”استنبول سے انقرہ تک ” (سفرنامہ) | آغازِ سفر | باب ۱

”یہ مونگ مسور کی دال کا سوپ ہے؟”
عبدالستار صاحب نے بائول میں چمچ چلاتے ہوئے کہا۔
”لہسن کا تڑکا نہیں لگا ہوا ورنہ ہم بھی ایسی ہی دال بناتے ہیں۔ ہمارے اور ان کے کچھ کھانے ملتے جلتے ہیں۔” رفعت نے سوپ پیتے ہوئے کہا۔
”یہاں کے لوگ کتنے خوبصورت ہیں اور کتنے سجے سنوارے اور ٹپ ٹاپ رہتے ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں نے فیشن کئے ہوئے ہیں۔ یہاں لوگوں کے چہروں پر آسودگی اور اعزاز میں اعتماد ہے۔”
میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھی زاہدہ فاروق نے کہا۔
”ہمارے ہاں ویٹرز کے چہروں پر جو مؤدبانہ تاثر ہوتا ہے اس تاثر کی ہلکی سی جھلک بھی یہاں کے ویٹرز کے چہروں پر نہیں ملتی۔ یہاں لوگ جس طبقے اور شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، وہ نڈر خودشناس اور خود اعتماد ہوتے ہیں۔ ان میں احساسِ کمتری نہیں ہوتا اور یہ اس قوم کی خوبی ہے۔”
عبدالستار صاحب اعتماد سے چلتے پھر تے ویٹرز کو دیکھتے ہوئے بولے۔
”باشعور لوگ قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ترکی کی تاریخ حیرت انگیز ہے۔ ترکوں نے اپنی بقا کے لئے بہت سی جنگیں لڑی ہیں۔ ان کے روشن ماضی اور بہادروں کے قصوں کو ہمارے ہاں کے لوگ بھی یاد کرتے ہیں۔ترکوں کا مزاج ایسا ہے کہ یہ کسی کی غلامی نہیں کرسکتے۔ یہاں کم لوگ انگریزی بولتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی زبان کو ہی اہمیت اور فوقیت دیتے ہیں۔”
زاہدہ فاروق نے کہا۔
انہی باتوں کے دوران ہم نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا۔ جب ہم کسی ملک کی سیر کے لئے جاتے ہیں تو وہاں کا کلچر، روایات، آرکیٹیکچر اور تاریخی مقامات دیکھنے کے ساتھ ساتھ وہاں کے روایتی کھانوں کا لطف بھی اٹھاتے ہیں۔
کچھ دیر بعد عائشہ، عون اور مشتاق صاحب تھکے ہارے واپس آئے۔
”کیا ہوا؟ وہ خواتین نہیں ملیں؟”
یاسمین نے انہیں آتا دیکھ کر پریشانی سے پوچھا۔
”نہیں۔ ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے۔ سمجھو ہر جگہ چھان ماری مگر وہ نجانے کہاں چلی گئیں۔ ایئرپورٹ کے سٹاف میں سے کسی نے بتایا کہ دو خواتین پاکستانی لباس پہنے ہوئے انہیں نظر آئی تھیں۔ ایئرپورٹ والوں سے کچھ پوچھ بھی رہی تھیں مگر پھر نہ جانے وہ کہاں چلی گئیں۔ ہم ان کی نشاندہی پر اس جگہ پہنچے جہاں وہ انہیں نظر آئی تھیں۔ مگر وہ وہاں سے جاچکی تھیں۔”
مشتاق صاحب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے تفصیلاً بتایا۔
”کچھ لوگوں نے انہیں دیکھا تھا مگر وہ کہاں چلی گئیں یہ کسی کو نہیں معلوم۔”
عون صاحب نے بتایا۔ گروپ کے دیگر لوگ بھی یہ سن کر پریشان ہوگئے۔
”کیا پتا وہ ہوٹل چلی گئی ہوں۔ عقلمند خواتین ہیں۔ انہوں نے باہر کے کئی سفر کئے ہوئے ہیں۔ انہیں بخوبی معلوم ہوگا کہ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے۔”
یاسمین نے سوچتے ہوئے کہا۔
”اس بات کا امکان ہے۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے۔ ہوٹل جاکر دیکھتے ہیں ورنہ پھر سیکورٹی اداروں میں اطلاع دینی ہوگی۔ اُن کے پاس یہاں کی لوکل سِم بھی نہیں ہے کہ فون پر رابطہ کیا جاسکے۔”
عون نے پرسوچ انداز میں کہا۔
”آپ لوگ کھانا کھالیں پھر ہوٹل چلتے ہیں۔ آپ سب لوگ بھی یاد رکھیں کہ اگر کوئی بندہ گروپ سے بچھڑ جاتے تو کسی طرح ہوٹل پہنچ جائے۔”
یاسمین نے سنجیدہ مگر بلند آواز میں کہا۔
یہ لوگ کھانے میں مصروف ہوگئے تو کچھ دیر ہم شاپنگ مال میں گھومتے پھرتے رہے۔
میں کھلونوں سے سجی ٹوائے شاپ میں چلی آئی۔ میں نے اپنے بچوں کے لئے شاپنگ کی پالی پاکٹ کا ڈول ہائوس مجھے بہت پسند آیا۔ وہاں ایسے بہت سے کھلونے تھے جو پاکستان میں نہیں ملتے تھے۔
”مجھے یہ ڈول ہائوس دے دیں۔ یہ میں اپنی بیٹی کے لئے لے رہی ہوں۔ یہ کتنے کا ہے؟”
میں نے پرس میں سے رقم نکالتے ہوئے کہا پھر باآواز رقم گننے لگی۔ دس لیرا، بیس لیرا، پچاس لیرا، سو لیرا۔۔۔
دکاندار لڑکا اور لڑکی یکدم ہنسے۔
میں نے حیرت سے انہیں دیکھا کہ کیوں ہنسے ہیں۔
”یہ لیرا نہیں ہے۔ اسے لِرا کہتے ہیں۔”
لڑکے نے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں بتایا۔
”ایک ہی بات ہے۔ لیرا اور لرا میں زیادہ فرق نہیں ہے۔”
میں نے بے ساختہ کہا۔
وہ دونوں ایک بار پھر ہنسے جس کا مطلب تھا کہ تلفظ میں فرق تھا۔
”پاکستانی؟”
انہوں نے مجھے پہچان لیا۔
میں اثبات میں سرہلاتے ہوئے مسکرائی۔
”پاکستانی اچھے لوگ ہوتے ہیں۔”
لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی۔ یہاں پاکستانیوں کی عزت تھی اور عزت خوشی کا استعارہ ہوتی ہے ۔ عزت میں مان اور وقار ہوتا ہے۔
میں کھلونوں کا شاپر ہاتھ میں لئے دکان سے باہر آئی تو ایک دوسری دکان پر مجھے زینب اور شہلا نظر آئیں۔
ایک دوسری دکان پر مجھے زینب اور شہلا نظر آئیں۔ وہ گھر کی سجاوٹ کی چیزیں دیکھ رہی تھیں۔ وہ ویسی ہی دکان تھی جیسی ٹرکش ڈراموں میں اکثر دکھائی جاتی ہے۔ زینب سے میری فون پر بات ہوچکی تھی اس لئے ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
”ارے آپ! ہماری فون پر بات ہوتی رہی ہے اور یہ میری دوست شہلا ہے اور ہم دونوں سائیوال سے آئی ہیں۔ میرے والدین کا گھر لاہور میں ہے اس لئے میں اکثر سائیوال سے لاہور آتی رہتی ہوں۔ جب ترکی کاٹرپ انائونس ہوا تو ہم دونوں سہیلیوں نے سوچا کہ ، اس ٹرپ پر ساتھ جائیں گے۔”
زینب نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”میں آپ کے ٹی وی ڈرامے شوق سے دیکھتی ہوں۔ ہمیں خوشی ہے کہ کسی رائٹر نے ہمارے کلب میں شمولیت اختیار کی ہے۔”
شہلا نے خوشدلی سے کہا۔
میں ازراہِ اخلاق مسکرا دی۔
کچھ شاپنگ کرنے کے بعد ہم فائیو اسٹار ہوٹل پوائنٹ ٹاکسم پہنچے جو ٹاکسم اسکوائر کے پاس تھا۔
ہوٹل کی لابی میں آئے تو سامنے نگہت اور شاہین بیٹھی نظر آئیں۔ وہ ایئرپورٹ سے ٹیکسی لے کر ہوٹل آگئی تھیں۔ انہیں دیکھ کر سب کو خاطر خواہ تسلی ہوئی۔
ہم سب تھکے ہوئے تھے، اپنے اپنے کمروں میں چلے آئے۔ میری روم میٹ زاہدہ فاروق تھیں۔ ان کا تعلق سائیوال سے تھا۔ وہ بے حد سادہ خاتون تھیں۔ سامان ترتیب سے رکھتے ہوئے انہوں نے اپنے بارے میں بتایا۔
”میں یاسمین مشتاق کی کزن ہوں اور سائیوال سے آئی ہوں۔ میرے میاں جانوروں کے ڈاکٹر ہیں اور اپنی فیلڈ میں بہت قابلیت رکھتے ہیں۔ وہ مصروفیات کے باعث میرے ساتھ نہیں آسکے۔ میرے ساتھ میرے بیٹے حیدر فاروق نے بھی آنا تھا مگر اس کا ویزہ کسی وجہ سے لیٹ ہوگیا، وہ دو دن بعد یہاں پہنچے گا پھر اُس نے عمرے پر بھی جانا ہے۔ واپسی پر گروپ کے کچھ لوگ استنبول سے عمرے پر چلے جائیں گے۔ میں کچھ عرصہ قبل اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ عمرہ کر آئی ہوں۔ کچھ لوگ کسی نہ کسی وجہ سے پاکستان ہی رہ گئے مگر وہ لوگ ایک دو دن بعد پہنچیں گے۔”
میں سامان رکھتے ہوئے ان کی باتیں سنتی رہی۔ کمرے کے سیٹ اپ اور centrally heated سسٹم کو سمجھنے میں ہمیں کچھ وقت لگا۔ ویٹر کو بلوا کر ہم اس سسٹم کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے، یہ اے سی ہے یہ ہیٹر ہے، کیسے آن اور آف ہوتا ہے۔ ویٹر تھوڑی بہت انگریزی سمجھ سکتا تھا۔ ہم نے کچھ انگریزی بولی، کچھ اشاروں کی زبان میں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی۔ ہم نے اصرار کیا کہ ہماری کھڑکی کھول دے جہاں سے تازہ ہوا بھی آتی رہے۔ ویٹر کے ساتھ مغز ماری کرکے فارغ ہوئے تو تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے۔ہم لوگ کل سے سفر میں تھے۔ تھکاوٹ بھی بہت ہوگئی تھی۔ ساڑھے سات بجے ہم نے تیار ہوکر ہوٹل کی لابی میں آنا تھا اور پھر ڈنر کے لئے باسفورس کروز جانا تھا۔ کچھ دیر کے لئے ہم نے آرام کیا۔
شام سات بجے میری آنکھ کھلی تو ہم جلدی جلدی تیار ہوکر ہوٹل کی لابی میں ؤئے۔
اس ایونٹ کے لئے یاسمین مشتاق نے سب کو کہا تھا کہ پاکستانی پرچم جیسا سفید اور سبز لباس پہنیں کہ وہاں پاکستانی کمیونٹی کا ایک فنکشن بھی تھا۔ ہم نے سفید شلوار قمیض پر سبز دوپٹہ اوڑھا اور باسفورس کروز کے لئے روانہ ہوگئے۔
مرسیڈیز بس کشادہ اور آرام دہ تھی۔ یہاں بس میں سفر کرنے کے بھی کچھ اصول تھے۔ بس میں کھانے پینے کی چیزوں کے پیکٹ اور ریپر اِدھر اُدھر پھینکنا سخت منع تھا۔ بس کے دروازے کے پاس ڈسٹ بن رکھا تھا، ہر طرح کا garbage اس میں پھینکنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ بس کی سیٹوں کے ساتھ سوئچ بھی لگے تھے جہاں مسافر باآسانی چارجر لگا کر موبائل چارج کرسکتے تھے۔
بس میں مائیک اور اسپیکر سسٹم بھی تھا۔ گائیڈ مائیک پر مختلف جگہوں اور مقامات کے متعلق بتاتا رہتا۔
تھوڑی دیر بعد بس سمندر کے کنارے رکی۔ ہم ایکسائیٹڈ انداز میں بس سے اترے۔ سامنے سمندر تھا جس کے کنارے پر کروز یعنی بڑی سی کشتی کھڑی تھی۔ پانی کی لہروں پر روشنیاں چمک رہی تھیں۔ ساحل پر تیز ہوا تھی جس میں تازگی تھی۔
ہم کچھ دیر سمندر کے کنارے کھڑے ان حسین مناظر کو دیکھتے رہے۔
سمندر، ساحل، تازہ ہوا اور روشنیاں۔۔۔ باسفورس کروز پر آنے کا برسوں پرانا ارمان پورا ہوگیا۔
ہم کشتی کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئے اور برقی روشنیوں میں جگمگاتے وسیع ہال میں داخل ہوئے۔
دیوار کے ساتھ ترتیب سے کرسیاں اور میزیں لگی تھیں اور درمیان میں پرفارمرز کے لئے جگہ بنی تھی جہاں مختلف آرٹسٹ پرفارم کررہے تھے۔
شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیوں پر روشنیاں منعکس ہورہی تھیں۔ فرش کھڑی کا تھا اور چھت پر بے شمار لائٹس روشن تھیں اور چھت کے وسط میں ڈیزائن بنا ہوا تھا۔
سرخ لباس میں ملبوس لڑکے اور لڑکیوں نے گروپ ڈانس کیا، صوفیانہ طرز کے آئٹم بھی تھے۔
سمندری کشتی سمندر میں سبک رفتاری سے تیرتی جارہی تھی۔ ویٹرز نے کھانا سرو کیا۔
مختلف طرح کے جوسز تھے۔ ترکی میں ناشتے اور کھانے میں تازہ جوس پینے کا رواج عام ہے۔ یہاں کھانے کے ساتھ مختلف طرح کی چٹنیاں بھی پیش کی جاتی ہیں۔ کھانے میں روسٹ چکن، تلی ہوئی مچھلی، چقندر ، بندگوبھی اور مکئی کا سلاد ، چاول اور دیگر ٹرکش ڈشز تھیں۔
میرے سامنے والی کرسی پر گوری رنگت اور ڈائناکٹ بالوں والی اسمارٹ اور خوش مزاج سی خاتون بیٹھی تھیں، ساتھ ان کا بیٹا بھی تھا جو اٹھارہ انیس سال کا ہوگا۔
”میرا نام صباحت ہے اور یہ میرا بیٹا زارش ہے اور ہم اسلام آباد سے آئے ہیں۔ کچھ عرصے بعد زارش پڑھنے کے لئے آسٹریلیا جارہا ہے تو ہم نے سوچا اس سے پہلے ہم دونوں ماں بیٹا کسی اچھی سی vacation کو انجوائے کرلیں۔ میری بڑی بیٹی اور دوسرا بیٹا بھی آسٹریلیا میں ہی ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میرے شوہر ہم سب کو چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے ۔ وہ انٹیلیجنس کے ادارے سے وابستہ تھے اور بریگیڈیئر ریٹائر ہوئے تھے۔ اب تو گھر میں میں اور زارش ہی ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد میں بھی اپنے بچوں کے پاس آسٹریلیا چلی جائوں گی۔”
صباحت نے کہا۔
دوسری کرسی پر بیٹھی گھنگھریالے بالوں والی خاتون نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”میں فرح ہوں اور یہ میری دوست نورین اور نگہت ہیں، یہ نگہت کی بیٹی نیہاں ہے۔ ہم لوگ لاہور سے آئے ہیں۔”
کھانے کے دوران مختلف لوگوں سے بات چیت بھی ہوتی رہی۔
وہاں ایک فوٹو گرافر بھی تھا جو اپنی مہارت کے جوہر دکھاتے ہوئے لوگوں کو پوز بنانا بھی سکھا رہا تھا۔ ہم نے چند تصاویر بنوائیں۔ ایک تصویر کی قیمت پچیس لیرا تھی۔
کھانے کے بعد میں اٹھ کر عائشہ کے پاس چلی آئی جو دروازے کے قریب کھڑی تھی پھر ہم دونوں ہال سے باہر آگئے۔ باہر تیز ہوا تھی۔ کشتی پانی کی سطح پر تیرتی جارہی تھی۔ دور سے گولڈن گیٹ والا پُل بھی نظر آرہا تھا جس پر برقی روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ کشتی کے جنگلے کے ساتھ ترتیب سے کرسیاں لگی تھیں۔ ہم کچھ دیر وہیں کھڑے تازہ ہوا کا لطف لیتے ہوئے خوبصورت نظارے دیکھتے رہے۔
دفعتاً ایک لمبے بالوں والی خوبصورت لڑکی شیشوں اور مختلف رنگوں کے دھاگوں سے مزین لباس پہنے ماتھے پر چاندی کے زیور سجائے وہاں آئی تو اسے دیکھ کر ہم یکدم چونکے۔
”آپ کو دیکھ کر یوں لگا جیسے کوئی جل پری آئی ہو۔ آپ کا لباس اور زیورات تو بہت خوبصورت ہیں۔”
ہم نے سراہتے ہوئے کہا۔
”شکریہ میرا نام لبنیٰ ابرو ہے اور میرا تعلق حیدر آباد سندھ سے ہے۔ یوں تو میں شعبہ ٔ تدریس سے وابستہ ہوں مگر سیاحت میرا شوق اور جنون ہے۔ ہم سندھی لوگ اپنی ثقافت سے بہت محبت کرتے ہیں۔ یہ سندھی لباس اور زیورات ہیں۔ اس ایونٹ پر میں نے کلچرل لباس پہننے کو ترجیح دی۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس اثناء میں پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے ایک خاتون پر نظر پڑی۔ وہ رضوانہ درانی تھیں جو ملتان سے آئی تھیں اور ریڈیو پاکستان کے ساتھ منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ شاعرہ بھی تھیں۔ فی بدیہہ اشعار کہنا ان کا خاصہ تھا۔ وہ پاکستانی پرچم بطور خاص پاکستان سے لے کر آئی تھیں۔ ہم نے باسفورس کروز پر پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے ترانے بھی گائے وہاں پاکستانی اردو گانے بھی لگائے گئے۔ یہ ترکوں کی دوستی کا اظہار تھا۔ دوستی چاہے افراد میں ہو یا اقوام میں، اس کا اظہار پیش قیمت ہوتا ہے۔
ہمارے گروپ میں دو ڈاکٹر خواتین بھی تھیں۔ ڈاکٹر شمیم اور ڈاکٹر عالیہ۔
سب کا متفقہ خیال تھاکہ گروپ میں کوئی ڈاکٹر ضرور ہونا چاہیے اور لوگ اس بات کا خوب فائدہ بھی اٹھارہے تھے اور گاہے بگا ہے ان ڈاکٹر خواتین سے مشورے بھی لے رہے تھے۔
سفر کے دوران آپ نئے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ ان کی شخصیت اخلاق، انداز اور گفتگو کو دیکھتے ہیں، سفر کے دوران آپ کو زندگی کے بہترین دوست بھی مل جایا کرتے ہیں۔ جن سے دوستی کا تعلق گہرا اور خاص ہوتاہے۔
باہر تیز ہوا تھی اس لئے ہم دوبارہ ہال میں آگئے۔ وہاں ہماری ایک اور لڑکی سے ملاقات ہوئی جس کا نام یسریٰ تھا اور جو اپنے پھپھا صدیق انکل اورپھپھو رضیہ صدیق کے ساتھ آئی تھی۔ ہم کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ بہت سے لوگوں سے تعارف اور بات چیت ہوتی رہی۔ حسنہ عباسی اور ان کے میاں شیخ عباسی اسلام آباد سے آئے تھے، اسلام آباد میں ان کی بیکری تھی۔ میمونہ احسن اور احسن صاحب بھی اسلام آباد سے آئے تھے اور اسلام آباد میں ان کے فارم ہائوس تھے۔ ان کے ساتھ ان کے دوست لئیق انکل اور ان کی اہلیہ صوفیہ بھی تھیں۔ لئیق انکل پولیس ڈیپارٹمنٹ سے ریٹار ہوئے تھے۔
ان کے ساتھ عقیلہ اور سعید شمسی بھی تھے جو لاہور سے آئے تھے ۔ ایک کرسی پر گوری رنگت اور سنہرے گھنگھریالے بالوں والی ایک لڑکی بیٹھی تھی جس کا نام کرن تحسین تھا اور جو وزیر آباد سے آئی تھی۔ جھنگ سے آئے سیف انکل اور شاہینہ فیصل آباد سے آئے اور نوشین بھی تھیں۔
لاہور سے آئی عذرا فہیم، ثمینہ سلمان اور طاہرہ مظہر بھی تھیں۔
سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کچھ دیر بعد یاسمین مشتاق نے ہال کے اندر آکر اعلانیہ انداز میں کہا۔
”ایک خوبصورت لڑکی اس ہال میں آرہی ہے۔” سب لوگ متوجہ ہوگئے۔
کچھ دیر بعد بے حد گوری رنگت اور گولڈی لاکس جیسے سنہرے بالوں والی لڑکی ہال میں داخل ہوئی جس نے تتلی کے پروں جیسا لباس پہنا ہوا تھا جس پر برقی قمقمے جگنو کی طرح جگمگا رہے تھے۔
وہ روایتی انداز میں رقص کرتے ہوئے تتلی جیسے پر لہراتی جاتی۔ لوگ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے ساتھ رقص کررہے تھے۔
وہاں ہر طرف خوشیاں تھیں، قہقہے تھے، موسیقی تھی۔ لوگ انجوائے کررہے تھے۔
کافی دیر بعد ہم ہوٹل کے لئے روانہ ہوئے۔
ہوٹل جاتے ساتھ ہی ہم سونے کے لئے لیٹ گئے۔ صبح سویرے ہمیں برصا کے لئے روانہ ہونا تھا۔
یہ تھا ہمارا استنبول میں پہلا دن، جب ہم نے پہلی بار باسفورس کروز پر ڈنر کیا تھا۔ جس کی خوبصورتی اور دلکشی کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

جنت سے ایک خط | شہید برہان وانی بنامِ پاکستان

Read Next

استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب2

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!