آخری شام — سدرۃ المنتہیٰٖ جیلانی

”محبت کی کہانی دنیا میں سب جگہ ایک جیسی ہوتی ہے۔”
یہ پہلا جملہ جو میں نے اُس سے سُن کر اپنے آپ کو دنیا کی خوش قسمت ترین مخلوق سمجھا تھا۔
کچی بستی کے باسی کو کلاس میں یوں لمبی لمبی تقریریں کرتے ہوئے کئی مرتبہ سنا تھا۔ ہر بار وہ ایک لمبی تقریر کے بعد جب سیٹ پر آکر بیٹھتا تھا تو یہی کہتا کہ تاریخ ہمیشہ ایک جیسی ہے اور یہ لوگ سمجھنے کو تیار نہیں ہوتے۔
”دیکھو زمانہ حال، مستقبل اور ماضی کچھ نہیں ہے۔”
”سب کچھ وقت ہوتا ہے۔”
”جو ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے۔”
اس نے اپنے گروپ کے چند لڑکے لڑکیوں کو قائل کرنا چاہا تھا۔
”دنیا کے سارے مسائل ایک جیسے ہوتے ہیں۔تم تاریخ کی کتاب کھول کر دیکھ لو۔حالات، مزاج اور مسائل سب اپنے آپ کو دُہراتے ہیں..یہاں تک کہ انسان بھی…”
وہ آرٹ کا شاگرد تھا مگر تاریخ، فلسفہ اور سائنس سب میں برابر دلچسپی رکھتا تھا۔
میری دلچسپی اس میں بڑھتی جارہی تھی ۔
وہ ہر مرتبہ کوئی گھمبیرسا موضوع اُٹھالیتا تھا۔
”ایک بے چارہ انسان دنیا کے سارے مسائل کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر نہیں اٹھاسکتا۔”
میرا اس سے ملاقات کے بعد یہ پہلا جملہ تھا جو میں نے ہمدردی میں آکر بولا تھا۔
وہ مسکرایا۔مجھے پتا تھا وہ چپ نہیں رہے گا۔ ایک لمبی تقریر مجھے سمجھانے کے لیے شروع کردے گا اور پھر ناختم ہونے والا سلسلہ۔ مگر ہوا یوں کہ وہ چپ رہا اور مسکراکر گزرگیا۔
مجھے اندازہ تھا وہ کسی اچھے علمی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوگا۔مگر اگلے ہفتے اپنے گروپ کے ساتھ دریائے سندھ کی سیر کو نکلے تو وہ ہمیں ایک قریبی کچی آبادی میں لے گیا جہاں مین روڈ کے نزدیک جھگیوں کا ایک لمبا اور بے ترتیب سلسلہ تھا۔
معلوم ہوا کہ یہ اس کا گاؤں ہے۔
ایک آدمی جھگیوں کے پیچھے کچے مکان کے صحن میں کھٹارا سا ریڈیو سن رہا تھا۔
ہمیں آتا دیکھ کر وہ چارپائی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ فریاد حسین کا باپ میرل تھا۔
اس کی ماں میلے ڈوپٹے سے ہاتھ پونچھتی ہوئی آگے بڑھی پھر ہمیں خوش آمدید کہنے لگی۔
تازہ روٹی اور مکھن اور دریا کی مچھلی سے ظہرانہ خاص ہوگیا۔
مجھے اس کچی بستی میں رہنے والے غریب لوگوں کے اخلاق، میزبانی اور محبت نے بہت زیادہ متاثر کیا تھا۔
اس کا وہی ایک جملہ یاد آگیاکہ دنیا میں سب جگہ محبت کی کہانی ایک جیسی ہوتی ہے۔
دو لوگ آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے احساس کی کمزوریاں دے بیٹھتے ہیں۔
اور پھر ایک ساتھ چلنے کے کئی خواب ایک ساتھ دیکھتے آگے بڑھتے رہتے ہیں۔
اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب فیصلہ بدلنا ہوتا ہے۔ جب سمت متعین ہوتی ہے،تب ایک جگہ سماج اپنی آہنی دیوار بنائے کھڑا ہوجاتا ہے اور دوسری سمت سے بس دھواں نکلتا ہے۔





”میں نے تو ہمیشہ تمہاری محبت میں جلنا چاہا ہے فریاد…سماج کی بندشیں میرے ارادے کی سمت کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔”
”میں تمہاری محبت میں سب کرگزرنے کو تیار ہوں۔” پہلی بار دریا کے کنارے میں نے اس سے وعدہ کیا تھا۔
پھر بیاہ سے لے کر وفا تک نبھایا۔ زندگی بہت حسین تھی۔ سارے دکھ اور مسائل ایک طرف رکھ کر جب ہم دریا کے کنارے آ بیٹھتے تو لگتا کہ پانی سارے دُکھ پی گیا ہے۔ سب کچھ صاف اُجلا ،دو انسانوں کی محبت کی طرح…!!
وقت دھیمی رفتار سے گزرا جارہا تھا۔ حالات پھر سے اپنا چلن چلنے کو تیار کھڑے تھے، جب ایک دن دریا کنارے وہی شام تھی وہی پانی جو سوکھتا جارہا تھا۔ اس کے مزاج کی طرح دور دور رہنے لگا تھا۔
جیسے وہ کسی سوچ میں کھو جاتا تو گھنٹوں اس کی دریافت کی کوشش میں ہارنے لگتی تو پوچھ بیٹھتی کہ ”آخر تم کیا چاہتے ہو؟”
اسے بات شروع کرنے کا موقع مل گیا تھا۔
”سپی۔”وہ نام ایسے لیتا جیسے اس نام کے احساس کا پورا ذائقہ اس نے چکھ رکھا ہو۔
”میں تم سے دور رہوں گا مگر تم سے محبت برقرار رہے گی۔ یہ احساس مجھے اندر تک زندہ رکھے گا۔”
”تم ہمیشہ بات کو تگنی کا ناچ نچاتے ہو۔ تمہیں یہ نہیں احساس کہ ایک عورت کو گھر چاہیے، اسے آسرا چاہیے، خالی باتوں اور لفظی محبت سے وہ اپنا دل تو بھرسکتی ہے مگر پیٹ تو خوراک سے ہی بھراجاتا ہے۔
”پگلی! یہاں بیٹھ کر میں تمہیں کیا دے سکوں گا…؟ دو وقت کی روٹی..گھر کا کرایہ..بجلی کا بل اور صاف پانی۔”
اس کی سوئی پھر پانی پر آکر اٹک گئی تھی۔
”پانی…ہاں پانی…تمہیں پتا ہے نا سپی! پانی انسانی زندگی کے لیے کتنا ضروری ہوتا ہے
وہ بھی صاف نکھرا اُجلا، صاف ستھرا زندگی سے بھرپور…
”تمہیں کیا پتا کہ پانی کیا ہوتا ہے، پانی نہ ہوتو انسان کہیں کا نہیں رہتا۔”
”اور اگر پانی زیادہ ہو تو؟” میں نے تیکھے لہجے میں اس سے پوچھا۔
”زیادہ ہو تو ڈبودیتا ہے۔”
”دیکھو! محبت بھی پانی کی طرح ہوتی ہے۔ جب ہوتی ہے تو سیراب رکھتی ہے نہیں ہوتی تو دل کی دھرتی سوکھ کر بنجر ہوجاتی ہے۔”
محبت پانی ہے…ہاں…پانی…اب محبت کو پانی سے تشبیہہ دی جائے گی۔
مجھے یاد تھا شادی سے پہلے جب ہم فیصلہ لینے کے لیے ملے تھے تب بھی وہ محبت سے آگے بڑھ کر پانی میں کھوگیا تھا۔
غلطی میری ہی تھی کہ میں نے ہمیشہ اسے دریا کے کنارے ملنے کی فرمائش کی تھی۔
مگر ہوا یوں کہ محبت کو اب پانی نگلتا جارہا تھا۔
محبت اس کے سامنے تھی مگر وہ پانی کی گہرائیوں کو کھوجتے ہوئے سوچتا ہی رہا۔
وہ ایک لمحے سوچتا اور دوسرے لمحے بول اٹھتا تھا۔
میں نے سمجھا تھا آج وہ مجھے دیکھ کر میری تعریف کرے گا، کہے گا کہ بہت اچھی لگ رہی ہو۔ شادی کے بعد پانی کے پاس ہماری یہ پہلی ملاقات نہ تھی، کسی قسم کا کوئی خوف نہ تھا۔
خوشیاں ہمارا مقدر بننے لگتیں تو وہ منہ میں بڑبڑانے لگتا تھا۔
”تمہیں پتا ہے نا، سندھ کو ہمیشہ پانی کا مسئلہ رہا ہے۔”
”پانی نہ ملنے کی وجہ سے لوگ مرجاتے ہیں۔”
”تمہیں معلوم ہے نا کہ پھر سے ہمارا پانی بند کیا جارہا ہے۔”
اس کا اشارہ دریائے سندھ کی آدھی سوکھی ریت اڑاتی ہوئی زمین کی طرف تھا۔
”تمہیں کیسا لگے گا فریاد! اگر میں اس بہتے پانی میں چھلانگ لگادوں ؟”
وہ مجھے ایک لمحے کے لیے ایسے دیکھنے لگا جیسے میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔
پھرکہنے لگا:” وہ پانی جو لوگوں کے پیٹ کی پیاس بجھاتا ہے تم موت کی گھاٹ اتر کر اس کا ذائقہ کیوں بدلنا چاہتی ہو؟”
”تمہیں پتا بھی ہے موت کڑوی ہوتی ہے۔ سمندروں کا پانی جیسے کھارا ہوتا ہے۔ اب دریاؤں کے اندر موت کا ذائقہ آگیا تو کڑوا نہ ہونے لگ جائے۔” وہ کہے جارہا تھا۔
”تمہیں میرے مرنے کا دکھ نہیں ہوگا کیا؟”
مجھے اس کی بات سن کر صدمہ ہوا تھا۔
”میں نے یہ کب کہا…؟” وہ حیران ہوا۔
”چلو چلتے ہیں۔”
میں یادوں کے بھنور میں الجھی ہوئی تھی پھر سر جھٹک کر خیالات کو چلتا کیا اور اسے خط لکھنے بیٹھ گئی۔
”فریاد!میں تمہیں بتاؤں دریا پورا بھرگیا ہے۔پانی تر آیا ہے۔سیلاب کے خوف نے لوگوں کی نیندیں اُڑادی ہیں۔لوگ جو کچے میں بیٹھے تھے ان کی جُھگیاں ڈوب گئی ہیں۔ بانس کے لکڑ اور کانے تیررہے ہیں دریا کی سطح پر میل ہی میل ہے۔یہاں کے سارے چھوٹے موٹے سکھ تمہارا دریا بہاکر لے جارہا ہے۔” میں لکھتی رہی۔
”کل میں نے مہرو کی پازیب بھی کنارے سے اندر لڑھکتے دیکھی تھی۔
تمہیں یاد ہے ایک دن تم نے میری پاؤں کی پازیب اتار کر دریا میں پھینک دی تھی۔
اور پھر میں ہنسی تھی۔





تب مجھے تمہاری یہ حرکتیں بے ضرر سی لگتی تھیں۔ اب تم باہر ہو … گھر سے دور ہو… نہ جانے کب لوٹو گے۔ میرے دن لمبے ہوگئے تھے جس دن سے تم یہاں سے گئے تھے فریاد سب کچھ ویسا ہے۔ جھگیوں میں رہنے والوں کی حسرتیں…کچے مکان کی چھت بہ جانے کا ڈر…صندوق میں سینت سینت کر بنائے گئے بیٹیوں کے جہیز کے چار جوڑوں کو ماؤں نے دھوپ سنکوانے کے لیے نکالا ہے۔
لڑکیوں کے چہروں پر وہی حسرت ہے جو کبھی میرے چہرے پر آجاتی تھی۔
وہ ان جوڑوں کو اسی انتظار کی نظر سے دیکھتے ہوئے انتظار کرتی ہیں اور اب اس انتظار کے ساتھ جوڑے خراب ہوجانے کا ڈر بھی ان کے ساتھ چپکے سے بیٹھ گیا ہے۔ میرا قلم چل رہا تھا۔
”فریاد!سب ویسا ہے…گلی میں کھیلتے ہوئے بچے اور ان کی شرارتیں۔
کل بھی میں نے دیکھا سکینہ کے چار سالہ بیٹے نے گھٹنوں تک آتی قمیص کا دامن اٹھاکر ناک پوچھنا چاہی تو اس کی نیکر پھٹی ہوئی تھی۔ میں نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔
بچیوں کی اوڑھنیاں اور لڑکوں کی دھوتیاں کم پڑنے لگی ہیں۔
سندھ میں غربت کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔
غربت کبھی کسی عزت دار کو بھی عزت والا رہنے نہیں دیتی۔ مگر تمہارا پانی…؟
بس اسی کا مسئلہ سر فہرست ہے جس کے خوف نے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لوگ بستی میں مرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ گھر بدری کا ساز و سامان کہاں سے لائیں گے جن کو نکلنا تھا نکل لیے۔ اب گوٹھ کے وڈیرے نے اپنے بچے شہر بھیج دیئے۔ خود بیٹھا ہے آج نہیں تو کل نکلا۔ دن دیکھ رہا ہے اس کے پاس نکلنے کے لیے بڑی سی موٹرکار ہے۔
مگر فریاد تمہاری تو دریا کے ساتھ بہت بنتی تھی تم اسے ایک خط لکھو!
ایک خط لکھو کہ انسانوں کو اپنے اندر مار کر تمہارے اندر جو موت کا زہر بھرجائے گا وہ صدیوں تک رہے گا۔لوگ تم سے خوف کھایا کریں گے۔
کوئی تمہارے لیے قوت سے بہنے کی دعا نہیں کرے گا تم سوکہوگے تو پھر سے تمہارے پیٹ میں ونجاروں کی جھگیاں آباد ہوں گی۔
مچھروں کی جالیاں تمہارے چھوٹے سے پیٹ کو چیرتے ہوئے مچھلی کا شکار کریں گی۔
تم درد سے کرلاؤگے…تو بھی کچھ نہ ہوگا…
جیسے جیسے انسانیت جھگیوں کچے مکانوں اور بہتی ٹین کی چھتوں تلے تڑپ رہی ہے۔
اس لیے تم ان پہ رحم کرو اور لپٹنے کا ارادہ چھوڑکر پلٹ جاؤ۔ موج مارکہ ڈراؤ نا۔
تمہیں تمہارے جیالوں کی قسم جنہوں نے تمہاری خاطر قسمیں کھائیں۔ تم.پر بھروسے کیے۔ تمہاری گہرائی کو چاہا۔اور محبت کو تیرے نام سے تشبیہہ دی ان کی خاطر…بس ایک خط دریا کو لکھو…تم فریاد بس ایک خط…
٭…٭…٭
تمہارا خط ملا جس میں فقط اتنا لکھا ہوا ہے کہ ”پڑوسی ملک اپنا پانی ہم پر چھوڑ رہا ہے۔ یہ سب اسی کا قصور ہے سپی وہ جب چاہیں پانی بند کردیں اور جب چاہیں چڑھادیں یہ کاہے کا انصاف ہوا فریاد…یہ کس قسم کی آزادی ہوئی کہ وہ جب چاہیں ہمیں پانی کی ماردیں۔”
”کبھی پانی کبھی جنگ… کبھی ہتھیاروں کی جنگ میں وہ ہم سے نہیں جیت سکتے پانی کی جنگ میں تو جیت جاتے…”
”خیر میں دریا میں ایک خط تمہارے نام کا ڈال آئی ہوں اور اسے کہہ آئی ہوں تمہیں فریاد کی محبت کا واسطہ یہیں سے مڑجاؤ۔”
”میں نے تمہارے لیے بہت کیا گھروالوں سے لڑی جھگڑی ابا کی نظر سے گری… ماں کی نظر میں بری بنی۔
بیاہ کرآئی تو مشکل وقت میں دو وقت کو ایک روٹی میں بانٹا…نوالوں کی تعداد گھٹادی…کچی بستی میں رہنے کی عادی بنی..سب پڑوسیوں سے ہنس ہنس کر باتیں کیں..بنائے رکھی۔
تمہاری چاکری کی۔تم نے کہا باہر جاؤں گا اپنی جان انتظار کی سولی پہ چڑھاکر تمہیں بھیج دیا۔
”اب کیا…اب دیکھتی ہوں تمہارا دریا تمہارے لیے کیا کرتا ہے۔”
پگلی دریا سے امید لگاکر بیٹھی سوچتی رہی، انتظار کرتی رہی۔
ادھر فریاد کسی اور سے پیار اور محبت کے پیچ لڑاتے ہوئے سرحد پار کرگیا۔
جہاں لوگوں کی باتوں کا خوف تھا نہ ہی پانی کا۔
بس تنہائی کو سجانے کی چاہ تھی۔
سپی کا خط مہرو کی پازیب کی طرح لڑھکتا ہوا کنارے پر تیرتا ہوا کسی لہر میں گھل گیا۔
کسی نے کھولا، نہ پڑھا۔
پھر وہ پانی میں ڈوبنے لگا گویا وفا ڈوب رہی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

جھمکے —- ماریہ یاسر

Read Next

چاہت — ثناء ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!