ارمان رہ گئے — حمیرا نوشین
”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا
”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا
اس کچے سے صحن میں شام اُتر رہی تھی۔ ہوا نے چلنے سے انکار کر دیا اور بڑھتی حبس نے سینوں کے اندر دھڑکتے دل
داستان محبت مقابلے میں شامل ”سوزِ دروں” ایک ایسی کہانی ہے جس کو لکھنے سے پہلے کئی بار میرا قلم دماغی اور ارادی طور پر
”مجھ سے تو نہیں بولی جاتی اتنی اُردو۔ اُف! عجیب سی ہے یہ زبان۔ اردو لکھنا اور پڑھنا تو عذاب ہے۔” وہ روانی سے انگریزی
میں نے جیب سے اپنا نیا آئی فون نکالا، ملیحہ کا میسج تھا "Very cute look… Jan!!!” اوپر دیکھا تو دوسری منزل پر کھڑی وہ
”آپ ایسے کیوں بیٹھے ہیں؟” اسد صاحب نڈھال بیڈ سے کمر ٹکائے زمین پر بیٹھے تھے کہ حنا نے آکر ان کے کندھے پر ہاتھ
بہت پرانی بات ہے ایک دیو کا ایک بستی پر سے گزر ہوا۔ اس کی نظر اک گھر کے باغ میں کھڑی خوب صورت لڑکی
شرف النسا بیگم ناظم لاہور خواب عبدالصمد خاں کی دوسری بیوی اور اِس کے دوسرے فرزند نواب عبداللہ خاں کی والدہ تھی۔ نواب صاحب کی
اسائنمنٹ مکمل کرتے ہوئے اس نے پانچویں، چھٹی بار اضطراب میں سر اٹھا کر سامنے دیکھا، کھڑکی کے شیشے پر رنگ برنگی جلتی بجھتی روشنیوں
برتنوں کا ڈھیر دھو کر فارغ ہونے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ کمرے اور کچن کے بیچ اتنا فاصلہ تو نہ تھا