”استنبول سے انقرہ تک ” (سفرنامہ) | آغازِ سفر | باب ۱

تحریر:مدیحہ شاہد
”استنبول سے انقرہ تک ” (سفرنامہ)
آغازِ سفر
باب1
سوشل ورک کا شوق اور خدمت ِ خلق کا جذبہ مجھے بین الاقوامی این جی او انر ویل کلب کے قریب لے آیا۔ مجھے یہ کلب جوائن کئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ ڈسٹرکٹ چیئرمین 341 کے سالانہ وزٹ کی خبریں ملنے لگیں۔
یاسمین مشتاق جن کا تعلق جھنگ سے تھا انرویل کلب 2018-2019 کی چیئرمین تھیں۔ ان کے شوہر چوہدری مشتاق روٹری کلب کے گورنر تھے اور خود وہ کئی سالوں سے اس این جی او سے وابستہ تھیں۔
میں چونکہ کلب کی نئی ممبر تھی تو مجھے کلب کی سرگرمیوں اورچارٹر کے متعلق زیادہ علم نہیں تھا۔
کسی نئی جگہ پر جاکر ایڈجسٹ ہوناا ور نئے دوست بنانا میرے لئے ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے۔ میں نے اپنے تیئں کوشش کی کہ کلب کی سرگرمیوں میں خاطر خواہ حصہ لے سکوں اور وہ دوست بناسکوں جو دوسروں کے فیس بک پروفائل میں نظر آتے ہیں۔ میری زندگی میں دوست بنانے کی جستجو اک طویل جستجو تھی۔ میں نے خوشی خوشی اس کلب کو جوائن کیا۔
سب ممبران سے تھوڑا بہت تعارف ہوا۔ کئی لوگوں نے میرے ٹی وی ڈرامے دیکھ رکھے تھے اور مجھے میرے کام کے حوالے سے جانتے تھے۔ مجھے اس کلب میں سب نے خوش آمدید کیا۔ دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سال میں ایک بار ہر کلب میں چیئرمین کے وزٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس وزٹ میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ نئے ممبران کو کلب کی پِن بھی لگائی جاتی ہے۔
ہمارے کلب نے اوائل مارچ کے دنوں میں سروز کلب لاہور میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ چیئرمین یاسمین مشتاق جھنگ سے تشریف لائیں۔ نیلے لباس میں ملبوس پھولوں کے گلدستے تھامے وہ سب سے خوشدلی سے ملیں۔ مجھے وہاں علم ہوا کہ وہ اپریل میں کلب کا سالانہ انٹرنیشنل ٹرپ لے کر ترکی جارہی ہیں۔ اس مقصد کے تحت لوگ اپنے اپنے نام لکھوا رہے تھے۔ میں فوراً اُس طرف متوجہ ہوگئی۔
”ترکی!”
میری آنکھیں چمکنے لگیں۔
دل میں چھپی برسوں پرانی خواہش نے آنکھ کھولی۔ استنبول ، توپ کاپی محل، بُرصا، قونیہ، انقرہ، خلافت ِ عثمانیہ کے تاریخی مقامات ، مساجد، نیلے پانی کا سمندر اور بے شمار جگہیں یاد آئیں۔ میں ترکی کے تاریخی ڈرامے ذوق و شوق سے دیکھتی تھی۔ مجھے وہاں کی ثقافت ، کلچر ، روایات اور آرکیٹیکچر بہت پسند تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مجھے ترکی سے بے حد محبت تھی۔ ترکی کے بارے میں پڑھ پڑھ کر مجھے وہاں کی سیر کا بے حد شوق تھا مگر گھر داری میں کئی سال ایسے مصروف رہی کہ اس خواہش کوپورا کرنے کی فرصت نہ ملی۔ گھر، بچے، ذمہ داریاں، بچوں کے سکول، ان کی پڑھائی اور کہانیاں، ڈرامے لکھنے میں ایسی مصروف رہی کہ کبھی کسی باہر کے ملک جانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔
اب جو اس ٹرپ کے بارے میں سنا تو دل کو سمجھانا مشکل ہوگیا۔ وہ ایک انقلابی لمحہ تھا۔
”میں بھی ترکی جانا چاہتی ہوں۔”
میں نے ایک لمحے میں یہ فیصلہ کرلیا۔
جن لوگوں کو ہمسائے کے گھر جانے کی فرصت نہ ہو ان کے لئے کسی فارن ٹرپ پر جانا انہونی ہی تو تھی۔ مگر میں نے مصروفیات کی گٹھری کو ایک طرف رکھ دیا۔ دل میں کسی چیز کی لگن ہو تو فیصلے لمحوں میں ہوجایا کرتے ہیں۔
”گھر والوں سے مشورہ کرلیں، آپ کے بچے بھی چھوٹے ہیں۔ اس ٹرپ کا پیکیج ایک لاکھ پینسٹھ ہزار ہے، اپنا بجٹ بھی دیکھ لیں۔ یہ فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے پڑتے ہیں۔ ہر پہلو کو دیکھنا پڑتاہے۔”کسی نے آہستہ آواز میں سنجیدگی سے کہا۔
”میں سب Manage کرلوں گی۔ آپ میرا نام بھی لکھ لیں۔ میں بھی ترکی جانا چاہتی ہوں۔”
میں نے حتمی انداز میں اعتماد سے کہا۔ سوچ بچار، نظرثانی جیسی فلسفیانہ باتیں کہیں پیچھے رہ گئیں۔
اس لمحے مجھے فیصلہ کرنے کی قوت کا ادراک ہوا۔ انسان کے دل و دماغ میں بہت سی قوتیں ہوتی ہیں جس کا اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔
”ہاں ضرور چلیں۔ میں آپ کو ترکی گروپ میں شامل کرلیتی ہوں۔ آپ ٹریول ایجنٹ سے بات بھی کرلیجئے گا وہ آپ کو ٹریول پلان بھی بھیج دیں گے۔”
یاسمین مشتاق نے خوشدلی سے کہا۔
وہ خوش اخلاق اور خوش مزاج شخصیت کی مالک تھیں۔ ترکی جانے کی خوشی اور ایکسائیٹمنٹ اتنی زیادہ تھی کہ میں نے جوش وولولے کے ساتھ اپنا نام لکھوا دیا اور ترکی گروپ میں شامل ہوگئی۔
میں خوشی خوشی گھر آئی اور گھر والوں کو یہ اہم اطلاع دی جسے سن کر ہر کوئی حیرت زدہ رہ گیا۔ گھر والوں کو کس طرح راضی کیا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ میں نے ٹریول ایجنٹ سے بات چیت کر لی اور ایڈوانس بھی جمع کروا دیا۔ پاسپورٹ میرے پرس میں ہی پڑا تھا۔ اس پاسپورٹ کی کہانی بھی حیرت انگیز تھی۔ کچھ عرصہ قبل میں نے زی انڈیا کے لئے ایک ڈرامہ لکھا تھا جس کی میٹنگ کے سلسلے میں مجھے اور مصباح شفیق کو دبئی جانا تھا مگر میرا پاسپورٹ نہیں بنا ہوا تھا کہ کبھی پاسپورٹ بنانے کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ پھر مجھے ارجنٹ پاسپورٹ بنوانا پڑا مگر میٹنگ دو دن بعد ہی تھی تو مصباح اکیلی ہی دبئی چلی گئی۔ میں باربار پاسپورٹ دیکھ کر آہ بھرتی۔ پاسپورٹ تو بن گیا مگر دبئی کا ٹؤر نکل گیا۔ اس بات کا غم مہینوں دل میں رہا مگر اب غم کے خوشی میں بدلنے کا وقت تھا۔
جب انسان پہلی بار کسی فارن ٹرپ پر جارہا ہوتا ہے تو بچوں کی طرح ایکسائیٹڈ ہوتا ہے۔ میں نے ٹرپ کا پلان پڑھا۔ استنبول، انقرہ، قونیہ اور کپاڈوکیہ کے اہم مقامات کی تصاویر بار بار انٹرنیٹ پر دیکھتی رہتی۔ نئے کپڑے سلوائے، بہترین سوٹ کیس خریدا، جیولری ، جوتے، پرس نیز خوب شاپنگ کی۔ ہاں بھئی عمر کتنی بھی منزلیں طے کرلے، خواتین کا دل ہمیشہ ٹین ایجر ہی رہتاہے۔
خیر 24 اگست کو ہم سعودی ایئرلائنز کے ذریعے ترکی کے لئے روانہ ہوئے۔ جہاز میں بیٹھ کر دل ذرا خوفزدہ ہوگیا۔ میں پہلی بار جہاز میں تب بیٹھی تھی جب میں بارہ سال کی تھی۔ ابا جان سعودی عرب سے واپس آئے تھے اور ان کی پوسٹنگ ملیر کینٹ کراچی ہوئی تھی۔ ہم لاہور سے کراچی جہاز میں گئے تھے۔ پھر شادی کے بعد میاں کی پوسٹنگ بہاولپور رہی تو میں اپنے بیٹے علی کے ساتھ بہاولپور سے پنڈی اور پنڈی سے بہاولپور جہاز میںآیا جایا کرتی اور سارے کینٹ میں جہازوں میں سفر کرنے والی خاتون مشہور ہوگئی تھی مگر پھر بھی اب جہاز میں بیٹھ کر دل خوفزدہ ہوگیا۔ خوف کا تعلق عمر سے نہیں وِل پاور سے ہوتا ہے۔ خیر میں نے اپنی ہمت بندھائی اور خود کو حوصلہ دیا۔ میرے دائیں جانب خالدہ سعید اور بائیں جانب یاسمین مشتاق بیٹھی تھیں۔ سائیڈ والی سیٹ پر رفعت اور عبدالستار صاحب بیٹھے تھے۔

ایئر پورٹ پر اچانک کچھ ایسے واقعات رونما ہوگئے تھے کہ جن کی وجہ سے بہت سے مسافر اپ سیٹ تھے۔ مسز شہناز سردار کے دو پاسپورٹ تھے وہ ایک پاسپورٹ لائیں دوسرا نہ لاسکیں اور بورڈنگ کلوز ہوگئی۔ وہ اور ان کے میاں جہاز میں سوار نہ ہوسکے۔ عائشہ عمران کے میاں بھی کسی وجہ سے جہاز میں سوار نہ ہوسکے۔ وہ اپنی بہن مہوش کے ساتھ بیٹھی تھیں اور مسلسل رو رہی تھیں۔
”حوصلے سے کام لیں، نہ روئیں۔”
ارد گرد بیٹھے لوگوں نے ہمدردی سے سمجھایا مگر ان کا غم کم نہ ہوا۔
”گھر سے نکلتے وقت ہم دونوں کتنے خوش تھے کہ ترکی جارہے ہیں۔ کئی دنوں سے خوشی خوشی تیاریاں کررہے تھے۔ مگر میں جہاز میں سوار ہوگئی اور وہ وہیں ایئرپورٹ پر رہ گئے ۔
” میرا دل رو رہا تھا۔”
وہ آنسو بہاتے ہوئے رقت آمیز انداز میں بولیں۔
”آپ پریشان نہ ہوں۔ وہ بھی جلد آجائیں گے۔”
لوگوں نے تسلی دی سب مسافر ان کے غم میں برابر کے شریک تھے۔
سب مسافر خوشی خوشی جہاز میں سوار ہوگئے، میرے میاں کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا!”
وہ پھر رونے لگیں۔ آہیں اور سسکیاں گونجنے لگیں۔
”آپ کی شادی کو کتنا عرصہ گزرا ہے؟”
کسی نے پوچھا۔
”اٹھارہ سال۔”
انہوں نے جواب دیا۔
”آپ کے بچے ہیں؟”
کسی نے سوال کیا۔
”میرے چھ بچے ہیں۔”
وہ اسی انداز میں بولیں۔
”پھر بھی محبت کا یہ عالم ہے!”
کسی نے بے ساختہ کہا۔
”محبت عمر، وقت ، سال، مہینے نہیں دیکھتی۔ اس کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ وقت سے نہیں۔”
کسی نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
مہوش اور ان کے شوہر فیصل عائشہ عمران کو تسلیاں اور دلاسے دیتے رہے۔ مشتاق صاحب بھی سمجھاتے رہے کہ فکر نہ کریں۔ عمران صاحب اگلی فلائٹ سے ترکی پہنچ جائیں گے مگران کے دل کو تسلی نہ ملی اور وہ آنسو بہاتی رہیں۔”
”سفر کے دوران اکثر ایسے واقعات ہوجایا کرتے ہیں، فکر نہ کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔”
سب نے ہمدردی کا اظہار کیا۔
یاسمین مشتاق نے بھی اپنے آنسو صاف کئے۔
”آپ کیوں رو رہی ہیں؟”
میں نے حیرت سے پوچھا۔
”میرے میاں نے ایئرپورٹ سٹاف کی بہت منت سماجت کی کہ تھوڑا انتظار کرلیں۔ عمران صاحب کا پاسپورٹ غلطی سے ٹریول ایجنسی کے دفتر میں رہ گیا تھا۔ وہاں سے ایئرپورٹ پہنچنے میں آدھا گھنٹہ مزید لگنا تھا مگر ایئرپورٹ سٹاف نے بورڈنگ کلوز کردی۔ اپنے علاقے میں میرے میاں کا بہت رعب ہے۔ انہوں نے کبھی کسی شخص کی اتنی منت سماجت نہیں کی مگر آج میری وجہ سے انہیں لوگوں سے اتنی ریکوئیسٹ کرنی پڑی۔ اس با ت کا مجھے بہت افسوس ہے۔ وہ اپنے کئی اہم کام چھوڑ کر میرے ساتھ اس ٹرپ پر آئے ہیں اور میری وجہ سے انہیں لوگوں سے ریکویسٹ کرنی پڑی جس کا مجھے بہت دکھ ہے۔ ”
انہوں نے آنکھ کے کنارے صاف کرتے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔

Loading

Read Previous

جنت سے ایک خط | شہید برہان وانی بنامِ پاکستان

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب2

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!