کچھ بھی سمجھ لیں۔ میں تھک گئی ہوں۔ کچھ دیر یہیں بیٹھ کر سُستا لیں گے۔”
رفعت کے اطمینان میں فرق نہ آیا ۔ نیہا نے شرارت سے پرس میں سے پیسے نکالے اور رفعت کو پکڑا دیئے۔
”اپنی مرضی سے دے رہی ہو، واپس نہ مانگنا اب یہ میرے ہوگئے ہیں۔”
رفعت نے شرارت سے کہتے ہوئے مٹھی بند کردی۔
”یہ تو بس مذاق تھا۔ پیسے اب واپس کردیں۔”
نیہا نے ہنستے ہوئے کہا اور پھر پیسے واپس لے بھی لئے۔ ہاں بھئی روپے پیسے کی اہمیت کا احساس توپردیس میں ہوتا ہے۔ جہاں ایک ایک روپیہ سوچ سمجھ کر خرچ کرنا پڑتا ہے کہ جتنا بجٹ ہے اسی میں گزارہ کریں اور کسی سے ادھار مانگنے کی نوبت نہ آئے۔
ہم پھر پیدل چلتے رہے۔ گائیڈ نے بازار میں شاپنگ کے لئے دو گھنٹوں کا ٹائم دیا۔
ہم نے سوچا اب دو گھنٹے بازار میں کون گھومتا پھرتا رہے۔ استنبول سے ہم نے کافی شاپنگ کرلی تھی۔ اسی لئے میں بس کی طرف آگئی سوچا بس میں کچھ دیر آرام سے بیٹھیں گے۔
لبنیٰ اور رضوانہ ایک مسجد دیکھنے چلی گئیں۔ میں سعادت منیر بھی بس میں بیٹھی تھیں۔ باقی لوگ بازار چلے گئے۔ میں پارکنگ ایریا میں آگئی۔
پارکنگ کے پاس بے حد خوبصورت گھر بنے ہوئے تھے۔ جہاں جنگل نماباغ تھے۔ گھروں کے باہر گاڑیاں بھی کھڑی تھیں۔ میں چلتے ہوئے پارکنگ کے کنارے تک آئی۔ سامنے گرے رنگ کا تکونی چھت والا اور سفید کھڑکیوں والا خوبصورت گھر تھا۔ جس پر ترکی کا پرچم لگا تھا۔ گھر کے ساتھ چھوٹا سا باغ بھی تھا۔ گھر کے باہر گملے بھی رکھے ہوئے تھے۔
میں وہاں کھڑی اس خوبصورت گھر کو دیکھتی رہی۔
یہاں لوگ گھروں میں خود کام کرتے ، باغ کا خیال رکھتے، پودوں کو پانی دیتے اور مصروف رہتے۔
کچھ دیر بعد میں بس میں آگئی ، جہاں سعادت منیر بھی بیٹھی تھیں۔
”تم بازارنہیں گئی۔”
انہوںنے پوچھا۔
”تھک گئی تھی۔ کافی دیر پیدل چلتے رہے تھے، سوچا کون بازارمیں دو تین گھنٹے چلتا رہے۔ اسی لئے بس میں آگئی۔”
میں نے جواباً کہا۔ مرسڈیز بس بے حد آرام دہ تھی۔
یکدم ڈرائیور اوہان بس میں آیا اور اس نے بس اسٹارٹ کردی ۔ہم حواس باختہ رہ گئے۔ ڈرائیور انگریزی زبان سے نابلد تھا نا وہ ہماری زبان سمجھتا تھا اور نا ہم اس کی زبان سمجھ سکتے تھے۔
”بات سنیں ، ہم کہاں جارہے ہیں؟”
ہم نے اشارے کرکر کے اس سے پوچھنے کی کوشش کی۔
نجانے وہ ترک زبان میں کیا بول رہا تھا۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا۔ ترکی آنے سے پہلے ہمیں ترک زبان کے عام بول چال کے کچھ الفاظ سیکھ لینے چاہیے تھے، ہمیں یہ غلط فہمی تھی کہ ترکی میں انگریزی بولی جاتی ہے۔
مس سعادت بھی گھبرا گئیں۔
”بھائی کہاں لے کر جارہے ہو ہمیں؟ ہمارے گروپ کے لوگ تو اُدھر بازار میں ہی ہیں۔ ارے اس سے پوچھو تو سہی اسے کس نے کہا ہے کہ بس چلادے، ہمیں کہاں لے جارہا ہے؟ میرا تو دل گھبرا رہا ہے۔”
سعادت منیر نے گھبرا کر کہا۔
بس ، دو پردیسی خواتین اور ایک اجنبی ڈرائیور… میں نے فوراً بلند آواز میں اسے ٹوکا۔
”ہمارے گائیڈ سرخان کو فون کردیں۔ سرخان … فون…”
مزید وضاحت کے لئے ہم نے اشارے بھی کئے۔
اس نے موبائل سے سرخان کو کال ملائی اس سے ترک زبان میں کچھ بات کی اور مجھے موبائل پکڑا دیا۔
اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ سرخان کو کہہ رہا ہے یہ دو وہمی خواتین ہے، خوفزدہ ہو گئی ہیں ان سے بات کرکے انہیں تفصیل بتادو۔
میں نے موبائل تھام کر سرخان سے بات کی۔
”ہیلو مسٹر سرخان! یہ ڈرائیور ہمیں کہیں لے جارہا ہے۔ گروپ کے لوگ وہیں بازار میں ہیں، ہمیں اس کی بات بھی سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کہہ کیا

Loading

Read Previous

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب2

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب 4

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!