آخری کیس — اعتزاز سلیم وصلی

ایف آئی اے کی سائبر کرائم برانچ کے انچارج اس وقت میری ”عزت افزائی” کرنے میں مصروف تھے۔ میں خاموش کھڑا سر جھکائے سنتا رہا ا ور وہ بدستور اس نیک کام میں لگے ہوئے تھے۔
”شاہ زیب تم اس برانچ میں غلطی سے آ گئے ہو اور کس گدھے نے تمہیں مشورہ دیا تھا کہ سائبر کرائم سیل میں آ جاؤ۔”مجھے یاد تھا، جب میں ایف آئی اے میں تھاتب جناب نے ہی مجھے سائبر کرائم سیل کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ خاص طور پر میری سفارش کرکے مجھے اس سیل میں لے آئے تھے مگر اب انہیں یاد کروا کے اپنی اس بے عزتی میں ممکنہ طور پر اضافہ ہی کروا سکتا تھا اس لیے خاموش رہا۔
”پچھلے ایک ماہ میں تمہیں تین کیس سونپے گئے۔ پہلے کیس میں جناب نے مجرم کو پکڑا مگر ثبوت اکٹھے نہیں کر سکے ۔ دوسرے کیس میں پتا ہی نہیں چلا کہ ہیکر کس ملک کا تھا اور تیسرے کیس میں جو آپ نے کمال دکھایا ،وہ یقینا یاد ہو گا؟”سعید صاحب کے حافظے پر مجھے رشک آتا تھا۔ انہیں میری بے عزتی والے کیس مجھ سے زیادہ یاد تھے کیوں کہ انہوں نے ہی میری بے عزتی کی ہوتی تھی۔
”نہیں سر ،مجھے بھول گیا۔” میں نے بے بسی سے ان کی طرف دیکھا۔
”اس کیس میں جناب نے لڑکی کو ہی گناہ گار قرار دے دیا تھااور الزام یہ لگایا کہ لڑکی نے بلیک میلر کو و یڈیو دی ہی کیوں جس سے بلیک میلر اسے بلیک میل کر سکا۔”ان کی نیلی آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں اور میں آنکھوں میں بھرے غصے کو محسوس کرنے کے بہ جائے یہ سوچ رہا تھا کہ سر کی آنکھیں کچھ کچھ ایشوریہ رائے سے ملتی ہیں۔
”شاہ زیب صاحب!”انہوں نے ہاتھ میرے آگے لہرایا۔
”کہاں کھو گئے؟”
”کہیں نہیں سر۔”میں نے چونک کر ان کی آنکھوں سے نظریں ہٹائیں۔
”تو جواب دیں میری بات کا۔”




”سر پہلے دو کیسز کی وضاحت میں دے چکا ہوں۔مجرم کے خلاف ثبوت نامکمل تھے اس لیے تین سال قید کی بجائے صرف کچھ جرمانہ ہی ہوا اور دوسرے کیس کی انویسٹی گیشن آپ نے خود کی تھی۔ بینکوں سے پیسے چرانے والا ہیکر پاکستانی ہی تھا، مگر ہمارے گرفتار کرنے سے پہلے بھاگ گیا۔تیسرے کیس کی وضاحت اب دیتا ہوں بلکہ کچھ دکھاتا ہوں۔” یہ کہتے ہوئے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور اپنا سیل فون نکال کر فیس بک آن کی۔یہاں ایک پیج پر آکر میری انگلیاں رک گئیں۔
”یہ دیکھیں سر! وہ لڑکی جو اس دن بلیک میلر کی وجہ سے یہاں آئی تھی اس کا اپنا پیج ہے اور اب تک اس پیج کی بیس سے زائد رپورٹس آ چکی ہیں جن میں یہ شکایت کی گئی ہے کہ لڑکی اپنی اخلاق سے گری ہوئی ویڈیو اپ لوڈ کررہی ہے۔آئی ٹی سیل والے اس پیج کو بلاک کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔سر میں نے تب بھی آپ کو بتایا تھا کہ یہ لڑکی صرف شہرت کے لیے ہمارے پاس آئی ہے کیوں کہ سائبر کیسز پر میڈیا کی نظر جمی ہوتی ہے اور پانچ منٹ کے اندر اس لڑکی کو بیس نیوز چینل نے اپنے شوز میں شرکت کرنے کی دعوت دی تھی۔” میں نے انہیں مزید تفصیل بتائی۔ان کے چہرے کے تاثرات میں نرمی دکھائی دی۔
”بہرحال آپ ابھی تک ناکام ہی ہوئے ہیں ہمارے سیل میں۔اب میں مزید ناکامی برداشت نہیں کروں گا۔ آپ کے پاس جتنے کیس ہیں جلد از جلد حل کریں۔ اب آپ جا سکتے ہیں۔” دوسرے الفاظ میں انہوں نے مجھے نظروں کے سامنے سے دفع ہو جانے کا کہہ دیا تھا۔میں نے واپس اپنے روم میں آکر ٹھنڈا پانی پیا اور بے عزتی ہضم کی۔اس وقت میرے دماغ میں سوچیں یوسین بولٹ بنی ہوئی تھیں۔
٭…٭…٭
ایف آئی اے جوائن کرنا میرا خواب نہیں تھا۔ ماں باپ کی ایک ایکسیڈنٹ میں موت کے بعد چچی اور چچانے مجھے پالا ۔ ان کاایک ہی بیٹا تھا۔ شہریار جس سے میری کبھی نہیں بنی۔ مجھ سے دو سال بڑا تھا اور جب بھی موقع ملتا اپنا باکسنگ کا شوق مجھ پر پورا کرتا۔ زندگی کے پہلے پندرہ سال شہریار کے اس شوق کی وجہ سے میرا ناک اکثر پھولا رہتا تھا اور چہرے پر بھی چند نشان لازمی ہوتے۔پندرہ سال بعد مجھے پتا چلا کہ شہریار کو بھی مارا جا سکتا ہے۔ وہ اس طرح کے انگلش فلم دیکھنے کے بعد اچانک شہریار نے مجھ پر حملہ کردیا اور دو تین سخت ہاتھ مارے، مگر اچانک مجھے بھی ہیرو والا جوش چڑھا اور میں نے بھی اچھل کر اسے فلائنگ کک ماری جس کے نتیجے میں اس کے منہ سے خون جاری ہو گیا۔ چچی نے اس رات پانی والے پائپ سے مجھے اس طرح مارا کہ میں ساری رات سو نہ سکا۔ اس رات مجھے یقین ہو گیا کہ چچا چچی کے گھر میری اہمیت تب ہی ہے جب میں کچھ کروں گا اس گھر کے لیے۔ شہریار ان کا بیٹا تھا اور اس کو مارنا میرا جرم۔ اس رات امی ابو کی بھی یاد آتی رہی۔ وقت نے اُر ڑان بھری۔ ہم بڑے ہوگئے مگر ہماری کبھی دوستی نہ ہو سکی۔ ایک عجیب طرح کی نفرت ہمیں ایک دوسرے سے تھی۔ چچی اور چچا اپنی سگی اولاد کے حق میں ہوتے اور میں ہر بار مجرم ٹھہرایا جاتا۔میں اور شہریار نے کمپیوٹر میں ماسٹرز کیا تھا۔ وہ ملک سے باہر چلا گیا۔ چچا اور چچی صرف تین ماہ کے وقفے سے مجھ سے بچھڑ گئے۔چچا کو پھیپھڑوں کا کینسرہوگیا اور چچی دل کی مریضہ تھیں۔ اس دوران شہریار صرف چند دن کے لیے آیا اور دوبارہ جرمنی چلاگیا۔ میرے روکنے کے باوجود وہ نہیں رکا۔ میں ملازمت کی تلاش میں تھا کہ اچانک ایف آئی اے میں جابز آئیں اور میں نے اپلائی کردیا۔خوش قسمتی سے مجھے سلیکٹ کر لیا گیا۔ ابھی ایف آئی اے میں ایک سال ہوا تھا کہ سائبر کرائم سیل میں انچارج صاحب کی سفارش پر مجھے بھیج دیا گیا۔ ان دنوں سائبر کرائم سیل نیا نیا بنا تھا اور بہت کم کیس آتے تھے۔ہم سارا دن فارغ بیٹھ کر فیس بک، واٹس ایپ، سنیپ چیٹ اور ٹوئٹر پر مذہبی فرقہ واریت پھیلانے والے پیجز بلاک کیا کرتے تھے۔صرف دوسال میں پاکستان میں سوشل میڈیا کے یوزرز نے طوفان مچا دیا۔ چند لاکھ لوگوں سے اچانک ہی یہ تعداد چوالیس ملین ہوگئی۔ تعداد کے ساتھ حسب توقع جرائم میں اضافہ ہو گیا۔ اس سال تقریباً سات ہزار کیس ہمارے سیل کو حل کرنا پڑے۔ میرا کام بلیک میلنگ کا نشانہ بننے والی لڑکیاں اور ہیکرز کا سراغ لگانا تھا۔شروع میں مجھے کامیابی ملی مگر مسئلہ تب بنا جب مجھے اپنی نیچر کے خلاف کام کرنا پڑا۔یہ کام لڑکیوں سے مل کر ان کے بلیک میلنگ کے قصے سننا تھا۔یہاں ہر روز ایک نئی کہانی میری منتظر ہوتی۔ پتا نہیں ہمارے ملک میں کیا مسئلہ ہے کہ نوجوان نسل عجیب راستے پر چل پڑی ہے۔ تسکین اور لذت کے حصول کے لیے، گھر سے آزاد یہ لوگ سارا دن فیس بک اور ٹوئٹر پر مخالف جنس کے پیچھے ہوتے ہیں۔ اخلاق سے گری ہوئی ویڈیو کالز، پکس اور وڈیوز… اور بریک اپ ہونے کے بعد یہ چیزیں مختلف ویب سائٹس کو بیچ دی جاتیں جس سے لڑکی کی بدنامی ہوتی۔ مجھے غصہ تب چڑھتا جب کوئی ایسی لڑکی جو پہلے ایسے الٹے سیدھے کام کر چکی ہو ،میرے پاس آکرروتی کہ:
”ہائے جی میں تو ‘مشوم’تھی اس شکاری نے مجھے جال میں پھنسا لیا۔” ایسی ‘مشوم’کو شرم دلانے کیلئے بار بار کہتا۔
”تمہیں شرم نہیں آئی؟ تمہارے ساتھ تمہارے ماں باپ، تمہارے بھائیوں کی عزت ہے اور تم ایسے کام کرتی ہو۔” اسی وجہ سے میں ناکام ہو گیا۔ لڑکیاں میرے غصے کی وجہ سے اعتبار کم کرتیں اور پوری تفصیل نہ بتاتیں جس کی وجہ سے کیس حل نہ ہو پاتا۔میں مجبور تھا مجھے لڑکا لڑکی برابرکے قصوروار لگتے تھے مگر لڑکے کو سزادی جاتی اور لڑکی کو میڈیا والے سر پر بٹھا لیتے اور ساتھ میں یہ ہیڈ لائنز ہوتیں۔
”بہادر لڑکی کا کارنامہ،فیس بک پرلڑکیوں کو بلیک میل کرنے والا پکڑا گیا۔”اور ہر طرف اس بہادر کی ”واہ واہ” ہو جاتی۔ شاید میں جلد سائبر کرائم سے نکالا جاتا اگروہ کیس نہ آتا تو۔
٭…٭…٭
چچا اور چچی کی وفات کے بعد میں نے وہ گھر چھوڑ دیا تھا اور ایف آئی اے کے دفتر کے قریب ہی ایک نئی تعمیر شدہ بلڈنگ میں فلیٹ خرید کر اُس میں رہنے لگا۔ شہریار سے میرا رابطہ نہیں تھا، مگر گھر چھوڑتے وقت میں نے اسے کال کی کہ یہ گھربیچ کر رقم اسے بھیج دیتا ہوں مگر اس نے انکار کردیا اور کہا۔
”گھر امی ابو کی نشانی ہے مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں۔ رہنے دو۔ ”میرا شادی کا کوئی پروگرام نہیں تھا بلکہ میں خود کو ذمہ داری سے دور ایک آزاد شخص سمجھتا تھا۔ عمر کی دوڑ اٹھائیس کے ہندسہ عبور کرکے انتیس کے قریب تھی۔ اس دن میں شام کے وقت آفس سے واپس آیا اور کپڑے بدل کر اپنے لیے چائے بنا رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے نقاب پوش ایک لڑکی کھڑی تھی۔ تھوڑی سی حیرت ہوئی کیوں کہ یہ شہر کا پوش ایریا تھا یہاں نقاب جیسی چیزیں کم ہی نظر آتی تھیں۔
”جی فرمائیں؟”چہرہ تو میں دیکھ نہیں سکتا تھا البتہ آنکھیں میرے لیے اجنبی تھیں۔
”شاہ زیب صاحب آپ ہیں؟سائبر کرائم سیل والے؟”اس نے پوچھا۔
”بدقسمتی سے۔”میری آہ نکلی۔
”سر مجھے آپ سے کام ہے بہت ضروری۔”
”جی اندر آجائیں۔” میں نے اسے راستہ دیا۔وہ اندر آگئی۔ چال ڈھال سے وہ کسی مڈل کلاس کی لگتی تھی۔ وہ بیٹھی تو میں نے اس سے چائے پوچھی مگر اس نے انکار کردیا۔میں نے کچن میں جاکر اپنا کپ اٹھایا اورواپس آکر اسے بولنے کا اشارہ کیا۔
”میرا نام صائمہ ہے اور میں یہاں سے اٹھارہ کلومیٹر دور ایک محلے میں رہتی ہوں۔میں تین دن سے ایک ایسے شخص کو ڈھونڈ رہی تھی جو میرا مسئلہ سمجھے اور اسے حل کرے۔”
”تو آپ کی یہ نظرِکرم مجھ پر کیوں پڑی؟”میں نے اس کی بات کاٹی۔ اس نے گھورتی نظروں سے مجھے دیکھا۔
”میں سائبر کرائم سیل میں شکایت درج کروا کر اپنا تماشا نہیں بنوانا چاہتی۔ وہاں میڈیا والے میرے جیسے کیس ڈھونڈ تے پھر رہے ہیں۔” اس کی بات تقریباًسچ تھی۔
”لیکن میں کوئی پرائیویٹ جاسوس نہیں ،اسی سیل کا ملازم ہوں۔ اگر آپ وہاں رپورٹ نہیں کریں گی تو میں کیس کیسے حل کر پاؤں گا؟”
”پلیز آپ میری پوری بات سن لیں۔” اس نے منت آمیز لہجے میں مجھے کہا اور میرے چپ ہونے پر دوبارہ شروع ہوں گئی۔
”میرا نکاح میرے کزن اسد سے ہو چکا ہے۔ ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی ۔میرے ابو امام مسجد ہیں اور بہت سخت ہیں۔ یہ سیل فون مجھے میرے اسی کزن اسد نے لے دیا تھا ورنہ ابو ایسی چیزیں استعمال نہیں کر نے دیتے۔ اسی نے میرا فیس بک اکاؤنٹ بنایا۔ تقریباًایک ماہ پہلے ایک لڑکی کی فرینڈ ریکویسٹ آئی۔ میں نے قبول کی تواس کے میسج شروع ہو گئے۔مجھے شک ہوا کہ وہ لڑکا ہے مگر اس نے ایک دو وائس کلپ بھیج کر میرا شک دور کردیا۔ اس دوران اس نے مجھے اپنی تصویریں بھیجیں اور مجھے بھی کہا کہ میں بھی بھیجوں۔میں اس پر اعتبار کرتی تھی اور ویسے بھی میری حقیقی زندگی کچھ بورنگ تھی۔ جب سے بی اے کیا ہے میرا گھر سے نکلنا بند ہو چکا ہے۔ ایسے میں فیس بک ہی میرے لیے تفریح کا ذریعہ ہے جہاں طرح طرح کے لوگ اور طرح طرح کی باتیں۔ میں اسے دوست سمجھتی تھی اور میں نے اپنی تصویریں بھیج دیں۔ دو ہفتے پہلے اس نے وہی تصویریں مجھے دکھائیں تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پھر اُس نے مجھ سے پیسے مانگے۔ ساتھ میں دھمکی دی کہ اگر میں نے کسی کو بتایا یا پیسے نہ دیے تو وہ میری تصویریں سب کو دکھا دے گی۔”بات کرتے کرتے اس کی آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں نمی آگئی۔اس نے نقاب اتار دیا۔وہ صاف رنگت کی مالک ایک قبول صورت لڑکی تھی۔
”اب تک وہ مجھ سے دس ہزار روپے لے چکی ہے۔ یہ وہ پیسے تھے جو میں کئی سال سے اکٹھے کررہی ہوں۔ میں فضول خرچ نہیں اس لیے جو پیسے بھی جیب خرچ ملیں، سنبھال کر رکھ لیتی ہوں۔ میں اپنے خاندان میں کسی کو نہیں بتا سکتی۔ اگر اس نے تصویریں ابو یا اسد کو دکھا دیں تو مجھے جان سے مار ڈالیں گے ۔وہ سب کچھ جانتی ہے میرے بارے میں۔ میں آپ کے پاس چھپ کر یہاں آئی ہوں۔”اس کی بات ختم ہوئی۔
”آپ کو میرا پتا کیسے چلا؟”
”میں سیل میں شکایت درج کروانا چاہتی تھی مگر میڈیا کے ڈر سے خاموش رہی۔دو دن پہلے میں پکاارادہ کرکے وہاں آئی توآپ کو باہر نکلتے دیکھا۔ میں نے چوکیدار سے آپ کے بارے میں پوچھا، تو اس نے بتایا کہ آپ سیل میں ہیں۔ نہ جانے کیوں آپ پر اعتبار کرنے کا دل کیا اس لیے یہاں چلی آئی۔”اس کی بات سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔میں سیل کا ناکام ترین انویسٹی گیٹر تھا اور وہ مجھ پر اعتبار کرکے چلی آئی۔مجھے ہنستے دیکھ کر وہ سٹپٹا گئی۔
”چلیں مجھے اپنی وہ تصویریں دکھائیں اور ساری چیٹ جو اس کے ساتھ کی ہے وہ بھی۔”
”تصویریں میں نہیں دکھا سکتی۔ چیٹ آپ پڑھ لیں۔”اس نے نظریں جھکا لیں۔
”دیکھیں مس اگر آپ پوری بات نہیں بتائیں گی، تو میں کیس حل نہیں کر سکوں گا۔ ویسے بھی مجھے اس کام کو خفیہ رکھنا ہے، تو آئی ٹی والوں کو ملوث نہیں کر سکوں گا۔”
”میں نے تو تصویریں سادہ سی دی تھیں اس نے پتا نہیں انہیں کیسے برہنہ کردیا۔” وہ شرمندہ لہجے میں بولی اور اپنے سیل فون نکال کرمجھے دیا۔ سب سے پہلے میں نے وہ تصویریں دیکھیں جو اس نے دی تھیں۔ یہ واقعی عام سی تصویریں تھیں مگر جب اس نے وہ تصویریں دکھائیں جس سے بلیک میلر اسے بلیک میل کررہی تھی تو میں حیران رہ گیا۔ یہ کسی ماہر کاکام تھا اور تصویریں اس طرح کامیاب ایڈٹ کی جاچکی تھیں کہ چند لمحوں کے لیے مجھے بھی شک پڑ گیا۔ یہاں یہ تصویریں فحش تھیں۔لڑکی واقعی مشکل میں تھی۔میں نے ایڈٹ کی ہوئی تصویریں اپنے موبائل میں بھیج کر کچھ ویب سائٹس سے انہیں چیک کیا تو فوٹو ایڈیٹر کے کمال کھل کر سامنے آگئے۔میں یہ کر سکتا تھا کیوں کہ میں نے کمپیوٹر میں ماسٹرز کیا تھا، لیکن لڑکی کا خاندان کبھی یقین نہ کرتا۔اس کے بعد میں نے ساری چیٹ پڑھی۔دوسری لڑکی کی تصویریں جعلی اور گوگل سے حاصل کی گئی تھیں جب کہ وائس کلپ بھی وائس چینجر کا کمال تھا۔چند منٹ میں ہی مجھے پتا چل گیا کہ سامنے والی بلیک میلر لڑکی نہیں بلکہ لڑکا ہے۔یہی بات جب میں نے اس لڑکی کو بتائی تو اس کا رنگ زردپڑ گیا۔اس نے لبوں پر زبان پھیری اور ہکلائی۔
”وہ…کک کچھ کرے گا تو نہیں؟”
”جو کچھ کرنا تھا وہ تو کر لیا اب کیا کہتا ہے؟”
”بیس ہزار اور مانگ رہا ہے اور میرے پاس نہیں ہیں اب۔” اس کی آواز میں لرزش تھی۔
”میں اسے ٹریس کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔تمہارے پاس کتنا وقت ہے ؟کب تک گھر سے باہر رہ سکتی ہو؟”
”میں خالہ کے گھر آئی ہوں یہاں پاس ہی۔ دو تین گھنٹے مزید رک سکتی ہوں۔” اس نے جواب دیا۔میں نے”اوکے”کہہ کر اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور اس اکاؤنٹ کو ٹریس کرنے کی کوشش کرنے لگا۔”سدرہ خان”کے نام سے بنا یہ اکاؤنٹ صاف جعلی معلوم ہوتا تھا۔ یہ صائمہ کی معصومیت تھی جو دھوکا کھا گئی۔ اس اکاؤنٹ پر مکمل پرائیویسی لگی تھی مگر یہ پرائیویسی توڑنا میرے لیے مشکل نہ تھا۔ میں نے چند سیکنڈ میں ہی اس کا ای میل نکال لیا مگر ای میل ایڈریس دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی۔ یہ بھی ایک عارضی ای میل تھا جو پندرہ منٹ بعد ہی ختم ہو جاتا ہے۔یعنی پندرہ منٹ کے لیے اسے آن لائن استعمال کیا جاسکتا ہے مگر جیسے ہی لاگ آؤٹ کریں یہ خودبہ خود ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے کسی قسم کے نمبر یا ای میل کی رجسٹریشن ضروری نہیں ہوتی۔ محفوظ فیک آئی ڈی بنانے کے لیے یہ آسان راستہ تھا جس میں فیس بک سے اکاؤنٹ بناتے وقت ویری فائی کے لیے استعمال کرکے ختم کیا جا سکتا تھا۔اس کی لوکیشن نکالنا ناممکن کام تھا۔ اس کے بعد میں موبائل کی آئی پی ایڈریس کی کوشش میں لگ گیا، مگر یہاں بھی ناکامی ہوئی۔ بلیک میلر میری توقع سے زیادہ چالاک تھا۔ صائمہ میرے چہرے پر مایوسی دیکھ رہی تھی۔
”اس نے پیسے کس طریقے سے حاصل کیے ہیں؟”
”دو موبائل نمبر دیے ہیں۔ان کے اکاؤنٹ میں بھیج دیے میں نے۔”اس نے دونوں موبائل نمبر مجھے لکھوائے۔میں نے سائبر کرائم برانچ کے ایک دوست کو کال کی اور اسے دونوں نمبر لکھوا کر ان کی لوکیشن ٹریس کروانے کا کہا۔اس دوران صائمہ اجازت لے کر گھر چلی گئی۔اس کا نمبر اورایڈریس میں نے لے لیا تھا۔اس رات میں بارہ بجے تک اس بلیک میلر کو ٹریس کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر ناکامی ہوئی۔ نہ جانے کیوں میرا دل کررہا تھا اس لڑکی کو اکیلا نہ چھوڑوں اس کے لیے کچھ کروں کیوں کہ وہ گناہ گار نہیں تھی بلکہ بے وقوف بنی تھی۔ انسان تنہائی سے گھبرا کر جو راہ فرار اختیار کرتا ہے اگر وہاں بھی پناہ نہ ملے تو جینا یقینامشکل ہو جاتا ہے۔ایسا ہی کچھ صائمہ کے ساتھ ہوا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

اسرار — عمارہ جہاں

Read Next

دیوانی — عطیہ خالد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!