اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

17جنوری
لاہور
ڈیئر مریم!
السلام علیکم!
تمہاری شادی کے بعد انگلینڈ سے بھیجا ہوا تمہارا پہلا خط مجھے آج ہی ملا ہے۔ فاصلے دلوں کے رابطوں کو اور مضبوط کر دیتے ہیں۔ یہ تم نے ہی کہا تھا ناں (کاش ایسا نہ ہوتا) سات سال کی طویل دوستی کے بعد اب تم اتنی دور جا بیٹھی ہو کہ مجھے اپنے اردگرد کے لوگوں میں تمہارے جیسا چہرہ تلاش کرنے میں بہت دیر لگے گی۔ (شاید مجھے کبھی بھی تمہارے جیسا کوئی دوسرا نہ ملے)
پتا نہیں مجھے یہ احساس کیوں ہونے لگا ہے کہ میں آہستہ آہستہ سب کچھ کھو دوں گی۔ کچھ پہلے کھو دیا۔ کچھ اب کھو رہی ہوں جو باقی بچا ہے وہ بھی کب تک رہے گا۔ پھر خالی ہاتھ اور خالی دل کے ساتھ میں کہاں جاؤں گی۔ اب تو رونے کے لیے تمہارا کندھا بھی نہیں ہے۔ نہیں پریشان مت ہونا۔ میں رو نہیں رہی ہوں۔ کوشش کر رہی ہوں۔ تمہاری ہدایات پر عمل کرنے کی اور تم سے کیے ہوئے وعدے نبھانے کی۔
تم نے خط میں پوچھا تھا۔ میں کیسی ہوں۔ کیوں مریم تم نے ایسا کیوں لکھا؟ پہلے تو کبھی تم نے اپنے کسی خط میں مجھ سے میرا حال نہیں پوچھا پھر اب کیوں ؟ کیا تمہیں لگ رہا ہے کہ … میں ٹھیک ہوں میں اچھی ہوں بہت ہی خوش ہوں’ اتنی ہی خوش ہوں جتنا آج کے دور میں میری جیسی لڑکی ہو سکتی ہے۔
اپنے خط میں یہ مت پوچھنا کہ میرے جیسی سے تمہاری کیا مراد ہے۔ میری باتیں تمہیں ابنارمل لگ رہی ہیں’ میں واقعی آج کل ابنارمل ہو رہی ہوں۔ تم نے کبھی دلدل میں پھنسے ہوئے شخص کو دیکھا ہے؟ کیسے ہاتھ پاؤں مارتا ہے وہ۔ کوئی رشتہ’ کوئی اثاثہ’ کوئی دولت بچانے کے لئے نہیں بس ایک جان بچانے کے لیے۔ میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ایک دلدل میں پھنسی ہوئی ہوں’ بس فرق یہ ہے کہ میں’ میں ہاتھ پاؤں نہیں مار رہی ہوں۔ جان بچا کر آخر کرنا ہی کیا ہے۔ میرا خط پڑھتے ہوئے رونا مت شروع کر دینا۔ میں تمہیں پریشان کرنے کے لیے یہ سب کچھ نہیں لکھ رہی ہوں۔ تمہیں پتا ہے مجھے اکثر ڈپریشن کے دورے پڑتے ہیں۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ دل چاہ رہا ہے کہیں بھاگ جاؤں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی پہاڑ پر جا بیٹھوں خاموشی میں سناٹے میں اور پھر روؤں زور زور سے دھاڑیں مار مار کر۔ اور میری ہر سسکی’ ہر آہ’ ہر چیخ پہاڑوں میں گونج بن کر پھرتی رہے۔ (کیا اشفاق احمد اور بانو قدسیہ اس سے زیادہ فلاسفی لکھ سکتے ہیں)
یہ جان کر سکون مل رہا ہے کہ تم ناصر کے ساتھ بہت خوش ہو۔ لیکن مریم! تم ناصر کے ساتھ ہی نہیں کسی بھی شخص کے ساتھ خوش رہ سکتی تھیں۔ تمہیں خدا نے میرے جیسے روگ نہیں دئیے۔ تم نے لکھا ہے ناصر بہت اچھا ہے۔ تمہارا بہت خیال رکھتا ہے۔تم سے بہت محبت کرتا ہے۔ میری دعا ہے۔ تم ہمیشہ اپنے ہر خط میں یہی تین جملے لکھتی رہو۔ ان میں کبھی تبدیلی نہ آئے۔ ہاؤس جاب چھوڑ کر تم نے اپنے والدین کی خوشی کے لیے اپنا کیریئر قربان کر دیا ہے۔ تمہیں اتنا اجر تو ملنا ہی چاہیے کہ جس شخص کے ساتھ تمہاری شادی ہوتی’ وہ تم سے محبت کرتا۔
تم نے میری روٹین اور مصروفیات کے بارے میں پوچھا ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے کیا تمہارے بغیر صرف ایک ماہ میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ نہیں مریم! سب کچھ ویسا ہی ہے۔ بس خاموشی کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے’ پہلے میرے اندر ہی تھی۔ اب آہستہ آہستہ میرے اردگرد بھی پھیلنے لگی ہے۔ ہاسپٹل سے آنے کے بعد کافی کامگ لے کر اب میں اکیلی اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی ہوتی ہوں۔ (پہلے تو تم بھی ساتھ ہوتی تھیں) پھر مجھے بہت کچھ یاد آتا رہتا ہے لیکن میں خاموشی سے کافی کے سپ لیتے ہوئے کھڑکی سے باہر جھانکتی رہتی ہوں۔ (پہلے میں سب کچھ تم سے کہا کرتی تھی)
میں اب اپنا کمرہ کسی سے شیئر نہیں کر سکتی۔ میں تمہاری جگہ کسی کو نہیں دے سکتی۔ ساری شام اس کھڑکی میں اسی طرح گزار دیتی ہوں۔ پھر رات آ جاتی ہے۔ اور اس شخص کی یاد کے ساتھ اب تمہاری یاد بھی شامل ہو گئی ہے۔
بس ایک سال باقی ہے پھر میرے پر کاٹ کر مجھے بھی قفس میں بند کر دیا جائے گا اور مریم! میری دعا ہے۔ یہ سال اتنا لمبا ہو جائے کہ کبھی ختم ہی نہ ہو مگر میرے کہنے سے وقت کی رفتار نہ بڑھے گی نہ تھمے گی اور ایک سال بعد جب میں اپنے خوابوں اور خواہشوں کے تابوت میں آخری کیل گاڑ کر واپس لوٹ جاؤں گی تو تم آنا’ سیدہ درمکنون علی عباس رضوی کو دیکھنے … روحانی طور پر بیمار مسیحا کو جسمانی شفا بانٹتے ہوئے۔ مریم ! سال میں تین سو پینسٹھ دن کیوں ہوتے ہیں تین ہزار تین سو پینسٹھ کیوں نہیں۔
مجھے خط لکھتی رہنا۔ کم از کم اس سال تو۔ پھر جب واپس اپنے گاؤں چلی جاؤں تو مجھے کوئی خط نہ لکھنا۔ پھر شاید میں کسی رابطے کے قابل نہ رہوں۔ میں مایوس نہیں ہو رہی۔ حقیقت کو تسلیم کرنا سیکھ رہی ہوں۔ تم ہی نے ایک دفعہ کہا تھا نا۔ ”درمکنون تمہارا مسئلہ حالات نہیں تمہارا رومانٹسزم ہے۔” خوش ہو جاؤ مریم رومانٹسزم ختم ہوتا جا رہا ہے۔
درمکنون
***




20 فروری
لاہور
ڈیئر مریم!
السلام علیکم!
اپنے خط میں اتنی نصیحتیں اور ہدایات مت لکھا کرو۔ میرا دل گھبرانے لگتا ہے۔ ساری زندگی مجھے نصیحتوں اور ہدایات کے علاوہ دیا ہی کیا گیا ہے۔ اب تم بھی وہی سب کچھ کرنے لگی ہو جو میرے ماں باپ ہمیشہ سے کرتے آ رہے ہیں۔
بار بار خوش رہنے کا کہتی ہو۔ تم بھی تو ڈاکٹر ہو ۔ خوش رہنے کے لیے کوئی نسخہ کیوں نہیں تجویز کر تیں یا پھر کوئی دوائی بھیج دو۔ انگلینڈ سے خوشی کے لیے جس کے تین ڈرا پس مجھے خوشی سے مالا مال کر دیں اور اگر ایسا نہیں کر سکتیں تو بس پھر خوش رہنے کے لیے مت کہا کرو’ یہ بھی میرے بس میں نہیں۔
تمہاری بھیجی ہوئی چیزیں مجھے مل گئی ہیں مگر اب دوبارہ کچھ مت بھیجنا۔ تم جانتی ہو مریم! یہ سب چیزیں میرے لیے بے کار ہو چکی ہیں مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے صرف تمہارے تحریر کیے ہوئے چند لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل بہت محتاج ہو گئی ہوں۔ ہر چیز’ ہر بات کے لیے۔ لوگوں کو میری بات کا مفہوم سمجھنے میں بڑی دیر لگتی ہے۔ اور میں چاہتی ہوں۔ کوئی میری بات سمجھنے کی کوشش کرے ہی نہ ۔ وقت کے ضیاع کے اور بھی تو طریقے ہوتے ہیں۔
”مریم! آج میں بہت روئی ہوں۔ تم جانتی ہو کیوں؟ ہاں تم ہی تو جانتی ہو۔ پتا ہے مریم آج پھر عاشر کا خط اور کارڈ آیا ہے۔ اس شخص کو جیسے ہر بات کی خبر ہوتی ہے۔ اسے تمہاری شادی اور انگلینڈ چلے جانے کا بھی پتا چل گیا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم سے جدائی میرے اعصاب پر کس طرح سوار ہو گئی ہے۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ تنہائی میرے وجود کو کس طرح پگھلا رہی ہے اور میرا باپ کہتا ہے۔ محبت کوئی چیز نہیں اور میرا دل چاہتا ہے۔ میں اس کے سارے خط ان کے سامنے پھینکوں اور کہوں مجھے جاننا’ مجھے سمجھنا ہے تو ان خطوں کو پڑھ کر جانیں۔ ان کو پڑھ کر سمجھیں اور پھر مجھے بتائیں۔ ان کی بیٹی درمکنون ان کو کیسی لگتی ہے۔ پتا نہیں ماں باپ کو یہ غلط فہمی کیوں ہوتی ہے کہ ان سے زیادہ ان کی اولاد کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ کوئی نہیں جانتا۔ حالانکہ انہیں تو کچھ بھی پتا نہیں ہوتا۔ انہیں ہی توکچھ پتا نہیں ہوتا۔ انہیں تو صرف ہمارا وجود نظر آتا ہے۔ دو ٹانگوں’ دو ہاتھوں’ دو آنکھوں اور ایک دماغ والا وجود۔ وہ اسے ہی کُل سمجھتے ہیں یہ کُل کہاں ہے کُل تو دل ہے اور میرے دل تک ساری دنیا پہنچ سکتی ہے بس میرے ماں باپ نہیں پہنچ سکتے۔
پہلے زمانے کے لوگ اچھے تھے۔ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دیتے تھے۔ اب یہ کام آل رسولۖ کرتی ہے مگر بیٹیوں کو جوان کرنے کے بعد۔
تم نے لکھا ہے۔ مایوس نہ ہو مایوسی کفر ہے مریم! کیا صرف مایوسی ہی کفر ہوتی ہے اور کوئی چیز نہیں؟ تمہارا کیا خیال ہے جو مایوس نہیں ہوتے وہ پکے اور سچے مسلمان ہوتے ہیں؟ کیا دوسروں کی آنکھوں کے خواب چھین لینا کفر نہیں ہوتا؟ کیا دوسروں کے دلوں کی خواہشات کو روند دینا کفر نہیں؟ اور مریم! بعض دفعہ مایوسی کفر سے بچا بھی تو لیتی ہے جیسے مجھے بچا رہی ہے۔ بعض دفعہ آسوں’ امیدوں کا ختم ہو جانا بھی بڑی نعمت ہوتا ہے۔ میں جانتی ہوں۔ تم اس پیراگراف کو تین دفعہ پڑھوگی اور تمہیں وہ بات سمجھ میں آ جائے گی جو میں نے نہیں لکھی۔
”مریم! تم … تم خدا کے لیے عاشر سے کہہ دو مجھے خط نہ لکھے۔ مجھے کارڈ نہ بھیجے۔ میری جان چھوڑ دے اس سے کہو سوچ لے کہ درمکنون مر گئی ہے مان لے کہ درمکنون کبھی تھی ہی نہیں۔ اور بس مجھ سے کوئی رابطہ نہ کرے۔ تم تو کہہ سکتی ہو اس سے ۔ مریم تم تو سمجھا سکتی ہو۔ تم اس کے شہر میں ہو۔ اس کے پاس ہو۔ اس سے کہو۔ میرا پیچھا چھوڑ دے۔ اپنی زندگی تباہ نہ کرے۔ اسے تو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ مریم! تم ایک بار عاشر سے ملو۔ یہ مشکل کام تو نہیں ہے۔ ایک بار میری خاطر اس سے ملو۔ شاید تم اسے وہ سب کچھ سمجھانے میں کامیاب ہو جاؤ جو میں نہیں سمجھا سکتی۔ جو کوئی دوسرا نہیں سمجھا پایا۔
پتا ہے’ اس بار اس نے اپنے خط میں کیا لکھا ہے۔ اس نے لکھا ہے۔
”درمکنون! تمہیں یہ غلط فہمی کیوں ہے کہ تم میرے بغیر خوش رہ سکتی ہو؟ خوشی تو دور کی بات ہے۔ تم تو زندہ بھی نہیں رہ پاؤ گی۔”
اور لوگ کہتے ہیں دلوں کے بھید صرف اللہ جانتا ہے’ ہے نا مریم! لوگ پھر بھی یہی کہتے ہیں۔ اور میرا دل چاہتا ہے مریم! میں عاشر سے کہوں کہ وہ میرے وجود پر پڑی ہوئی فریب اور ڈھکوسلے کی چادر کو یونہی پڑا رہنے دے۔ یہ خود فریبی جب تک ہے۔ میں ہوں اور جب یہ نہیں ہو گی تو…
وہ اپنے ہر خط میں پتا نہیں کون کون سے اسکالرز کے ریفرنسز دیتا رہتا ہے۔ اسے لگتا ہے’ وہ اس طرح مجھے قائل کر لے گا۔ مریم میں کب قائل نہیں ہوں۔ وہ کوئی دلیل کوئی ریفرنس نہ دے تب بھی میں جانتی ہوں۔ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن وہ۔ وہ کیوں میرے پاؤں میں پڑی بیڑیوں کو نہیں دیکھتا۔ وہ چاہتا ہے۔ میں بغاوت کروں۔ میں لڑوں۔ اپنا حق مانگوں۔ اسے نہیں پتا’ سید زادیوں کے کوئی حق ہوتے ہی نہیں۔ پھر حق مانگنے اور لینے کا سوال کہاں سے آتا ہے؟ تمہیں یاد ہے نا وہ کتنا Optimistic (خوش امید) ہوا کرتا تھا۔ وہ اب بھی ویسا ہی ہے اس کا خط کسی بھی لڑکی کو بغاوت پر آمادہ کر سکتا ہے۔ کسی کو بھی ہپناٹائز کر سکتا ہے۔ مگر میں … میں تو سید زادی ہوں۔ مجھے خوف آتا ہے مریم! کہیں میرا Pessimism (قنوطیت) اس کے Optimism (رجائیت) کو نہ لے ڈوبے پھر وہ اپنی زندگی کیسے گزارے گا۔ دنیا کو میری طرح کالے شیشے کی عینک پہن کر دیکھنا۔ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اور میں نہیں چاہتی۔ یہ تکلیف کبھی اس کی زندگی میں آئے پھر بھی مریم میں کچھ نہیں کر سکتی۔ محبت اس کا قصور تھی میں نے اس سے نہیں کہا تھا کہ مجھ سے محبت کرو۔ یہ سب اس نے اپنی مرضی سے کیا تھا۔
اس وقت بھی مجھے اس کھڑکی سے باہر کھڑے دو گارڈز نظر آ رہے ہیں جو میری ”حفاظت” کے لیے ہر وقت میرے ساتھ رہتے ہیں۔ کس قدر اہم ہوں میں مریم! کس قدر اہم ہوں میں اپنے ماں باپ اپنے خاندان کے لیے۔ مریم حفاظت اور نگرانی میں کیا فرق ہوتا ہے کیا تم کو پتا ہے؟ مجھے پتا ہے تم نے فلمز میں اکثر تیروں کو جسم چھلنی کرتے دیکھا ہو گا۔ کبھی کسی چہرے کو تیروں سے چھلنی ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
اگر کبھی دیکھنے کی خواہش ہوئی تو میرا چہرہ دیکھنا۔ جو لوگ آپ کی حفاظت کر رہے ہوں’ وہ تو آپ کے اردگرد موجود اور آپ کے ملنے والے لوگوں کو دیکھتے ہیں۔ مگر میرے محافظ مجھ سے ملنے والے ہر شخص کا چہرہ پڑھنے کے بجائے میرا چہرہ پڑھتے ہیں۔ (انہیں احکامات پر عمل کرنا ہے) اور تب مریم! تب مجھے یوں لگتا ہے جیسے ایک کے بعد ایک سنسناتا ہوا تیر میرے چہرے میں ترازو ہو جاتا ہے اور میرا چہرہ مسخ ہوتا جاتا ہے اور میں چیخنے چلانے رونے کے بجائے ہنستی ہوں۔ مسکراتی ہوں۔ کیا اس سے زیادہ اذیت ناک چیز کوئی اور ہو سکتی ہے مریم؟
میں اگر سلیپنگ پلز نہ لوں تو شاید اب کبھی سو نہ سکوں۔ لیکن پتا نہیں مریم! اب یہ گولیاں بھی بے اثر ہوتی جا رہی ہیں۔ ہر گزرنے والے ہفتے کے ساتھ مجھے ان کی ڈوز ڈبل کرنی پڑ رہی ہے ورنہ میں سو نہیں پاتی۔ مریم! میرے لیے دعا کیا کرو۔ مجھے اپنی دعا نہیں لگتی۔ شاید تمہاری لگ جائے۔ دعا کرو۔ مجھے سکون مل جائے دعا کرو۔ میرا دل دنیا میں لگ جائے۔ دعا کرو۔ مجھے زندگی کے سارے پھندے اچھے لگنے لگیں۔ دعا کرو۔ اللہ کو کبھی بھول کر میرا خیال آ جائے۔
خدا حافظ
تمہاری درمکنون
***




Loading

Read Previous

بس اِک داغِ ندامت — عمیرہ احمد

Read Next

ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!